صفحات

ہفتہ, دسمبر 26, 2009

محرم

حسین پہ داڑا پریت دا
سار یے سیرلا دا
خوایندے بالہ لہ دا
ترجمہ:۔ حسین تختہ دار پر لیٹا ہوا ہے اس کا سر کٹا ہوا ہے اور اس کی بہنیں اس کو پکاررہی ہیں

پشتو کا یہ مرثیہ آج بھی لاشعور کے کسی کونے میں بچپن کی یاد کی صورت میں موجود ہے۔ جب محرم کا مہینہ آتا ہے یہ مرثیہ پھر سے ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میری عمر پانچ سال تھی اس وقت محرم کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی گاؤں کے بچے مٹی کے زیور بنانا شروع کر دیتے تھے۔ یوں یہ سلسلہ دسویں تک جاری رہتا۔ دسویں محرم کو صبح سویرے سب بچے اٹھ جاتے اور قبرستان کا رخ کرتے وہاں سب یہ مرثیہ پڑھتے جاتے اور وہ مٹی کے زیورات قبرستان میں موجود بیری کے درختوں میں پھینکے جاتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس پورے عمل کا مقصد کیا تھا۔ مگر ہم چھوٹے بچوں کے لیے یہ ایک ایسا مشغلہ تھا جس کی ادائیگی میں سب پیش پیش رہتے تھے۔ اس کے بعد میرے دادا قبرستان جاتے ہر قبر پر پانی ڈالتے اور کجھور کی ایک شاخ وہاں چھوڑ آتے ۔ اسی محرم کی بدولت مجھے اپنے پردادا ، اور ان کے دادا کی قبروں کے متعلق معلوم ہوا۔ اس مہینے کا احترام اس قدر تھا کہ کسی بھی قسم کی موسیقی سننا گناہ کبیرہ تصور کی جاتی ۔
پھر ہم شہر آگئے ۔ بچپن میں جب بھی تعزیے کا جلوس میں ٹی وی پر دیکھتا تھا تو ڈر کے مارے اپنا منہ چادر میں چھپا لیتا تھا۔ مجھے اس وقت جلوس سے بہت خوف آتا تھا ۔ مگر یہاں شہر میں آمد کے بعد میں خود اپنے دوستوں کے ساتھ جلوس میں جاتا ۔ ہم سبیل کا شربت پیتے نیاز کے چاول اور زردہ بڑے شوق سے تناول کرتے۔ بھنگی بستی سے نکلنے والا یہ جلوس شہر کے تمام مرکزی راستوں سے ہوتا ہوا ریلوے روڈ پر ختم ہو جاتا ۔ بنوں شہر میں شعیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اس لیے ماتم کرنے والے لوگ بہت کم ہوا کرتے تھے ۔ ہاں یہاں کی مقامی سنی آبادی بڑے جوش و خروش سے اس جلوس میں شریک ہوتی ۔ جگہ جگہ سبیلیں لگائی جاتیں۔ روضے پر خواتین منتیں مانگے آتیں اور یہ جلوس ایک جم غفیر کی صورت میں آگے بڑھتاا۔ یوں محرم کا مہینہ کسی خاص فرقے یا گروہ کے بجائے ایک اجتماعی تہذیبی رنگ لیے ہوئے تھا۔
مگر گذشتہ چند سالوں سے جیسے سب کچھ بدل گیا ہے۔ محرم کا مہینہ آتا ہے تو خوف کی ایک لہر پورے شہر میں پھیل جاتی ہے۔ شہر ویران ہوجاتا ہے مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد کم ہونے لگتی ہے۔ دس محرم کو پورا شہر سیل کر دیا جاتا ہے۔ یوں ایک مخصوص علاقے میں جلوس نکالا جاتا ہے جہاں عام شہریوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ دراصل فرقہ واریت کے زہر نے جس بے دردی سے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کیا ہے شاید ہی کسی دوسری برائی نے ہمیں اتنا نقصان پہنچایا ہو۔ آج بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے۔ شاید ہم تہذیبی ، معاشرتی ، مذہبی ہر سطح پر تنزل کا شکار ہیں اور حالات مزید خراب سے خراب تر ہو تے جارہے ہیں۔

ہفتہ, دسمبر 19, 2009

صلیب

شہر کے تقریبا وسط میں میرا گھر واقع ہے۔ روز شام کو چہل قدمی کے لیے گھر سے نکلتا ہوں تو گھر کی جنوبی سمت میں واقع گلیوں گلیاروں سے ہوتے ہوئے بالکل تار گھر کی عمارت کے سامنے کشادہ سڑک پر پہنچ جاتا ہوں۔ یہاں پر ایک بہت بڑی عمارت میرا استقبال کرتی ہے۔ مشن ہاسپٹل کی اس نئی عمارت کو بنے ہوئے کئی سال ہو گئے اس پہلے یہ قدوس ڈاکٹر کا بنگلہ ہوا کرتا تھا اور انگریز کے زمانے کا ہسپتال اس کے بالکل سامنے سڑک کے دوسرے کنارے پر واقع تھا۔ اس سڑک پر کچھ آگے چل کر ایک اور سڑک بائیں جانب مڑتی ہے جہاں پر تھوڑی دور جانے کے بعد پینل ہائی سکول کی عمارت ہے یہ علاقے کا سب سے بڑا مشنری سکول ہے جہاں پر ہزاروں بچے زیر تعلیم ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ یہاں پر مشنری کی جانب سے سرگرمیاں کب شروع ہوئیں مگر ایک شخصیت کا نام ضرور معلوم ہے جس کی بدولت اس پسماندہ علاقے میں مشن کی جانب سے بہت سا کام کیا گیا۔ یہ شخصیت تھے جناب ڈاکٹر پینل۔ جنہوں نے 1900 میں یہاں آکر نہ صرف یہاں کی زبان سیکھی بلکہ یہاں کے پشتون قبائل کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان کے رنگ میں ڈھل کر تبلیغ کا کام کیا۔ ان کی بدولت علاقے میں مشن ہسپتال کو بہتر بنایا گیا ۔ پہلا مشنری سکول کھولا گیا جو آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہے۔ ہسپتال سے افغانستان تک کے باشندے مستفید ہوتے تھے۔ لیکن جناب پینل کی ان تمام کوششوں کے باوجود وہ صرف ایک ہی پٹھان کو عیسائی بنا سکے جس کا نام جان خان کاکا تھا۔ پینل کی کوئی اولاد نہیں تھی بنوں میں ہی وفات پائی اور مشن ہسپتال کے ساتھ موجود عیسائیوں کے ایک بڑے قبرستان میں دفن ہوئے۔ جس کے بڑے آہنی گیٹ پر صلیب کا نشان بنا ہوا ہے اور جس کی دیواروں پر پتھروں کو تراش کر صلیب کے نشان بنائے گئے ہیں۔ پینل ہائی سکول اور مشن ہسپتال کی بھی خاص بات یہ ہے کہ سرخ اینٹوں سے بنائی گئی ان عمارتوں میں اینٹوں کو اس ترتیب سے رکھا گیا ہے کہ ہر بالکولی ہر کھڑکی کی محراب پر مجھے صلیب کا نشان دکھائی دیتا ہے۔ سکول کے ساتھ متصل گرجے کے اوپر ایک گنبد بنا دی گئی ہے جس کے اوپر ایک بہت بڑا صلیب کا نشان لگایا گیا ہے رات کے وقت یہ صلیب کا نشان روشن رہتا ہے۔ میں روز ان عمارتوں کو دیکھتا ہوں مگر آج نجانے کیوں ذہن میں کئی سوالات گردش کرنےلگے کہ اگر ہمارے علاقے میں اس حوالے سے ریفرنڈم کرایا جائے کہ یہ صلیب کا نشان دراصل کسی خاص مذہبی سوچ کی ترجمانی کرتا ہے اس لیے اس پر پابندی لگا دی جائے تو میری کیا حالت ہوگی ۔ کیا ایک باشعور اور تہذیب یافتہ شہری ہونے کے ناطے میں یہ برداشت کر سکوں گا کہ اس قسم کے بےوقوفانہ سوال پر ریفرنڈم کرایا جائے۔ ہرگز نہیں۔ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن پھر خیال آیا کہ دنیا کے ایک ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ملک کے باشندوں نے ایسا کیوں کیا اور وہاں میناروں کی تعمیر پر پابندی کیوں لگا دی گئی۔ اس سوال کا جواب شاید میرے پاس ہو مگر اس کے باوجود میرے اندر کا انسان خاموش ہو جاتا ہے میری نظریں گرجے کی صلیب سے وہاں سامنے بنے ہوئے پریڈی گیٹ کی مسجد کے بڑے مینار پر آکر رک جاتی ہیں اور اس کے بعد میں سر جھکا کر بازار میں داخل ہو جاتا ہوں۔

بدھ, دسمبر 09, 2009

ہار

کیا ہم ہار چکے ہیں۔ اس کا جواب دینا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ خود سوچیے دو سالوں میں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرنے کے باوجود ہم انتہا پسندی کے ٹھکانوں میں ختم کرنے مین ناکام رہے ہیں۔ سوات تباہ ہوا تو ہمیں بتایا گیا کہ دہشت گردی کے منضوبہ سازوں کے ٹھکانے تباہ ہو گئے ہیں اب ہر طرف امن اور سکون کے شادیانے بجیں گے۔ پھر وزیرستان کی باری آئی جہاں پر وزیر داخلہ کے بقول ہندوستانی جاسوسوں کا بڑا نیٹ ورک تھا تمام دہشت گردی منصوبےوہاں پرتیار کیے جاتے تھے۔ وہ بھی تباہ ہوا مگر دہشت گردی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسی دن جب دھماکہ نہ ہو تو وہ بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ اب میڈیا پر کچھ فوجی نغموں اور رحمان ملک کے بیانات سے کیا یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے یا جیتی جاچکی ہے۔ اور کیا واقعی انتہا پسند ہار چکے ہیں اور گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ مگر سچائی یہ ہے کہ یہ ہارے اور گھبرائے ہوئے لوگ آج حساس علاقوں میں ایسی کاروائیاں کر جاتے ہین کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ تو وہ سوال ذہن میں آتا جو بار بار سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم جنگ ہار چکے ہیں۔
اگر اس ملک کو بچانا ہے اس قوم کو متحدرکھنا ہے تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ موجودہ حکمران اور ان کی پالیسیاں ملکی حالات کو بہتر بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ ایسی حالت میں جب ہماری ہار یقینی نظر آرہی ہے ان پالیسیوں پر ازسرنو نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم امریکی جنگ سے الگ ہو جائیں۔ ورنہ حالات مزید بدتر ہونے کا خدشہ ہے۔