صفحات

ہفتہ, فروری 27, 2010

البم ۔ فارغ بخاری

خاکہ نگاری کسی انسان کے بارے ایک ایسی تحریر ہوتی ہے جس میں ایک شخصیت کے گفتار و کردار کا اس انداز سے مطالعہ کیا جاتا ہے کہ وہ شخص ایک زندہ آدمی کی طرح تخیل کے سہارے متحرک ہو کر چلتی پھرتی روتی ہنستی اور اچھے برے کام کرتا نظرآئے ۔جتنے جانداز اور بھر پور انداز سے شخصیت ابھر ے گی اتنا ہی خاکہ کامیاب نظرآئے گا۔خاکہ نگاری ایک بہت مشکل صنف ادب ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی خاکہ نگاری کو بال سے باریک ، تلوار سے تیز صراط مستقیم کا نام دیتے ہیں اور محمد طفیل اسے ایک ایسی تلوار سمجھتے ہیں جس خود لکھنے والا بھی زخمی ہوتا ہے۔“
اردو ادب میں خاکہ نگاری زیادہ قدیم نہیں لیکن اس کی ابتدائی شکل مختلف تذکروں اور بالخصوص محمد حسین آزاد کی کتاب ” آب حیات“ میں نظرآتی ہے۔ اس کے بعد ایک بھر پور خاکہ” نذیر احمد کی کہانی“ فرحت اللہ بیگ کا کارنامہ ہے۔ لیکن اتنی عمدہ ابتداءہونے کے باوجود آج خاکہ نگاری کی وہ شکل نظر نہیں آتی ۔ جو جیتے جاگتے انسان کو ہمارے سامنے لا سکے۔اس لئے اردو ادب میں خاکہ نگاری ایک ایسی صنف ہے جس میں بہت زیادہ کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس صنف ادب میں اس کمی کی وجہ صرف یہ ہے کہ خاکہ نگار شخصیت کا نہ تو تفصیلی مطالعہ کرتا ہے اور نہ ہی مبالغہ آمیز واقعات سے گریز کرتا ہے۔ اس شخصیت کی خلوت اور جلوت کی مثالیں بھی بہت کم ملتی ہے۔ بلکہ شخصیت اُس طرح پیش ہوتی ہے جس طرح خاکہ نگار چاہتا ہے۔ اور اس طرح شخصیت کے خدوخال نمایاں نہیں ہو پاتے اور خاکہ تشنہ رہ جاتا ہے۔
فارغ بخاری خاکہ نگاری پر طبع آزمائی کرنے والوں میں سے صوبہ سرحد کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ فارغ بخاری کا اصل نام پیر احمد شاہ بخاری تھا وہ پشاور کی ادبی حلقوں کی فعال شخصیت تھے اور ”سنگ میل“ جیسے ادب رسالہ کے ایڈیٹر بھی تھے۔ اُن کے ادبی کارنامے اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فارغ بخاری کا مزاج خاکہ نگاری کے لئے زیادہ موزوں نہیں اس کے باوجو البم کے کئی خاکے قابل تعریف ہیں۔ ان کی عمدگی کا یہ ثبوت ہے کہ خاکہ نگاری کی تاریخ میں انہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں ۔ اُن خاکوں کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے بڑے لوگوں کی عظمت کا اعتراف کھلے دل سے کیا ہے اوریہ خود ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ خاکہ نگاری کے سلسلے میں اُن کی دوکتابیں البم(1973اور دوسراالبم1986کے عنوان سے شائع ہوئیں۔
البم:۔
”البم “کے زیادہ تر خاکے کرداری ہیں۔ یہ 21 خاکوں پر مشتمل ایک مختصر کتاب ہے جسے ہم خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ تاثراتی رپورٹ کے زمرے میں بھی رکھ سکتے ہیں۔البم کے خاکوں کا انداز کچھ ایسا ہے جسے اُدھیڑ عمر شخص اپنا پرانا البم کھولے اور ایک ایک دوست کو دیکھ کر پرانی یادیں تازہ کرے ۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے ہر شخصیت کے لئے ایک نام رکھ چھوڑا ہے جو اسم بامسمٰی ہے۔ اس طرح نام کوہی دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فار غ بخاری شخصیت کے کس پہلو کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں ۔ اُن کے خاکوں کا اسلوب رواں دواں ہے ۔ اگرچہ بعض الفاظ کی تکرار اور بعض مستقل جملے ہر خاکے میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود اسلوب کی چاشنی اپنی جگہ موجود ہے۔ کچھ خاکوں میں فارغ بخاری کا فن نہایت نکھر کرسامنے آیا ہے۔ لیکن یہ وہی خاکے ہیں جن میں پیش کردہ شخصیت کو انہوں نے قریب سے دیکھا ہے۔ ورنہ تو اُن کے ہاں جلوت کی مثالیں زیادہ اور خلوت کی کم ملتی ہیں۔ زیتون بانو، خاطر غزنوی ، احمد فراز اور رضا ہمدانی کے خاکے اس زمرے میں آتے ہیں ۔ جہاں انہوں نے شخصیت کو خلوت اور جلوت میں پرکھا ہے۔ذیل میں البم کے چند مشہور خاکوں کا تنقیدی جائزہ پیش ہے۔