صفحات

ہفتہ, نومبر 19, 2011

گلزارِ نسیم (پنڈت دیا شنکر نسیم)

اردو میں دو ہی مثنویوں نے بے پناہ شہرت حاصل کی ہے ایک میر حسن کی مثنوی ”سحرالبیان“ نے دوسری پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی”گلزار نسیم ۔ ان میں سے اگر ایک فتنہ ہے تو تو دوسری ”عطر فتنہ“ دونوں نے اردو شاعری کی دنیا میں قیامت برپا کر دی ہے۔ ”سحرالبیان“ میں سادگی کا حسن ہے اور ”گلزار نسیم“ میں پرکاری کا جادو ہے، غر ضیکہ دونوں میں ساحری اور عشوہ طرازی موجود ہے۔مولانا محمد حسین آزاد لکھتے ہیں،
” ہمارے ملکِ سخن میں سےنکڑوں مثنویاں لکھی گئیں مگر ان میں فقط دو نسخے ایسے نکلے جنہوں نے طبیعت کی موافقت سے قبول عام کی سند پائی ۔ ایک” سحرالبیان“ اور دوسرے ”گلزار نسیم“ اور تعجب یہ ہے کہ دونوں کے رتبے بالکل الگ الگ ہیں۔“
مثنوی”گلزار نسیم“ پنڈت دیا شنکر نسیم کی وہ مثنوی ہے جس نے انہیں حیات جاوید عطا کی اور یہی وہ مثنوی ہے جسے لکھنو کے دبستان شاعری کی پہلی طویل نظم کا شرف حاصل ہے۔ نسیم حیدر علی آتش کے شاگر دتھے۔ اور اس مثنوی کی تصنیف کے دوران شاگرد کو قدم قدم پر استاد کی رہنمائی حاصل رہی آتش کی ہدایت پر ہی نسیم نے مثنوی کو مختصر کرکے نئے سرے سے لکھا او ر ایجاز و اختصار کا معجزہ کہلایا ۔بقول فرمان فتح پوری کہ،
” اس میں کردار نگاری ، جذبات نگاری اور تسلسل بیان کی کم و بیش وہ سبھی خصوصیات ہیں جو کہ ایک افسانوی مثنوی کے لئے ضروری خیال کی جاتی ہیں لیکن اس کی دلکشی کا راز دراصل اس کی رنگین بیانی، معنی آفرینی ، کنایاتی اسلوب، لفظی صناعی اور ایجاز نویسی میں پوشیدہ ہے ان اوصاف میں بھی اختصار ایجاز کا وصف امتیازی نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔“
پلاٹ:۔
 ”گلزارنسیم “ کے پلاٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بادشاہ کا نام زین الملوک تھا۔ اس کے چار بیٹے تھے کچھ عرصہ بعد پانچواں بیٹا پیدا ہواجس کا نام تاج الملوک تھا۔ اس بیٹے کے بارے میں نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ اگر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہوگااو ر ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ طبیبوں نے اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ ایک پھول ہے” گل بکاولی“ اُس سے اس کی بےنائی واپس آسکتی ہے بس اس طرح سارے قصے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔
 گلزار نسیم کی ایک خصوصیت اس کے پلا ٹ کی پیچیدگی ہے یہ صرف تاج الملوک اور بکاولی کی کہانی نہیں نہ صرف ایک پھول حاصل کرنے کی کہانی ہے بلکہ اس میں کئی کہانیاں گُتھ گئی ہیں ۔ تاج الملوک کی شادی کے ساتھ ہی قصہ ختم ہو جانا چاہئے تھا مگر راجہ اندر اور چتراوت اس کہانی کو آگے لے جاتے ہیں دراصل یہ کہانی ایک استعارہ ہے کہ مقصد کے حصول میں کتنی دشواریاں ہوتی ہیں کس طرح آگ کے دریا میں گزرنا پڑتا ہے۔ پھر مقصد حاصل ہونے کے بعد ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ مگر ارادہ پختہ اور کوشش مستحکم ہو تو پھر ہاتھ آجاتا ہے۔