صفحات

جمعرات, جنوری 26, 2012

دبیر کی مرثیہ گوئی

                        مرزا سلامت علی دیبر اُردو مرثیہ کی تاریخ کا ایک اہم اور بڑا نام ہے۔ صنف مرثیہ کو بام عروج پر پہنچانے میں میرانیس کے ساتھ ساتھ ان کی کوشش بھی ہر لحاظ سے قابل ِ داد ہیں ۔ مرزا دبیر نے چونکہ عربی اور فارسی علم و ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اور دوسرے حساس طبیعت کے باعث وہ سنجیدہ ہوگئے تھے اس لئے انہیں شعر و سخن کی سلطنت میں یک گونہ عافیت کا احساس ہوا، شاعری سے انہیں فطری لگائو پیداہوگیا تھا۔ اور پھر شاید اپنی جنم بھومی دہلی کی تباہی اور دیگر عوامل کے حوالے سے انہوں نے بھی مرثیہ گوئی اختیار کر لی ۔ ویسے بھی اس عہد میں اقلیم غزل میں اس قدر شعراءکی فراوانی اور کثرت تھی کہ محض توانا اور جاندار غزلیہ شاعری پنپ سکتی تھی اس پر مستزاد یہ ہے کہ وہ دور غالب جیسے سورج کا دور تھا۔ جس میں ماہ و انجم ماند پڑ جاتے چھوٹے موٹے چراغ کچھ بھی نہ تھے۔ البتہ مرثیہ نگاری میں ابھی ہر طرح کی وسعت کی پوری پوری گنجائش موجود تھی۔ اس لئے اپنی موزونی  طبع اور حالات کے مطابق مرزدبیر نے مرثےہ نگاری کے میدان کو اپنی شاعری کے لئے چنا۔ اور اسی میں اپنے جوہر دکھانے شروع کئے۔ مرزا دبیر نے اپنے مرثیہ نگاری کے اس ذوق کی آبیاری اور اُستادانہ رہنمائی کی خاطر اس عہد کے ایک شاعر میر ضمیر کی شاگردی اختیار کی ۔ اور اپنے نام کے ساتھ ساتھ استاد کا نام امر کیا۔ اسی عہد میں لکھنو میں علم و ادب اور شعر و سخن کی محفل میں مر ثیہ ایک بلند مقام اور تاثیر پیدا کر چکا تھا۔ اور بلا مبالغہ برسو ں تک لکھنوکی مرثیہ کی شاعری مرزا دبیر ہی کے گرد احاطہ کئے ہوئے تھی بعد میں میر انیس نے بھی اس فن میں اپنی اُستادانہ جوہر دکھاکر دبیر کے شانہ بشانہ مرثیہ کی وہ قصر تعمیر کی جس کے قمقموں سے آج اردو ادب جگمگ جگمک کر رہا ہے۔ مرزا دبیرکی شہرت و منزلت عالم ِ شباب ہی میں اتنی عام ہو چکی تھی کہ شاہ اودھ غازی الدین حیدر نے ان کو شاہی امام باڑے میں دعوت دی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف خلیق ، ضمیر ، دلگیر اور فصیح وغیرہ کا طوطی بول رہا تھا ان کا کہنہ مشق اساتذہ کی موجودگی میں نوجوان دبیر کی شاہی مجلس پڑھنا اس کے فنی کمال کی دلیل ہے۔ جس پر مرزا نو عمری میں فائز ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر سید ناظر حسین زیدی دبیر کے متعلق لکھتے ہیں،
” دبیر کے کلام کا خاص جوہر زورِ بیان ، شوکتِ الفاظ ، بلند تخیل ، ایجاز مضامین اور صنائع کا استعمال ہے۔ تخیل کی بلند پروازی ، علمی اصطلاحات ، عربی فقروں کی تضمین اور ایجاز مضامین کے زور میں وہ بے مثل ہیں یہ ان کی خاص مملکت ہے۔“