بدھ, فروری 29, 2012

موازنہ انیس و دبیر

میر انیس کا نام آتے ہی میرزا دبیر کا نام خود بخود ذہن میں ابھر آتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مرثیہ گو شعراءمیں صرف مرزا دبیر ہی ان کے ہم رتبہ کہے جا سکتے ہیں۔ معاصر کی حیثیت سے جتنے طویل عرصے تک یہ دونوں سایہ کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہے شائد ہی دوسرے ہم عصر شاعر ساتھ رہے ہوں۔ ان کی زندگی اور فن دونوں میں عجیب طرح کی مماثلت ہے۔ دونوں کی تاریخ پیدائش اور وفات تقریباً ایک ہی ہے۔ عمریں بھی دونوں نے تقریباً بر ابر کی پائیں۔ میرانیس کے استاد میر خلیق اور دبیر کے استاد میر ضمیر بھی ہم عصر و ہم عمر تھے ۔
 دونوں کو اہل بیت سے خاص لگائو اور فن مرثیہ نگاری سے خاص دلچسپی تھی۔ دونوں نے اپنے ماحول کی مقبول ترین صنف کو چھوڑ کر مرثیہ کی طرف توجہ کی ۔ دونوں نے اپنے دائرہ شاعری کو سلام، رباعی اور مرثیہ تک محدود رکھا۔ دونوں نے اس شاعرانہ فضاءمیں ترتیب پائی اور پروان چڑھے جو دہلی کی مدمقابل بن کر دبستان لکھنو کے نام سے وجود میں آئی ۔ دونوں مجالس عزا میں خاص اہتمام سے شریک ہوتے تھے اور دونوں کا انداز مرثیہ خوانی حاضرین مجلس کی توجہ کا مرکز بنتا تھا۔ دونوں نے اپنے اپنے عقیدت مندوں اور شاگردوں کے بڑے گروہ پیدا کر لئے تھے اور لکھنو کی فضائے شاعرانہ ان کے اور ان کے شاگردوں کی معاصرانہ چھیڑ چھاڑ کے سبب آباد اور پر رونق رہی ۔ میر انیس نے دبیر سے صرف ایک سال پہلے جہانِ فانی کو خیر آباد کہا۔ ان کی وفات پر بہت سے شاعروں نے قطعات تاریخ کہے لیکن مشہور تو دبیر کا کہا ہواقطعہ اپنی مثال آپ ہے۔ وہ قطعہ تاریخ جس کا مصرعہ ہے۔                
طور سینا بے کلیم اللہ و منبر بے انیس
 ایسی صور ت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی جگہ ان میں سے ایک کا ذکر آئے اور دوسرے کا نام نہ لیا جائے۔ قدیم تذکرہ نگاروں سے لے کر آج تک کے ناقدین میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہوجس نے مرثیہ نگاری پر کچھ لکھا ہوا اور ان دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ نہ کیا ہو۔ لیکن ان کی معاصرانہ چشمک اور ان کے شاگردوں کی ادبی معرکہ آرائیوں کا ذکر ہر جگہ ملتا ہے۔
شبلی کی موازنہ انیس و دبیر:۔
 مولانا شبلی نعمانی کے جادو نگار قلم نے ”موازنہ انیس دبیر“ کے ذریعے میرانیس اور مرزا دبیر کے درمیان ایسی حدفاضل قائم کر دی کہ ہمارے علمی ادبی حلقوں میں میرانیس کو مرزا دبیر سے بہتر مرثیہ نگار سمجھا جانے لگا۔ اوریہی مولانا شبلی کا مقصود تھا۔ لیکن بعض لوگ شبلی کے طرز تنقید سے مطمئن نہ ہوئے ان کے خیال میں شبلی نے موازنہ انیس و دبیر میں دبیر کے ساتھ ذیادتی کی ہے اور ان کا پلہ نیچا کرنے کے لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر میرانیس کی خوبیاں اور ان کی خامیاں گنوائی ہیں۔ چنانچہ شبلی کے جوا ب میں چودھری سید النظیر الحسن نے ایک معرکتہ آرا کتاب ”المیزان “ کے نام سے شبلی کی زندگی میں شائع کی ۔ اور اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مرزا دبیر بہ حیثیت مرثیہ نگار میر انیس سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ نظیر الحسن نے کلام دبیر کے بہت سے ایسے محاسن ہمیشہ کے لئے اجاگر کر دئیے جو مولانا شبلی کے اثر سے دب گئے تھے۔ لیکن ان کی کتاب موازنہ کا جواب نہ دے سکی۔

منگل, فروری 21, 2012

آنگن

  اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں خدیجہ مستور کا نام بے حد اہمیت کا حامل ہے ۔ یوں تو ان کے ناولوں اور افسانوی مجموعوں کی تعداد سات ہے ۔ مگر ان کا ناول ’ آنگن ہی اس قدر توانا ثابت ہواکہ اس نے ان کے نام کو زندہ جاوید کر دیا ۔ نہ صرف یہ کہ یہ ناول ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہے گا بلکہ اس کے خالق کی حیثیت سے خدیجہ مستور کا نام بھی اردو ادب میں اپنا مقام بنا چکا ہے ۔ آنگن ‘ پر انہیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی انعام ’ آدم جی پرائز ‘ بھی ملا ۔ اس ناول میں خدیجہ مستور کا فن اپنے عروج پرنظرآتا ہے ۔ انہوں نے کئی سماجی ، تہذیبی ، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی تحریکوں کاجائزہ لیا ہے اور ان کا ماہرانہ تجزیہ پیش کیا ہے ۔ اس ناول کے بعد ہی ان کا شما رایک سنجیدہ اور گہری سوچ رکھنے والی تخلیق کار کی حیثیت سے ہونے لگا تھا کیونکہ ’ آنگن ‘ صرف ایک گھر کا آنگن نہیں پورے معاشرے کا آنگن ہے جس کا پر تو ہر دور میں نظر آتا ہے ۔

فنی جائزہ
فنی لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے ”آنگن “ کی کردار نگاری ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ ناول بہت سے کرداروں پر مشتمل ہے۔ ان کرداروں میں ایسے کردار بھی ہیں، جو شروع سے لے کر آخر تک قدم قدم پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے نہ صرف ایک دوسرے کے قدموں ، بلکہ اپنے قدموں کی آہٹیں بھی سنتے چلے جاتے ہیں لیکن آہٹوں کی اس معیت میں بھی ہر کردار اپنی جگہ تنہا اور بے یار و مدگار دکھائی دیتا ہے۔ کچھ ایسے کردار بھی ہیں جو پل بھر کے لئے رونما ہوتے ہیں او رپھر ناول کی دنیا سے غائب ہو جاتے ہیں۔ عالیہ کے والد مظہر چچا، تہمینہ باجی ، عالیہ ، چھمی ، اماں ، صفدر بھائی ، بڑ ے چچا ، بڑی چچی ، جمیل بھائی ، کریمن بواء، شکیل ، اسرار میاں ، ظفر چچا اماں کے بھائی ، اور انگریز بھابی اس ناول کے دائمی کردار ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک ناول کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتے پھرتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ رائے صاحب ، کسم دیدی ، شیام ، شیام کے والدین ، تھانیدار کا بیٹا منظور صفدر بھائی کی ماں سلمیٰ ، بڑے چچا کی بیٹی ، ڈیم پھول کہنے والا انگریز افسرمسز ہاروڈ ، نجمہ اور دادی اماں آنگن کے ضمنی کردار ہیں۔ سب سے پہلے ہم چند اہم اور بڑے کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں،

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...