صفحات

منگل, دسمبر 11, 2012

رومانوی تحریک

رومانوی تحریک کو عام طور پر سر سید احمد خان|سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کا ردعمل قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سرسید احمد خان کی تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی۔ کیونکہ یہ دور تہذیب الاخلاق کا دور تھا اور تہذیب الاخلاق کی نثر عقلیت ، منطقیت ، استدالیت اور معنویت سے بوجھل تھی۔ مزید برآں تہذیب الاخلاق کا ادب مذہبی ،اخلاقی ، تہذیبی اور تمدنی اقدار سے گراں بار تا۔اس جذبے اور احسا س کے خلاف رومانی نوعیت کا ردعمل شروع ہوا اور جذبے اور تخیل کی وہ رو جسے علی گڑھ تحریک نے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ابھرے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن اس سے قبل کی رومانیت یا رومانوی تحریک کے بارے میں بحث کریں ، ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھ لیں کہ رومانیت سے کیا مراد ہے۔
 رومانیت کا مفہوم
رومانیت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ لفظ جتنا دل خوش کن ہے تشریح کے لحاظ سے اتنا سہل نہیں۔ لغات اور فرہنگ ، اصطلاحات کے سائیکلو پیڈیا اور تنقید کی کتابیں اس سلسلے میں سب الگ الگ کہانی سنا رہی ہیں۔ اس لئے رومانیت کے متعلق کوئی معین بات کہنا چاہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ رومانیت کے معنی رومانیت ہیں۔ بہر حال سید عبداللہ رومانیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رومانیت کا ایک ڈھیلا سا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسے اسلوب اظہار یا انداز احساس کا اظہار کرتی ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو۔ رسم و روایت کی تقلید سے آزادی خیالات کو سیلاب کی طرح جدھر ان کا رخ ہو آزادی سے بہنے دیا جائے۔
    مختصر یہ کہ رومانی ادیب اپنے جذبے اور وجدان کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہے۔ اسلوب اور خیالات دونوں میں اس کی روش تقلید کے مقابلے میں آزادی اور روایت کی پیروی سے بغاوت اور جدت کا میلان رکھتی ہے۔ رومانی ادیب حال سے زیادہ ماضی یا مستقبل سے دلچسپی رکھتا ہے۔ حقائق واقعی سے زیادہ خوش آئند تخیلات اور خوابوں کی اور عجائبات و طلسمات سے بھری ہوئی فضائوں کی مصوری کرتا ہے۔ دوپہر کی چمک اور ہرچیز کو صاف دکھانے والی روشنی کے مقابلے میں دھندلے افق چاندنی اور اندھیرے کی ملی جلی کیفیت اسے زیادہ خوش آئند معلوم ہوتی ہے۔ڈاکٹر محمد حسن رومانیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”رومانیت“ کا لفظ رومانس سے نکلا ہے۔ اور رومانس زبانوں میں اس کا طلاق اس قسم کی نثری منظوم کہانیوں پر ہوتا ہے جن میں انتہائی آراستہ و پرشکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سنائی جاتی تھیں جو عام طور پر دور وسطی کے جنگجو اور خطر پسند نوجوانوں کی مہات سے متعلق ہوتی تھیں۔ اس طرح اس لفظ کے تین خاص مفہوم ہیں۔
١) عشق و محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رمانی کہا جانے لگا
٢) زبان کی بناوٹ ، سجاوٹ ، آراستگی اور محاکاتی تفصیل پسندی کو رومانی کہا جانے لگا۔
٣) عہد وسطی سے وابستہ تمام چیزوں سے لگائو ، قدامت پسندی اور ماضی پرستی کو رومانی کا لقب دیا گیا۔

اتوار, اکتوبر 21, 2012

علی گڑھ تحریک

سر سید احمد خان
برصغیر پاک و ہند میں 1857کی ناکام جنگ آزادی اور سکوت دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح بہودکی ترقی کے لئے جو کوششیں کی گئیں ۔ عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ سرسید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلا راجہ رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یار دعمل تو مایوسی ، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پارہا تھا ۔ اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔
ابتداءمیں سرسیداحمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لئے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہوگئے۔ اس مقصد کے لئے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔
1869 ءمیں سرسید احمد خان کوانگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ، اور گارڈین سے متاثر ہو کر ۔ سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لئے اسی قسم کااخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجراءاس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں
مقاصد
اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں سب اہل الرائے حضرات متفق ہیں اور ان کی آراءمیں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا مثلاً احتشام حسین اس تحریک کے مقاصدکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس تحریک کےکئی پہلوئوں میں نئے علوم کا حصول ، مذہب کی عقل سے تفہیم ، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں ۔ جبکہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے مقاصد میں مذہب ، اردو ہندو مسلم تعلقات ، انگریز اور انگریزی حکومت ،انگریزی زبان ، مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں ان آرا ءسے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تحریک کے مقاصد کے تین زاویے ہیں ۔

جمعرات, اکتوبر 11, 2012

انجمن پنجاب

سال1857کے ہنگامے کے بعد ملک میں ایک تعطل پیدا ہوگیا تھا ۔ اس تعطل کودور کرنے اور زندگی کو ازسر نو متحرک کرنے کے لیے حکومت کے ایماءپر مختلف صوبوں اور شہروں میں علمی و ادبی سوسائٹیاں قائم کی گئیں ہیں۔ سب سے پہلے بمبئی ، بنارس ،لکھنو ، شاہ جہاں پور ، بریلی اور کلکتہ میں ادبی انجمنیں قائم ہوئیں۔ ایسی ہی ایک انجمن لاہور میں قائم کی گئی جس کا پور ا نام ”انجمن اشاعت مطالب ِ مفیدہ پنجاب “ تھا جو بعد میں انجمن پنجاب کے نام سے مشہور ہوئی۔
انجمن کا قیام جنوری 1865ءمیں عمل میں لایا گیا۔ اس انجمن کے قیام میں ڈاکٹر لائٹر نے نمایاں خدمات انجام دیں ۔ لاہور میں جب گورنمنٹ کالج لاہور قائم ہواڈاکٹر لائٹر اس کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر لائٹر کو نہ صرف علوم مشرقی کے بقاءاور احیاءسے دلچسپی تھی بلکہ انہیں یہ بھی احساس تھا کہ لارڈ میکالے کی حکمت عملی کے مطابق انگریزی زبان کے ذریعے علوم سکھانے کا طریقہ عملی مشکلات سے دوچار تھا۔ ان باتوں کی بناءپر ڈاکٹر لائٹر نے اس خطے کی تعلیمی اور معاشرتی اصلاح کا فیصلہ کیا۔ اور انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب کی داغ بیل ڈالی
 مقاصد
انجمن کے مقاصد میں قدیم علوم کا احیاء، صنعت و تجارت کا فروغ ، دیسی زبان کے ذریعے علوم مفیدہ کی اشاعت، علمی ادبی اور معاشرتی و سیاسی مسائل پر بحث و نظر صوبے کے بارسوخ طبقات اور افسران حکومت کا رابطہ ، عوام اور انگریز حکومت کے درمیان موجود بدگمانی کو رفع کرنا شامل تھا۔
    ان مقاصد کے حصول کے لیے مختلف مقامات پر مدارس ، کتب خانے قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ رسائل جاری کئے گئے۔ سماجی اور تہذیبی ، اخلاقی ، انتظامی اور ادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کے لیے جلسوں کا اہتمام کیا گیا۔
 رکنیت:۔
  انجمن پنجاب کے پہلے جسلے میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی وہ سرکاری ملازم ، روسا ءاور جاگیردار وغیر ہ تھے۔ لیکن جلد ہی اس کی رکنیت عام لوگوں کے لیے بھی کھول دی گئی۔ اس انجمن کے اعزازی دائمی سرپرست پرنس آف ویلز تھے جب کہ سرپرست گورنر پنجاب تھے۔ اس انجمن کے اراکین کی تعداد 250 تھی ۔

جمعہ, اگست 10, 2012

فورٹ ولیم کالج

فورٹ ولیم کالج کا قیام اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ اردو نثر کی تاریخ میں خصوصاً یہ کالج سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ کالج انگریزوں کی سیاسی مصلحتوں کے تحت عمل میں آیا تھا ۔ تاہم اس کالج نے اردو زبان کے نثری ادب کی ترقی کے لئے نئی راہیں کھول دیں تھیں۔ سر زمین پاک و ہند میں فورٹ ولیم کالج مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ولزلی کے حکم پر 1800ءمیں قائم کیا گیاتھا۔
اس کالج کا پس منظر یہ ہے 1798 میں جب لارڈ ولزلی ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر آیا تو یہاں کے نظم و نسق کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ انگلستان سے جو نئے ملازمین کمپنی کے مختلف شعبوں میں کا م کرنے یہاں آتے ہیں وہ کسی منظم اور باقاعدہ تربیت کے بغیر اچھے کارکن نہیں بن سکتے ۔ لارڈ ولزلی کے نزدیک ان ملازمین کی تربیت کے دو پہلو تھے ایک ان نوجوان ملازمین کی علمی قابلیت میں اضافہ کرنا اور دوسرا ان کو ہندوستانیوں کے مزاج اور ان کی زندگی کے مختلف شعبوں ان کی زبان اور اطوار طریقوں سے واقفیت دلانا ۔
پہلے زبان سیکھنے کے لئے افسروں کو اناونس دیا جاتا تھا لیکن اُس سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے تھے۔ اس لئے جب لارڈ ولزلی گورنر جنرل بن کر آئے تو اُنھوں نے یہ ضروری سمجھا کہ انگریزوں کو اگر یہاں حکومت کرنی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ کمپنی کے ملازمین کا مقامی زبانوں اور ماحول سے آگاہی کے لئے تعلیم و تربیت کا باقاعدہ انتظام کیاجائے۔ ان وجوہات کی بناءپر ولزلی نے کمپنی کے سامنے ایک کالج کی تجویز پیش کی ۔ کمپنی کے کئی عہداروں اور پادرویوں نے اس کی حمایت کی۔
اور اس طرح جان گلکرسٹ جو کہ ہندوستانی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ کمپنی کے ملازمین کو روزانہ درس دینے کے لئے تیار ہو گئے۔اور لارڈ ولزلی نے یہ حکم جاری کیا کہ آئندہ کسی سول انگریز ملازم کو اس وقت تک بنگال ، اڑیسہ اور بنارس میں اہم عہدوں پر مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک وہ قوانین و ضوابط کا اور مقامی زبان کا امتحان نہ پاس کر لے۔ اس فیصلے کے بعد گلکرسٹ کی سربراہی میں ایک جنوری 1799 میں ایک مدرسہOriental Seminaryقائم کیا گیا۔ جو بعد میں فورٹ ولیم کالج کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ کچھ مسائل کی وجہ سے اس مدرسے سے بھی نتائج برآمد نہ ہوئے جن کی توقع تھی ۔ جس کے بعد لارڈ ولزلی نے کالج کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا۔

منگل, جولائی 17, 2012

دبستانِ لکھنو

لکھنویت سے مراد شعرو ادب میں وہ رنگ ہے جو لکھنو کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا۔ اور اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو شاعری اور دہلوی شاعری سے مختلف ہے۔ جب لکھنو مرجع اہل دانش و حکمت بنا تو اس سے پہلے علم وادب کے دو بڑے مرکز شہرت حاصل کر چکے تھے۔ اور وہ دکن اور دہلی تھے۔ لیکن جب دہلی کا سہاگ لٹا ۔ دہلی میں قتل و غارت گری کا بازار گر م ہوا تو دہلی کے اہل علم فضل نے دہلی کی گلیوں کو چھوڑنا شروع کیا جس کی وجہ سے فیض آباد اور لکھنو میں علم و ادب کی محفلوں نے فروغ پایا۔
 پس منظر:۔
سال1707  اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اُن کے جانشین اپنے تخت کے لئے خود لڑنے لگے ۔ ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے مرکز مزید کمزور ہوا۔ اور باقی کسر مرہٹوں ، جاٹوں اور نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے پوری کر دی۔
سال1722ءمیں بادشاہ دہلی نے سعادت علی خان کو اودھ کا صوبیدار مقر ر کیا ۔ مرکز کی کمزوری سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے جلد ہی سعادت علی خان نے خود مختاری حاصل کر لی۔ اور اودھ کی خوشحالی کے لئے بھر پور جدوجہد کی جس کی بنا پر اودھ میں مال و دولت کی فروانی ہوئی ۔
صفدر جنگ اور شجاع الدولہ نے اودھ کی آمدنی میں مزید اضافہ کیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوششیں کیں ۔ آصف الدولہ نے مزید اس کام کو آگے بڑھایا۔ لیکن دوسری طرف دہلی میں حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ امن و سکون ختم ہو گیا۔ تو وہاں کے ادباءو شعراءنے دہلی چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اور بہت سے شاعر لکھنو میں جا کر آبا د ہوئے۔ جن میں میرتقی میر بھی شامل تھے۔
دولت کی فروانی ، امن و امان اور سلطنت کے استحکام کی وجہ سے اودھ کے حکمران عیش و نشاط اور رنگ رلیوں کے دلدادہ ہوگئے ۔ شجاع الدولہ کو عورتوں سے خصوصی رغبت تھی جس کی بناءپر اس نے محل میں بے شمار عورتوں کو داخل کیا۔ حکمرانوں کی پیروی امراءنے بھی کی اور وہ بھی اسی رنگ میں رنگتے گئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بازاری عورتیں ہر گلی کوچے میں پھیل گئیں۔ غازی الدین حیدر اور نصیر اور نصیر الدین حیدر نے آبائو اجداد کی پیروی جاری رکھی اور واجد علی شاہ نے تو اس میدان میں سب کو مات دے دی۔
سلاطین کی عیش پسندی اور پست مذاقی نے طوائف کو معاشرے کا اہم جز بنا دیا۔ طوائفوں کے کوٹھے تہذیب و معاشرت کے نمونے قرار پائے جہاں بچوں کو شائستگی اور آداب محفل سکھانے کے لئے بھیجا جانے لگا۔

جمعہ, جون 29, 2012

دبستان دہلی

اورنگزیب کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا معظم تخت نشین ہوا لیکن اس کے بعد معظم کے بیٹے معز الدین نے اپنے بھائی کو شکست دے کر حکومت بنائی۔ معز الدین کے بھتیجے ”فرخ سیر “ نے سید بردران کی مدد سے حکومت حاصل کی لیکن سید بردران نے فرخ سیر کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اس طرح 1707ءسے لے کر 1819ءتک دہلی کی تخت پر کئی بادشاہ تبدیل ہوئے۔ محمد شاہ رنگیلا عیاشی کے دور میں نادرشاہ درانی نے دہلی پر حملہ کردیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ پھر احمد شاہ ابدالی کے حملے نے مزید کسر بھی پوری کر دی ۔ دوسری طرف مرہٹے ، جاٹ اور روہیلے آئے دن دہلی پر حملہ آور ہوتے اور قتل عام کرتے اس دور میں کئی بادشاہ بدلے اور مغل سلطنت محدود ہوتے ہوتے صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی ۔اور آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے معزول کر کے رنگوں بھیج دیا۔ یہ تھی دہلی کی مختصر تاریخ جس میں ہماری اردو شاعری پروان چڑھی ۔ یہ ایک ایسا پرآشوب دور تھا جس میں ہر طرف بدنظمی ، انتشاراور پستی کا دور دورہ تھا۔ ملک میں ہر طرف بے چینی تھی۔ اس حالت کی وجہ سے جس قسم کی شاعری پروان چڑھی ۔ دبستان دہلی کے چند شعراء کا ذکر درج زیل ہے۔
 شعراء
 میر تقی میر:۔
میرتقی میر کی شاعری کا اہم بنیادی عصنر غم سب سے نمایاں ہے۔ خود میر نے اپنی شاعر کے بارے میں کہا ہے

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کے صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

میر کا غم آفاقی نوعیت کا ہے جس میں غم عشق سے لے کر غم دنیا کا احوال موجود ہے۔ انہوں نے جو کچھ محسوس کیا بڑی صداقت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ ان کی شاعری اپنے تجربات اور احساسات کاصحیح اور سچا اظہار ہے۔ان کے اشعار جو بھی پڑھتا ہے اس کے دل میں اتر جاتے ہیں۔

ابتداءہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

میر کی شاعری ہندی اور ایرانی تہذیب کی آمیزش کی بہترین مثال ہے۔ ان کے ہاں فارسی تراکیب کے ساتھ ساتھ ہندی کا ترنم اور موسیقیت بھی ملتی ہے۔

اب تو جاتے ہیں بتکدے سے میر
عشق کی کون انتہا لایا
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

بدھ, جون 13, 2012

ایہام گوئی کی تحریک

ایہام سے مراد یہ ہے کہ شاعر پورے شعر یا اس کے جزو سے دو معنی پیداکرتا ہے۔ یعنی شعر میں ایسے ذو معنی لفظ کا استعمال جس کے دو معنی ہوں ۔ ایک قریب کے دوسرے بعید کے اور شاعر کی مراد معنی بعید سے ہوایہام کہلاتا ہے۔بعض ناقدین نے ایہام کا رشتہ سنسکرت کے سلیش سے بھی جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ درست نہیں کیونکہ سلیش میں ایک ایک شعر کے تین تین چار چا ر معنی ہوتے ہیں جب کہ ایہام میں ایسا نہیں ہوتا۔
اردو شاعری میں ایہام گوئی
ولی دکنی کا دیوان 1720ءمیں دہلی پہنچا تو دیوان کو اردو میں دیکھ کر یہاں کے شعراءکے دلوں میں جذبہ اور ولولہ پیدا ہوا اور پھر ہر طرف اردو شاعری اور مشاعروں کی دھوم مچ گئی۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ ولی کے تتبع میں شمالی ہند میں جو شاعری شروع ہوئی اس میں سب سے نمایاں عنصر ”ایہام گوئی“ تھا۔ اس لیے اس دور کے شعراءایہام گو کہلائے۔ اس دور کی شاعری میں ایہام کو اس قدر فروغ کیوں حاصل ہوا۔ آئیے ان اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔
 اسباب
ایہام گوئی کے بارے میں رام بابو سکسینہ اور محمد حسین آزاد دونوں کا خیال ہے کہ اردو کی ابتدائی شاعری میں ایہام گوئی کے رجحان کا ایک اہم سبب ہندی دوہوں کا اثر ہے۔ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی کے نزدیک اس زمانے میں فارسی شعراءکا دربار اور شعر و ادب کی محفلوں میں بہت اثر تھا۔ یوں بھی ادب میں دہلی والے فارسی روایات برتتے تھے۔ اس لیے یہ بہت ممکن ہے کہ متاخرین شعرائے فارسی کے واسطے یہ چیز عام ہوئی ہو۔ اس سے واضح ہوا کہ ایک سبب ایہام گوئی کا ہندی دوہے ہیں اور دوسرا سبب متاخرینشعرائے فارسی سے متاثر ہو کر اس دور کے شعراءنے اپنی شاعری کی بنیاد ایہام پر رکھی۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کے نزدیک ہر بڑے شاعر کی طرح دیوان ولی میں بھی بہت رنگ موجود تھے۔ خود ولی کے کلام میں ایہام گوئی کا رنگ موجود ہے۔ اگرچہ ولی کے ہاں یہ رنگ سخن بہت نمایاں نہیں لیکن ہر شاعر نے اپنی پسند کے مطابق ولی کی شاعری سے اپنا محبوب رنگ چنا۔ آبرو ، مضمون ، ناجی اورحاتم ولی کے ایہام کے رنگ کو چنا۔ یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں ایہام کی ایک بڑی وجہ ولی کے کلام میں موجود ایہام گوئی کا رنگ بھی تھا۔

جمعہ, مئی 18, 2012

اردو ادب کا دکنی دور

محمد قلی قطب شاہ
یوں تو مسلمانوں نے دکن پر کئی حملے کیے لیکن علائوالدین خلجی کے حملے نے یہاں کی زبان اور تہذیب و تمدن اور کلچر کو کافی حد تک متاثر کیا۔ مرکزسے دور ہونے کی وجہ سے علائو الدین خلجی نے یہاں ترک سرداروں کو حکمران بنا دیا۔ بعد میں محمد تغلق نے دہلی کی بجائے دیو گری کو دارالسلطنت قرار دیے کر ساری آبادی کووہاں جانے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان گھرانے وہاں آباد ہوئے۔ محمد تغلق کی سلطنت کمزور ہوئی تو دکن میں آزاد بہمنی سلطنت قائم ہوئی اور دکن، شمالی ہندوستان سے کٹ کر رہ گیا۔ بعد میں جب بہمنی سلطنت کمزور ہوئی تو کئی آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں۔ ان میں بیجا پور کی عادل شاہی حکومت اور گولکنڈ ہ کی قطب شاہی حکومت شامل تھی۔ ان خود مختار ریاستوں نے اردو زبان و ادب کے ارتقاءمیں اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے علم و فضل اورشعراءو ادبا دکن پہنچے۔ آیئے اب بیچاپور کی عادل شاہی سلطنت کے تحت اردو کے ارتقا ءکا جائزہ لیں۔
بیجا پور کی عادل شاہی حکومت:۔
عادل شاہی حکومت کی بنیاد 895ءہجری میں پڑی۔ یہاں کا پہلا حکمران یوسف عادل شاہ تھا۔ بہمنی ریاست کے زوال کے بعد یوسف شاہ نے اپنی آزاد حکومت قائم کی۔ یہ حکومت دو سو سال تک قائم رہی اور نو بادشاہ یکے بعد دیگرے حکومت کرتے رہے۔ ابتدائی صدی میں دکنی زبان کی ترقی کے لیے کچھ خاص کام نہیں ہوا اور ایرانی اثرات ، شیعہ مذہب اور فارسی زبان دکنی زبان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنے ۔ لیکن اس کے برعکس دور عادل شاہی کی شاہی سرپرستی دوسری صدی میں اردو و ادب کی ترقی میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ابراہیم عادل شاہ ثانی اور ان کے جانشین محمد عادل شاہ نے اس سلسلے میں دکنی زبان کی جانب خصوصی توجہ دی۔ محمد عادل شاہ کے جانشین علی عادل شاہ ثانی نے دکنی کو اپنی زبان قرار دیا۔ چنانچہ اس صدی میں شاہی سرپرستی کی وجہ سے ادب میں درباری رنگ پیدا ہوا۔ اصناف سخن کی باقاعدہ تقسیم ہوئی۔ قصیدے اور غزلیں کہی گئیں اور شاعری کا ایک اعلیٰ معیار قائم ہوا۔اس کے علاو ہ صوفیا نے بھی یہاںکی زبان پر گہرے اثرات چھوڑے۔
عادل شاہی دور میں اردو کے فروغ و ترویج کے مختصر جائزے کے بعد آئیے اب اس دور کے شاعروں کا مختصر تذکرہ کریں تاکہ زبان و ادب کے ارتقاءکا اندازہ ہو سکے۔

اتوار, مئی 13, 2012

ماں

اچانک پھر بچایا ہے کسی نادیدہ ہستی نے
مگر کیسے ہوا یہ معجزہ معلوم کرنا ہے
تجھے کچھ یاد ہے کل کب تجھے میں یاد آیاتھا
مجھے اے ماں! ترا وقتِ دعا معلوم کرنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھولوں کی ہے مہکار مگر تیری کمی ہے
چڑیوں کی چہکار مگر تیری کمی ہے
قسمت نے کیا ہے دولتِ ممتا سے ہے محروم
دولت کا ہے انبار مگر تیری کمی ہے
ہر درد میں ، تکلیف میں اور رنج و الم میں
اے میری مددگار، مگر تیری کمی ہے
ہر آن مرے سر پہ دعاؤں کے وہ سائے
ہے سایۂ اشجار مگر تیری کمی ہے
کلشن میں گلابوں کی کمی کوئی نہیں ہے
کہتا ہے دلِ زار مگر تیری کمی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیار جنت سے اس لیے ہے مجھے
یہ میری "ماں" کے پاؤں چومتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کامیابیاں ،، عزت ، یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہے میری لہو میں کھلتے گلاب
مرے وجود کاسارا نظام تم سے ہے
جہاں جہاںہے مری دشمنی ، سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے مرا احترام ، تم سے ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ظلم کی دنیا میں فقط پیار ، مری ماں
ہے میرے لیے سایۂ دیوار میری ماں
نفرت کے جزیروں سے محبت کی حدوں تک
بس پیارہے ، ہاں پیار ہے ، بس پیار مری ماں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مخالف وقت اور ہر بدگماں کوروک رکھا ہے
ہر اک حاسد کی زہریلی زباں کو روک رکھا ہے
اترتی ہی نہیں ہے اس لیے مجھ پر کوئی آفت
مری ماں کی دعا نے آسماں کو روک رکھاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حادثوں کی گرد سے خود کو بچانے کے لیے
ماں ہم اپنے ساتھ بس تیری دعا لے جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کبھی مضطرب نہیں ہوگا
ماں کا سایہ جیسے میسر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے چہرے پہ ممتا کی فراوانی چمکتی ہے
میں بوڑھاہورہا ہوں پھر بھی پیشانی چمکتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وراثت میں یہی جاگیر افضل
میں چھوٹا ہوں میرے حصے میں ماں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن
ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات, مئی 03, 2012

اردو زبان کی ابتداء

زبان اردو کی ابتداءو آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداءکی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی ۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداءکے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداءمسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
دکن میں اردو:۔
نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب ہندوستان میں مالا بار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات مقامی لوگوں سے یقینا ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معاملات میں یقیناانہیں زبان کا مسئلہ درپیش آتا ہوگا۔ اسی میل میلاپ اور اختلاط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک و سیلہ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابل قبول نہیں ۔ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
” عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اس لیے دکن میں اردو کی ابتداءکا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں ارد و شمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطین کی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کے ارتقاءسے ہے۔ ابتداءسے نہیں۔“

بدھ, فروری 29, 2012

موازنہ انیس و دبیر

میر انیس کا نام آتے ہی میرزا دبیر کا نام خود بخود ذہن میں ابھر آتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مرثیہ گو شعراءمیں صرف مرزا دبیر ہی ان کے ہم رتبہ کہے جا سکتے ہیں۔ معاصر کی حیثیت سے جتنے طویل عرصے تک یہ دونوں سایہ کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہے شائد ہی دوسرے ہم عصر شاعر ساتھ رہے ہوں۔ ان کی زندگی اور فن دونوں میں عجیب طرح کی مماثلت ہے۔ دونوں کی تاریخ پیدائش اور وفات تقریباً ایک ہی ہے۔ عمریں بھی دونوں نے تقریباً بر ابر کی پائیں۔ میرانیس کے استاد میر خلیق اور دبیر کے استاد میر ضمیر بھی ہم عصر و ہم عمر تھے ۔
 دونوں کو اہل بیت سے خاص لگائو اور فن مرثیہ نگاری سے خاص دلچسپی تھی۔ دونوں نے اپنے ماحول کی مقبول ترین صنف کو چھوڑ کر مرثیہ کی طرف توجہ کی ۔ دونوں نے اپنے دائرہ شاعری کو سلام، رباعی اور مرثیہ تک محدود رکھا۔ دونوں نے اس شاعرانہ فضاءمیں ترتیب پائی اور پروان چڑھے جو دہلی کی مدمقابل بن کر دبستان لکھنو کے نام سے وجود میں آئی ۔ دونوں مجالس عزا میں خاص اہتمام سے شریک ہوتے تھے اور دونوں کا انداز مرثیہ خوانی حاضرین مجلس کی توجہ کا مرکز بنتا تھا۔ دونوں نے اپنے اپنے عقیدت مندوں اور شاگردوں کے بڑے گروہ پیدا کر لئے تھے اور لکھنو کی فضائے شاعرانہ ان کے اور ان کے شاگردوں کی معاصرانہ چھیڑ چھاڑ کے سبب آباد اور پر رونق رہی ۔ میر انیس نے دبیر سے صرف ایک سال پہلے جہانِ فانی کو خیر آباد کہا۔ ان کی وفات پر بہت سے شاعروں نے قطعات تاریخ کہے لیکن مشہور تو دبیر کا کہا ہواقطعہ اپنی مثال آپ ہے۔ وہ قطعہ تاریخ جس کا مصرعہ ہے۔                
طور سینا بے کلیم اللہ و منبر بے انیس
 ایسی صور ت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی جگہ ان میں سے ایک کا ذکر آئے اور دوسرے کا نام نہ لیا جائے۔ قدیم تذکرہ نگاروں سے لے کر آج تک کے ناقدین میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہوجس نے مرثیہ نگاری پر کچھ لکھا ہوا اور ان دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ نہ کیا ہو۔ لیکن ان کی معاصرانہ چشمک اور ان کے شاگردوں کی ادبی معرکہ آرائیوں کا ذکر ہر جگہ ملتا ہے۔
شبلی کی موازنہ انیس و دبیر:۔
 مولانا شبلی نعمانی کے جادو نگار قلم نے ”موازنہ انیس دبیر“ کے ذریعے میرانیس اور مرزا دبیر کے درمیان ایسی حدفاضل قائم کر دی کہ ہمارے علمی ادبی حلقوں میں میرانیس کو مرزا دبیر سے بہتر مرثیہ نگار سمجھا جانے لگا۔ اوریہی مولانا شبلی کا مقصود تھا۔ لیکن بعض لوگ شبلی کے طرز تنقید سے مطمئن نہ ہوئے ان کے خیال میں شبلی نے موازنہ انیس و دبیر میں دبیر کے ساتھ ذیادتی کی ہے اور ان کا پلہ نیچا کرنے کے لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر میرانیس کی خوبیاں اور ان کی خامیاں گنوائی ہیں۔ چنانچہ شبلی کے جوا ب میں چودھری سید النظیر الحسن نے ایک معرکتہ آرا کتاب ”المیزان “ کے نام سے شبلی کی زندگی میں شائع کی ۔ اور اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مرزا دبیر بہ حیثیت مرثیہ نگار میر انیس سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ نظیر الحسن نے کلام دبیر کے بہت سے ایسے محاسن ہمیشہ کے لئے اجاگر کر دئیے جو مولانا شبلی کے اثر سے دب گئے تھے۔ لیکن ان کی کتاب موازنہ کا جواب نہ دے سکی۔

منگل, فروری 21, 2012

آنگن

  اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں خدیجہ مستور کا نام بے حد اہمیت کا حامل ہے ۔ یوں تو ان کے ناولوں اور افسانوی مجموعوں کی تعداد سات ہے ۔ مگر ان کا ناول ’ آنگن ہی اس قدر توانا ثابت ہواکہ اس نے ان کے نام کو زندہ جاوید کر دیا ۔ نہ صرف یہ کہ یہ ناول ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہے گا بلکہ اس کے خالق کی حیثیت سے خدیجہ مستور کا نام بھی اردو ادب میں اپنا مقام بنا چکا ہے ۔ آنگن ‘ پر انہیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی انعام ’ آدم جی پرائز ‘ بھی ملا ۔ اس ناول میں خدیجہ مستور کا فن اپنے عروج پرنظرآتا ہے ۔ انہوں نے کئی سماجی ، تہذیبی ، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی تحریکوں کاجائزہ لیا ہے اور ان کا ماہرانہ تجزیہ پیش کیا ہے ۔ اس ناول کے بعد ہی ان کا شما رایک سنجیدہ اور گہری سوچ رکھنے والی تخلیق کار کی حیثیت سے ہونے لگا تھا کیونکہ ’ آنگن ‘ صرف ایک گھر کا آنگن نہیں پورے معاشرے کا آنگن ہے جس کا پر تو ہر دور میں نظر آتا ہے ۔

فنی جائزہ
فنی لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے ”آنگن “ کی کردار نگاری ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ ناول بہت سے کرداروں پر مشتمل ہے۔ ان کرداروں میں ایسے کردار بھی ہیں، جو شروع سے لے کر آخر تک قدم قدم پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے نہ صرف ایک دوسرے کے قدموں ، بلکہ اپنے قدموں کی آہٹیں بھی سنتے چلے جاتے ہیں لیکن آہٹوں کی اس معیت میں بھی ہر کردار اپنی جگہ تنہا اور بے یار و مدگار دکھائی دیتا ہے۔ کچھ ایسے کردار بھی ہیں جو پل بھر کے لئے رونما ہوتے ہیں او رپھر ناول کی دنیا سے غائب ہو جاتے ہیں۔ عالیہ کے والد مظہر چچا، تہمینہ باجی ، عالیہ ، چھمی ، اماں ، صفدر بھائی ، بڑ ے چچا ، بڑی چچی ، جمیل بھائی ، کریمن بواء، شکیل ، اسرار میاں ، ظفر چچا اماں کے بھائی ، اور انگریز بھابی اس ناول کے دائمی کردار ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک ناول کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتے پھرتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ رائے صاحب ، کسم دیدی ، شیام ، شیام کے والدین ، تھانیدار کا بیٹا منظور صفدر بھائی کی ماں سلمیٰ ، بڑے چچا کی بیٹی ، ڈیم پھول کہنے والا انگریز افسرمسز ہاروڈ ، نجمہ اور دادی اماں آنگن کے ضمنی کردار ہیں۔ سب سے پہلے ہم چند اہم اور بڑے کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں،

جمعرات, جنوری 26, 2012

دبیر کی مرثیہ گوئی

                        مرزا سلامت علی دیبر اُردو مرثیہ کی تاریخ کا ایک اہم اور بڑا نام ہے۔ صنف مرثیہ کو بام عروج پر پہنچانے میں میرانیس کے ساتھ ساتھ ان کی کوشش بھی ہر لحاظ سے قابل ِ داد ہیں ۔ مرزا دبیر نے چونکہ عربی اور فارسی علم و ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اور دوسرے حساس طبیعت کے باعث وہ سنجیدہ ہوگئے تھے اس لئے انہیں شعر و سخن کی سلطنت میں یک گونہ عافیت کا احساس ہوا، شاعری سے انہیں فطری لگائو پیداہوگیا تھا۔ اور پھر شاید اپنی جنم بھومی دہلی کی تباہی اور دیگر عوامل کے حوالے سے انہوں نے بھی مرثیہ گوئی اختیار کر لی ۔ ویسے بھی اس عہد میں اقلیم غزل میں اس قدر شعراءکی فراوانی اور کثرت تھی کہ محض توانا اور جاندار غزلیہ شاعری پنپ سکتی تھی اس پر مستزاد یہ ہے کہ وہ دور غالب جیسے سورج کا دور تھا۔ جس میں ماہ و انجم ماند پڑ جاتے چھوٹے موٹے چراغ کچھ بھی نہ تھے۔ البتہ مرثیہ نگاری میں ابھی ہر طرح کی وسعت کی پوری پوری گنجائش موجود تھی۔ اس لئے اپنی موزونی  طبع اور حالات کے مطابق مرزدبیر نے مرثےہ نگاری کے میدان کو اپنی شاعری کے لئے چنا۔ اور اسی میں اپنے جوہر دکھانے شروع کئے۔ مرزا دبیر نے اپنے مرثیہ نگاری کے اس ذوق کی آبیاری اور اُستادانہ رہنمائی کی خاطر اس عہد کے ایک شاعر میر ضمیر کی شاگردی اختیار کی ۔ اور اپنے نام کے ساتھ ساتھ استاد کا نام امر کیا۔ اسی عہد میں لکھنو میں علم و ادب اور شعر و سخن کی محفل میں مر ثیہ ایک بلند مقام اور تاثیر پیدا کر چکا تھا۔ اور بلا مبالغہ برسو ں تک لکھنوکی مرثیہ کی شاعری مرزا دبیر ہی کے گرد احاطہ کئے ہوئے تھی بعد میں میر انیس نے بھی اس فن میں اپنی اُستادانہ جوہر دکھاکر دبیر کے شانہ بشانہ مرثیہ کی وہ قصر تعمیر کی جس کے قمقموں سے آج اردو ادب جگمگ جگمک کر رہا ہے۔ مرزا دبیرکی شہرت و منزلت عالم ِ شباب ہی میں اتنی عام ہو چکی تھی کہ شاہ اودھ غازی الدین حیدر نے ان کو شاہی امام باڑے میں دعوت دی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف خلیق ، ضمیر ، دلگیر اور فصیح وغیرہ کا طوطی بول رہا تھا ان کا کہنہ مشق اساتذہ کی موجودگی میں نوجوان دبیر کی شاہی مجلس پڑھنا اس کے فنی کمال کی دلیل ہے۔ جس پر مرزا نو عمری میں فائز ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر سید ناظر حسین زیدی دبیر کے متعلق لکھتے ہیں،
” دبیر کے کلام کا خاص جوہر زورِ بیان ، شوکتِ الفاظ ، بلند تخیل ، ایجاز مضامین اور صنائع کا استعمال ہے۔ تخیل کی بلند پروازی ، علمی اصطلاحات ، عربی فقروں کی تضمین اور ایجاز مضامین کے زور میں وہ بے مثل ہیں یہ ان کی خاص مملکت ہے۔“