پیر, فروری 11, 2013

حلقہ اربابِ ذوق

حلقہ ارباب ذوق اردو ادب کی سب سے فعال تحریکوں میں سے ایک ہے جو کہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔
بقول یونس جاوید:
” حلقہ اربابِ ذوق پاکستان کا سب سے پرانا ادبی ادارہ ہے یہ مسلسل کئی برسوں سے اپنی ہفتہ وار مٹینگیں باقاعدگی سے کرتا رہا ہے۔ جنگ کا زمانہ ہویا امن کا دور اس کی کارکردگی میں کبھی فرق نہیں آیا“
ایک اور جگہ یونس جاوید لکھتے ہیں:
” حلقہ اربابِ ذوق ایک آزاد ادبی جمہوری ادارہ ہے اور بحیثیت تنظیم اس کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہیں۔“
بقول سجاد باقر رضوی:
” حلقہ اربابِ ذوق ایک مدت مدید سے ادبی خدمات کرتا چلا آیا ہے۔ ادیبوں کی یہ جماعت ملک کی وہ جماعت ہے جو ادب اور ثقافت کو پروان چڑھاتی رہی ہے۔“
ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک طوفانی تحریک تھی اس تحریک نے بلاشبہ خارجی زندگی کا عمل تیز کر دیا تھا چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک ایسی تحریک بھی مائل بہ عمل نظرآتی ہے جس نے نہ صرف خارج کو بلکہ انسان کے داخل میں بھی جھانک کر دیکھا جس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق “ ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بلعموم ایک دوسرے ی ضد قرار دیا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ داخلیت اور مادیت و روحانیت کی بناءپر ان دونوں میں واضح اختلاف موجود ہے۔ ترقی پسندوں نے اجتماعیت پر زور دیا جبکہ حلقے والوں نے انسان کو اپنے شخصیت کی طرف متوجہ کیا ، ایک کا عمل بلاواسطہ خارجی اور ہنگامی تھا جبکہ دوسری کا بلاواسطہ داخلی اور آہستہ ہے۔
آغاز
29 اپریل 1939ءکو سید نصیر احمد جامعی نے اپنے دوستوں کو جمع کیا جن میں نسیم حجازی ، تابش صدیقی ، محمد فاضل وغیرہ شامل ہیں اور ایک ادبی محفل منعقد کی نسیم حجازی نے اس میں ایک افسانہ پڑھا اور اس پر باتیں ہوئیں اس کے بعد اس محفل کو جاری رکھنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا اور رسمی طور پر اس کا نام ” مجلس داستان گویاں‘’ رکھ دیا گیا بعد میں اس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق “ رکھ دیا گیا۔
اغراض و مقاصد
قیوم نظر نے اپنے انٹرویو میں اس تحریک کے جو اغراض و مقاصد بیان کئے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
*1 اردو زبان کی ترویج و اشاعت
*2 نوجوان لکھنے والوں کی تعلیم و تفریح
*3 اردو لکھنے والوں کے حقوق کی حفاظت
*4 اردو ادب و صحافت کے ناسازگار ماحول کو صاف کرنا
ادوار:۔
*1 ابتداءسے میراجی کی شمولیت تک ( اپریل 1939ءسے اگست 1930ءتک
*2 میراجی کی شمولیت سے اردو شاعری پر تنقید کے اجراءتک (اگست 1940ءسے دسمبر 1940ءتک
*3 دسمبر 1940ءسے 1947ءمیں قیام پاکستان تک *4 1948ءسے مارچ 1967ءمیں حلقے کی تقسیم تک *5 مارچ 1967ءسے زمانہ حال 1976ءتک

ہفتہ, فروری 02, 2013

دل دادۂ بیدلؔ

گذشتہ صدیوں میں اردو شاعری نے تین عالم گیر اور لازوال آوازوں کو جنم دیا میری مراد اٹھارویں صدی کے میرؔ ، انیسویں کے غالبؔؔ اور بیسویں کے اقبالؔ سے ہے ۔ ہم نے تہذیبی و ثقافتی اور علمی و ادبی سطح پر اِن قدآور شعراء کو تو یاد رکھا جن کی حیثیت بر صغیر کی اسلامی  تہذیب و تاریخ میں برگ و ثمر کی تھی لیکن 1835ء میں فارسی زبان کی انگریز کے ہاتھوں سرکاری بے دخلی اور 1857ء کے سیاسی زوال کے بعد رفتہ رفتہ اُن شخصیات کو فراموش کرتے چلے گئے جن کے فکر و فن سے نہ صر ف میرؔ و غالبؔ اور اقبالؔ جیسے بلکہ بے شمار دیگر شاعروں اور ادیبوں نے بھی اپنے فکر و فن کے چراغ روشن کیے تھے اور جن کی حیثیت برصغیر کی مسلم تہذیب اور ثقافت میں اساس و بنیاد کی تھی ۔ ایسی عبقری اور رجحان ساز شخصیات میں سے ایک مرزا عبدالقادر بیدل ؔ (1667ء۔ 1720ء)  بھی  تھے ۔برصغیر میں مغل دورِ حکومت کے عہدِ عروج کے بہت بڑے صوفی ، مفکر اور فن کار شاعر اور نثر نگار تھے۔ ادبی حلقوں میں ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ بیدلؔ کی اردو میں شناخت کا تمام تر دارومدار غالبؔ کے اس شعر کی وجہ سے ہے :
طرزِ بیدلؔ میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خان قیامت ہے
یہ حقیقت کا اُدھورا رُخ ہے ۔ حقیقت کی مکمل تصویر ہمارے سامنے لاہور کے ’’ادارۂ ثقافت ِ اسلامیہ ‘‘ سے حال ہی میں قرطبہ یونیورسٹی کے جواں سال ایم فل اسکالر اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں کے شعبۂ اردو کے اُستاد شوکت محمود کی شائع ہونے والی تحقیقی کاوش ’’ قلزمِ فیض میرزا بیدلؔ‘‘ کے مطالعے کے بعد ہمارے سامنے آشکار ہوئی جس میں فاضل مؤلف نے اپنے انیس صفحاتی تحقیقی مقدمے کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی نہایت کامیاب کوشش کی ہے کہ اردو میں مرزا عبدالقادر بیدل ؔ کی خصوصاً گذشتہ سو سالوں میں اپنی قائم بالذات شناخت نہ صرف موجود رہی ہے بلکہ آئندہ موجود رہنے کے امکانات بھی موجود ہیں ۔ شوکت محمود نے اس مؤ قف کے اثبات کے لیے بیسویں اور اکیسویں صدی میں بیدلؔ کی سوانح و شخصیت اور فکر و فن پہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے مختلف شہروں سے مختلف اوقات میں تواتر کے ساتھ شائع ہونے والی نہایت وقیع و معتبر تفہیمی ، تنقیدی اور تحقیقی کتب کی سن وار ارتقائی فہرست پیش کی ہے جو بیدل ؔ سے اُن کی دلی عقیدت اور تحقیقی محبت کی غمازی کرتی ہے ۔ ’’قلزمِ فیض میرزا بیدلؔ‘‘ کے عرق ریزی سے لکھے گئے اس تحقیقی مقدے کے بالا ستعیاب مطالعے سے درج ذیل تین اُمور پہ روشنی پڑتی ہے:
    الف) 1835ء میں انگریز کے ہاتھوں فارسی کی سرکاری و عدالتی بے دخلی کے نتیجے میں فارسی زبان و ادب کی روز افزوں بے وقعتی کے باوصف فارسی شعر و ادب کے پڑھنے لکھنے کا ذوق ہندو پاک کے مسلمانوں میں تاحال کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے ۔
    ب) ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے مسلمان اپنی اسلامی تہذیبی اور ثقافت کی ترویج و تحفظ سے قطعاً غافل نہیں ہیں۔
    ج) بیدل نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ وفات کے بعد بھی اپنی پر کشش شخصیت ، اعلیٰ اخلاقی کردار ، قلبی صوفیانہ میلان ، عمیق فلسفیانہ فکر اور نو بنو فنی جہات کے باعث فارسی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی محققین اور قارئین کا ایک سنجیدہ حلقہ پیدا کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔
بیدلؔ کی سوانح و شخصیت ، فکر و فن اور منثور و منظوم ترجمے پر تو کتابیں اردو میں شائع ہوتی  ہی رہتی ہیں اردو میں چونکہ بیدلؔ سے عقیدت رکھنے والے محققین اور قارئین کا ایک طبقہ ( محدود ہی سہی ) موجود ہے ۔ اس لیے فوری ضرورت اس امر کی تھی کہ اردو زبان اور شعر و ادب کی معتبر اور مقتدر شخصیات کے قلم سے پچھلے سو سالوں میں بیدلؔ پہ لکھے گئے نادر و وقیع مضامین و مقالات کو مختلف رسائل و جرائد سے ڈھونڈ کر تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا جاتا اور پھر بیدلؔ کی سوانح و شخصیت ، فکر و فن اور غالبؔ و اقبالؔ کے ساتھ اُن کے موازنے و تقابل کے عنوانات کی روشنی میں مرتب کرکے شائع کر دیا جاتا تاکہ اردو میں بیدلؔ شناسی کی جھلملاتی شمع وقت اور زمانے کی شاہراہ پر سے گزرنے والے اردو اور فارسی کا کلاسیکی ذوق رکھنے والے سیاحوں کی تاریخ ، تہذیب ، ثقافت اور فکر و فن ایسی بے شمار منزلوں کا سراغ دکھا سکتے ۔ شوکت محمود نے ’’ قلزمِ فیض میرزا بیدلؔ ‘‘ کے عنوان سے مولانا محمد حسین آزاد ، سید سلیمان ندوی ، مولانا غلام رسول مہرؔ ، ڈاکٹر عبدا لغنی ، ڈاکٹر جمیل جالبی ، نعیم حامد علی الحامد ، مجنوں گورکھپوری ، ڈاکٹر سید عبداللہ ، ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی ، پروفیسر حمید احمد خان اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کے بیدلؔ کی سوانح و شخصیت ، فکر و فن اور موازنے و تقابل پہ مبنی ایسے ہی گیارہ نہایت وقیع اور گراں قدر مضامین و مقالات کو کتب و رسائل سے نکال کر ایک جلد میں جمع کرکے یہ کمی کسی حد تک پوری کرنے کی طرف پہلا قدم بڑھایا ہے کیونکہ بقول اُن کے یہ منصوبہ کئی جلدوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچے گا ۔ اُمید ہے قارئین ِ اردو و فارسی ادب اس تحقیقی کاوش کا خیر مقدم کریں گے اور مؤلف سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ تحقیق و دریافت کے اس سلسلے کی مزید جلدوں پر اپنا کام جاری رکھیں گے۔
    جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا کہ ’’ قلزمِ فیض میرزا بیدلؔ ‘‘ پنجاب کے قدیم تحقیقی دارے ’’ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، 2 کلب روڈ ، لاہور ‘‘ سے شائع ہوئی ہے اور اس کی قیمت صرف ۔/350 روپے ہے۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...