صفحات

بدھ, اپریل 29, 2009

میں

میرانشاہ میں ڈرون حملہ ۔ مرنے والوں میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں۔تمام مارے جانے والے لوگ پاکستانی تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں عورتیں اور بچے شامل ہیں
آج سوات میں سڑک کنارے ایک لاش ملی جس کے ساتھ ایک رقعہ پڑا ہوا تھا۔ رقعہ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ یہ شخص جاسوس ہے اور تین دن تک اس کی لاش یہیں پڑی رہنے دی جائے اور اگر کسی نے اس کو اٹھانے کی جرات کی تو اس کا بھی یہی حشر ہوگا۔
کرک سے ایک دکاندار کا اغوا۔ پچاس لاکھ تاوان کا مطالبہ
آج بنوں میں ایک نوجوان دکاندار کو فوجی کانوائے نے میرانشاہ سے بنوں جاتے ہوئے گولی سے اڑا دیا۔ نوجوان سڑک کے کنارے بیٹھا پکوڑے بیچ رہا تھا۔
بونیر میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کئی گولے عام لوگوں کے گھروں پر گرے کئی ہلاکتوں کا خدشہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو! آج کل ذرائع ابلاغ میں اس قسم کی خبریں آپ کو عام نظر آئیں گی۔ ان تمام خبروں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے میں۔ یعنی ان خبروں میں مرنے والا ہر شخص میں ہوں۔ یعنی ایک عام آدمی۔ جسے یہ معلوم نہیں کہ اسے کیوں مارا جارہا ہے۔ اور اس کے خون کا حساب کون دے گا۔
صوبہ سرحد میں بسنے والے عوام کے لیے فرار کا کوئی راستہ موجود نہیں جسا کہ ان خبروں سے آپ کو پتہ چل چکا ہوگا۔ یہاں کا عام آدمی اگر طالبان کا ساتھ دیتا ہے تو اس کے گھر کو ڈرون طیاروں سے امریکہ اڑا دے گا۔ اگر وہ حکومت کا ساتھ دیتا ہے تو اس کی لاش کسی چوراہے پر سڑتے ہوئے ملے گی۔ اور اگر وہ غیر جانبدار رہتا ہے تو بھی فرار ممکن نہیں یا تو فوجی کانوائے اسے گولی سے اڑا دے گی۔ یا پھر طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کے دوران اس کے گھر پر ایک گولہ گرے گا۔ اس کے علاوہ حکومت اور طالبان کی آپسی لڑائی کی وجہ سے عام آدمی جرائم پیشہ افراد کے لیے ایک تر نوالہ بن چکا ہے۔ کیونکہ پولیس خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتی وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کیا کرے گی۔ اس طرح جب چاہے جہاں چاہے کسی بھی عام آدمی کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور تاوان نہ ملنے کی صورت میں اس شخص قتل کر دیا جاتا ہے۔
اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ ایسی حالت میں جہاں میری عزت جان و مال کو شدید خطرہ ہے۔ جہاں میرا اور میرے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے میں کیا کروں کہاں جاؤں۔

ابن انشاء’’اردو کی آخری کتاب‘‘۔

اردو ادب میں مزاحیہ اور طنزیہ ادب لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ صرف نام گنوانے کے لئے ہی کئی صفحات چاہئیں۔ اس فہرست میں ایک چمکتا ہوا نام ”ابن انشاء“ کا ہے ابن انشاءادب مزاح کی گراں قدر مالا کا وہ خوبصورت موتی ہے۔ جو موزنیت اور مناسبت کے لحاظ سے ہر رنگ میں اپنا جواب آپ ہیں ۔ اس نگینے سے نکلنے والی چمک خواہ شاعری میں ہو ، خواہ نثر میں ہر جگہ منفرد اور نمایاں ہے۔بقول محمد اختر صاحب
ابن انشاءایک قدرتی مزاح نگار ہے جتنا زیادہ وہ لکھتا ہے اس کا اسلوب نکھرتا جاتا ہے۔
دور جدید کے عظیم مزاح نگار ”مشتاق احمد یوسفی “ ابن انشاءکے بارے میں لکھتے ہیں
بچھو کا کاٹا روتا ہے اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے انشاءجی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔
ابن انشاءاردو ادب میں ایک رومانی شاعر، ایک حساس کالم نویس، سفرنامہ نگاراور طنز و مزاح کے حوالے سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں ۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ خود فنکار ادب میں ایک سے زائد اصناف میں کام کرتے ہیں تو اُن کی تخلیقی قوت منتشر ہو جاتی ہے لیکن ابن انشاءکا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ہر صنف ادب میںاپنا لوہا منوایا ہے اگرچہ اپنے اظہار کے لئے انہوں نے کئی میدانوں کا انتخاب کیا ۔اور یہی وجہ ہے کہ ان کا دل شاعر ہے اور دماغ بہترین نثرنگار ۔اُن کے سفرنامے ”چلتے ہو تو چین کو چلیے ،”دنیا گو ل ہے“، ”آوارہ گرد کی ڈائری“ ، ”ابن بطوطہ کے تعاقب میں “ ، طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب کے حامل ہیں ۔ لیکن ان دو کتابوں کومکمل طور پر مزاح کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں ۔ ایک ”اردو کی آخری کتا ب“ اور دوسری ”خمار گندم“ ۔آئیے اُن کی کتاب ”اردو کی آخری کتاب “ کا جائزہ لیتے ہیں۔

اتوار, اپریل 26, 2009

مشتاق احمد یوسفی ’’چراغ تلے‘‘۔

اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں مشتاق احمد یوسفی کا فن توجہ اور سنجیدہ توجہ کا حامل ہے ۔ کیونکہ ان کافن محض وقت گزاری کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔بقول احسن فاروقی،
وہ مزاح کو محض حماقت نہیں سمجھتے اور نہ محض حماقت ہی سمجھ کو پیش کرتے ہیں بلکہ اُسے زندگی کی اہم حقیقت شمار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کے مطابق
ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔
ابن انشاءبھی مشتاق یوسفی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
اگر مزاحیہ ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کر سکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کا نام ہے
ہربڑ افنکار اپنے عہد کے لئے نئے پیمانے متعین کرتا ہے اور پہلے سے موجودہ روایت کی ازسرنو تشکیل کرتا ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بڑا ادب خود کسوٹی بن جاتا ہے۔ اور اس کسوٹی پر بعد میں آنے والوں کی تخلیقات کو پرکھا جاتا ہے۔ بلا شبہ یوسفی اپنے عہد کی ایک ایسی ہی کسوٹی ہے۔ جس میں نہ صرف یہ کہ پہلے سے موجود روایت جمع روایات جمع ہو گئی ہیں بلکہ جدید اسلوب سے انہو ں نے اس کی خوبصورت تشکیل بھی کی ہے۔ انھوں نے ”چراغ تلے“ ،”خاکم بدہن“ ، ”زرگزشت“ کی صورت میں اردو ادب کو مزا ح کے بہترین نمونوں سے نوازا۔
اپنے ان تخلیقات میں یوسفی اول سے آخر تک لوگوں سے پیار کرنے والے فنکار نظر آتے ہیں اور اس سے بڑھ کر ایک تخلیق کار کی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ جھنجلاہٹ میں مبتلا نہیں ہوتا ۔ بلکہ ہنس ہنس کر اور ہنسا کر زندگی کو گلے لگاتا ہے۔ اس طرح وہ زندگی کو نئے زاویہ نظر سے دیکھتا بھی ہے اور قاری کو بھی دکھاتا ہے۔ لیکن صرف ہنسنے اور ہنسانے کا عمل مزاح نگاری نہیں کہلاتا ۔ اس کے لئے لہجے کی ظرافت، عظمت خیال اور کلاسیکی رچائو کے ساتھ مہذب جملوں کی ضرورت ہے۔ اگر مزاحیہ ادب کی روایت کو بغور دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مزاح نگاری نے وقت کی آواز بن کر سچا کردار ادا کیا ہے۔ مرزا غالب ، فرحت اللہ بیگ ، رشید احمد صدیقی ، پطرس بخاری ، مجید لاہوری، کرنل محمدخان ، شفیق الرحمن اور ابن انشاءوغیر ہ کی تخلیقات میں معاشرے کی ناہمواریوں کا پہلو کبھی نظر انداز نہیں ہوا۔ یوسفی بھی اس صف میں نظر آتے ہیں۔ کہ انہوں نے مزاحیہ نثر میں بدنظمی کا شائبہ تک پیدا نہیں ہونے دیا۔

ہفتہ, اپریل 25, 2009

”خطوط ِ غالب“

مرزا اسد اللہ خان غالب کی شخصیت کو کون نہیں جانتا ۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیت شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان ذد خلائق ہیں۔ اور بحیثیت نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی ، انشاءپردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین ۔ یہی نمونہ نثر آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے ۔ انہوں نے اپنے خطوط کے ذریعہ سے اردو نثر میں ایک نئے موڑ کا اضافہ کیا۔ اور آنے والے مصنفین کو طرز تحریر میں سلاست روانی اور برجستگی سکھائی ۔ البتہ مرزا غالب کے مخصوص اسلوب کو آج تک ان کی طرح کوئی نہ نبھا سکا۔ غالب کے خطوط آج بھی ندرت کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔
غالب نے فرسودہ روایات کو ٹھوکر مار کر وہ جدتیں پیدا کیں جنہوں نے اردو خطو ط نویسی کو فرسودہ راستے سے ہٹا کر فنی معراج پر پہنچا دیا۔ غالب کے خطوط میں تین بڑی خصوصیات پائی جاتی ہیں اول یہ کہ انہوں پرتکلف خطوط نویسی کے مقابلے میں بے تکلف خطوط نویسی شروع کی۔ دوسری یہ کہ انہوں نے خطوط نویسی میں اسٹائل اور طریق اظہار کے مختلف راستے پیدا کئے ۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے خطو ط نویسی کو ادب بنا دیا۔ اُن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ”محمد شاہی روشوں “ کو ترک کرکے خطوط نویسی میں بے تکلفی کو رواج دیا اور القاب و آداب و تکلفا ت کے تمام لوازمات کو ختم کر ڈالا۔

جمعہ, اپریل 24, 2009

بیگم اختر ریاض الدین” سات سمندر پار“

محمود نظامی نے نئے سفر نامے کے لئے جو راہیں کھولیں ان پر سب سے پہلے بیگم اختر ریاض الدین نے قدم رکھا ۔ اردو ادب میں خواتین لکھاریوں کی شروع ہی سے کمی رہی ہے۔ سفر نامے میں یہ تعداد قلیل ہے۔ نازلی رفیہ سلطانہ بیگم کا سفر نامہ”سیر یورپ“ اوررفیہ فیضی ” کا زمانہ تحصیل “ ایسے ابتدائی سفر نامے ہیں جو ان خطوط پر مشتمل ہیں جو انھوں نے سفر کے دوران اپنے عزیزوں کو لکھے ۔ چنانچہ ان سفر ناموں کو سفرنامنے کی ایک تکنیک تو کہا جا سکتا ہے لیکن مکمل سفر نامے نہیں کھلائے جا سکتے ۔ ایسی قلت کے دور میں بیگم اختر ریاض الدین کا سفر نامہ” سات سمندر پار “ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔
بیگم صاحبہ 15 اکتوبر 1928کو کلکتہ میں پیداہوئی ۔ لاہور سے بی ۔ اے کیا ۔ اور 1951ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی میں انہوں نے تدریسی شعبے کا انتخاب کیا وہ انگریزی روزنامچہ ”پاکستان ٹائمز “ کی باقاعدہ لکھاری رہی ہیں۔ لیکن مولانا صلاح الدین کے بے حد اصرار پر اردو میں بھی طبع آزمائی کی جو بے حد کامیاب ثابت ہوئی۔ مولانا کی فرمائش اور اصرار پر ہی انہوں نے 1963ءمیں ”ٹوکیو“، ”ماسکو“، ” لینن گراڈ“ ، ”قاہرہ“ ، ” نیپلز“ ، ”لندن“ اور ”نیویارک“ کے سفر پر مبنی پہلا سفر نامہ ، ”سات سمندر پار“ کے نا م سے لکھا ۔ ان کا دوسرا سفر نامہ ”دھنک پر قدم “ ہے جسے آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بیگم صاحبہ کا شمار ان گنے چنے سفرنامہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہیں فطرت کے حسن کوکاغذ پر اتارنے کا فن آتا ہے ۔ ان کے سفر ناموں مےں نشونما، رنگینی ، اور لطافت کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ آئیے ”سات سمندر پار“ کے حوالے سے اُن کے کام کا جائزہ لیتے ہیں۔

جمعرات, اپریل 23, 2009

غبارِ خاطر

سوچا کہ بلاگ کے عنوان کے متعلق کچھ بات ہو جائے۔ دراصل غبار خاطر کا عنوان سب سے پہلی مرتبہ میر عظمت اللہ بے خبر بلگرامی نے اپنے رسالہ کے لیے استعمال کیا۔ جو کہ صوفی ، شاعر اور حقائق گو تھے۔
مپرس تاچہ نوشت ست کلک قاصر ما
خطِ غبارِ من ست ایں غبار خاطر ما
ترجمہ:مت پوچھ کہ ہمارے قلم فرومایہ نے کیا کچھ لکھ ڈالا، یہ تو ہمارے دل کا غبار تھا جس نے ان شکستہ حروف کی شکل اختیار کر لی۔
اس کے بعد عبدالکلام آزاد نے اپنے نجی خطوط کے مجموعے کا نام غبارِ خاطر رکھا یہ خطوط مولانا نے قلعہ احمد نگر سے اپنی اسیری کے دوران اپنے دوست کو لکھے۔اردو ادب میں آج یہ مجموعہ ایک کلاسک کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کتاب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب ممتاز اورنامور ادیب اعصابی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں تو ’’غبارِ خاطر‘‘ کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں اور پھر ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں کیف و سرور ہے ، جذب و سوز ہے اور فرحت و شگفتگی ہے۔ مولانا کی اسی کتاب سے متاثر ہو کر میں نے اپنے بلاگ کا نام غبارِ خاطر رکھا ہے۔

بدھ, اپریل 22, 2009

منٹو

لوگ بدک اٹھے اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا تو ایک ادیب نے منٹو سے کہا
لاہور کے کچھ سرکردہ بھنگیوں نے ارباب عدالت سے شکایت کی ہے کہ آپ نےایک افسانہ ’’بو‘‘ لکھا جس کی بدبو دور دور تک پھیل گئی ہے۔
منٹو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
کوئی بات نہیں میں ایک افسانہ فینائل لکھ کر ان کی شکایت رفع کردوں گا۔
منٹو صاحب سے جب احمد ندیم قاسمی کا کیریکٹر سکیچ لکھنے کی فرمائش کی گئی تو وہ اداس ہو کر نہایت بجھے بجھے لہجہ میں کہنے لگے۔
قاسمی کا سکیچ۔۔۔۔۔۔وہ بھی کوئی آدمی ہے جتنے صفحے چاہو سیاہ کر ڈالوں لیکن بار بار مجھے یہی جملہ لکھنا پرے گا
قاسمی شریف آدمی ہے
عبدالمجید بھٹی نے منٹو کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے نہایت انکسار سے کہا۔
منٹو صاحب !میں نے ایک ناول لکھا ہے قاسمی صاحب کو سنا رہا ہوں بیٹھیے آپ بھی سنیے
منٹو نے کھڑے کھڑے تلملاتے ہوئے جواب دیا ۔
لاحول ولا میں اور تمہارا ناول سنوں ؟ تم بھی عجیب ہونق انسان ہو کیا مجھے بھی قاسمی کی طرح کوئی بزدل اور شریف آدمی سمجھ لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجی چھوڑیے ا وپندر ناتھ اشک کی بات ، آپ بھی بھی کس دوذخی کا ذکرلے بیٹھے ، بیحد بخیل ہے بنیاء سنیے! خوب یا د آیااور اس تمہید کے بعد منٹو نے کہنا شروع کیا۔
کم بخت نے ایک بلی پال رکھی ہے جی ہاں بلی! صبح سویرے اسے اڑوس پڑوس کے گھروں میں بھیج دیتے ہیں ، اور وہ شطو نگڑی بھی کہیں نہ کہیں سے آنکھ بجا کر دودھ پی کر جب واپس آتی ہے تو اشک صاحب اسے الٹا لٹکا کر اس کے پیٹ سے سب دودھ باہر نکال لیتے ہیں اور پھر اسی دودھ کی چائے بنا کر پیتے ہیں، جی ہاں بالکل سچ کہہ رہا ہوں ، رتی بھر مبالغہ نہیں ، نہیں صاحب ! سنی سنائی نہیں آنکھوں دیکھی بات ہے میں خود ان کے ہاں اس دودھ کی چائے پی چکا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منٹو کا انتقال ہوا تو راشد لاہور ہی میں تھا چند روز بعد چھٹی گزارنے کے لیے پشاور آیا میں اس سے ملنے چودھری محمد اقبال کے یہاں جارہا تھا جہاں وہ مقیم تھا ۔۔۔میزبان اور مہان صدر سے پیدل آرہے تھے ۔ وہ مجھے پشاور کلب کے سامنے مال روڈ کے چوراہے پر ملے ۔ راشد ٹھیٹ مشرقی انداز میں مجھ سے بغل گیر ہوا۔’’منٹو نوں ٹور سٹیا جے‘‘ راشد مجھے کوئی چار سال کے بعد ملا تھا ۔ چار سال کی خاموشی کے بعد یہ اس کا پہلا جملہ تھا ۔ ان الفاظ اور اس لہجہ کا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن کچھ یوں سمجھ لیجیے جیسے وہ مجھ سےخطاب کرتے ہوئے سارے معاشرہ سے کہہ رہا ہے کہ آخر تم نے اسے مار کے ہی دم لیا۔ (ابو سعید قریشی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہا جی ۔ منٹو مر گیا؟
ظ۔ انصاری نے آہستہ سے کہا ہاں بھائی اور پھر اپنی بحث شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔۔
کوچوان دھیرے سے اپنا تانگہ چلاتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن موری گیٹ کے پاس اس نے اپنے تانگے کو روک لیا ۔ اور ہماری طرف گھوم کر بولا! صاحب : آپ لوگ کوئی دوسرا ٹانگہ کرایئے میں آگے نہیں جاؤں گا۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سے رقت تھی۔
پیشتر اس کے کہ ہم کچھ کہتے وہ ہماری طرف دیکھے بغیر اپنے تانگے سے اترا اور سیدھا سامنے کی بار میں چلاگیا۔(کرشن چندر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منٹو نے بچپن ہی میں اپنا گھر چھوڑ دیا تھا اور اپنے لیے نئی راہ تلاش کرنا شروع کر دی تھی۔ علی گڑھ ، لاہور ، امرتسر ، ممبئی، دہلی ان مقامات نے منٹو کی زندگی کے مختلف رنگ دیکھے ہیں ۔۔۔روسی ادب کا پرستار منٹو ، چینی ادب کا شیدا منٹو ، تلخی اور یاسیت کا شکار منٹو ، گمنام منٹو، بدنام منٹو ، بھٹیار خانوں ، شراب خانوں اور قحبہ خانوں میں جانے والا منٹو اور پھر گھریلو منٹو ترشی اورتلخی کو مٹھاس میں سمونے والا منٹو اردو ادب کا مصروف ترین ادیب منٹو ان مقامات نے منٹو کو ہر رنگ میں دیکھا ہے اور منٹو نے بھی ان مقامات کو خوب دیکھا ہے، منٹو نے زندگی کے مشاہدے میں اپنے آپ کو ایک مومی شمع کی طرح پگھلایا وہ اردو ادب کا واحد شنکر ہے جس نے زندگی کے زہر کو خود گھول کر پیا ہے اور پھر اس کے ذائقے کو، اس کے رنگ کو کھول کھول کے بیان کیا ہے لوگ بدکتے ہیں ڈرتے ہیں مگر اس کے مشاہدے کی حقیقت اور اس کے ادراک کی سچائی سے انکار نہیں کر سکتے زہر کھانے سے اگر شنکر کا گلا نیلا ہوگیا تھا تو منٹو نے بھی صحت گنوالی ہے اس کی زندگی انجکشنوں کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے یہ زہر منٹو ہی پی سکتا تھا اور کوئی دوسرا ہوتا تو اس کا دماغ چل جاتا مگر منٹو کے دماغ نے زہر کو بھی ہضم کر لیا ہے ان درویشوں کی طرح جو پہلے گانجے سے شروع کرتے ہیں اور آخر میں سنکھیا کھانے لگتے ہیں ، اور سانپوں سے اپنی زبان ڈسوانے لگتے ہیں، منٹو کے ادب کی تیزی و تندی اور اس کی زبان کی نشتر زنی اس امر کی آئینہ داری کرتی ہے کہ منٹو کا فقر آخری منزل پر پہنچ چکا ہے۔ (کرشن چندر 1948)۔

منگل, اپریل 21, 2009

نظام عدل

ضلع سوات میں نظام عدل کے نفاذ پر مختلف حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون پاکستان کے آئین کے خلاف ہے اور اس طرح سے انتہا پسندوں سے معاہدہ دراصل ان قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے مترادف ہے۔ ان معترضین میں جو مشترک بات مجھے نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان سب کا تعلق صوبہ سرحد سے نہیں۔ اس لیے کراچی ، اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر صرف تجزیہ کرنا آسان ہے برعکس اس کے ان لوگوں کی رائے بالکل مختلف ہو سکتی ہے جو خود یہاں کے حالات سے متاثر ہو رہےہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ کو اب کئی سال ہوگئے ہیں۔ ان سالوں میں صوبہ سرحد کے عام آدمی کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہر وقت عدم تحفظ کا احساس شکار یہ عوام اب صرف اور صرف امن کی خواہش مند ہے خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ نظام عدل سے یہاں کے تعلیم یافتہ طبقے کو لاکھ تحفظات صحیح لیکن سب لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے ذریعے سے سوات میں امن بحال ہوا۔ اس لیے نظام عدل کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کا قائم رہنا اشد ضروری ہے۔
اس کے علاوہ تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ وفاقی حکومت کے مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قانون اور معاہدے کی وجہ سے انتہا پسند مزید طاقتور ہوں گے۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ ایک سال کے فوجی اپریشن کے دوران اس انتشار پر قابو پانے میں آپ کی فوج ناکام رہی اس لیے اس معاہدےکے سوا ہمارے پاس کوئی چاراہی نہیں تھا۔ اس لیے عام لوگوں کی نظر میں اس معاہدے کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور سب کی خواہش ہے کہ یہ معاہدہ چل سکے ۔ کیوں کہ پاکستانی حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں۔ معاہدے کی ناکامی کی صورت میں ایک بہت بڑی تباہی کا خدشہ ہے جس میں عام عوام کے پسے جانے کا اندیشہ بہت زیادہ ہے۔
عالمی سطح پر بھی اس معاہدے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جارہا ۔ خصوصی طور پر امریکہ کا خیال ہےکہ دہشت گردی کے خلاف ان کی جاری جنگ کو اس معاہدے سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ دوسروں کی جنگیں لڑ کر خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ امریکہ کے ان تمام اعتراضات میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان بڑا خوش آئند ہے کہ امریکہ کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہم اپنے ملک کے حالات کو ان سے بہتر جانتے ہیں۔