لوگ بدک اٹھے اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا تو ایک ادیب نے منٹو سے کہا
لاہور کے کچھ سرکردہ بھنگیوں نے ارباب عدالت سے شکایت کی ہے کہ آپ نےایک افسانہ ’’بو‘‘ لکھا جس کی بدبو دور دور تک پھیل گئی ہے۔
منٹو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
کوئی بات نہیں میں ایک افسانہ فینائل لکھ کر ان کی شکایت رفع کردوں گا۔
منٹو صاحب سے جب احمد ندیم قاسمی کا کیریکٹر سکیچ لکھنے کی فرمائش کی گئی تو وہ اداس ہو کر نہایت بجھے بجھے لہجہ میں کہنے لگے۔
قاسمی کا سکیچ۔۔۔۔۔۔وہ بھی کوئی آدمی ہے جتنے صفحے چاہو سیاہ کر ڈالوں لیکن بار بار مجھے یہی جملہ لکھنا پرے گا
قاسمی شریف آدمی ہے
عبدالمجید بھٹی نے منٹو کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے نہایت انکسار سے کہا۔
منٹو صاحب !میں نے ایک ناول لکھا ہے قاسمی صاحب کو سنا رہا ہوں بیٹھیے آپ بھی سنیے
منٹو نے کھڑے کھڑے تلملاتے ہوئے جواب دیا ۔
لاحول ولا میں اور تمہارا ناول سنوں ؟ تم بھی عجیب ہونق انسان ہو کیا مجھے بھی قاسمی کی طرح کوئی بزدل اور شریف آدمی سمجھ لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجی چھوڑیے ا وپندر ناتھ اشک کی بات ، آپ بھی بھی کس دوذخی کا ذکرلے بیٹھے ، بیحد بخیل ہے بنیاء سنیے! خوب یا د آیااور اس تمہید کے بعد منٹو نے کہنا شروع کیا۔
کم بخت نے ایک بلی پال رکھی ہے جی ہاں بلی! صبح سویرے اسے اڑوس پڑوس کے گھروں میں بھیج دیتے ہیں ، اور وہ شطو نگڑی بھی کہیں نہ کہیں سے آنکھ بجا کر دودھ پی کر جب واپس آتی ہے تو اشک صاحب اسے الٹا لٹکا کر اس کے پیٹ سے سب دودھ باہر نکال لیتے ہیں اور پھر اسی دودھ کی چائے بنا کر پیتے ہیں، جی ہاں بالکل سچ کہہ رہا ہوں ، رتی بھر مبالغہ نہیں ، نہیں صاحب ! سنی سنائی نہیں آنکھوں دیکھی بات ہے میں خود ان کے ہاں اس دودھ کی چائے پی چکا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منٹو کا انتقال ہوا تو راشد لاہور ہی میں تھا چند روز بعد چھٹی گزارنے کے لیے پشاور آیا میں اس سے ملنے چودھری محمد اقبال کے یہاں جارہا تھا جہاں وہ مقیم تھا ۔۔۔میزبان اور مہان صدر سے پیدل آرہے تھے ۔ وہ مجھے پشاور کلب کے سامنے مال روڈ کے چوراہے پر ملے ۔ راشد ٹھیٹ مشرقی انداز میں مجھ سے بغل گیر ہوا۔’’منٹو نوں ٹور سٹیا جے‘‘ راشد مجھے کوئی چار سال کے بعد ملا تھا ۔ چار سال کی خاموشی کے بعد یہ اس کا پہلا جملہ تھا ۔ ان الفاظ اور اس لہجہ کا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن کچھ یوں سمجھ لیجیے جیسے وہ مجھ سےخطاب کرتے ہوئے سارے معاشرہ سے کہہ رہا ہے کہ آخر تم نے اسے مار کے ہی دم لیا۔ (ابو سعید قریشی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہا جی ۔ منٹو مر گیا؟
ظ۔ انصاری نے آہستہ سے کہا ہاں بھائی اور پھر اپنی بحث شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔۔
کوچوان دھیرے سے اپنا تانگہ چلاتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن موری گیٹ کے پاس اس نے اپنے تانگے کو روک لیا ۔ اور ہماری طرف گھوم کر بولا! صاحب : آپ لوگ کوئی دوسرا ٹانگہ کرایئے میں آگے نہیں جاؤں گا۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سے رقت تھی۔
پیشتر اس کے کہ ہم کچھ کہتے وہ ہماری طرف دیکھے بغیر اپنے تانگے سے اترا اور سیدھا سامنے کی بار میں چلاگیا۔(کرشن چندر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منٹو نے بچپن ہی میں اپنا گھر چھوڑ دیا تھا اور اپنے لیے نئی راہ تلاش کرنا شروع کر دی تھی۔ علی گڑھ ، لاہور ، امرتسر ، ممبئی، دہلی ان مقامات نے منٹو کی زندگی کے مختلف رنگ دیکھے ہیں ۔۔۔روسی ادب کا پرستار منٹو ، چینی ادب کا شیدا منٹو ، تلخی اور یاسیت کا شکار منٹو ، گمنام منٹو، بدنام منٹو ، بھٹیار خانوں ، شراب خانوں اور قحبہ خانوں میں جانے والا منٹو اور پھر گھریلو منٹو ترشی اورتلخی کو مٹھاس میں سمونے والا منٹو اردو ادب کا مصروف ترین ادیب منٹو ان مقامات نے منٹو کو ہر رنگ میں دیکھا ہے اور منٹو نے بھی ان مقامات کو خوب دیکھا ہے، منٹو نے زندگی کے مشاہدے میں اپنے آپ کو ایک مومی شمع کی طرح پگھلایا وہ اردو ادب کا واحد شنکر ہے جس نے زندگی کے زہر کو خود گھول کر پیا ہے اور پھر اس کے ذائقے کو، اس کے رنگ کو کھول کھول کے بیان کیا ہے لوگ بدکتے ہیں ڈرتے ہیں مگر اس کے مشاہدے کی حقیقت اور اس کے ادراک کی سچائی سے انکار نہیں کر سکتے زہر کھانے سے اگر شنکر کا گلا نیلا ہوگیا تھا تو منٹو نے بھی صحت گنوالی ہے اس کی زندگی انجکشنوں کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے یہ زہر منٹو ہی پی سکتا تھا اور کوئی دوسرا ہوتا تو اس کا دماغ چل جاتا مگر منٹو کے دماغ نے زہر کو بھی ہضم کر لیا ہے ان درویشوں کی طرح جو پہلے گانجے سے شروع کرتے ہیں اور آخر میں سنکھیا کھانے لگتے ہیں ، اور سانپوں سے اپنی زبان ڈسوانے لگتے ہیں، منٹو کے ادب کی تیزی و تندی اور اس کی زبان کی نشتر زنی اس امر کی آئینہ داری کرتی ہے کہ منٹو کا فقر آخری منزل پر پہنچ چکا ہے۔ (کرشن چندر 1948)۔