صفحات

ہفتہ, مارچ 21, 2009

منٹو مغربی استعمار کے خلاف ایک توانا آواز

آج تک بیشتر نقادوں کی نظر میں سعادت حسن منٹو صحت مند جنسی اور نفسیاتی شعور رکھنے والا افسانہ نگار ہے۔ ۔ کبھی کبھار تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے نقادوں نے انھیں جنس اور نفسیات جیسے انفرادی اور داخلی رجحانات تک محدود کردیا ہے۔ حالانکہ انھوں نے خارجی اور اجتماعی موضوعات کو بھی اپنی تحریروں میں جگہ دی ہے۔ دوسرے ترقی پسند مصنفین کے مقابلے میں انہوں نے ہنگامی موضوعات کے بجائے آفاقی اور بین الاقوامی مسائل کو اپنی فکر کا حصہ بنایا۔ منٹو نے تیسرے دنیا کے فرد کی آواز بن کر مغربی استعمار کی اس سوچ کی نشاندہی کی جس نے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے سے لاکھوں ذہنوں کی آزادی سلب کرکے انھیں جینے کے بنیادی حق سے محروم کر دیا تھا۔ ان کا ابتدائی افسانہ تماشہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جس میں ان استعماری قوتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اپنے مفاد کی خاط تیسری دنیا کے اقوام کی آزادی کو سلب کرکے اپنے مزموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے انھیں غلامی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ اس افسانے میں موجود بادشاہ کا کردار اس مگربی استحصالی اور استعماری قوت کی علامت ہے جن نے انسانی سوچ پر پہرے لگا دئیے ہیں اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو وہ بے دردی سے کچل دیتا ہے۔ حامد کے باپ کی صورت میں تیسری دنیا کے عوام کی اجتماعی بے حسی کا بھی ذکر ہے جو کہ ان تمام مظالم کے باجود حالات سے سمجھوتہ کیے بیٹھے ہیں۔

اس حوالے سے ان کا ایک اور نمائددہ افسانہ نیا قانون ہے۔ جس کو صرف ہندوستان کے حالات تک محدود کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ منگو کوچوان دراصل غلامی میں پسنے والی ہر قوم کا ترجمان ہے۔ جو کہ آزادی کی آزاد فضاء میں سانس لینے کا خواہش مند ہے۔ جس کے اپنے کچھ خواب ہیں۔ انسانیت کے خواب ، آزادی کے خواب ، امن کے خواب ، محبت کے خواب لیکن انگریز کی صورت میں موجود مغربی استعمار اس کے ان خوابوں کو کچل کر جینے کے بنیادی حق سے بھی محروم کر رہا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے لگا۔ صدیوں سے محکوم قوموں نے آزادی کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ۔ ایسے دور میں جب ان استحصالی قوتوں کو مشرقی اقوام پر براہ راست حکومت کرنا ناممکن نظر آنے لگا تو انہوں نے انہیں آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن صدیوں تک نوآبادیاتی نظام ک نتیجے میں پلنے والے زخم اب ناسور بن چکے تھے ۔ لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی نے بھائی کو بھائی کادشمن بنا دیا تھا ۔اس کےعلاوہ مغربی قوتوں نے اپنے مفادات کی خاطر غلام ملکوں کی نئی جغرافیائی حد بندیوں کی سازششیں شروع کردیں۔ یوں ان جغرافیائی حد بندیوں نے ایک نئے المیے کو جنم دیا جس میں صدیوں سے پھلنے پھولنے والی مشترکہ تہذیبیں جل کر راکھ ہو گئیں ۔ اور بھائی نے بھائی کا خون بہانا شروع کر دیا۔ منٹو کا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی اسی تناظر میں لکھی گئی تحریر ہے۔ جس میں علامتی پیرائے میں ان تمام حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کون سے ایسے عوامل تھے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے دشمن ہوئے ہم نے ایک دوسرے کے گلے کاٹے اور ہجرت جیسے عظیم المیے نے جنم لیا۔ جس کے اثرات سالوں گزرنے کے باوجود ذہنوں پر نقش ہیں۔
اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد نہ صرف ان استعماری قوتوں کا قبلہ تبدیل ہوا بلکہ ان کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی رونما ہوئی ۔ اب ان قوتوں نے امن ، جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ایک نئے انداز میں اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اب تیسری دنیا کے غریب ممالک پر براہ راست حکومت کرنے کے بجائے انھیں آپس میں الجھا کر نہ صرف کمزور بنایا گیا بلکہ ان کی معیشتوں اور وسائل پر قبضہ جما کر ان کی نسلوں کو مقروض بنا دیا گیا۔ ان ممالک پر آمریتوں کو مسلط کرکے عام عوام کی آواز کو دبا دیا گیا ۔ اور ہر اس نظام کی بیخ کنی کی گئی جو کہ عوام میں ن استعماری قوتوں کے خلاف شعور پیدا کرکے انھیں نام نہاد آزادی سے اصل آزادی کی طرف لے جا سکے۔ کوریا کی جنگ اور ویت نام کی جنگیں اسی مقصد کے لیے لڑی گئیں تاکہ ان قوتوں کے خلاف اٹھائی جانے والی مزاحمتی آواز کو دبایا جا سکے۔ سعادت حسن منٹو اردو کا وہ پہلا ادیب ہے جس نے اپنی تحریروں کے ذریعے استعمار کی اس نئے روپ کی نشاندہی کی۔ ان کے انکل سام کے نام لکھے گئے خطوط میں دراصل ’’انکل سام‘‘ اسی نئی استحصالی قوت کی علامت ہے۔ جس کے بہروپ نے آج تک دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ انکل سام کے نام تیسرے خط میں امن کے ان نام نہاد شیدایوں کے بہروپ سے منٹو کچھ اس طرح پردہ اٹھاتے ہیں۔
آپ نے خیر کئی نیک کام کیے ہیں اور بدستور کیے جارہے ہیں آپ نے ہیروشیما کو صفحہ ہستی سے نابود کیا ناگاساکی کو دھوئیں اور گردوغبار میں تبدیل کر دیا اس کے ساتھ ساتھ آپ نے جاپان میں لاکھوں امریکی بچے پیدا کیے۔
چچا کے سام کے نام پانچویں خط میں لکھتے ہیں۔
اگر آپ نے دنیا میں امن قائم کردیا تو دنیا کتنی چھوٹی ہو جائے گی۔ میرا مطلب ہے کتنے ملک صفحہ ہستی سے نابود ہوں گے ۔۔۔۔۔ میری بھتیجی سکول میں پڑھتی ہے کل مجھ سے دنیا کا نقشہ بنانے کو کہہ رہی تھی میں نے اس سے کہا ۔ ابھی نہیں پہلے مجھے چچا جان سے بات کر لینے دو ۔ ان سے پوچھ لوں کون سا ملک رہے گا کون سا نہیں رہے گا۔ پھر بنا دوں گا۔
آج دنیا میں موجود تمام باہمی جھگڑوں اور جنگوں کے پس پردہ انہی قوتوں کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے ۔ افریقہ اور ایشیاء کے کتنے ہی علاقائی مسائل کو ہوا دے کر انہوں نے اپنی اسلحے کی فروخت کو یقینی بنایا ۔ یعنی بنیادی انسانی حقوق کی علمبردار قوتوں نے خود انسانوں میں کس طرح سے موت تقسیم کی۔ اس کے بارے میں سعادت حسن منٹو انکل سام کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔
آپ پاکستان اور ہندوستان میں جنگ شروع کرا دیجیے ۔ کوریا کی جنگ کے فائدے اس جنگ کے فائدوں کے سامنے ماند پڑ گئے تو میں آپ کا بھتیجا نہیں ۔ قبلہ ذرا سوچیے ، یہ جنگ کتنی منفعت بخش ہوگی آپ کے تمام اسلحہ ساز کارخانے ڈبل شفت میں کام کرنے لگیں گے۔ بھارت بھی آپ سے ہتھیار خریدے گا اور پاکستان بھی۔ آپ کی پانچوں گھی میں ہوں گی اور سر کڑاہے میں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو ایک بہت بڑا فنکار تھا ۔ وہ نہ صرف انسانی نفسیات کا نباض تھا بلکہ اعلیٰ سیاسی شعور بھی رکھتا تھاجس کی نظر صرف اپنے دور پر محیط نہیں تھی بلکہ وہ مستقبل میں بھی جھانک سکتا تھا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے یہ الفاظ آج کے دور میں لکھے گئے کسی باشعور فرد کی تحریر ہیں۔
ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑی معرکے کی چیز ہے اس پر قائم رہیے گا۔ ادھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کر لیجیے دونوں کو پرانے ہتھیار پھیجیے کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیار کنڈم کر دئیے ہوں گے جو آپ نے پچھلی جنگ میں استعمال کئے تھے۔ آپ کا فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے گا اور آپ کے کارخانے بیکار نہیں رہے گے۔

1 تبصرہ:

  1. آج ہی یہ بلاگ دیکھا
    غلطی معاف کہ پہلے حاضری نہیں دے سکا
    کل ان شاءاللہ بلاگ پڑھ کر تفصیلی تبصرے کروں گا
    جب تک کے لئے اجازت
    اور ہاں بلاگ کی مبارک باد بھی تو قبولیں
    :)
    مزید یہ کہ کیا ہی اچھا ہو اگر آپ تبصروں کے لئے
    Name/URL
    کا آپشن بھی این ایبل کر دیں

    جواب دیںحذف کریں