صفحات

جمعہ, مئی 15, 2009

دجلہ

شفیق الرحمن کی کتاب دجلہ سے کچھ اقتباسات پیش کر رہاہوں۔ یہ کتاب میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔ شفیق الرحمن کا شگفتگہ اسلوب اس کتاب کی پسندیدگی کی بنیادی وجہ ہے۔ ان کے اسی اسلوب کی جھلک آپ کو ان اقتباسات میں بھی نظر آئے گی۔

ثانیہ نے عینک اتار دی اور ایک اور لبادہ بھی۔ اب وہ کہیں بہتر لگ رہی تھی۔
یہ بتائیے کہ آپ تاریخ اسی طرح پڑھتی ہیں؟ میں نے اسے چھیڑا۔
تو اور کس طرح پڑھتے ہیں؟
آپ جغرافیہ بھی ساتھ ملا لیتی ہیں۔ ناپ ، لمبائی ، چوڑائی ، بلندی وغیرہ ۔۔۔یہ سب کچھ جغرافیے میں ہوتا ہے۔ تاریخ کو کسی اور زاویے سے لینا چاہیے۔ اس میں طرح طرح کے موڑ آتے ہیں۔ مثلاً اب مجھ سے کہا جائے کہ آنسہ ثانیہ کا جغرافیہ بیان کرو، تو میں کہوں گا کہ ثانیہ کا قد پانچ فٹ چارانچ کے لگ بھگ ہے۔ وزن نو سٹون ہوگا۔ بے شمار رومال سکارف ہٹا دئیے جائیں تو خوش شکل ہے۔ انگریزی بولتی ہے۔ لیکن اگر تاریخ بیان کی جائے تو پھر ثانیہ کی سبز آنکھوں کا بھی ذکر ہوگا جو مصر میں نہیں ہوتیں۔ بالوں کی سنہری جھلک کا حوالہ بھی دیا جائے گا ۔ اور یہ کہ اس کا نام ثانیہ نہیں اوّلہ ہونا چاہیے۔ یہ بھی کہا جائے گا کہ ثانیہ بیت النیل ہے۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک کسی کے جغرافیے میں جاذبیت نہ ہو اس کی تاریخ دلچسپ نہیں ہوسکتی۔۔۔وہ مسکرانے لگی۔(ص: 25)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اتوار کو پروگرام بنا کہ چل کر دیکھیں تو سہی کہ کہاں جاتے ہی۔
لاری سے دوسرے پہاڑ پر پہنچے ۔ وہاں چند ہم عمر مل گئے جنہیں چاء پر مدعو کیا۔ اگلے اتوار کو وہ آئے تو بڑی عالمانہ اور کارآمد گفتگو ہوئی۔ کئی انٹلکچول موضوع زیر بحث رہے۔ مثلا۔۔۔۔معاشرتی اصلاحات ، شاعری کی پرانی قدریں اور لڑکیاں۔۔۔۔کاشت کاری میں مشینوں کی اہمیت، لڑکیاں اور مغرب میں جذباتیت کا زوال ۔۔۔۔داستان حاجی بابا اصفہانی ، لڑکیاں اور مشرق میں جذباتیت کا عروج۔۔۔۔لڑکیاں، برنارڈشا اور لڑکیاں۔۔۔۔۔۔
پھر انہوں نے بلایا ، ایک آسیب زدہ سی عمارت میں جہاں کبھی اچھے وقتوں میں کلب ہوا کرتا تھا۔ ہال میں داخل ہوتے ہی لڑکیوں کی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئے۔۔۔۔دہنے ، بائیں ، سامنے جدھر نظر جاتی لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔
کچھ دیر میں جب کیمپ کی مسلسل تنہائی کا اثر کم ہوا او رانہیں گنا تو لڑکیاں صرف چھ نکلیں۔(ص:50)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر کوئی پوچھ بیٹھا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں۔۔۔؟
شادی کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جوانی جہان گردی اور فیلڈ سروس کی نذر ہوگئی۔ ادھیڑ عمر کا ہوا تو پھر خیال چھوڑ دیا۔ دراصل محبت فقط نوعمروں کے لیے ہے۔ اس عمر میں ہر چیز خوامخواہ رنگین معلوم ہوتی ہے۔ ہر جذبے میں بے ساختگی ہوتی ہے اور بلا کا خلوص۔ محبوب ایک دفعہ مسکرا دے تو ہفتے مہینے خوشی خوشی گزر جاتے ہیں اور یقین ہو جاتا ہے کہ امتحان میں ضرور کامیابی ہوگی، مالی حالت بہتر ہو جائے گی ، دوست دشمن سب مہربان ہو جائیں گے اور محبوب کی بے رخی سے سب تہس نہس ہو جائے گا۔ آئرلینڈ کی وہ جھلمل جھلمل کرتی ندیاں ، وہ لہلہاتے کھیت ، شادب کنج گھنے جنگل مجھے اب تک یاد ہیں۔ اگرچہ ان لڑکیوں کے نام اور چہرے یاد نہیں جو ان دنوں میرے ساتھ ہوا کرتیں ۔ پتہ ہی نہیں چلتاتھا کہ کب بادل آئے تھے اور کب بوندیں تھم گئیں۔ غروبِ آفتاب کے بعد اتنی جلدی چاند کیسے نکل آیا۔۔۔ذرا دیر پہلے گھپ اندھیرا تھا، دفعتاً یہ روشنی کہاں سے آگئی۔ وہ جگمگاتی صبحیں۔۔۔۔وہ رنگین شامیں ۔۔۔۔وہ مستی کے شب و روز۔۔۔۔محبت کی اصلی عمر وہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد دکھاوا ہے۔ اگرچہ میں شادی کے قضیے سے بالکل مبرا ہوں اور تم لڑکوں کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اپنی کمر پر زین نہ کسوانا لیکن اگر خدانخواستہ کبھی پھنسنے لگو تو جذبات کے دھارے میں مت بہہ جانا۔ ایسا چہرہ چننا جس کی کشش اور دلربائی دیرپا ہو۔ شاید تم نہیں جانتے کہ گزرتے ہوئے ایام چہروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اورمحض دس پندہ سال کا وفقہ چہروں میں کیسی کیسی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ (ص:208)۔

5 تبصرے:

  1. دجلہ شفیق الرحمان کی بہترین کتب میں سے ہے بلکہ شاید سب سے بہتر کتاب ہے۔ ایک عرصہ تک یہ میری پسندیدہ کتاب رہی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. گزشتہ دنوں کسی ساتھی نے شفیق الرحمن کے مجموعے کی فرمائش کر دی۔ اردو بازار میں دو جلدوں پر ان کا مجموعہ تھا۔ انتہائی سادہ طباعت کوئی خاص نہیں لیکن قیمت دیکھ کر بجلی کا جھٹکا لگا۔ دو مجموعوں کی کل قیمت ڈھائی ہزار روپے تھی جبکہ اس سے کہیں زيادہ اچھی طباعت کی حامل کتب نصف قیمتوں میں دستیاب تھیں۔ اللہ ناشرین کو کچھ توفیق دے کہ وہ اس عظیم ورثے کو ہم سے مزید قریب کریں۔ بہرحال لینا ضرور تھا اس لیے ایک جلد پر اکتفا کیا۔ میرے زیر مطالعہ تو نہیں لیکن کبھی موقع ملا تو ضرور پڑھوں گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. محترم یہی تو رونا ہے۔ اردو ادب کی تمام بہترین کتابیں سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپی ہیں اور ان کی قیمت دیکھ کر نانی یاد آجاتی ہے۔ زمین رہن رکھنے کے بعد ہی کوئی ان کتابوں کو خرید سکتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں