صفحات

جمعہ, جون 12, 2009

میرا شہر

کل میں تقریباً گیارہ دن کے بعد اپنے شہر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں موجود ناکوں سے گزرنے کے بعد جب ہم بنوں پہنچے تو شہر سے باہر کئی خاندانوں کے قافلے نظر آئے جو حالات کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ کرفیو میں نرمی ایک بجے تک ہوگی مگر بارہ بجے دوبارہ کرفیو لگا دیاگیا۔ جب میں شہر کے اڈے میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ جس ہنستے بستے شہر کو میں دس دن پہلے چھوڑ کر گیا تھا یہ وہی شہر ہے۔ سڑکیں سنسان، اکا دکا پیدل چلنے والے نظر آئے جو کہ پولیس کی نظروں سے بچ کر گھروں کی طرف جارہے تھے۔ گھر جانے کا رسک میں نہیں لے سکتا تھا اس لیے اڈے سے متصل اپنے دوست نیاز انور کے گھر چلا گیا۔ وہاں پہنچتے ہی توپوں کی گن گرج شروع ہوئی۔ نیاز ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ تمہارے پہنچنے کی خوشی میں فوج تمہیں توپوں کی سلامی دے رہی ہے۔ شیلنگ کی آواز اتنی تیز تھی کہ ہوش اڑ گئے۔ نیاز کے بچے کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ نیاز نے بتایا کہ اب بچوں کو عادت ہوگئی ہے۔ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوجاتے ہیں پھر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد میں نے اپنے کزن کو فون کیا جو ون فائیو کی گاڑی لے کر آیا۔ گاڑی جب شہر میں داخل ہوئی تو مجھ سے یہ منظر دیکھا نہیں جارہا تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ شہر جس کی شاموں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ وہاں ہر چیز سنسان پڑی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے مردوں کا شہر ہے ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ گاڑی نے مجھے میرے محلے سے باہر اتار دیا۔ وہاں پر گلیوں میں کچھ چہل پہل موجود تھی۔ گھر پہنچ کر سکھ کا سانس لیا۔ مگر یہ سکھ کا لمحہ کچھ ہی دیر کے لیے تھا۔ ایک دفعہ پھر گولہ باری کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں یہ گولے کس پر برسائے جارہے ہیں۔ کون ہلاک ہو رہا ہے۔ حالات شاید مزید خراب ہوں مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ شہر میں کس طرح چھوڑ کر جاؤں گا جہاں ہماری نسلیں جوان ہوئیں۔ جہاں ہمارے آباؤ اجداد کی قبریں ہیں۔ اس شہر کو میں چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ پر جاؤں بھی تو کیسے جاؤں۔ اس وقت ذہن میں صرف ایک شعر بار بار گونج رہا ہے۔

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں

7 تبصرے:

  1. کيا يہ اپنی بقا کے لئے جنگ لڑی جا رہی ہے یا اپنے خاتمے کے لئے ؟
    زیادہ خیال مؤخرالذکر کی طرف جاتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ہم آپ کیلیے دعا گو ہیں۔ امید ہے حالات حاضرہ پر لکھتے رہیں گے اس طرح ہمیں آپ کی زبانی سچائی جاننے کا موقع ملتا رہے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بس ان عام لوگوں کے لیے دعا کریں جو کہ ایف آر کے علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں اللہ ان کو اپنے امان میں رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. مجھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے جانی خیل اور بقا خیل قبائل پر بمباری بغیر کسی تمیز کے کی جا رہی ہے۔ کوہاٹ کے ایف آر میں بھی کچھ دن پہلے ایسی کاروائی ہوئی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. بہت سی باتیں ذہن میں آتی ہیں
    ان دہشت گردوں کے پاس اتنا اسلحہ کیسے اور کہاں سے آیا؟
    جب یہ اسلحہ آرہا تھا تو ایجنسیاں دھتورہ پی کر سو رہی تھیں؟؟؟
    یا یہ بھی سب ڈرامہ ہے؟؟؟
    امریکیوں کو یہ دکھانے کے لئے کہ ”دیکھو! ہم تمہاری جنگ لڑنے کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں؟؟؟؟
    کیا ہے یہ۔۔۔ کوئی بتائے ۔۔۔ میرا تو دماغ کام نہیں‌کرتا۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. ہم دعا گو ہیں کہ اللہ آپ سمیت علاقے کے تمام لوگوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. اس جنگ کا ہم سے کوئی تعلق نہیں
    اور مجھے تو اب یہ بھی شک ہو ہاہ ےکہ طالبان نامی کچھ چیز تھی بھی یا نہیں؟
    کہیں ہماری حکومت نے اس کو بھی ایک ہوا بنا کر تو پیش نہیں کیا؟
    کہیں طالبان کے نام پر مزیز لوٹ کھسوٹ تو نہیں مچائی جا رہی؟
    کیونکہ ابھی تک طالبان نامی چیزوں پر کچھ برتری کی خبر تو آئی نہیں

    جواب دیںحذف کریں