صفحات

ہفتہ, اکتوبر 17, 2009

پھر وہی ہم ہیں وہی تیشۂ رسوائی ہے

کچھ دن خاموشی کے بعد اب پھر سے وہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ عید کے بعد کا موسم شادیوں کا موسم تھا جس نے شہر میں خوشیاں بھر دی تھیں۔ اور ہم تو جیسے بھول ہی گئے تھے کہ کبھی اتنے مشکل دن بھی اس شہر نے دیکھے ہیں۔ مگر اچانک رنگِ آسمان بدلا اور یوں شہر کی شامیں پھر سے ویران ہوگئیں ہیں۔ کل سے کرفیو کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس دفعہ تو حد یہ ہوگئی کہ تمام موبائل سروسز بلاک کر دی گئی ہیں یہ تو اچھا ہوا پی ٹی سی ایل کے کنکشن ابھی بحال ہیں جس کی وجہ سے دنیا سے رابطہ ہے ورنہ شاید شہر سے باہر ہمارے عزیزوں پر کیا گزرتی۔ مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ آپریشن جنوبی وزیرستان میں ہے اور کرفیو بنوں میں لگایا گیا ہے حالانکہ جنوبی وزیرستان کی سرحدیں ٹانک اور ڈی آئی خان سی ملتی ہیں۔ ویسے اس بات کا اندازہ تھا کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے اس لیے کہ کئی مہینوں سے ایسی زبردست تیاری ہو رہی تھی کہ یقین نہیں آ رہا تھا۔ میرے خیال میں اتنی تیاری تو ہماری فوج انڈیا کے خلاف بھی نہ کرتی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ فیصلہ کن ثابت ہوگی اور کس کے حق میں فیصلہ کن ہوگی۔ دنیا کے مشکل ترین محاذ پر فوج لڑنے جارہی ہے اور اس محاذ پر لڑائی اپنے لوگوں سے ہو رہی ہے۔

شاید جو آگ ہم نے دوسروں کے لیے لگائی تھی آج ہمارا دامن اسی میں جھلس رہا ہے۔ دوسروں کے گھروں پر کمند اچھالنے والوں کے اپنے گھر آج غیر محفوظ ہیں۔ ہم وہی قوم ہیں جس کا اپنا کوئی قومی مفاد نہیں جو کچھ ڈا لرز کے عوض چند لمحوں میں بندوق اٹھا کر جہاد کا اعلان کر سکتی ہے اور پھر جب عالمی طاقتوں کی ترجیحات بدلتی ہیں تو ہمارا قومی مفاد تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر جہادی اور شدت پسند ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ یہ دوسرا موقع ہے جب کسی اور کی جنگ کو ہماری جنگ بنا دیا گیا۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ کیا اس قوم کی اپنی سوچ بھی کہیں ہے جو اس کو اپنے فیصلے خود لینے کی قوت دے سکے۔ تو جواب ہمیشہ نفی میں آتا ہے۔

1 تبصرہ:

  1. ہم نے اپنا تبصرہ چھاپا تھا پتہ نہیں کدھر گیا۔
    لکھا یہی تھا کہ کوشش کیجیے گا آپ ہمیں تازہ صورتحال سے آگاہ کرتے رہیں۔
    آپ کی بات سے ہم اتفاق کرتے ہیں یعنی جو لوگ پہلے مجاہدین تھے اب دشمن بن چکے ہیں۔ ہمیں تو ان پر ترس آتا ہے۔ لیکن کیا کریں جب کوئی بیوفائی کرے تو اس کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں