صفحات

اتوار, مئی 08, 2011

غلام محمد قاصر کی ایک غزل


نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے

جبیں پہ آنے نہ دیتے تھے اک شکن بھی کبھی
اگرچہ دل میں ہزاروں ملال رکھتے تھے

خوشی اُسی کی ہمیشہ نظر میں رہتی تھی
اور اپنی قوتِ غم بھی بحال رکھتے تھے

بس اشتیاقِ تکلم میں بارہا ہم لوگ
جواب دل میں زبان پر سوال رکھتے تھے

اسی سے کرتے تھے ہم روز و شب کا اندازہ
زمیں پہ رہ کو سورج کی چال رکھتے تھے

جنوں کا جام محبت کی مے ، خرد کا خمار
ہمیں تھے وہ جو یہ سارے کمال رکھتے تھے

چھپا کے اپنی سسکتی سُلگتی سوچوں سے
محبتوں کے عروج و زوال رکھتے تھے

کچھ ان کا حسن بھی ماورا مثالوں سے
کچھ اپنا عشق بھی ہم بے مثال رکھتے تھے

خطا نہیں جو کھلے پھول راہِ صرصر میں
یہ جُرم ہے کہ وہ فکرِ مآل رکھتے تھے

1 تبصرہ: