صفحات

بدھ, مئی 11, 2011

تنقید

تنقید کیاہے
 تنقید عربی کا لفظ ہے جو نقد سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ” کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا “ ہے۔ اصطلاح میں اس کامطلب کسی ادیب یا شاعر کے فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ کرتے ہوئے اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنا ہے۔ خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کر کے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ شاعر یا ادیب نے موضوع کے لحاظ سے اپنی تخلیقی کاوش کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا ہے مختصراً فن تنقید وہ فن ہے جس میں کسی فنکار کے تخلیق کردہ ادب پارے پر اصول و ضوابط و قواعد اور حق و انصاف سے بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا جاتا ہے اور حق و باطل ، صحیح و غلط اور اچھے اور برے کے مابین ذاتی نظریات و اعتقادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرق واضح کیا جاتا ہے۔ اس پرکھ تول کی بدولت قارئین میں ذوق سلیم پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انگریزی میں Criticismکہتے ہیں۔ اس کا ماخذ یونانی لفظ Krinien ہے۔ویسے مختلف نقادوں نے اس کی مختلف تعریف و توصیحات کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں
 ١۔ کسی ادب پارے میں فن پارے کے خصائص اور ان کی نوعیت کا تعین کرنا نیز کسی نقاد کے عمل یا منصب یا وظیفہ ۔
  ٢۔تنقید کامل علم و بصیرت کے ساتھ اور موزوں اور مناسب طریقے سے کسی ادب پارے یا فن پارے کے محاسن و معائب کی قدر شناسی یا اس بارے میں فیصلہ صادر کرنا ہے۔
 ٣۔ تنقید اس عمل یا ذہنی حرکت کا نام ہے جو کسی شے یا ادب پارے کے بارے میں ان خصوصیات کا امتیاز کرے جو قیمت رکھتی ہے۔ بخلاف ان کے جن میں قیمت نہیں۔
 ٤۔ محدود معنوں میں تنقید کا مطلب کسی ادب پارے کی خوبیوں اور خامیوں کا مطالعہ ہے وسیع تر معنوں میں اس میں تنقید کے اصول قائم کرنا اور ان اصولوں کو تنقید کے لئے استعما ل کرنا بھی شامل ہے۔
٥۔تنقید کا کام کسی مصنف کے کام کاتجزیہ ، اس کی مدلل توضیح کے بعد اس کی جمالیاتی قدروں کے بارے میں فیصلہ صادر کرناہے۔
 ٧۔ سچی تنقید کا فرض ہے کہ وہ زمانہ قدیم کے عظیم فن کاروں کی بالترتیب درجہ بندی اور رتبہ شناسی کرے اور زمانہ جدید کی تخلیقات کا بھی امتحان کرے۔ بلند تر نوع تنقید یہ بھی ہے کہ نقاد کے انداز و اسلوب کا تجزیہ کرے اور ان  وسائل کی چھان بین کرے جن کی مدد سے شاعر اپنے ادراک و کشف کو اپنے قارئین تک پہنچاتا ہے۔٩۔ تنقید ،فکر کا وہ شعبہ ہے جو یا تو یہ دریافت کرتا ہے کہ شاعری کیا ہے؟ اس کے مناصب و وظائف اور فوائد کیا ہیں؟ یہ کن خواہشات کو تسکین پہنچاتی ہے؟ شاعر شاعر ی کیوں کرتاہے؟ اور لوگ اسے کیو ں پڑھتے ہیں؟ یا پھر یہ  اندازہ لگاتا ہے کہ کوئی شاعری یا نظم اچھی ہے یا بری۔

تنقید اور تخلیق کا رشتہ:۔
 تنقید اور تخلیق کے باہمی رشتے کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شاعر یا ادیب فن کی تخلیق سے پہلے کسی نہ کسی مفہوم میں ناقد ہوتا ہے۔ اسی طرح ناقد کو بھی تنقید سے پہلے فن پارے میں مضمر تاثرات و تجربات سے اسی طرح گزرنا ہوتا ہے جس طرح اس فن پارے کا خالق پہلے گزر چکا ہوتا ہے۔
  یعنی فنکار اپنے تجربات و تاثرات کے انتخاب اور ترتیب میں ناقدانہ عمل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں فن کی روایت اور تکنیک سے بھی اس کی واقفیت ضروری ہے، جس کے باعث وہ خود اپنے فن پر تنقیدی نظر ڈال سکتا ہے۔ جس طرح فن کی تخلیق سے پہلے فن کار اپنے مواد کے رد و قبول اور روایت فن کے بارے میں تنقیدی عمل سے گزرتا ہے اسی طرح فن کی تخلیق کے بعد بھی اسے ناقد بننا پڑتا ہے۔ وہ خود اپنے تخلیق کردہ فن پارے کو بہ حیثیت ناقد دیکھتا ہے۔ اس کے حسن و قبح پر نظر ڈالتا ہے، اس میں ترمیم و تنسیخ کرتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فن کی تخلیق سے پہلے اور فن کی تخلیق کے بعد تخلیقی فن کار ناقد کا رول ادا کرتا ہے۔
  ناقد کو بھی کچھ اسی قسم کی صورت حال درپیش ہوتی ہے۔ وہ تنقید کرنے سے پہلے کسی فن پارے کے مشاہدات و تخیلات ، تجربات و تاثرات سے اسی طرح گذرتا ہے جیسے فنکار گزرا تھا۔ وہ تخلیقی فن پارے کو اپنی ذات کا مکمل تجربہ بنا کر ہی اس کے حسن و قبح کا اندازہ کر سکتا ہے۔ کسی نظم کا تجزیہ کرنے سے پہلے وہ اسے اپنی ذات میں حل کر تا ہے۔ یہاں تک کہ فن کار کا تاثر اس کا اپنا تاثر اور فن کار کے جذبات اور احساسات اس کے اپنے جذبات اور احساسات بن جاتے ہیں۔ اس کے بغیر وہ فن پارے کی ہمدردانہ وضاحت نہیں کر سکتا ۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ناقد کو تخلیقی فن کار کی طرح مشاہدے اور تجربات کی وسعت اور جذبات کی شدت کا حامل ہونا چاہیے ورنہ وہ فن پارے کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گا۔ اور اس کے لئے وہ ہمہ وقت مطالعے اور مشاہدے سے اپنے ذوق کی تربیت کرتا ہے۔ وہ فن کا ر کی طرح فن کی روایت اور تکنیک سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ اور کم از کم ہر اچھے ناقد سے ہم ان تمام صلاحیتوں کا تقاضا کرتے ہیں۔
تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک اور رابطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مشعل راہ ہوتی ہیں۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ ان دونوں میں کسے اولیت ہے، اگر ہم ادب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ دونوں صلاحیتیں ایک دوسرے کے فروغ کے لئے ممدو معاو ن ہوتی ہیں۔
 تنقید ی اصول ہمیشہ فنی تخلیقات کی بنیاد پر استوار ہوتے اور عظیم فن پاروں سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ مگر ایک بار جب یہ اصول وضع کر لئے جاتے ہیں تو آیندہ فنی تخلیق کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنی کتاب بوطیقا میں فن کے جو اصول پیش کئے ہیں ، وہ اس نے یونان کے عظیم ڈرامہ نگاروں کو سامنے رکھ کروضع کئے تھے۔ لیکن ارسطو کی بوطیقا صدیوں تک تخلیق فن کے لئے مشعل راہ بنی رہی اور آج بھی مستند ہے۔ بسا اوقات اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ انگلستان میں سڈنی کی تنقید کے اخلاق اور اصلاحی پہلو سے متاثر ہو کر دور ِ ایلزبتھ کے مشہور شاعر سپنسر نے اپنی تمثیل فیری کوئین لکھی ۔
  ہمار ے اپنے ادب کے لئے آزاد کے لیکچر اورحالی کا مقدمہ اردو شاعری کی ایک انقلابی رو کی بنیاد ٹھہرے ۔ آزاد اورحالی نے اپنے تنقیدی تصورات کے ذریعے اردو شاعری میں موضوع اور تکنیک کے لئے نئے راستے ہموار کئے اور اس طرح ہماری زبان میں نئے شعری تجربات کی بنیاد ڈالی۔
 اس کے باوجود تنقیدجلد ہی ایک قسم کا تعصب بھی بن جاتی ہے ۔ معاشرے کے بندھے ٹکے اصولوں کی طرح یہ ہر فنی تخلیق کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں تخلیق ایک انقلابی رول ادا کرتی ہے۔ یعنی یہ تنقید کے پرانے اصولوں کو توڑ کر اپنے پرکھے جانے کے لئے نئے معیارات اور نئی کسوٹیاں بنواتی ہے۔ ورڈزورتھ اور ٹی ایس ایلیٹ کا جو اپنے زمانے کے عظیم نقاد اور عظیم شاعر مانے جاتے ہیں،کا یہ کہنا ہے کہ ہر عظیم فن پارہ اپنے تنقیدی اصولوں کو لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ ہم کسی ایسی تخلیق کوجو فی الوقعی نئی ہو اور ساتھ کسی عظمت کی حامل ہو تنقید کی پرانی کسوٹی پر پرکھ نہیں سکتے ۔ اس طرح ہمیں کسی عظیم شاعر کی عظمت دیکھنا ہو تو ہم اسے یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ آیاو ہ اپنے سے پہلے کے تنقیدی اصولوں میں ترمیم و تنسیخ کے لئے جواز پیدا کرتا ہے یا نہیں۔ ایسا شاعر جو اپنے زمانے کے تنقیدی اصولوں پر مکمل طور پر پورا اترے وہ اچھا شاعر توہو سکتا ہے عظیم شاعر نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس مقام پر ہمیں تھوڑا سا چوکنا ہو جانا چاہیے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہر ایسی تخلیق کو جو محض اچھنبھا پیدا کرے یا ادب کی دنیا میں خلفشار اور انتشار کا باعث ہو عظیم شاعری کے زمرے میں شمار کر رہے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی تخلیقات کو سرے سے فن پارہ ماننے سے انکار کر دیں اس لئے کہ تخلیق کے معنی بنانے کے ہیں ، بگاڑنے کے نہیں ، فن بنیادی طور پر تعمیری عمل ہے اور اس کا تخریب و انتشار سے کوئی تعلق نہیں۔
نقاد کا منصب یا فرائض:۔
 نقاد کے فرائض یا منصب مندرجہ زیل ہیں۔
تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم کرنا:۔
 نقاد فن پاروں کا مطالعہ کرکے تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تنقید کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ ادب کیا چیز ہے ؟ یہ زبان کی دوسری صورتوں اور اظہار و بیان کی دیگر قسموں سے کس طرح مختلف ہے؟ اور فنون لطیفہ میں اس کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ نقادکا کام چونکہ تجزیاتی ہوتا ہے اس لئے وہ ادب کی ماہیت معلوم کرنے کے لئے دیگر علوم سے بھی مدد لیتا ہے۔ ارسطو وہ پہلا نقاد ہے جس نے اپنی شہر آفاق کتاب ”بوطیقا“ کی شکل میں سب سے بڑا تنقیدی کارنامہ انجام دیا ہے اس نے فلسفیانہ انداز میں ادب کی ماہیت سے متعلق حقائق دریافت کئے ہیں۔ اور استقرائی طریق کار اختیار کرکے اکثر فن پاروں میں مشترک خصوصیات کی نشاندہی کی ہے۔ کولرج کے نزدیک بھی تنقید کا منصب فلسفیانہ ہے وہ کہتا ہے۔
” تنقید کا آخری مقصد دوسروں کی تخلیقات کا محاکمہ کرنا نہیں بلکہ تخلیقی ادب کے اصول دریافت کرنا ہے۔“
 اس منصب کے مطابق ایک نقاد فن کو معروضی نقط نظر سے دیکھ کر ایک سائنس دان کی طرح اس کے عناصر ترکیبی معلوم کرنے کی سعی کرتا ہے۔
فن کار کے لئے درس و ہدایت:۔
 تنقید فن کو سنوارتی ہے اور فنکار کی رہنمائی اور اصلاح کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔ نقاد اپنے تجربات سے فن کار میں تخلیق کا بہتر شعور اور فن سے دلچسپی رکھنے والوں کو متاثر کرکے ان میں صحیح مذاق پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نقاد چونکہ فن کی ترقی کا خواہاں ہوتا ہے اس لئے اس کی تنقید کا مقصد ہمیشہ مثبت اور تعمیر ی ہوتا ہے۔ وہ مصنف کی تضحیک نہیں اڑاتا اور نہ اس کی تصنیف کی بے قدری کرتا ہے بلکہ اسے فنکار سے ایک گونہ ہمدردی ہوتی ہے۔ وہ اس کی تخلیق کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے محاسن و معائب کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے اس کا مقصد فنکار کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ، رہنمائی اور اصلاح پیش نظر ہوتی ہے۔
تخلیقی تجربے کی باز آفرینی:۔
نقاد ایک لحاظ سے تخلیقی بھی ہوتا ہے اس کی تنقید میں فن کار کے تخلیقی تجربے اور عمل کی صدائے بازگشت ہوتی ہے۔ جب وہ کسی فن پارے کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے تو وہ صرف فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ ہی نہیں کرتا بلکہ اس میں یہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ قارئین بھی اس تخلیق سے بہرہ مند ہوں اور انہیں معلوم ہوجائے کہ مصنف نے اپنے فن پارے کو کن جذبات و احساسات اور حالات و واقعات کے تحت تخلیق و تشکیل کی صورت عطا کی ہے۔ کن الفاظ اور کس انداز سے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اور اسے اپنے مقصد میں کس حد تک کامیابی یا ناکامی ہوئی ہے۔ یہی احساس نقاد کو ایک گونہ مسرت بہم پہنچاتا ہے۔ اور وہ قارئین کو بھی اپنی مسرت میں شریک کرنے کی سعی کرتا ہے۔ بقول آرنلڈ،
” قوت تخلیق سے بہر مند ی کا احساس بڑا مسرت افزاءاور صحت بخش ہوتا ہے اور ایک کامیاب نقاد جو زندہ دل مصلح ہوتا ہے اس سے یقینا محروم نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے اس احساس مسرت میں دوسروں کو بھی شریک کر لیتا ہے۔“
 گویا نقاد فنکار کے خواب کی بھی تشریح و تعبیر بیان کرتا ہے اور کسی فن پارے کے تجزیہ سے حاصل شدہ تاثرات و تجربات سے صاحبان ذوق کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
تخلیق فن کے لئے سازگار فضا پید ا کرنا:۔
 بقول آرنلڈ نقاد کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ” اعلیٰ و ارفع افکار و خیالات حاصل کرکے ان کی ترویج و اشاعت کرے۔“ اس عمل سے وہ معاشرے میں ایسے عنصر پیدا کرنے میں کامیا ب ہو جائے گا۔ جو تخلیقی ذہن کو جلا بخش کر تخلیق فن کا موجب بنیں گے اور اس طرح معاشرے کے لئے درس و ہدایت کا سامان فراہم کرے گا جس سے معاشرے میں اچھی صحت مند روایات قائم ہو جائیں گی۔ اس طرح تنقید ادب معاشرتی اصطلاح کا ایک موثر ذریعہ بن جائے گی۔ اور نقاد کو ایک مصلح اور معلم اخلاق کا درجہ بھی حاصل ہو جائے گا جو والٹ وٹیمن کے نزدیک تنقید کی رفعت اور نقاد کا اعلیٰ و ارفع نصب العین ہے۔
فن پاروں کی تشریح و توضیح:۔
بقول ایلیٹ ”تنقید کا مقصد فن پاروں کی تشریح و توضیح کرنا ہے۔“ نقاد نقد و جرح کرتے وقت صرف کسی فن پارے کے محاسن و معائب ہی بیان نہیں کرتا بلکہ اس کی معنویت کو بھی اس طرح عیاں اور واضح کردیتا ہے کہ اس کی تفہیم میں قاری کو بڑی مدد ملتی ہے۔ اور وہ اس کی اثر انگیزی سے بڑا متاثر ہوتا ہے۔ اور یہی وہ فنی تاثر ہے جو نقاد کی کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔ کومز لکھتا ہے کہ
 ”ایک اچھا نقاد ، جہاں تک اس سے ہو سکتا ہے، اپنے سوچے سمجھے تاثر کو جو اس نے کسی مصنف کسی ڈرامے، کسی ناول ، کسی نظم، کسی مضمون وغیرہ سے حاصل کیا ہوتا ہے ممکن اور واضح طور پر ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اس طرح فن پارے کی اس تفہیم اور لطف اندوزی کے عمل میں مدد بہم پہنچاتا ہے جو اسے تجربے سے حاصل ہوتی ہے ، جو فن پارے کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور اس کی پرکھ تول کر کے ان عناصر کا انکشاف کرتا ہے جنہوں نے مل کر اس فن پارے کو مخصوص صفت عطا کی ہے۔“
            ڈیوڈ ڈایشز بھی لکھتاہے کہ
نقاد ادب کے بارے میں کئی قسم کے سوالات اٹھاتا ہے ۔ تاہم اگر وہ کوئی سوال نہ بھی اُٹھائے تو فن کی مختلف طریقوں سے شرح و بسط کرکے قاری کی تحسین فن میں اضافہ کر دیتا ہے۔“
 مختصراً تشریحی نقاد فن پارے کی ساخت اور تکنیک کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کے معنی و مفاہیم کو واضح کرتا ہے اور یوں وہ اس سے پیدا ہونے والے لطف و سرور کا ابلاغ کرتا ہے اور قارئین کو زندگی سے متعلق شعور عطا کر تا ہے۔
معائب و محاسن کو بیان کرنا:۔ 
ٹی ۔ ایس ۔ایلیٹ کے خیال کے مطابق 
” جہاں تنقید کا منصب فن پاروں کی تشریح و توضیح ہے وہاں فن کی تحسین ، تخلیق کے قریب چیز بھی ہے۔ تحسین کاکام چیزوں کو اجاگر اور روشن کرنا، تحریک دینا اور استحسان ( ذوق ادب) کے لئے ہماری ذہانت کو جلا بخشنا ہے۔ “ 
اور ایڈسن کے خیال میں ”ایک سچا نقاد کسی ادیب یاکسی ادب پارے کی خامیوں پر اتنا زور نہیں دیتا جتنا کہ اس کی خوبیوں پر۔“ ہڈسن لکھتا ہے کہ ” اگر ادب مختلف صورتوں میں تشریح حیات ہے تو تنقید ادب کی اس تشریح کی تشریح ہے۔“ ان نقادوں کی آرا ءسے یہ مترشح ہوتا ہے کہ نقاد کا کام صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہے اور اسے اس کی خامیوں کی نشاندہی نہیں کرنی چاہیے۔ حالانکہ تحریر کے عیوب اور اظہار و بیان کے انداز کے معائب بے نقاب کئے بغیر محاسن کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے تنقید کا منصب صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے معائب کوبھی قارئین کے سامنے لانا ہے۔ کیونکہ محاسن و معائب کے ایک ساتھ بیان سے نقاد فن کار کی رہنمائی کرتا ہے اور فن کی ترقی کے لئے راہیں کھولتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ نقاد کا ایسا بے لاگ اور متوازن بیان عام قارئین کے ذوق ادب میں اضافہ اور اصلاح کا باعث بنتا ہے۔
شاعروں کو دوبارہ زندہ کرنا:۔ 
ٹی۔ایس ۔ ایلیٹ کے خیال میں تنقید کا ایک منصب ان شاعروں کو زندہ کرنا بھی بتایا ہے جو عرصہ دراز سے گوشہ گمنامی میں ہوں۔  بعض اوقات یو ں بھی ہوتا ہے کہ کسی شاعر کی شہرت اس کی چند ایک نظموں کی وجہ سے ہوتی ہے یا اس کی شاعری میں اس کے فن کی بلندی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ جواس کی شہرت دوام کا موجب نہیں بن سکتی ۔ ایلیٹ لکھتا ہے کہ تنقید کا یہ کام بھی ہے کہ وہ ان شاعروں کو ازسرنو زندہ کرے ۔ ان کے کلام میں جتنے بھی محاسن موجود ہیں انہیں عوام کے سامنے پیش کرے ہو سکتا ہے کہ ان کی شاعری میں سے بعض ایسی چیزیں مل جائیں جن کا موجودہ زمانے کوعلم نہ ہو۔
تنقید روح عصر کی عکاس :۔
ڈرائیڈن اور شیگل کا خیال ہے کہ شاعر روح عصر ( ماحول اور زمانہ ) کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے مزاج میں اس کی نسل و قوم کو بھی دخل ہوتا ہے جو کسی فن پارے کی تخلیق پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ گویا ادب اس طرح روح عصر کا عکاس ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نقاد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تنقید کرتے وقت ان تمام عوامل (نسلی ، سماجی، سیاسی، واقعاتی) کا جائز ہ لے جو کسی عصر (دور) کا مزاج متعین کرتے ہیں اور فن پارے کی تخلیق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تنقید اور ادب کے نامیاتی عمل کا شعور:۔
بقول ایلیٹ ، ” ہر ملک کاادب ایک عضویاتی کل کی طرح ہوتا ہے اور زندہ شے کی طرح نشوونما پاتا ہے۔ “ اس کے مطا بق ”ہر شاعر کو ادب سے متعلق اس حقیقت کا کامل شعور ہونا چاہیے جب وہ حقیقی تخلیق کر سکتا ہے۔ نقاد اس زندہ روایت کے حوالے سے ہر ادیب اور فن پارے کا جائزہ لیتا ہے۔ “ مطلب یہ کہ نقاد نقاد کا فرض بنتا ہے کہ ادب کے اس تصور کو خود حاصل کرے اور پھر قارئین کے سامنے وضاحت کے ساتھ پیش کرے۔ اس طرح نہ صرف قارئین کے عام تصور ادب کی اصلاح ہوتی ہے بلکہ تخلیقی فن کاروں کے لئے بھی یہ تصور علم و ہدایت او ر اصلاح و رہنمائی کا سبب بنتا ہے اور وہ خود کو اور اپنے فن کو ادب کی اس زند ہ روایت کی روشنی میں دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
 ا ن تمام باتو ں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ناقد کا فرض ہے کہ اس کا علم وسیع ہو اور ذہن تیز ہو ۔ عدل سے کام لے۔ تعصب جانبداری سے کام نہ لے ۔ جذبات سے بالاتر ہو کر بے لاگ تجزیہ کے بعد کسی فن پارے پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ رائے متوازن معیاری اور صحت مند سمجھی جائے ۔ وہ اپنے ان فرائض کو مکمل دیانتداری سے بجالائے تاکہ فن کا معیار بلند ہو ادیب و قاری کے ذوق سلیم میں اضافہ ہو۔ وہ ذاتیات اور پسند و ناپسند کا غلام نہ بنے ۔ اس کے علاوہ اسے مصنف کے احساسات اور جذبات سے آشنا ہونا چاہیے تاکہ وہ فن پارے کا صحیح طریق سے جائزہ لے سکے ورنہ اس کے تاثرات بے ربط اور بے معنی ہوں گے۔

7 تبصرے:

  1. آپ نے تو ایک فن پارہ تخلیق کردیا
    کچھ مضمون کو ادھورا چھوڑ دیا ہے بعد میں پڑھنے کے لیے

    جواب دیںحذف کریں
  2. Bhai main M.A.urdu kar rai hun or ab mera secound semester ha or mera first paper tanqeed ka hi ha or aap mazeed post karin.or main apki post ko parh kar apna paper yad kar sakhun.

    جواب دیںحذف کریں
  3. واؤــــ بہت بہت شکریہ جناب!
    آپ نے تنقید کا سارا کورس ہی ہمیں مہیا کردیا یےــــ

    جواب دیںحذف کریں