صفحات

جمعرات, مئی 19, 2011

لانجائنس

 ادب میں افلاطون کے اخلاقی اور ارسطو کے افادی نظریے نے کافی حد تک مقصدیت کے عنصر کو نمایاں کر دیا چنانچہ ضرورت اس امر کی محسوس کی جانے لگی کہ ادب کے جمالیات اور فنی لوازمات پر توجہ دی جائے اد ب میں عمل کا ردعمل موجود رہتا ہے اس کی ایک مثال مختلف تخلیقات کے تحت مختلف رجحانات کی ہے۔
 اردو ادب میں تحریک ِ مقصدیت اد ب کے فنی پہلو کو نظر انداز کرتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن فوراً اس کا ردعمل رومانوی تحریک کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جب ادب کے جمالیات کے پہلو کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ اس طرح ادب کا فکری اور مقصدی پہلو کمزور پڑنے پر ترقی پسند تحریک میدان ِ عمل میں اترتی ہے اور اس طرح عمل اور ردعمل سے ادب میں توازن کی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ مغربی ادب میں بھی تحریکات اور مختلف رجحانات کی بنیاد پر ادب میں ایسی ہی صورت سامنے آتی ہے۔ مغربی ادب میں ” لانجائنس “ پہلا باقاعدہ رومانو ی نقاد جانا جاتا ہے۔ جس کے ہاں ” نظریہ ترفع“ اور ”عالم وجد “ ملتے ہیں۔ نظریہ ترفع میں لانجائنس اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہ خالق عمل تخلیق میں ایک عالم وجد میں پہنچ جاتا ہے۔ اور اس سطح سے جب وہ کوئی تخلیق قاری کے سامنے پیش کرتا ہے تو لازم ہے قاری بھی اس عالم وجد میں پہنچ جائے۔ اس کی کیفیت خالق سے ہم آہنگ ہو جائے وہ اپنی سطح سے اُٹھ کر خالق کی سطح پر جا پہنچے اور ایک وجدانی کیفیت سے دوچار ہو جب قاری اپنی سطح سے اوپر اُٹھے تو یہ عمل ترفع سے ہم آہنگ ہے۔ اور وہ حقیقی مضمون میں ادب سے حظ اٹھانے کے قابل ہو جائے ۔
ذاتی حالات:۔
 لانجائنس کی ذاتی زندگی پر پردے پڑے ہیں۔ بعض ناقدین کا خیا ل ہے کہ وہ ”پامیریا“ کی ملکہ”زینوبیا“ کا سےکرٹری تھا اس طرح ان کی شخصیت نیم تاریخی ہے اس بات میں اختلاف ہے کہ اس کا تعلق کس صدی عیسوی سے تھا بعض ناقدین اسے پہلی اور کچھ تیسری صدی سے منسوب کرتے ہیں۔ لانجائنس کے بنیادی مباحث اور ہم عصر ناقدین کا اس نے تذکرہ کیا ہے ان کو دیکھتے ہوئے یہ تو طے ہے کہ اس کا تعلق پہلی صدی سے تھا۔

کتاب کا تعارف:۔
 لانجائنس نے ترفع کے موضوع پر اپنا مستقل رسالہ On the Sublimeچھوڑا ہے۔ جس میں اس نے Sublimeجو کہ یونانی لفظ ہے اس کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ انگریزی میں یہ لفظ ”جمال “ کے ہم معنی ہے۔ جبکہ اردو میں اس اصطلاح کے معنی جلال کے ہیں لانجائنس کہتا ہے۔
ترفع زبان کی عظمت و شوکت ہے اور اس کا مقصد شعر اور نثر دونوں میں انسانوں کو وجدانی کیفیت کا حامل بنا تا ہے اور یہ کام ایک موثر اور بروقت ضرب سے کیا جاتا ہے۔
رومانیت:۔
 لانجائنس شعر و ادب کی کارکردگی میں مسرت کو اساسی سمجھتے ہیں۔ وہ رومانوی تحریک کی آنچ اتنی تیز کر دیتا ہے کہ ایک واضح مکتبہ فکر یعنی رومانوی تنقیدی دبستان کا بانی بن جاتا ہے۔ وہ فن کے پائوں میں کوئی زنجیر نہیں پہنانا چاہتا ۔ وہ خالق کو اصول اور ضابطوں سے مبرا قرار دیتا ہے اور اس بات کو بنیادی جانتا ہے کہ کوئی ادب پارہ قاری کے ذہن کوبے کنار محبت اور ذہنی عظمت سے آشنا کردی اس سلسلے میں محمد حادی حسین لکھتے ہیں کہ،
 لانجائنس نے اس امر کی تحقیق کی کہ شاعری کا نشاط بخش اثر مخاطب پر کیا ہوتا ہے اور اس طرح تنقید کا سب سے پہلا تاثیری نظریہ پیش کیا ہے۔ اس کے نزدیک پڑھنے یا سننے والا کسی ادبی تخلیق کی قدر و قیمت کا اندازہ صرف اپنے مشاہدہ نفس کے ذریعے کر سکتا ہے اور اس کے ادبی تخلیق کی عظمت اور جذباتی قوت کا اثر اتنا زیادہ ہو کہ اس پر وجدکی کیفیت طاری ہو جائے تو تخلیق اعلیٰ پائے کی ہوگی۔
 لانجائنس اس بات پر بحث نہیں کرتا کہ یہ کیفیت وجد بذات خود اچھی ہوتی ہے یا نہیں بلکہ وہ یہ شرط عائد کرتا ہے کہ وجدکی کیفیت ادبی تخلیق کی عظمت اور قوت کا نتیجہ ہو اسطرح وہ ادبی مسرت کو انسان کی بہترین کیفیات سے منسلک کرتا ہے(جس کے لغوی معنی) اس مسرت اور عالم وجد کے لئے اس نے یونانی لفظ Sublimeاستعمال کیاہے جس کے لغوی معنی علویت یا رفعت کے ہیں ۔ یعنی قاری ادب پارے سے وہ ذہنی عظمت حاصل کرے جس سے تخلیق کار آشنا ہوا تھا۔ اس طرح قاری اپنے مقام سے اوپر اُٹھ جاتا ہے اور یہی مقام ترفع ہے۔
نظریہ ترفع:۔
 لانجائنس جذبہ اور تخیل جیسے رومانوی عناصر کو ادب کے لئے لازمی قرار دیتے ہیں تخیل اور جذبے کے لوازم کی عظیم ادب کے لئے لازمی قرار دینے کے علاوہ اس نے اسلوب اور فنی عناصر کو بھی عظمت کے لئے لازمی قرار دیا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لانجائنس کے نزدیک اعلیٰ اور ارفع ادب محض ان عناصر کے مرہون ِ منت نہیں جو فطری ہوتے ہیں بلکہ عظیم ادب فنی عناصر تنظیمی اور فطری عناصردونوں کے توازن سے تخلیق ہوتا ہے ۔ لانجائنس کے ذہن میں اعلیٰ ادب کا ایک ٹھوس تصور موجود ہے۔ اس کے زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ شاعری الہامی چیز ہوتی ہے۔ اور یہ عالم وجد اور جنونی کیفیت میں تخلیق پاتی ہے۔ لیکن لانجائنس اس سلسلے میں توازن اختیار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جس طرح فطرت خود بخود اپنی اظہار کے لئے ایسا نظام وضع کرتی ہے جس سےفطرت نمایا ں ہوتی ہے۔ بالکل اس طرح فن پارے کی تخلیق بھی ہوتی ہے۔ کائنات کی نےرنگی پر نظر کرنے سے فطرت کی (خود بخود اظہار کے لئے ایسا نظام وضع) تنظیم و ترتیب کا قائل ہوتا پڑتا ہے۔ دن رات کا تسلسل موسموں کا تغیر کہکشاں کے سلسلے چرند پرند کے معمولات بالکل اسی طرح ہر شعبہ کائنات میں فطرت کے منظم اصول کارفرما نظر آتے ہیں۔
  بالکل اس طرح لانجائنس چاہتا ہے کہ فطرت کی تقلید کرتے ہوئے انتشار کے خلاف تنظیم کا اصول اپنایا جائے ۔ ناقدین نے اس کی اس بات کو غلط انداز میں لیا کہ فن کے پاوں میں کوئی زنجیر نہیں پہنانی چاہیے۔ اور اس لئے انتشاری کیفیت کا شکار ہوئے ۔ جبکہ لانجائنس نے واضح طور پر کہا کہ خالق فطرت کے قواعد و ضوابط کی پیروی کرے اور اس طریقے سے وہ اپنی تخلیقات میں تنظیم پیدا کر سکتا ہے۔ وہ اپنے مخصوص نظریہ ترفع کے پانچ ماخذات کا ذکر کرتا ہے۔ اور ان میں دو کو فطری اور تین کو اکتسابی قرار دیتا ہے۔
١۔عظمت خیال ٢۔شدت جذبات  ٣۔صنائع و بدائع کا استعمال ٤۔اعلی الفاظ کا انتخاب٥۔اعلی ترتیب الفاظ
عظمت خیال:۔
 پہلا فطری ماخذ عظمت خیال ہے یہ تخلیق کا محرک بنتا ہے۔ اگر خیال بلند ہوگا اور اس میں کسی پوشید ہ حقیقت کا انکشاف ہو تو مقام ترفع حاصل ہو سکتا ہے یعنی اس سے فن پارے میں تاثیر پیدا ہوگی عظمت ِ خیال فطری اور خداداد صلاحیت ہے لیکن اسے ترقی یافتہ صورت میں لانے کے لئے ماضی کے فن پارے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ماضی کے فن پاروں کے مطالعے سے انسانی ذہنی ارتقاءکو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور اس سلسلے میں لانجائنس کا یہ کہنا قابلِ توجہ ہے۔
 بیان کی عظمت روح کی عظمت کی بازگشت ہوتی ہے۔
 ١۔اسلوب ٢۔عظمت خیال  یعنی خیال بلند ہوگا تو وہ اپنی اظہار کے لئے اعلیٰ زبان کا تقاضا بھی کرے گا۔ یہاں روح کی عظمت فکر ہے اوربیان کی عظمت کا تقاضا اعلیٰ و ارفع اسلوب ہے۔ ذہنی عظمت اور شائستگی کی تربیت بڑی حد تک ماضی کی عظیم روایات سے ممکن ہے۔ یہاں قدماءکی ہو بہو نقالی مراد نہیں بلکہ اس ذہنی سفر کا اندازہ لگانا ہے جس سے آگے خود تخلیق کار نے سفر کرنا ہے۔ یہاں لانجائنس کی مراد محض خیالی اظہار اور اسلوب کی نقل نہیں بلکہ تخیلاتی سطح پر رومانی فیض حاصل کرنے کے ہیں۔ اور ماضی کی وہ عظیم روایت مراد ہے جس کی قوت و توانائی سے نئے ادیب اور شاعر زندگی پاتے ہیں۔ لانجائنس کا خیال ہے کہ بعض اوقات ہماری خوبیوں اور خامیوں کا ماخذ ایک ہی ہوتا ہے۔ مثلاً ادب میں نئی بات کہنا خوبی ہے لیکن اگر اسے جنونی انداز میں کہا جائے تو یہ خامی بن جائے گی۔ اس لئے عظمت خیال کے سلسلے میں وہ کہتا ہے۔
عظمت کو تازیانے کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور لگام کی بھی۔
شدت ِ جذبات:۔
 یہ ترفع کا فطری ماخذ ہے اور ترفع تک رسائی کے لئے اہم ہے۔ دراصل خیال کی عظمت اور جذبے کی شدت فن پارے کے لئے لازمی ہیں ۔ اگر فن کار عظمت خیال کا حامل ہوگا تو وہ انہی جذبات کو بیان کرے گا جو وہ محسوس کرتا ہے۔ اور جن کو اہمیت دیتا ہے۔ بصورت دیگر وہ فن کے تخلیقی جوہر میں تاثیر پیدا کرنے سے قاصر رہ جائے گا اس طرح مقام ترفع حاصل نہ کر سکے گا۔ دارصل لانجائنس کے ہاں فن پارے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ قاری کو وجدانی کیفیت سے آشنا کرایا جائے شدتِ جذبات کے ذریعے فن کار اس قابل ہو جاتا ہے کہ فن میں تاثیر پیدا کرے اور قاری کے دل و دماغ و جذبات کو متحرک کرنے کا باعث بن سکے شدتِ جذبات کے بارے میں لانجائنس لکھتا ہے۔
لہجے کی عظمت کے لئے کوئی اور شے اتنی ضروری نہیں جتنی کہ شدت جذبات
 یعنی بیان میں اس وقت تاثیر اور عظمت ہوگی جب تخلیق کار شدید جذبوں کا اظہار کرے گااور اسلوب میں عظمت اس وقت ہوگی جب اس میں شدتِ جذبات سما جائیں گے۔ اس سلسلے میں اس کا یہ کہنا قابلِ غور ہے۔
احساس ترفع اور شدید جذبات چونکہ ہماری روح سے قریب تر ہیں اس لئے وہ کلام سے پہلے اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ اور اس کی وجہ سے ان کا آپس میں فطری تعلق ہے۔
یعنی ذہنی عظمت اور شدید جذبے ہماری فطرت میں شامل ہیں اس لئے وہ اسلوب اور بیان سے پہلے قاری پر اپنا اثر دکھاتی ہیں۔ قاری سب سے پہلے عظیم خیال اور شدید جذبے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اور بعد میں اس کا دھیان زبان و بیان کی خوبیوں کی طرف جاتا ہے۔ اس طرح عظیم خیال کا شدید جذبے سے بھی براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ فن پارے میں شدتِ جذبات انسانی نفسیات کے قریب تر ہیں اس لئے تاثیر کے معاملے میں زیادہ کار گر ہیں فن پارے میں عظمت بیان سے پہلے شدید جذبات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ وہ جذبے ہونے چاہیے جو ذہنی عظمت سے ہم آہنگ ہوں ۔
لانجائنس نظریہ ترفع کے ذریعے رحم اور خوف کے جذبات کے انخلاءکے ذریعے کیتھارسس کے خیال کو کسی حد تک رد کردیتا ہے۔ کیونکہ رحم اور خوف تو قاری کے ذاتی جذبے ہیں۔ جبکہ مقام ترفع میں جہاں قاری اپنی ذاتی سطح سے بلند ہو جاتا ہے۔ اس کی اور خالق کی ذہنی جذباتی سطح ایک ہو جاتی ہے۔ یہاں ارسطو اور لانجائنس کے نقطہ نظر میں واضح فرق ہے اور ارسطو کے نزدیک پورے المیے کا مقصد تزکیہ نفس ہے۔ جبکہ لانجائنس فن پارے کو افادی یا مقصدیت کی نظر سے نہیں دیکھتا وہ تو محض تاثیر اور ترفع کی بات کرتے ہوئے قاری کے ذوق میں بلندی کے خواہاں ہیں۔
صنائع بدائع کا استعمال :۔
 ترفع کا یہ فنی اور اکتسابی ماخذ ہے۔ لانجائنس اسے خاص اہمیت دیتے ہوئے اپنے عہد کی روایت سے روگردانی کرتا ہے۔ اور صنائع بدائع کے عمدہ استعمال کا ذکر انتخاب الفاظ سے کرتا ہے۔ اس کے نزدیک اسلوب کے سلسلے میں صنائع بدائع کا عمدہ اور برمحل استعمال ضروری ہے۔ وہ صنائع بدائع کو صرف فنی اور تکنیکی خوبی نہیں مانتا بلکہ اس کا خیال ہے کہ صنائع بدائع کا استعمال تحریر میں لطافت پیدا کرتا ہے۔ اور یہ جمالیاتی ذہن کی پیداوار ہے۔ خالق ان کا استعمال فطری تقاضوں ، توضیح اور تشریح کے لئے کرے۔ اور ان کا استعمال غیر محسوس ہو۔ یعنی اسلوب میں صنائع بدائع بناوٹ اور تصنع معلوم نہ ہوں اور وہ عظیم خیال اور شدید جذبے کے ابلاغ کا باعث بنے اگر تحریر میں صنائع بدائع کا استعمال بناوٹی اور شعوری طور پر کیا جائے تو قاری کے دل میں فن پارے کی صداقت کے بارے میں شک پیدا ہو جائے گا اور پھر تاثیر پید انہیں ہو سکتی۔ جس کا تقاضا مقام ترفع کرتا ہے۔ لانجائنس کے نزدیک تحریر میں صنائع بدائع اس طرح استعمال ہوں کہ خالق کی لاشعوری کوشش معلوم ہوں اور بناوٹ کا احساس پیدا نہ کرے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔
صنائع بدائع اس وقت موثر ہوتے ہیں جب ان کے وجود کا احساس نہ ہو۔
            صنائع بدائع کے شعوری استعمال پر پردہ ڈالنے والی چیز اسلوب کی عظمت اور جذبے کی شدت ہے۔ سیدھے سادھے جذباتی اظہار میں قوت اور گرمی پیدا کرنے کے لئے صنائع بدائع سے کافی قوت ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں،
فن کا کمال یہ ہے کہ وہ فطرت معلوم ہو اور فطرت کی کامیابی اس میں ہے کہ اس میں فن چھپا ہوا ہو۔
            یعنی فن فطرت کے اظہار کا ذریعہ ہے اور فطرت کو نمایاں کرنے کے لئے فن کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لانجائنس اپنے عہد کے دوسرے ناقدوں کی طرح صنائع بدائع کی تعداد و اقسام نہیں گنواتا بلکہ صنائع بدائع کے اثر کی بات کرتا ہے۔ اکثر اوقات تو صنائع بدائع کے پیچھے معانی کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے جس کے ذریعے خالق اپنی شخصیت کا اظہار کرتا ہے ۔ لانجائنس صنائع بدائع کے مناسب اور متوازن استعمال پر زور دیتا ہے۔ کیونکہ ان کے بے جا استعمال سے بھی بناوٹ اور پھیکا پن پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ایک اصول وضع کرتا ہے
”مقام محل اور طریقہ سب اہم ہوتے ہیں۔“
            یعنی جب صنائع بدائع بروقت موقع کے مطابق خاص فطری طریقے سے استعمال ہوں تو وہ قاری پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور یہی کلام کا مقصد بھی ہے۔ چونکہ جذبے کے براہ راست اظہار کو بھی منظم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر جذبے کے شدید اظہار کو منظم نہ کیا جائے تو وہ انتشاری کیفیت کا شکار ہو جائے اور اس کے علاوہ جذبے کا اظہار جذباتی اور شدید ہو تو اس کے لئے یہ لازمی شرط ہے کہ وہ موقعہ و محل کاتقاضا معلوم ہو نہ کہ خالق اسے سوچ سمجھ کر اختیار کرے مجموعی طور پر اسلوب کے بارے میں لانجائنس کے اس نظریے کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے ۔ اگر فنی اظہار میں جذبہ شامل نہ ہوگا تو بناوٹ اور تصنع کا احساس پیدا ہوگا۔ اس طرح اگر جذبے کے اظہار میں فنی لوازم نہ ہونگے تو سطحی جذباتیت رہ جائے گی۔ یہاں بھی لانجائنس ایک متوازن نقاد نظر آتے ہیں۔
انتخاب الفاظ:۔
 انتخاب الفاظ بھی فنی اور اکتسابی ماخذ ہے۔ موضوع کی عظمت کے مطابق انتخاب الفاظ کو کام میں لانا چاہیے کیوں کہ الفاظ کا نامناسب استعمال ترفع میں کمی کا باعث بنتا ہے اکثر الفاظ اپنے مفہوم کے باعث عامیانہ ہوتے ہیں اور ان سے تحریر کی عظمت و رفعت متاثر ہوتی ہے۔ لانجائنس لفظوں کے جادوئی اثر کا قائل ہے۔ لیکن وہ لفظوں کو خیال کے اظہار کا وسیلہ جانتا ہے۔ اپنے عہد کے دیگر ناقدین کی طرح معانی و مفہوم سے ماوراا آہنگ و موسیقی کی تائید نہیں کرتا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ الفاظ حسین ہوتے ہیں۔ لیکن اگر وہ معنی و مفہوم کی ادائیگی میں مدد دیں تو ا ن کے حسن کو زندگی ملتی ہے اور اس سلسلے میں ان کا یہ کہنا قابلِ توجہ ہے۔
”حسین الفاظ خیال کے لئے روشنی کا کام کرتے ہیں۔“
کوئی لفظ اپنی ذات میں کتنا ہی اعلیٰ ارفع کیوں نہ ہو موقعہ محل کے مطابق اس کا استعمال اور انتخاب اسے پُر تاثیر بناتا ہے لفظ خیال اور معنی کے بغیر بے کار ہیں۔ مناسب الفاظ کے انتخاب کے بارے میں وہ مانوس الفاظ کو ترجیح دیتے ہیں۔
           اکثر عامیانہ الفاظ مزین زبان سے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔
            یعنی ایسے الفاظ جو مانوس ہوتے ہیں غیر مانوس الفاظ کی نسبت جلد سمجھ میں آتے ہیں۔ اور اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ کیونکہ وہ عام زندگی اور حقیقت سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ لانجائنس اس سلسلے میں کہتا ہے۔
”جوچیزمانوس ہوگی قابل یقین ہوگی۔“
            مانوس الفاظ کے سلسلے میں خالق کو کتنا فائدہ ملتا ہے ایک طرف تو ابلاغ کی قوت بڑھ جاتی ہے اور دوسری طرف قاری کے دل میں تخلیق کی صداقت کے بار ے میں شک پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ فنی لحاظ سے اس میں کسی شعوری بناوٹ کا احساس نہیں رہتا۔
ترتیب الفاظ:۔
                                    ترفع کا پانچواں اور آخری ماخذ ترتیب الفاظ ہے جو فنی اور اکتسابی خوبی ہے۔ لانجائنس الفاظ کے مناسب انتخاب اور ترتیب الفاظ کا قائل ہے اس کے مطابق ترتیب الفاظ سے پید ا شدہ نغمگی صرف کانوں کو نہیں بھاتی بلکہ روح کی گہرائیوں میں اتر کر الفاظ میں چھپے ہوئے جادو سے احساسات و جذبات کو تحریک دیتی ہے۔ اس طرح خالق و قاری میں ذہنی روحانی اور جذباتی ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی ہم آہنگی ترفع تک رسائی آسان کر دیتی ہے۔ اسلوب کے سلسلے میں ترتیب الفاظ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ عمدہ لفظوں کی دلکش ترتیب سے حسن و جمالیات کے رنگ بکھیرے جا سکتے ہیں ۔ لانجائنس کلام میں عظمت خیال شدت جذبات کے ساتھ ساتھ خوبصورت اظہار پر بھی زور دیتا ہے۔ کیونکہ یہ سب چیزیں مل کر ایک فن پارے کو عظیم بناتی ہیں۔ اور اس سلسلے میںوہ عوامی زبان کو پر خلوص جذبات کی زبان قرار دیتا ہے۔ عوامی زبان سادہ اور مانوس ہوتی ہے۔ اس میں بناوٹ اور تصنع نہیں ہوتا اس لئے فن پارے میں عوامی زبان جوش سادگی اور تاثیر کا باعث بنتی ہے۔
مجموعی جائزہ
            اگر لانجائنس کے مکمل نظریات کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ باقاعدہ رومانوی نقاد ہے۔ جو فن پارے کے ابلاغ کا بھی قائل ہے وہ ادب برائے زندگی کے دعوے داروں کی طرح فن کی افادیت اور مقصدیت پر بات نہیں کرتا وہ تو محض یہ چاہتا ہے کہ فن و جمالیاتی تاثرات جو عظمت خیال شدت جذبات اور کلام کی خوبیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں سے وہ قاری کو وجدانی کیفیت سے آشنا کروائیں ۔ وہ فن برائے فن کا بھی قائل نہیں بلکہ وہ فن کے عظیم مقام کے ابلاغ کی بات کرتا ہے۔ اور قاری کو بھی عظمت کے اس مقام تک لانا چاہتا ہے۔ جہاں خالق اور قاری کے احساسات و جذبات ایک ہو جائیں قاری اپنی ذاتی سطح سے اوپر اُٹھ کر زندگی کے نئے رخ کو دیکھے اور لطف اندوز ہو۔ وہ فن برائے فن اور فن برائے زندگی جیسے نظریات سے قطع نظر ادیب ، ادب اور قاری کی مثلث بنانا چاہتا ہے۔ تینوں کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم قرار دیتا ہے۔ تاثیری ادب کا پرچار کرتا ہے اور نہایت متوازن نقا د کی حیثیت سے فن و فکر کو بہترین انداز میں پیش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

14 تبصرے:

  1. اس بہترین مضمون کے لئے آپکا شکریہ۔ امید ہے ادب کی دیگر آوازوں پہ بھی آپ ضرور لکھیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. رہنمائی کےلئےبہت شکریہ۔آپ سےیہی توقع کرتےہیں کہ آپ آئندہ بھ ہمیں اپنی علمی صلاختوں سےہمیں بہرہمندکرتےرہینگے

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہترین مضمون۔۔۔قابل فہم انداز۔۔۔اعلی انداز بیان
    بہت شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت ہی عمدہ معلوماتی مضمون

    جواب دیںحذف کریں
  5. عمدہ معلومات سے مزین مضمون

    جواب دیںحذف کریں
  6. اچھی کاوش پڑھ کر اچھا لگا

    جواب دیںحذف کریں