صفحات

جمعرات, جون 02, 2011

متھیو آرنلڈ

بقول ڈاکٹر سید عبداللہ
آرنلڈ اپنے عہد کے اخلاقیات کا نقاد و معترض تھا وہ شاعر بھی تھا اورنقاد بھی لیکن ان اوصاف کے علاوہ وہ نقادوں کا نقاد اور معاشرے کا بھی نقاد تھا۔ 
متھیو آرنلڈ
 متھیوآرنلڈ کو نہ صرف اعلیٰ ادیب کی حیثیت سے امتیاز حاصل ہے بلکہ اس سے بڑھکر وہ ایک منفرد نقاد کی حیثیت سے ممتاز رہے ہیں۔ مغربی ادب میں لانجائنس اور کولرج کے نظریات کے تحت تخلیق کار اور ناقدین رومانوی انتشار کا شکار ہوگئے تھے۔ رومانیت اپنی انتہا میں جس اِنتشاری کیفیت سے دوچار ہوا کرتی ہے اور قاری اور خالق کا رشتہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال مغربی ادب پر چھائی ہوئی تھی۔
جس طرح ہر عمل کا ردعمل لازمی ہے اس طرح رومانیت کے ردعمل کے طور پر آرنلڈ نے اپنے تنقیدی نظریات پیش کئے ۔ آرنلڈ روایت، کلاسک اور تہذیب کا دلدادہ تھا اور اس سلسلے میں اس نے جن مباحث کا آغاز کیا ان کی گونج آج بھی ادبی فضاءمیں موجود ہے۔ اور اس مکتبہ فکر کا پروردہ ٹی ایس ایلیٹ اہم نقاد مانا جاتا ہے۔یہ بات طے ہے کہ کولرج کی طرح آرنلڈ کا شمار بھی اُن ناقدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عہد کے مزاج کو بدل ڈالا سکاٹ جیمز کا کہنا ہے کہ آرنلڈ اتنا بڑا نقاد ہے کہ تقریباً پچاس سال تک ادبی فضاءپر اُن کے خیالات چھائے رہے۔اور ہربٹ پال کا یہ کہنا بھی بجا معلوم ہوتا ہے کہ
 آرنلڈ نے صرف خود ہی کتابوں پر تنقید نہیں کی بلکہ اس نے دوسروں کو بھی تنقید کرنا سکھایا۔

اس طرح مشرقی ناقدین میں ڈاکٹر جمیل جالبی آرنلڈ کے بغیر مغربی ادب کی تاریخ نامکمل قرار دیتے ہیں۔ آرنلڈ کے تنقیدی نظریات کو سمجھنے کے لئے اس کے عہد کے حالات کو جاننا ضروری ہے۔ چونکہ وہ ادب کا تعلق زندگی سے جوڑتا ہے۔ اس لئے اس کے عہد کی زندگی کو سامنے رکھنا ضروری ہے ادبی فضاءمیں رومانیت سے پیدا شدہ انتشار کو ختم کرنا اور خالق کا رشتہ قاری سے جوڑنا آرنلڈ کا اولین مقصدہے اس طرح اس کے عہد کے سیاسی، سماجی ، اخلاقی اور معاشی حالات بھی اتنے دگرگوں ہو چکے تھے۔ کہ ان کی اصلاح کے لئے آواز اُٹھانا ضروری تھا۔ اس کا عہد جاگیردارانہ نظام کے باعث ابتری کا شکار تھا۔ چونکہ آرنلڈ نقاد کو عوام کے حوالے سے دکھاتا ہے۔ اس لئے اپنے معاشرے کی ہر برائی پر کڑی نظر رکھتا ہے۔ ان کے دور میں چند نو دولتیے صاحب ِ اقتدار تھے اور غریب عوام محض پس رہے تھے۔ انگلستان میں مشینی زندگی کا دور دورہ تھا۔ خاص طورپر کوئلے کی پیداور پر خاص توجہ تھی مادی ترقی زوروں پر تھی ۔ اور آرنلڈ کا خیال ہے کہ قومی عظمت محض ترقی سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے روحانی کاملیت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس نے مادیت پسندی کے اس دور میں رومانیت ، کلاسکیت، تہذیب اور کلچر کے بنیادی اصولوں کا پرچار کیا اس کے خیال میں زندگی جتنی مشینی ہوگی اتنی ہی غیر تخلیقی اور بنجر ہوگی۔ اس کے عہد میں عزت و عظمت کا معیار دولت تھی۔ اوران عمومی رویوں کے خلاف آواز اٹھانا ضروری تھا۔ کیونکہ ایسے مادیت پرست معاشرے میں ادب کی قدر شناسی ، ذوق سلیم اور سخن فہمی محض خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ تخلیقات کی عظمت کا احساس مفقود ہو جاتا ہے۔ نو دولتیے طبقے کے عامیانہ رویوں کا تذکرہ آرنلڈ ان الفاظ میں کرتا ہے۔
ذرا ن لوگوں کے متعلق غور کیجئے ان کے طرز زندگی کا مشاہدہ کیجئے ان کی عادات طور طریق پر نظر ڈالیے جن سے وہ حظ اُٹھاتے ہیں وہ الفاظ جو ان کے منہ سے نکلتے ہیں وہ خیالات جن کی آماج گاہ ان کا ذہن ہوتا ہے کیا دولت کا انبار اس بات کا بدل ہو سکتا ہے کہ انسان انہی جیسا ہو جائے۔
ادب تنقید حیات:۔
ادب کے منصب کے متعلق آرنلڈ کی سب سے مشہور اور اہم رائے یہ ہے کہ ”ادب تنقید حیات ہے“ آرنلڈ کے اس قول کو مختلف معنی پہنائے گئے لیکن اس کے تحریروں سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے۔ کہ اس جملے سے اس کا مقصد کیا تھا۔ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ”مغرب کے تنقیدی اصول “ میں لکھتے ہیں کہ،
 میتھیو آرنلڈ کا کمال یہ ہے کہ اس نے ادب کوزندگی کے حوالے سے اور زندگی کو تنقید کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کی۔ ادب کو تنقید حیات بنا کر اس نے ادب اور زندگی کے رشتے کو استوار کیا اور تنقید کو پوری زندگی کی تنقید کے عظیم منصب پر فائز کیا۔
 آرنلڈ نے صرف ادبی سطح پر بلکہ سماجی لحاظ سے بھی تبدیلی کی خواہش کی ہے وہ بیک وقت دو محاذوں پر برسرِ پیکار تھا اس لئے اُنھوں نے سب سے پہلے یہ نکتہ اُٹھایا کہ”ادب تنقید حیات ہے“ یہاں وہ ادبی سطح پر رومانوی تحریک کے خلاف کلاسیکی موقف کا اظہار کرتاہے۔ وہ ادب سے اخلاقی بے راہ روی کا تدارک کرنا چاہتا ہے۔ اور اس بات پرزور دیتا ہے کہ ادب کا رشتہ محض فنکار کی ذات نہیں بلکہ پورے معاشرے سے ہے۔
 وہ ادب میں نظم و ضبط کا حامی ہے۔ اس کی رائے میں ادب کو معاشرے میں بلند اور ارفع اقدار کو رائج کرنے کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ مگر ادب چونکہ ثقافت کا علمبردار ہوتا ہے لہٰذا اُسے معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری اپنے اوپرلینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آرنلڈ خود اعلیٰ اقدار کا مالک تھا اور معاشرے کو بھی ادب کے ذریعے ان قدروں سے مزین کرنا چاہتا تھا۔
روایت و کلاسیکیت:۔
آرنلڈ ادبی سطح پر روایت اور کلاسیکیت کا پرچار کرتا ہے۔ اور سما ج کی بہتری کے لئے تہذیبی اقدار کے احیاءکو ضروری قرار دیتا ہے۔ ادب میں روایت اور کلاسیکیت سے مراد یہ ہے کہ قدما ءکے فن پاروں سے ذہنی ارتقاءکا پتہ چلایا جاسکے۔ حال کے ساتھ اس کا رشتہ جوڑ کر مستقبل کے امکانات کو روشن کیا جائے اور اس کے علاوہ فن پارے میں اصول و قوانین کی پابندی اور نظم ضبط کا احساس کلاسیکیت کی دین ہے۔ اور معاشرتی سطح پر تہذیبی اقدار سے مراد یہ ہے کہ زندگی کو کیسے زیادہ بہتر ، خوبصورت اور زیادہ پر آسائش بنایا جائے اور روحانی عظمت کے لئے کیاتدابیر کئے جائیں۔ دراصل آرنلڈ انسانی سطح پر زندگی گزارنے کا قائل ہے وہ جسمانی ضروریات کو محض رواداری میں پورا کرنا چاہتا ہے ۔اس کاخیال ہے کہ کھانے پینے سے زیادہ انہماک ، کھیل ورزش لباس پر زیادہ توجہ غیر مہذب ذہن کی علامت ہے اس کے بجائے انسان کو ذہنی اور روحانی عظمت پر توجہ دینی چاہیے۔ تہذیبی تصورات کے لئے وہ انسانی فطرت میں حسن و عقل کی ضرورت پر زور دیتاہے۔ اگر کسی فرد کے ہاں یہ دو اعلیٰ اقدار متوازن صورت میں ہوں تووہ فرد معاشرے کے لئے بہترین ہوگا۔ آرنلڈ سے پہلے Swiftنے اپنی کتاب ”بیٹل آف بک“ میں ان اقدار کو حلاوت اور روشنی کا نام دیا ہے۔ متوازن فطرت کا آدمی حلاوت و روشنی یعنی حسن و عقل کی تلاش کرتا ہے اور اس کے برعکس جو لوگ ہیں وہ غیر شائستہ اور نو دولتیے ذہن کی علامت ہیں۔
آرنلڈ کے نزدیک تنقید کا مقصد یہ ہے کہ،
 دنیا میں جو بہترین باتیں معلوم کی گئی ہیں جو کچھ دنیا میں بہتر سے بہتر سوچا گیا ہے تنقید کا کام اس کو جاننا معلوم کرنا اور دوسروں تک پہنچانا تاکہ نئے اور جدید خیالات تخلیق ہوسکیں۔
 چونکہ آرنلڈ نقاد کو ایک مبلغ کی حیثیت سے سامنے لاتا ہے اس لئے ان ہی کے خیالات کے بارے میں ٹی ایس ایلیٹ کا کہنا ہے کہ،
آرنلڈ ایک نقاد سے زیادہ تنقید کے لئے پروپیگنڈہ کرنے والا اور خیالات کے خالق سے زیادہ ان کی تشہیر کرنے والا ہے۔
 آرنلڈ کے نزدیک اچھا نقاد ہمہ وقت افکار ِ تازہ کا متلاشی رہتا ہے اور دنیا کی بہترین چیزوں کا سراغ لگاتا ہے اور یوں اس کی حیثیت ایک مبلغ اور معلم کی ہو جاتی ہے۔ اپنے ان خیالات کی عملی صورت آرنلڈ نے اپنی زندگی میں ہی پیش کی۔  آرنلڈ کو جب آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعزازی طور پر پروفیسر مقرر کیا گیا۔ تو یہاں ادبیات کے بارے لیکچر لاطینی زبان میں دیے جاتے تھے۔ جن سے ایک مخصوص طبقہ ہی فیض یاب ہو سکتا تھا۔ آرنلڈ کا خیال تھا کہ لاطینی زبان صرف زبانِ علما بن کر رہ گئی ہے اور یہ کہ انگریزی زبان میں لیکچر سامعین کے لئے زیادہ مفید ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے انگریزی میں لیکچر دینے شروع کئے جو کہ ایک نئے طرز احساس کا پیش خیمہ ثابت ہوئے اس سلسلے میں آرنلڈ کاپہلا لیکچر’ ’ ادب میں جدیدیت کا عنصر “ نہایت خیال افروز رہا۔
نقاد کے مقاصد:۔
 آرنلڈ کے نزدیک نقاد کے تین مقاصد ہوتے ہیں۔
  ١۔         ایک طرف توخود تازہ علم حاصل کرتا ہے۔
 ٢۔         دوسروں کو ادب کے بارے میں اور زندگی کے بارے میں بہترین خیالات سے مستفید کراتا ہے
٣۔         تخلیقی اذہان کےلئے سازگار فضاءپیدا کرتا ہے
 آرنلڈ کے نزدیک نقاد ایک مشنری کی حیثیت رکھتا ہے اس کو تعصب سے بالاتر ہو کر اپنا کام کرنا چاہیے۔
مذہب کے بارے میں خیالات:۔
 مذہب کے بارے میں آرنلڈ کے خیالات متنازعہ ہیں ان کے نزدیک مذہبی جماعتیں تعصب و تنگ نظری اور دشمنی کو ہوا دیتی ہیں۔ جب کہ تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی بہتری اور فلاح کے لئے کام کیا جائے۔ نہ کہ مخصوص جماعت کی بہتری کے لئے اس کے علاوہ مذہبی جماعتیں عوام الناس کی سطح پر اتر کر کام کرتی ہیں جبکہ تہذیب عوام الناس کو اعلیٰ سطح پر لانا چاہتی ہے۔ تہذیب ہر قسم کے طبقاتی احساس کے خلاف ہے اور طبقات کے وجود کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اور اس طرح مذہب پر تہذیب کو مقدم رکھتا ہے۔
 آرنلڈ نے سائنس مذہب اور شاعری کے تعلق پر بھی غور کیا ہے۔ اور یہ دلچسپ نظریہ پیش کیا کہ سائنس کی قوت کے سامنے شائد مذہب نہ ٹھہر سکے لیکن اس کے بعد بھی چونکہ انسان کو کسی نہ کسی روحانی تحریک اور سہارے کی ضرورت تو رہتی ہے چنانچہ آرنلڈ کا خیال ہے کہ جب مذہب سائنس کے سامنے نہ ٹھہر سکے گا تو شاعری مذہب کی جگہ لے لے گی اس کا کہنا ہے کہ،
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو کچھ مذہب اور فلسفے کے ساتھ پیش آرہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ شاعری اُن کی جگہ لے لے گی۔
 آرنلڈ کا یہ نظریہ کسی حد تک درست ہے کیونکہ جب مادی ترقی عروج پر ہو تو مذہب سے دوری انسانی فطرت میں در آتی ہے ۔ لیکن مذہب کا سائنس کے سامنے نہ ٹھہر سکناثابت نہیں ہوتا۔ غالباً آرنلڈ یہ کہنا چاہتے ہیں۔ کہ شاعری میں مذہب کے بہترین عناصر جمع ہو جائیں گے لیکن بظاہر وقت نے اس کو غلط ثابت کیا ہے مذہب سائنس کے سامنے آج بھی قائم و دائم ہے۔ مختصر یہ کہ مذہب سائنس اور تہذیب کے بارے میں آرنلڈ کے خیالات انسانی زندگی کو کاملیت کی تلاش کی طرف لے جاتے ہیں۔
 آرنلڈ کے خیالات کو چند نکات کی صور ت میں پیش کیا جا سکتاہے۔      
١۔         سب سے پہلے آرنلڈ نے سائنس اور پیشہ ورانہ تعلیم کے مقابلے میں ادب ، شاعری اور دیگر انسانی علوم کی حمایت میں آواز اُٹھائی ۔ یہ اس کے عہد میں تقاضا بھی تھا اور یہ بات آج بھی اہمیت کی حامل ہے۔
٢۔         آرنلڈ روحانی ترقی اور عظمت کے لئے تہذیبی اقدار اور روایات کے شعور کو لازمی قرار دیتا ہے اور فنکار کے لئے ضروری سمجھتا ہے کہ وہ ٹھیک تناظر میں چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
٣۔         آرنلڈ بحیثیت نقاد تخلیقات کے لئے انسانی زندگی کی وحدت اور کل کے دیکھنے کی قوت کا تقاضا کرتی ہے ۔ اس کاخیال ہے کہ ادب کا کام تعلیم دینا اور اپنی ذات کا عرفان حاصل کرنا ہے۔
٤۔         آڑنلڈ فن پارے میں ہیئت اور مواد کے توازن پر زور دیتا ہے اور اس کے نزدیک عظیم فن پارہ اُس وقت تخلیق ہو سکتا ہے جس کا مواد اور ہیئت میں ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔
٥۔         آرنلڈ تنقید کے لئے غیر جانب دار ی ، تعصب سے دوری، تجسس ، لچک اور خیالات کی آزادانہ نشوونما کو ضروری سمجھتا ہے ۔ اس کے خیال میں قدیم ادب اس لئے قابل تعریف ہے کیونکہ وہ تعصب سے پاک ہے
٦۔         اس کے خیال میں اعلیٰ ترین ادب اور شاعری کے لئے کلاسیکی شاعروں کے ادبی نمونوں کی تقلید ضروری ہے۔
شاعر ی اور آرنلڈ:۔
 آرنلڈکے نزدیک عظیم شاعری موضوعات کی سنجیدگی اور اسلوب کے عظیم ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ فن پارے میں اعلیٰ سنجیدگی اور اعلیٰ اسلوب کو برتنے کے سلسلے میں وہ دانتے ، ملٹن اور شیکسپئر کے کلام کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے۔ اس کے خیال میں شاعری کو پرکھنے کے لئے شعراءکے ادبی نمونے کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آرنلڈ کی نظر میں اسلوب کی عظمت اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب،
جب شعری صلاحیت رکھنے والی شریف فطرت کسی سنجیدہ موضوع کی پیشکش سادگی اور سنجیدگی سے کرتی ہے۔
 آرنلڈ ایک طرف تو ادبی تنقید میں تقابلی تنقید کو روشناس کراتا ہے اور دوسری طرف کلاسیکی نظریے کو تقویت دیتا ہے اس کاخیال ہے کہ کلاسیکیت کی احیاءکے سلسلے میں دور جدید میں بھی یونانی شہپارے بہتر ین ادبی اور فنی نمونے ہیں۔ آرنلڈ نہ صرف ایک بہترین نقاد تھا بلکہ اعلیٰ درجے کا شاعر بھی تھا۔ اس کی شاعری میں خاص مقصدیت نظر آتی ہے اور اس کے نزدیک شاعری میں مقصد کا ہونا بہت ضروری ہے شاعری بلا مقصد صرف وقت گزاری ہے شاعر کو محض جذباتی عکاسی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کا ایک واضح مقصد بھی ہونا چاہیے دراصل وہ معاشرتی مسائل شاعری کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ بقول ملک اختر حسین،
 آرنلڈ ایسی شاعری چاہتا ہے جوزمانے کے تقاضوں پر پورا اترے وہ شاعر کو سوسائٹی کے تعلق سے دیکھتا ہے اس سے پہلے کبھی اتنے زور دار انداز میں ادب سے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنا پیش نہیں کیا گیا۔
                                     
آرنلڈ تنقید حیات کے نظریے کے تحت ادب کا رشتہ براہ راست زندگی سے جوڑتا ہے وہ سماجی سطح پر زندگی کو تہذیبی اقدار اور روحانی عظمتوں کا حامل دیکھنا چاہتا ہے ادب میں روایت اور کلاسک استفادہ کرنے کے سلسلے میں آرنلڈ کے بعد ایسا پختہ شعور صرف ٹی ایس ایلیٹ کے ہاں نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں محمد یٰسین انگریزی ادب کی مختصر تاریخ میں لکھتے ہیں کہ،
آرنلڈ صحیح معنوں میں کلاسیکی مزاج کاحامل تھا اس کے ہاں کلاسیکی بصیرت اور قدما ءبالخصوص یونانی فن و ادب کا واضح تصور ملتا ہے آرنلڈ کے ہاں بائرن اور شیلے کی بلند پرواز تخیل کی جگہ ایک خاص ضبط و اعتدال کا احساس ہوتا ہے جو رومانوی شاعروں سے ردعمل کا نتیجہ ہے۔
حرف آخر:۔
 آرنلڈ کے تمام تنقیدی نظریات اپنے زمانے کی کثیف مادیت کے خلاف ردعمل معلوم ہوتے ہیں وہ نہ صرف ماضی کی سعادتوں کوواپس لانا چاہتے ہیں بلکہ اپنے دور کی جہالتوں کا اپنے طور پر مقابلہ بھی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں روحانی قوت و عظمت اور قدماءکی تقلید کی تاکید کرتا ہے۔ ادب کی افادیت پر زور دیتا ہے چونکہ اُس کی نظر میں ادب خود تنقید حیات ہے اس لئے اس کے نظام ِ فکر میں تنقید بھی اعلیٰ منصب پر فائز ہے۔ ہربرٹ پال لکھتا ہے کہ ”آرنلڈ نے دوسروں کو تنقید کرنا سکھایا“ جبکہ سکاٹ جیمز کہتا ہے کہ،
نصف صد ی تک اس ملک ( انگلستان ) میں آرنلڈ کا مرتبہ تکریم یونانی نقاد ارسطو کے لگ بھک ہوگیا تھا۔ اپنے وسیع تر اثر و رسوخ کے لحا ظ سے اپنے اس نقش کو پیش ِ نظر جو اس نی تنقید پر ثبت کر دیا تھا۔ مقلدین اس کی اندھا دھند پیروی کرتے اور اعتماد کیاکرتے تھے۔

5 تبصرے:

  1. بہت اچھا اور آسان لفظوں میں ہے ۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. میتھیو آرنلڈ کے مطابق مزہب سے ساٸنس بہتر ہے کیونکہ ساٸنس دلاٸل کے ساتھ بات کو مکمل کرتی ہے جبکہ مزہب اس سے عاری ہے مگر اس کی اس بات سے اکتفا نہیں کیا جا سکتا اس کے بر عکس مزہب آج بھی قاٸم و داٸم ہے اور ساٸنس اپنی جگہ پر ۔اگر دیکھا جاٸے تو جو کچھ ساٸنس بتا تی ہے وہ سب مزہب اسلام کی الہامی کتاب قرآن مجید میں آج سے تقریباً ١٤٠٠سال پہلے سے موجود ہے
    وہ اپنے دور کے مالدار لوگوں پر تنقید کرتا ہے کہ یہ لوگ ادب,یا شاعری کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ان کو صرف اپنے سوا کسی کا احساس نہیں ہوتا اوریہبلوگ مادی ترقی کے قاٸل ہوتے ہیں یہ نہ تو ادب کے صحیح سر پرست بن سکتےہیں اور نہ ہی خوش ذوق قاری بن سکتے ہیں
    اس کے خیال میں مالدار طبقہ اپنی تہزیب اور عرفان کو کھو دے گا وہبیہ بھی کہتا ہے کہ ان مالدار لوگوں کو دیکھیے ان کی گفتگو پر غور کیجٸے ان کے عادات و اطوار پر نظر ڈالیے اور ان خیالات پر توجہ کریں جو ان کے ذہنوں پر اثر کر چکا ہے کیا دولت کے انباروں سے ذہنی سکون مل سکتا ہے ایسا بلکل نہیں ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. جس کتاب سے اٹھایا اس کا حوالہ بھی دیا کریں

    جواب دیںحذف کریں