صفحات

پیر, جون 20, 2011

مقدمۂ شعر و شاعری (الطاف حسین حالی)۔

بقول احسن فاروقی
جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آج کل کے نقاد باوجود ڈگریوں کے جوا ن کے علم کی سند ہے ادب اور زندگی کے تعلق کو واضح کرنے میں کسی طرح حالی سے آگے نہیں بڑھ پائے تو ہمارے دل میں حالی کی قدر بڑھتی ہے۔ ۔۔۔ ۔ حالی کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہوتی کہ انہوں نے اس موضوع ( یعنی ادب اور زندگی کا رشتہ) پر غور کرنے والوں کے لئے راہ کے پہلے نقوش بنائے۔
الطاف حسین حالی
  یوں تو مولانا الطاف حسین حالی کی شخصیت کئی لحاظ سے مطالعہ کے قابل ہے۔ آزاد او ر شبلی کی طرح وہ بیک وقت شاعر ، ادیب ، سوانح نگار اور نقاد ہیں۔ وہ ایک منفرد شاعر، صاحب طرز ادیب ، باذوق سوانح نگار اور وسیع النظر نقاد کی حیثیت سے اردو ادب میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ حالی کا تعلق سرسید کی تحریک اور سرسید کی شخصیت سے بہت زیادہ تھا۔ اور سرسید کے زیر اثر ہی حالی نے مسدس حالی تصنیف کی۔ سرسید کی رفاقت ، مولانا محمد حسین آزاد کی دوستی اور محکمہ تعلیم کی ملازمت کے دوران انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہونے والی کتابوں کے مطالعے نے حالی کو اردو شاعری میں نئے رجحانات سے آشنا کیا۔ چنا نچہ انھوں نے پرانی طرز شاعری کو ترک کرکے نئے اسلوب شعر کی طرف توجہ کی اور کچھ اس طرح توجہ کی اردو میں جدید شاعری کے اولین استاد کہلائے، خود نئے انداز میں شعر کہنے شروع کیے۔ اور دوسروں کو نئے شعر کی طرف راغب کیا۔ اُ ن کے تنقیدی نظریات مختلف کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ لیکن مقدمہ شعر و شاعری اُ ن کی تنقید کی باقاعدہ کتا ب ہے۔ اُنھوں نے مغربی تنقید کے اصولوں کو مشرق میں رواج دینے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ مختلف اصنافِ سخن پر بھی بحث کی ۔ مقدمہ شعر و شاعری کے دو حصے ہیں۔

 پہلے حصے میں شعر کی تعریف ، اس کی تاثیر و افادیب اور الفاظ و معانی کی اہمیت کی تشریح کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کے بنیادی اصول مرتب کرکے اس کے لئے ضروری شرائط پیش کی گئی ہیں۔ جن کی بحث و ترتیب میں عربی معیار تنقید کے علاوہ مغربی تنقید کے خیالات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
 دوسرے حصے میں اردو کے اہم اصناف سخن کی تعریف و خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کے لئے صحیح معیار بتا ئے گئے ہیں۔
 دراصل حالی کی تنقید دو مثلثوں پر استوار ہے۔ پہلی مثلث شعر کی خارجی ساخت کے حوالے ہے۔ اور دوسری مثلث شعر کی داخلی ساخت کے حوالے سے ہے۔ اس کے خیال میں شعر میں ان خصوصیات کا ہونا لازمی ہے۔ پہلے اُن کی خارجی مثلث کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ جن میں تین اجزاءشامل ہیں تخیل ، مطالعہ کائنات اور انتخاب الفاظ یا تفحص الفاظ ۔
تخیل :۔
 تخیل یا قوت متخیلہ کو حالی کی شاعری یا شاعری کے لئے ایک اور ضروری اور اوّل شرط قرار دیتے ہیں۔ و ہ تخیل کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ
 وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیر ہ جو تجربہ یا مشاہدہ کے ذریعے سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے اس کو مقرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے۔ اور پھر اس کو الفاظ کے ایسے دلکش پیرائے میں جلوہ گر کرتی ہے جو معمولی پیرائیوں سے بالکل یا کسی قدر الگ ہوتا ہے۔
 یعنی انسانی ذہن ایک سٹور کی مانند ہے جس میں تما م چیزیں بے ترتیب انداز میں پڑی ہوئی ہیں۔ لیکن جب تخلیق کار تخلیق کے عمل سے گزرتا ہے تو شاعر ان چیزوں کو ایک نئی ترتیب دیتا ہے۔ اور اُس ترتیب سے اُ ن چیزوں کی شکل ہی بدل جاتی ہے۔ اُن کا تخیل کا یہ نظریہ نیا نہیں بلکہ اس سے پہلے کولرج اس کو متخیلہ کی صورت میں پیش کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر عباد ت بریلوی ”اردو تنقید کا ارتقاء“ میں اس ضمن میں رقمطراز ہیں،
 ظاہر ہے کہ یہ تعریف کولرج کی تعریف تخیل کی طرح جامع اور مانع نہیں اور نہ حالی سے اس بات کی توقع کی جاسکتی تھی۔ کیونکہ انہوں نے کولرج یا دوسرے رومانوی نقادوں کے تنقیدی خیالات کا مطالعہ نہیں کیا تھا اور نہ اس سے قبل اردو میں تخیل کی تعریف کی کوئی روایت موجود تھی۔ حالی نے اس کو پہلی دفعہ پیش کیا۔ اس لئے اس میں سطحیت یقینا ہے لیکن اس کے باوجود تخیل کے متعلق ضروری باتیں ذہن نشین ہو جاتی ہیں۔
 بہر طور حالی کے نزدیک یہ سب سے مقدم اور ضروری چیز ہے جو کہ شاعر کو غیر شاعر سے ممیز کرتی ہے۔ یہ ایسی لذت ہے جو جس قدر شاعر میں اعلیٰ درجہ ہوگی اسی قدر اس کی شاعری اعلیٰ درجہ کی ہوگی۔
کائنات کا مطالعہ کرنا:۔
 تخیل کے علاوہ کائنات کا مطالعہ بھی حالی کے نزدیک ضروری ہے۔ لیکن کائنات کے مطالعے سے ان کا مقصد صرف مناظر فطرت یا نیچر کا مطالعہ ہی نہیں بلکہ فطرت انسانی اور نفسیات انسانی سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ اُن کے نزدیک اگرچہ متخیلہ اس حالت میں بھی جبکہ شاعر کی معلومات کا دائرہ نہایت تنگ اور محدود ہو ، اسی معمولی ذخیرہ سے کچھ نہ کچھ نتائج نکال سکتی ہے لیکن شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے۔ کہ نسخہ کائنات اورا س میں خاص کر نسخہ فطرت کا مطالعہ نہایت غور سے کیا جائے۔ اس طرح شاعر مختلف اشیاءسے متحد خاصیت بھی اخذ کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حالی نے سروالٹر کی شاعری کی مثال دی ہے۔ حالی کا یہ نظریہ بھی مغربی تنقید کے مطالعے کی پیداورا ہے۔
انتخاب الفاظ یا تفحص الفاظ:۔
 حالی شاعری کے لئے تیسری شرط تفحص الفاظ یا الفاظ کا صحیح استعمال بناتے ہیں کیونکہ بغیر اس کا خیال رکھے ہوئے شاعر اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح پیش ہی نہیں کر سکتا ۔ اُن کے مطابق شعر کی ترتیب کے وقت اول متناسب الفاظ کا انتخاب کرنا اور پھر ان کو ایسے طور پر ترتیب دینا کہ شعر سے معنی مقصود کے سمجھنے میں مخاطب کو کچھ تردد باقی نہ رہے۔ نہایت ضرور ی ہے کیونکہ شعر میں اگر یہ بلاغت یا بات نہیں تو اس کے کہنے سے نہ کہنا بہتر ہے
 مزید برآں شعر و شاعری کے سلسلے میں حالی الفاظ کے انتخاب پر اس لئے زیادہ زور دیتے ہیں کہ معانی الفاظ کے تابع ہوتے ہیں۔ شاعری کے لئے ان ضروری شرائط سے یہ بھی واضح ہے کہ حالی شعر و سخن کی تخلیق میں غور و فکر کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ اس لئے وہ آمد سے بڑھ کر آورد کے حق میں ہیں۔ پھر حالی اس بات پر بھی دھیان کرواتے ہیں کہ معانی کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے کیونکہ ایک لفظ کو کئی معنوی جہات دی جا سکتی ہیں۔ یہ جہات اپنے طور پر قابل قدر ہوتی ہیں۔ جبکہ لفظ اپنے لغوی یا سادہ مفہوم میں محدود ہی ہوتا ہے ۔ حالی نے شعرو شاعری کو مثالی پیکر عطا کرنے کے لئے غور و خوص کیا ہے اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اچھے اور قادرالکلام شعراءکے نمونے یاد کرنے چاہیے جس سے نہ صرف ذہن کی شعری مشق ہوتی ہے۔ بلکہ تمیز کی صفت بھی پیدا ہوتی ہے ۔ تخیل کے سلسلے میں حالی نے ایک اور بڑی اہم بات کہی ہے کہ اسے قوت ممیز ہ کا محکوم ہونا چاہیے کیونکہ شعر وسخن میں اسی صورت سے اعتدال اور میانہ روی پیدا ہوسکتی ہے۔ وگرنہ تخیل اگر موازنے اور تمیز کرنے کی صفات کے تابع نہ ہوگاتو ایسی آزاد صورت میں شعر و سخن میں انتہا پسند ی روا ج پائے گی۔
  جیسے کہ ذکر ہو چکا ہے حالی کی تنقید دو مثلثوں پر استوار ہے اور ان میں سے ایک مثلث کا ذکر ہوا۔ تخیل ، کائنات کا مطالعہ اور تفحص الفاظ جس کے تین کونے تھے۔ دوسری مثلث شعر کی داخلی ساخت کے بارے میں ہے جنہیں حالی کے الفاظ میں ہم شعر کی تین خوبیاں کہہ سکتے ہیں، یہ خوبیاں سادگی ، اصلیت ، اور جوش ہیں، شعر کی ان خوبیوں کے بارے میں اپنے نظریات کی بنیاد حالی نے دراصل ملٹن کے خیالات پر رکھی ہے۔حالی ان کو ایسی خصوصیات قرار دیتا ہیں جو دنیا کے مقبول شاعروں کے کلام میں عموماً پائی جاتی ہیں۔ جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
سادگی:۔
 حالی اس ضمن میں ایک محقق کے الفاظ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سادگی سے صرف لفظوں ہی کی سادگی مراد نہیں ہے۔ بلکہ خیالات بھی ایسے نازک اور دقیق نہ ہونے چاہئیں ۔ جن کو سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو، محسوسات کی شارع عام پر چلنا، بے تکلفی کے سیدھے رستے سے ادھر اُدھر نہ ہونا اور فکر کی جولانیوں سے باز رکھنا اسی کا نا م سادگی ہے۔۔۔ شعر پڑھنے یا سننے والے کو ایسی ہموار اور صاف سڑک ملنی چاہیے جس پر وہ آرام سے چلتا جائے۔ حالی مزید لکھتے ہیں کہ سادگی ایک اضافی امر ہے وہی شعر جو ایک حکیم کی نظر میں محض سادہ اور سمپل معلوم ہوتا ہے ایک عام آدمی اس کو سمجھنے اور اس کی خوبی دریافت کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ حالی کے نزدیک ایسا کلام جو اعلیٰ و اوسط درجہ کے آدمیوں کے نزدیک سادہ اور سمپل ہو اور ادنیٰ درجے کے لوگ اس کی اصلی خوبی سمجھنے سے قاصر ہوں ایسے کلام کو سادگی کی حد میں داخل رکھنا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ جو عمدہ کلام ایسا صاف اور عام فہم ہو کہ اس کو اعلیٰ سے لیکر ادنیٰ تک ہر طبقہ اور ہر درجہ کے لوگ سمجھ سکیں اور اس سے یکساں لذت او ر حظ اُٹھائیں وہ اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اس کو سادہ اور سمپل کہا جائے مگر حالی کے نزدیک ہر نظم کے ہر شعر میں ایسی خاصیت آج تک دیکھنے میں نہیں آئی ۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدےک کلام کی سادگی کا معےار ےہ ہونا چاہےے کہ خےال کےسا ہی بلند اور دقےق ہو مگر پےچےدہ اور نا ہموار نہ ہو اور الفاظ جہاں تک ممکن ہو محاورہ اور روزمرہ کی بول چال کے قرےب قرےب ہوں ۔ جس قدر شعر کی ترکیب معمولی بول چال سے بعید ہوگی ۔ اسی قدر سادگی کے زیور سے معطل سمجھی جائے گی۔
اصلیت:۔
 اصلیت سے حالی کی مراد یہ ہے کہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے اس کی کچھ حقیقت یا اصلی رنگ ہو اور اس میں واقعیت کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی کلام میں راستی موجو د ہے۔ علاوہ ازیں حالی ایسے شعرا کے کلام بھی اصلیت پر مبنی قرار دیتے ہیں جس میں راستی مطلق نہیں ہوتی مگر حالی بعض شعراءکی خود ستائی اور فخر کو بھی اصلیت پر مبنی ٹھہراتے ہیں ۔ کیونکہ راستی نہ ہونے کے باوجود ان کے بیان میں ایسا جوش ہوتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے ان شعراءکو دلی طور پر اپنے آپ پر فخر بالیقین ہے۔ چنانچہ ایسے فخر یہ اشعار اصلیت میں داخل سمجھیں جائیں گے۔ پھر اصلیت سے مراد یہ بھی ہے کہ زیادہ تر واقعیت اور مرکزی حقیقت موجود ہونی چاہیے خواہ شاعر اس کے ساتھ کوئی کمی بیشی کر دے تو مضائقہ نہیں ۔ یعنی ایک ہی واقعہ کو دیکھنے والے چار آدمیوں کا مشاہدہ اور بیان تھوڑا بہت ایک دوسرے سے مختلف ہوگا بہرکیف یہاں حالی نے رئیل ازم کے مفہوم کو کشادہ کر کے تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔
جوش:۔
 مولانا حالی بیان کرتے ہیں کہ جوش سے مراد یہ ہے کہ مضمون ایسے بے ساختہ الفاظ اور موثر پیرائے میں بیان کیا جائے جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادے سے یہ مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبوراً اپنے تیئں بندھوایا ہے۔ اس طرح بے ساختہ مو ثر پیرایے کا ذکر کرکے اور ایک یورپین محقق کا قول درج کرکے کہ ” عرب شاعروں کے کلام میں اس قدر جوش ہے کہ ان کے شعر سن کر یہ معلوم ہوتا ہے گویا صحرا میں درخت جل رہا ہے۔ “ وہ جوش کو دل سوزی کے مضمون ہی میں لیتے ہیں۔ اگر جوش سے حالی کی مراد رجزیہ انداز یا زوردار اور جوشیلے الفاظ کا مظاہرہ ہوتا تو تب یہ قابلِ اعتراض تھا۔ مگر حالی تو نرم و ملائم الفاظ میں بھی ”جوش“ کی آمیزش کو مانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ جوش سے مراد ”دل سوزی“ لیتے ہیں۔
 اس کے علاوہ اپنے خیالات اور نظریات میں مزید صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شاعری کرنے کے لئے یا اس کے وقوع کے لئے استعداد کا سبق، لیاقت اور قابلیت ضروری ہے۔ اس کا امر دو طرح سے ہے کہ ایک تو خدا کی طرف سے ودیعت صلاحیت ہو اس کے ساتھ ساتھ شعر و سخن سے متعلق تعلیم و تربیت کافی حد تک مکمل کی جائے۔ اس کے علاوہ حالی کے خیال میں شاعر کو جھوٹ اور مبالغے کے بیان سے بچنا چاہیے۔ حالی شاعری کے لئے زبان کے درست استعمال کی طرف بھی رغبت دلاتے ہیں۔ خاص کر وہ زور دیتے ہیں کہ اپنی مادری یا قومی زبان میں اشعار موزوں کئے جائیں۔حالی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ جیسے تیسے ہو مادری اور قومی زبان میں موزوں وسعت کی جانی چاہیے۔
 کتاب کے دوسرے حصے میں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں حالی نے مختلف اہم اصناف سخن کی تعریف و خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کے لئے صحیح معیار بتائے ہیں۔ جو کہ عملی تنقید کا بہترین نمونہ ہے۔
 ان اصناف میں غزل، قصیدہ ، مرثیہ ، مثنوی ،شامل ہیں۔
غزل:۔
  غزل اردو ادب کی مقبول ترین صنف ہے ۔حالی غز ل کی اصلاح چاہتے تھے ۔ غزل کے متعلق وہ لکھتے ہیں۔
 غزل کے میدان کو وسعت دی جائے اور اس میں عشق کے علاوہ محبت اور دوستی کی تمام انواع و اقسام داخل کر دی جائیں اور غزل میں ایسے الفاظ نہ استعمال کئے جاویں جن سے کھلم کھلا مطلوب مرد یا عورت ہونا واضح ہو۔ جیسے کلاہ دستار، سبزہ خطہ، مہندی چوڑیاں ، آرسی جھومر وغیرہ الفاظ مرد کو یا لڑکے کو مرد کا مطلوب قرار دینا بھی جو ایران اور ہندو پاک میں مروج ہے واجب الترک ہے۔ پرانے زمانے میں یہ خرافات اگر جاری رہیں تو ضروری نہیں کہ ہم آنکھیں بند کرکے ان کی تقلید کرتے چلے جائیں۔
 حالی کے خیال میں بااعتبا ر مضامین اور خیالات غزل کو وسعت دینا ضروری ہے۔ اور اب اس میں دل میں اٹھنے والے جوش اور ولولہ کو خواہ اس کا تعلق خوشی یا غم سے ہو یا شکایت صبر سے ،رغبت یا نفرت ، انصاف یا ظلم غصہ یا تعجب ، شوق یا انتظار ، دین یا دنیا کی بے ثباتی ، موت و حیات حب الوطنی یا غداری ، وفا یا جفا، حسرت یا ندامت ، بڑھاپے یا جوانی ، کسی بات سے ہو غزل میں بیان کرنا چاہیے۔ تاکہ غز ل کا دامن وسیع ہویاکہ غزل جدیدت کی طرف مائل ہو۔
قصیدہ :۔
 قصیدہ بھی ایک اہم اور ضروری صنف ہے تاہم مدح کو خوشامد نہیں بننا چاہیے۔ اور شاعر کو چاہیے کہ وہ تمام ان اوصاف کا ہی ذکر کرے جو ممدوح میں حقیقتاً پائے جاتے ہوں اور شاعر کے دل کو مد ح اور ستائش پرمجبور کرتے ہوں۔ یعنی حالی قصیدے میں مبالغہ آرائی اور جھوٹی تعریفوں کے پل باندھنے کے سخت خلاف ہے۔
مرثیہ:۔
 حالی نے مرثیوں کی اصلاح کے لئے دو اہم باتیں کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ وہ نئے شاعروں کو مرثیوں کا اتباع کرنے سے منع کرتے ہیں۔ جس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ ”مرثیہ میں رزم بزم اور فخر و خود ستائی اور سراپا وغیرہ کو داخل کرنا لمبی لمبی تمہیدیں اور طوطے باندھنا، گھوڑے اور تلوار وغیر ہ کی تعریف میں نازک خیالیاں اور بلند پروازیاں کرنا اور شاعرانہ ہنر دکھانا مرثیہ کے موضوع کے بالکل خلا ف ہے۔ دوسری تجویز ان کی یہ ہے کہ مراثی میں توسیع کرنا ضروری ہے۔ اور ان کو واقعہ کربلا تک محدود کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ بھی اصلاح مناسب ہے اور حالی نے خود مرثیہ غالب لکھ کر اپنی تجویز پر عمل شروع کر دیا۔
مثنوی:۔
 مثنوی بڑی مفید اور کارآمد صنف ہے کیونکہ غزل یا قصیدہ کے بر خلاف مثنوی میں قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی۔مثنوی کے بارے میں حالی کا کہنا ہے کہ مثنوی میں مافوق العادت قصی نہ بیان کئے جائیں اور مبالغہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔ حال کے تقاضے کے مطابق قصہ میں کلام ایزاد کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ جو حالت بیان کی جائے وہ ایسی نیچرل ہونی چاہیے جیسی فی الوقع ہوا کرتی ہے۔ یہ بھی لازم ہے کہ قصہ کا کوئی بیان دوسرے کی تکذیب نہ کرتا ہو۔ اور ان سب میں باہم مطابقت ہو اور تجربہ و مشاہدہ کے خلاف بات کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ وہ فارسی اور اردو کی مختلف مثنویوں میں مثالیں بھی دیتے ہیں۔
حرف آخر:۔  
حالی کی اولیت اس بات میں ہے کہ انہوں نے پہلی بار اردو میں نظر ی تنقید کو شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا اور وہ پہلے اردو ناقد ہیں جنہوں نے ایک منظم اور مربوط شکل میں تنقیدی نظریات کو پیش کیا۔ حالی نے سب سے پہلے معقول اور جاندار قسم کی تنقید کی ابتداءکی۔ انہوں نے نہ صرف تنقید کے نظری مباحث کا آغاز کیابلکہ عملی تنقید کے تحت غزل ، قصیدہ اور مثنوی کا تنقیدی جائزہ لینے کی بھی کوشش کی۔ نیز نظری تنقید کے اصولوں کی روشنی میں بعض شعراءکے بارے میں اپنے تاثرات بھی مرتب کئے۔ حالی وہ پہلے نقاد ہیں جنہوں نے خیال اور مادہ کے تعلق کو محسوس کیا انہوں نے ادب کے قومی اور ملی پہلو کی اہمیت ذہن نشین کرائی۔ اس کے مقصدی ہونے پر زور دیا۔ اس طرح ترقی پسند تحریک اور تنقید کی جھلک سب سے پہلے حالی کے یہاں نظر ا تی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں