صفحات

اتوار, اکتوبر 30, 2011

مثنوی سحرالبیان ( میر حسن )

مثنوی کا لفظ” مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں اصطلاح میں ایسی صنفِ سخن کوکہتے ہیں جس کے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے ، مثنوی میں لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیاجاتا ہے ، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے۔ یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں،مثنوی ایران سے ہندوستان میں آئی ۔ اردو مثنوی کی ابتداءدکن سے ہوئی ، دکن کا پہلا مثنوی نگار نظامی بیدری تھا۔
مثنوی سحرالبیان:۔
مثنوی سحر البیان
 جب قیامت کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات محبوب کی جوانی تک پہنچتی ہے اور جب مثنوی کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات ”سحرالبیان “ تک پہنچتی ہے یہ حقیقت ہے کہ جس قدر نشہ ، خمار ، کشش اور ساحری محبوب کی جوانی میں ہوتی ہے اسی قدر یہ خصوصیت دوسری اشیاءمیں نہیں ہوتی ہیں اسی طرح سے اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی گئی ہیں مگر جو دلکشی اور ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے محروم ہیں اس لئے ہم بلا تکلف یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔
”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یکساں طور پر مقبول رہی ہیں اس مثنوی کی مقبولیت پر غور کیجئے تو بہت فنی محاسن ایسے نظر آتے ہیں جو دوسری مثنویوں میں نہیں ملتے ہیں۔ اس لئے ” سحرالبیان “ ایک مقبول عام مثنوی ہے۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پلاٹ ، جذبات نگاری ، مکالمہ نگاری ، مرقع نگاری ، منظر نگاری اور سراپا نگاری کے علاوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔
 اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روائتی طرز فکر اور تصورِ زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ ”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی تصویریں بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے اسی لئے اس مثنوی ” گلزار نسیم“ کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں۔ اس مثنوی کا اسلوب و لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور نہیں جو بعد میں گلزار ِ نسیم کی صورت میں نمودار ہوا۔پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ”سحر البیان پر ایک نظر“ میں یوں لکھتے ہیں،

جمعرات, اکتوبر 20, 2011

محسن کاکوروی کی قصیدہ نگاری


 محسن کاکوروی کا عہد کشاکش حیات، رنگین بوالہواسی کا دور تھا۔ مغل سلطنت کا خاتمہ اور ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہو رہا تھا۔ انگریز ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کا جانی دشمن بن گیا تھا افراتفری کے باوجود میرضمیر ، میر خلیق ، میر انیس ، مرزا دبیر ، امیر مینائی اور محسن کاکوروی نے زمانے کی کج روی کے خلاف اُردو ادب کو اعلیٰ خیالات و جذبات سے مالا مال کیا محسن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کی ابتداءنعت سے کی۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اُردو شاعری میں نعت گوئی کا حقیقی دور محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری سے ہی شروع ہوتا ہے۔
سخن کو رتبہ ملا ہے میری زبان کے لئے
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لئے
ازل میں جب ہوئیں تقسیم نعمیتں محسن
کلام ِ نعتیہ رکھا میری زباں کے لئے
محسن نے اپنی زندگی نعت کے لئے وقف کر دی ۔ اُن کا نعتیہ قصیدہ ”گلدستہ کلامِ رحمت “ کے نام سے ٢٥٩١ءکی تصنیف ہے یہ ان کا پہلا قصیدہ ہے اس سے پہلے قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
 آج کس صاحبِ شوکت کی میں تکتا ہوں راہ             
 کہ فرشتے ہیں اُٹھائے ہوئے در کی چلمن
 رنگ و بو کس گل ِ رعنا کی پسند آئی ہے                 
نہ مجھے خواہش ِ گل ہے نہ ہے پروائے چمن
ان کا شعری سرمایہ ذیل ہے۔           ١) گلدستہ ِ کلام رحمت     ٢) ابیات ِ نعت    ٣) مدیح خیر المرسلین      ٤) نظم دل افروز   ٥) انیس آخرت        ٢)مثنویات          ٧) صبح تجلی      ٨) فغانِ محسن     ٩)چراغ کعبہ        ٠١) نگارستانِ الفت          ١١) شفاعت و نجات            12) اسرار معنی در عشق    
13) حلیہ مبارک سراپا رسول           14)رعبایاں 1857ءکے دوران
 ہر صنف ِ شاعری ایک مخصوص مزاج کی حامل ہوتی ہے اور یہ مزاج درحقیقت ان عناصر سے ترتیب پاکر تیار ہوتا ہے جنہیں بہ اعتبار موضوع کی بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ہر صنف کا مزاج دوسری صنف ادب سے مختلف ہوتا ہے قصیدے کا مزاج غزل اور دیگر اصنافِ سخن سے الگ ہے ۔قصیدے کی صنف کو بام عروج پر پہنچانے والے شعراءمیں محسن کا نام سر فہرست ہے ان کے تصنیف کردہ چند قصائد ہیں لیکن فنی محاسن کے بہترین نمونے ہیں ۔
 ان کے قصائد مسدس ، مخمس اور مثنویاں نعتیہ ادب کے ایسے شہپارے ہیں کہ جن کا جواب اب تک نہ ہوسکا ۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ،