صفحات

جمعرات, اکتوبر 20, 2011

محسن کاکوروی کی قصیدہ نگاری


 محسن کاکوروی کا عہد کشاکش حیات، رنگین بوالہواسی کا دور تھا۔ مغل سلطنت کا خاتمہ اور ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہو رہا تھا۔ انگریز ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کا جانی دشمن بن گیا تھا افراتفری کے باوجود میرضمیر ، میر خلیق ، میر انیس ، مرزا دبیر ، امیر مینائی اور محسن کاکوروی نے زمانے کی کج روی کے خلاف اُردو ادب کو اعلیٰ خیالات و جذبات سے مالا مال کیا محسن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کی ابتداءنعت سے کی۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اُردو شاعری میں نعت گوئی کا حقیقی دور محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری سے ہی شروع ہوتا ہے۔
سخن کو رتبہ ملا ہے میری زبان کے لئے
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لئے
ازل میں جب ہوئیں تقسیم نعمیتں محسن
کلام ِ نعتیہ رکھا میری زباں کے لئے
محسن نے اپنی زندگی نعت کے لئے وقف کر دی ۔ اُن کا نعتیہ قصیدہ ”گلدستہ کلامِ رحمت “ کے نام سے ٢٥٩١ءکی تصنیف ہے یہ ان کا پہلا قصیدہ ہے اس سے پہلے قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
 آج کس صاحبِ شوکت کی میں تکتا ہوں راہ             
 کہ فرشتے ہیں اُٹھائے ہوئے در کی چلمن
 رنگ و بو کس گل ِ رعنا کی پسند آئی ہے                 
نہ مجھے خواہش ِ گل ہے نہ ہے پروائے چمن
ان کا شعری سرمایہ ذیل ہے۔           ١) گلدستہ ِ کلام رحمت     ٢) ابیات ِ نعت    ٣) مدیح خیر المرسلین      ٤) نظم دل افروز   ٥) انیس آخرت        ٢)مثنویات          ٧) صبح تجلی      ٨) فغانِ محسن     ٩)چراغ کعبہ        ٠١) نگارستانِ الفت          ١١) شفاعت و نجات            12) اسرار معنی در عشق    
13) حلیہ مبارک سراپا رسول           14)رعبایاں 1857ءکے دوران
 ہر صنف ِ شاعری ایک مخصوص مزاج کی حامل ہوتی ہے اور یہ مزاج درحقیقت ان عناصر سے ترتیب پاکر تیار ہوتا ہے جنہیں بہ اعتبار موضوع کی بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ہر صنف کا مزاج دوسری صنف ادب سے مختلف ہوتا ہے قصیدے کا مزاج غزل اور دیگر اصنافِ سخن سے الگ ہے ۔قصیدے کی صنف کو بام عروج پر پہنچانے والے شعراءمیں محسن کا نام سر فہرست ہے ان کے تصنیف کردہ چند قصائد ہیں لیکن فنی محاسن کے بہترین نمونے ہیں ۔
 ان کے قصائد مسدس ، مخمس اور مثنویاں نعتیہ ادب کے ایسے شہپارے ہیں کہ جن کا جواب اب تک نہ ہوسکا ۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ،
” محسن کاکوروی مولانا حالی سے کسی صورت بھی کم نہ تھے۔“
 احسن اللہ خان ثاقب نے مکتوبات امیر کے مقدمے میں لکھا ہے کہ،
” میں نے ایک مرتبہ منشی امیر احمد مینائی سے جناب محسن کاکوروی کی سخن آفرینی اور بلاغت کلام کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان کا کلا م ایک عالم ہے۔ خیالات ِ نادرہ کا کہ اس کو دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے۔ اور ان کا ہر شعر معراج بلاغت ہے۔“
نعت گوئی کی فضا جتنی وسیع ہے اتنی ہی اس میں پرواز مشکل ہے لیکن محسن کاکوروی کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نعت کی وسیع فضا میں انہوں نے خوب پرواز کی ہے اور بڑے مشکل مقاما ت بھی انہوں نے خوبصورتی کے ساتھ طے کئے ہیں ۔ مضمون میں موضوع کے اعتبار سے جدت، اسلام اورہندی تصورات کا امتزاج ، حدیث اور عقائد کی صحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مذاقِ شاعرانہ کے ساتھ ساتھ نکتہ آفرینی ، خلوص و محبت کے اظہار میں تہذیب و متانت کا پاس ان کے کلام کی عام خوبیاں ہیں۔ تمام کلام ہموار اور شگفتہ ، مضمون بلند ، زبان کوثر ، و تسنیم کی دھلی ہوئی ۔ بندش چست ، مثنویوں میں قصیدوں کی سی شان و شوکت ، تشبیب و گریز کے کمالات ، ایسی خصوصیات ہیں جو شائد ہی ان کے کسی دوسرے ہمعصر کو نصیب ہوئی ہوں۔محسن نے کیا خوب کہا ہے۔
 ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی 
 نہ مرا شعر، نہ قطعہ ، نہ قصیدہ نہ غزل
قصائد:۔
 محسن کے نعتیہ کلام میں سب سے زیادہ شہرت ان کے مشہور قصیدہ” لامیہ مدیح خیر المرسلین“ کو نصیب ہوئی اس قصیدے میں ان کی شاعرانہ خوبیاں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ دراصل محسن کو نعتیہ قصائد لکھتے وقت کسی صلے کی توقع نہ تھی نہ کسی نواب بادشاہ سے انعام کی توقع تھی انہیں رسول اللہ سے جو بے پناہ محبت تھی قصیدہ”مدیح خیر المرسلین“ سے پوری طور پر واضح ہے ۔ فن کے لحاظ سے اور مضمون و ہیئت کے اعتبار سے یہ قصیدہ اپنی مثال آپ ہے۔بقول ڈاکٹر اعجاز حسین
” ان کے لامیہ قصیدے میں کئی مقامات پر نہایت شدو مد کے ساتھ ہندووں کے رسوم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور ان کے مقدس مقامات کا ذکر بھی آیا ہے۔ اور بعض واقعات اور تہوار بھی بڑی خوبصورتی سے نظم ہوگئے ہیں۔“
تشبیب میں مقامی اثرات:۔
 تشبیب میں مضامین کے تنوع اور ندرت کے ساتھ مقامی رنگ کی آمیزش نے اس میں ایک عجیب کیفیت پیدا کر دی تشبیب کے چند اشعار ملاحظہ ہوں،
سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل                     
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
 خبر اُڑتی ہوئی آئی ہے مہا بن میں ابھی   
 کہ چلے آئے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل
  جانب قبلہ ہوئی ہے یورش ابر سیاہ
کہیں پھر کعبے میں قبضہ نہ کریں لات و ہبل
 سودا اور ذوق قصائد کے مسلم الثبوت استاد ہیں لیکن ایسی اچھوتی اور نرالی تشبیب کے نمونے ان کے ہاں بھی کم ملیں گے ۔ تشبیب میں ہندوانہ ، تہذیب کی اصلاحات اور مذہبی علامات کا جو استعمال محسن نے کیا ہے اس کی مثال پہلے نہیں ملتی ۔ اس طرز کی تشبیب جس سے قصیدہ نعت کا آغاز ہو بعض شعرا اور نقادوں کے نزدیک ہد ف تنقید بھی بنی۔ محسن نے ان اعتراضات کا منظو م جواب دیا وہ نہ صرف عالمانہ شاعرانہ اور محققانہ ہے بلکہ ان کی ایجاد ، اُپچ اور اختراعات ذہنی کی غمازی کرتا ہے۔
 گو قصیدہ سے جدا ابر بہار تشبیب 
 فکر کے تازہ و تر کرنے کو ہے مستعمل
 مختلف ہوتے ہیں مضمون کہیں عشق کہیں حسن
 کہیں نغمہ ہے کہیں مے کہیں پھول اور کہیں پھل
پڑھ کے تشبیب مسلمان مع تمہید و گریز
رجعت کفر یہ ایمان کا کرے مسلہ حل
گریز و مدح:۔
 اس اچھوتی تشبیب کے بعد محسن کا قلم ممدوح کی تعریف میں جولانیاں دکھاتا ہے۔ شاعر کا کمال اور اس کے فن کی خوبی یہ ہے کہ مدح کی طرف اس طرح گریز کرے جیسے خود بات سے بات نکل آئی ہو نہ کہ قصد مضمون باندھا جائے۔
 گرتے پڑتے ہوئے مستانہ کہاں رکھا پانوں  
  کہ تصور بھی وہاں جا نہ سکے سر کے بل
 نبی کریم کی مدح بھی لا جواب ہے ۔ وہ نبی کریم کو ایک ایسی ہستی قرار دیتے ہیں کہ انسانوں میں اس کا کوئی بدل اور ہمسر نہیں تمام پیغمبروں میں رسول اکرم اپنی مثال آپ ہیں۔ محسن کہتے ہیں،
 باغ تنزیہہ میں سرسبز نہال تشبیہ 
 انبیاءجس کی ہیں شاخیں عرفاہیں کونپل
گل ِ خوش رنگ رول ِ مدنی و عربی
زیب دامان ِ ابد طرئہ دستار ازل
نہ کوئی اس کا مشابہ ہے نہ ہمسر نہ نظیر
نہ کوئی اس کا مماثل نہ مقابل نہ بدل
دعائیہ :۔
 محسن نے قصیدے میں دو طویل غزلیں بھی شامل کی ہیں جو قصیدے کی زمین میں ہیں لیکن اس اعتبار سے جدت لئے ہوئے ہیں کہ قصیدے میں جو قافیہ تھا اسے غزلیات میں بطور ردیف استعمال کیا ہے خاتمہ دعا شروع کرنے سے پہلے کس طرح اپنے دل کا اظہار کیا ہے۔
 جی میں آتا ہے لکھوں مطلع برجستہ اگر       
وجد میں آکے قلم ہاتھ سے جائے نہ اچھل
 یہ با ت بڑی حد تک درست ہے کہ نعتیہ شاعری میں شاعر کا قلم بے قابوہو جاتا ہے کیونکہ مدحیہ قصائد میں ممدوح کی سچی اور حقیقی تصویر کی جگہ قیاسی و خیالی تصاویر ہی ملیں گی۔ بادی النظر میں نعت کا میدان محدود نظرآتا ہے لیکن دراصل یہ محدود نہیں بلکہ وسیع ہے البتہ نعت گو کے لئے لازم ہے کہ وہ حفظ مراتب کا لحاظ رکھے۔
 ” بامحمد ہوشیار“ کی منزل بڑی کھٹن ہے اور محسن اس منزل سے جس آسانی کے ساتھ گزرے ہیں وہ ہر اک کی بس کی بات نہیں محسن نے اپنے قلم کو کہیں بہکنے نہ دیا ۔ بلکہ سچائی اور سادگی کے ساتھ بے نظیر مرقعے ہمارے سامنے پیش کئے۔
 ان کی زبان بڑی ستھری ہے اور اُردو کے مشہور قصیدوں کے مقابلے میں ان کے قصیدے پیش کئے جا سکتے ہیں
دین و دنیا میں کسی کا نہ سہارا ہو مجھے                
 صرف تیرا ہو بھروسہ تیری قوت ، تیرا بل
 صفِ محشر میں تیر ے ساتھ ہو ترا مداح   
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل
کہیں جبریل اشارے سے کہ ہاں بسم اللہ
”سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
مثنویاں ، رعبایات:۔
 محسن نے مثنویاں بھی لکھی لیکن طبیعت کے اقتضاءنے انہیں روایتی مثنویوں کی طرف مائل نہ ہونے دیا ۔ چنانچہ یہاں بھی نعتیہ رنگ اختیار کرکے مثنوی میں تمام لوازمات کو اس طرح نبھایا ہے کہ اس کی مثال شاید ہی کہیں مل سکے۔ محسن کی دو مثنویاں ”چراغ کعبہ“ اور ”صبح تجلی “ بے مثل ہیں۔
 اس کے علاوہ محسن کے ہاں نعتیہ رباعیات کا کثیر ذخیرہ بھی موجو دہے رباعی ایک مشکل صنفِ سخن ہے۔ لیکن محسن کی رباعیات فن اور زبان دونوں کے اعتبار سے خاصے کی چیزیں ہیں مثلاً
رہ جاو گے ہاتھ زندگی سے دھو کر
 پچھتائیں گے اقربا تمہارے رو کر
محسن کیا پوچھتے ہو چھوڑ گھر بار
جنت کو چلے جائو مدینے ہو کر
محسن کے سرمایہ نعت میں ایک طویل نظم موسوم بہ ”نظم دل افروز “ ہے اس نظم کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی شعراءنے اس کی تضمین لکھی ہیں۔
 ڈاکٹر ابو محمد سحر اپنی کتا ب”اردو میں قصیدہ نگاری“ میں محسن کے قصیدہ ”مدیح الخیرالمرسلین “کے متعلق لکھتے ہیں،
” ان کے قصیدے مدیح الخیرلمرسلین کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی اور اس میں شک نہیں کہ ان کا قصیدہ اُردو قصائد میں منفرد اور امتیازی مقام کا مالک ہے اس کی تشبیب جس پر اس قصیدے کی مقبولیت کی بنیاد ہے یوں تو بہاریہ تشبیب ہے لیکن محسن نے اس کو برسات کے موسم سے ہم آہنگ کرکے مقامی رنگ ، ہندوستانی تلمیحات ، ہندوستانی رسوم ورواج اور ہندی الفاظ کی آمیزش اتنی فن کاری سے کی ہے کہ کچھ اور ہی عالم پیدا ہو گیا ہے۔“
مجموعی جائزہ:۔
 محسن کی شاعری اور اس کے عہد کے سیاسی ، سماجی اور ثقافتی ماحول کا جائزہ لینے کے بعدیوں محسوس ہوتا ہے گویا محسن کی پاکیزہ نعتیہ شاعری فطر ت کا بڑا تقاضا تھا۔ جو پورا ہوا۔ جس طرح دنیا میں جب گمراہی اور تاریکی پھیل جاتی ہے اور لوگ فسق و فجور اور شرک و الحاد میں گرفتار ہو کراپنے اعلیٰ اور وجہ تخلیق کو بھول جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت انسانوں کو صراط مستقیم کی طرف لانے کے لئے اپنی کسی خاص بندے کو نبی بنا کر معبوث کرتا ہے۔ تاکہ دنیا سے جہالت کو مٹا کر لوگوں کو ابدی نورِ ضیا بار کیا جائے بعینہٰ لکھنوی زوال پذیر معاشرے میں محسن کی نعتیہ شاعری کا وجود خدا تعالیٰ کی نعمت معلوم ہوتی ہے جس نے لوگوں کو گل و بلبل کے افسانوں سے ہٹا کر اس خیر البشر کی سیرت طیبہ کی طرف راغب کر دیا۔
 محسن کی شاعری ایک زوال آمادہ معاشرے میں پروان چڑھی مگر یہ عشق رسول کا فیض تھا کہ وہ اپنے زمانے کے کثیف ماحول میں بھی ایسا رنگ اختیار کرنے میں کامیاب ہوئے جسے تا قیامت زوال نہےں آسکتا نعت بھی صنف قصیدہ کی ایک شکل ہے لیکن اس سے قبل قصیدے کا واحد مقصد مادی منفعت بن گیا تھا اس کے برعکس محسن نے اس فن کو لفظاً و معنی ً فن شریف بنایا۔
محسن کاکوروی کا قصیدہ بے حد مقبول ہوا وجہ یہ ہے کہ اس میں شاعر نے کمال فن سے تمام تر جوہر آشکار کئے ہیں خوبصورت تلمیحات ، برمحل تشبہات کا استعمال ، مقامی رنگ کی بھر پور عکاسی ، محسن کے گہرے مطالعے و مشاہدے کا منہ بولتا ثبوت ہے محسن نے لکھنو میں پائے جانے والے حالات و واقعات کی کشیدگی اور غلاظت سے ہٹ کر پاکیزہ موضوع کو بڑی خوبی سے نبھایا ہے۔ ایک نعت گو اور خصوصاً اس قصیدے کے حوالے سے محسن کا کوروی کا نام اردو ادب میں زندہ جاوید رہے گا۔ بقول ابواللیث صدیقی،
” محسن کا کلام جذ بات کے غیر فانی بنیادوں پر استوار ہے۔ خلوص اور محبت ، شیفتگی اور عقیدت جو محسن کی زندگی کے عناصر تھے۔ انہی سے ان کی شاعری ترکیب پائی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اب بھی اس میں صورتی و معنوی دلکشی پائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے لکھنوی شعراءمیں محسن اپنی مثال آپ ہے۔“

2 تبصرے:

  1. بہت عمدہ اور سلیس مضمون ہے مطالعہ کرنے سے نہایت شادمانی حاصل ہوئی۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. اقتباسات کے حوالے بھی درج ہونے چاہیئں

    جواب دیںحذف کریں