صفحات

ہفتہ, دسمبر 10, 2011

میر انیس کی مرثیہ گوئی

میر انیس
 میرانیس اُردو کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے زمین سخن کو آسمان کردیا ہے۔ جس طرح سودا قصیدہ گوئی میں میر غزل گوئی میں اور میر حسن مثنوی نگاری میں بے مثل ہیں اسی طرح میر انیس مرثیہ نگاری میں یکتا ہیں ۔ اوّل تو میر انیس نے اپنی مرثےوں میں بہت سے نئے موضوعات کو شامل کیا ہے۔ اور اس طرح اس کے دامن کو وسیع کر دیا ہے۔ دوسرا انہوں نے شاعری کو مذہب سے وابستہ کرکے اس کو ارفع و اعلیٰ بنا دیا ہے۔ اس طرح اردو شاعری مادیت کے سنگ ریزوں سے نکل کر روحانیت کے ستاروں میں محو خرام ہو گئی ہے۔
واقعہ کربلا کے کئی سو سال بعد صفوی دور میں فارسی شعراءنے مذہبی عقیدت کی بنا پر مرثیہ نگاری شروع کی جن میں محتشم کانام سر فہرست ہے اردو کے دکنی دور میں بے شمار مرثیے لکھے گئے شمالی ہند میں بھی اردو شاعری کے فروغ کے ساتھ ساتھ مرثیہ گوئی کاآغاز ہوا۔ لیکن سودا سے پہلے جتنے مرثیے لکھے گئے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سودا پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اس کو فنی عظمت عطا کی اور مرثیے کے لئے مسدس کو مخصوص کر دیا جس کو بعد کے شعراءنے بھی قائم رکھا ۔ سودا کے بعد میر خلیق ، میر ضمیر ، دیگر اور فصیح وغیرہ نے مرثےہ کو ترقی دی لیکن فنی بلندی ، امتیازی خصوصیات کو نکھارنے اور جاذب دل و دماغ بنانے کے لئے ااس صنف کو میرانیس کی ضرورت تھی جنہوں نے مرثیہ کو معراج کمال پر پہنچایا انیس نے جس خاندان میں آنکھ کھولی اس میں شعر وشاعری کا چرچا تھا ۔ اور وہ کئی پشت سے اردو ادب کی خدمت کر رہا تھا۔ علاوہ دوسرے اصناف کے مرثیے میں طبع آزمائی کی جارہی تھی۔ میر ضاحک ، میر حسن اور میر خلیق اپنے وقت کے ممتاز مرثیہ نگار تھے۔ الفاظ زبان کی صفائی ، اور صحت پر خاص زور تھا ۔ انیس نے جس وقت مرثیے کی دنیا میں قدم رکھا اس وقت لکھنو میں لفظی اور تصنع پر زیادہ زور تھا اس ماحول میں انیس نے مرثیہ گوئی شروع کی اور دہلی والوں کی اس کہاوت کو غلط ثابت کر دیا کہ ”بگڑا شاعر مرثیہ گو“
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں     
 پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
 رام بابو سکسینہ مصنف ”تاریخ ادب اردو “ کہتے ہیں ۔
” انیس کی شاعری جذباتِ حقیقی کا آئینہ تھی اور جس نیچرل شاعری کا آغاز حالی اور آزاد کے زمانے سے ہوا، اس کی داغ بیل انیس نے ڈالی تھی انیس نے مرثیہ کو ایک کامل حربہ کی صورت میں چھوڑا جس کا استعمال حالی نے نہایت کامیابی سے کیا۔“
پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں کہ،
” انیس کی شاعرانہ عظمت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انیس نے سلاموں اور مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے جن میں بقول حالی حیرت انگیز جلوئوں کی کثرت ہے جن میں زبان پرفتح ہے جو شاعر کی قادر الکلامی جذبے کی ہر لہر اور فن کی ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے۔ جس میں رزم کی ساری ہماہمی اور بزم کی ساری رنگینی لہجے کا اُتار چڑھائو اور فطرت کا ہر نقش نظرآتا ہے ان کا یہ دعویٰ کس طرح بےجا نہیں ،
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں
 کانٹوں کو نزاکت میں گل ِ تر سے ملا دوں
گلدستہ  معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
 اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
 میرانیس اردو کے سب سے بڑے مرثیہ گو شاعر ہیں ہم سب سے پہلے ان کی مراثی کا تجزیہ  فن مرثیہ کے اجزائے ترکیبی کے حوالے سے کریں گے۔
مراثی انیس کے اجزائے ترکیبی:۔
چہرہ:۔             چہرہ مرثیہ کا پہلا جزو ہوتا ہے اس کی حیثیت تقریباً ایسی ہی ہے جیسے قصید ے میں تشبیب کی ہوتی ہے چہرہ سے مرثیہ گو اپنے مرثیہ کا آغاز کرتا ہے یہ آغاز مختلف نوعیت کا ہو سکتا ہے۔ مثلا انیس نے مراثی انیس جلد اوّل میں اپنے پہلے مرثیے کا آغاز دعا سے کیا ہے انہوں نے خدا سے دعا کی ہے کہ ان میں و ہ شعر گوئی کی صلاحیت پیدا کر دے چنانچہ وہ کہتے ہیں ۔
یارب ! چمن نظم کو گلزارِ ارم کر
اے ابر کرم ! خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دم کر
گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
 جب تک یہ چمک مہر کے پر تو سے نہ جائے
 اقلیم سخن میر ے قلم رو سے نہ جائے
 میر انیس نے چہرے میں کبھی کبھی اخلاقی قدروں کو پیش کیا ہے ۔ ان اخلاقی قدروں کی وجہ سے مرثیے کی عظمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
سراپا:۔                        مرثیے کا دوسرا جزو سراپا ہوتا ہے جس میں کرداروں کے جسم ، قدو قامت اور خط و خال کا نقشہ کھینچا جاتا ہے میر انیس نے جا بجا مختلف کراروں کا سراپا پیش کیا ہے۔ حضرت امام حسین کے بڑے بیٹے حضرت علی اکبر تھے ۔ وہ بھی نہایت حسین و جمیل تھے میر انیس ان کے بارے میں فرماتے ہیں،
 گلدستہحسین میں اکبر سا گلبدن
 قربان جس کے تن کی نزاکت پہ یاسمن
سنبل کو لائے پیچ میں و ہ زلف پر شکن
غل تھا کہ تنگ تر کہیں غنچے سے ہے دہن
 مطلب کھلا ہو ا ہے خط سبز رنگ کا
 بہ حاشیہ لکھا ہے اسی متن تنگ کا
رخصت:۔        مرثیہ کا تیسراجزو رخصت ہے جب کوئی جنگ کے لئے جاتا تھا تو اہل بیت اس کو رخصت کرتے تھے جس کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جارہا ہے۔ جناب عون و جناب محمد حضرت زینب کے بیٹے ہیں ۔ اگر چہ کم سن ہیں لیکن شجاعت ان کی سرشت میں داخل ہے ان کی رخصت کا منظر میر انیس یوں بیان کرتے ہیں۔
خیمے سے برآمد ہوئے زینب کے جو دلبر
 دیکھا کہ حسین ابن علی روتے ہیں در پر
بس جھک گئے تسلیم کو حضرت کی ، وہ صفدر
منہ کرکے سوئے چرخ پکارے شہ بے پر
 یہ وہ ہیں جو آغوش میں زینب کے پلے ہیں
بچے بھی تیری راہ میں مرنے کو چلے ہیں
آمد:۔               آمد کو ہم مرثیہ کا چوتھا جزو تصور کر سکتے ہیں اس میں مرثیہ گو کردار کی آمد پیش کرتا ہے اور اس کی شان و شوکت پر روشنی ڈالتا ہے میرانیس نے اپنے مرثیوں میں مختلف کرداروں کی آمد دکھائی ہے۔ حسینی لشکر میں سب سے زیادہ بہادر حضرت عباس تھے اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا عہد شباب تھا اس لئے ان کے بازئوں میں بچوں بوڑھوں سے زیادہ طاقت تھی اسی بناءپر ان کی آمد مندرجہ ذیل بندوں میں پیش کرتے ہیں،
آمد ہے کربلا کے نیستاں میں شیر کی
ڈیوڑھی سے چل چکی ہے سواری دلیر کی
جاسوس کہہ رہے ہیں نہیں راہ پھیر کی
غش آگیا ہے شہ کو یہ ہے وجہ دیر کی
 خوشبو ہے دشت ، بادِ بہاری قریب ہے
 ہشیار غافلو کہ سوار ی قریب ہے
رجز:۔              مرثیہ کا پانچواں جزو رجز ہے جب کردار میدان جنگ میں آتا ہے تو وہ اپنے آبا واجدادکی شجاعت کا بیان کرتاہے ۔ اور پھر اپنی بہادری کا قصد اعدا کے دل میں بٹھا تا ہے۔ میر انیس نے مختلف کرداروں کے رجز کا ذکر کیا ہے جس کی وضاحت مندرجہ ذیل سطور میں کی جاتی ہے۔ حضرت امام حسین رجز خوانی میں ماہر تھے چونکہ وہ بہت اعلیٰ مرتبے کے حامل تھے اس لئے ان کی رجز خوانی میں بہت اثر تھا ۔ اس کے ساتھ ہی اس میں صداقت بھی تھی میر انیس نے ان کی رجز خوانی پر روشنی ڈالی ہے۔
اعدا کی زبانوں پہ یہ حیرت کی تھی تقریر
حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تو لے ہوئے شمشیر
دیکھو نہ مٹائو مجھے اے فرقہ بے پیر
میں یوسفِ کنعانِ رسالت کی ہوں تصویر
 واللہ تعلی نہیں یہ کلمہ  حق ہے
 عالم میں مرقع میں حسین ایک ورق ہے
جنگ:۔                        مرثیے کا چھٹا جزو جنگ کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں کربلا کی جنگ کا نقشہ کھینچا جاتا ہے ۔ میر انیس نے عو ن و محمد کی جنگ کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔
میدان میں عجب شان سے وہ شےر نر آئے
گویا کہ بہم حیدر و جعفر نظر آئے
غل پڑ گیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے
 یوسف سے فزوں حسنِ گراں مایہ ہے ان کا     
 یہ دھوپ بیاباں میں نہیں سایہ ہے ان کا
شہادت:۔         مرثیے کا ساتواں جزو شہادت ہے دراصل شہادت کا سلسلہ میدان ِ کربلا سے قبل ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جب اہل کوفہ نے حضرت امام حسین کو اپنے وطن میں بیعت کے لئے بلایا تو انہوں نے اپنے چچا کے بیٹے مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا۔ وہاں اہل ِ کوفہ نے ان کے ساتھ دغا کی اور ان کو شہید کر دیا ۔یہ منظر دیکھئیے،
جب کوفیوں نے کوفہ میں مسلم سے دغا کی
جو عہد کیا ایک نے اس پر نہ وفا کی
 کی شرم خدا سے نہ محمد سے حیا ءکی
 مظلوم پہ ، بے کس پہ، مسافر پہ جفا کی
پانی نہ دمِ مرگ دیا تشنہ دہن کو
 کس ظلم سے ٹکڑے کیا آوارہ وطن کو
بین:۔   بین کو ہم مرثیے کا آٹھواں جزو تصور کر سکتے ہیں اس حصہ میں شہدائے کربلا پر اہل بیت ماتم کرتے ہیں عورتیں سر کے بال کھول کر فریاد و فغاں کرتی ہیں اور مرد بھی رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں مگر بین کا خاص طور سے تعلق مستورات کی گریہ و زاری سے ہے میر انیس نے بین کے حصے کو بہت مو ثر انداز میں پیش کیا ہے۔
حضرت علی اکبر سب کو عزیز تھے اس کے علاوہ وہ بہت بہادر بھی تھے ان کی شادی کا شوق حضرت بانو اور حضرت زینب کو بہت تھا یہ ارمان بھی اُن کا نہ نکل سکا اس لئے ان کی شہادت کا غم سب کو ہوا۔ اس بین کا ذکر میرانیس نے نہایت مو ثر انداز میں اس طرح کیا ہے۔
آواز پسر سنتے ہی حالت ہوئی تغیر
چلا کے کہا ہائے کلیجے پہ لگا تیر
برچھی سے تو زخمی ہوئے واں اکبرِ دے گر
بسمل سے تڑپنے لگے یاں حضرت شبیر
 تھا کون اُٹھاتا جو زمیں سے انہیں آکر
اُٹھ کر کبھی دوڑے تو گرے ٹھوکریں کھا کر
میر انیس کے مرثیہ کی خصوصیات۔
 میرانیس کے مرثیہ کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں،
جذبات نگاری:۔                      جذبات نگاری شاعری کی جان ہے یہ صرف قدرتِ کلام ہی پر منحصر نہیں بلکہ جذبات نگاری کے لئے قادرالکلامی کے ساتھ فطرت ِ انسانی کا غائر مطالعہ بھی ضروری ہے۔ میرانیس کی وہ سب سے بڑی امتیازی خصوصیت جوان کو اور تمام شعراءسے ممتاز کرتی ہے۔ جذبات نگاری ہے۔ میرانیس کے یہاں جذبات نگاری کے ایسے ایسے نمونے ملتے ہیں جن کی مثالی اردو میں تو کیا دوسری زبانوں میں بھی ملنا دوشوار ہے۔ مثلاً امام حسین کی صاحبزادی حضرت صغریٰ بیمار ہیں امام محترم ان کو اپنے ہمراہ لے جانا نہیں چاہتے ۔ وہ ضد کر رہی ہیں اس وقت میرانیس ، حضرت صغریٰ کی زبان سے کہلواتے ہیں
حیرت میں ہوں باعث مجھے کھلتا نہیں اس کا
 وہ آنکھ چرا لیتا ہے منہ تکتی ہوں جس کا
اس طرح ایک اور نادر مثال اس موقع پر ملتی ہے جب قافلہ مدینہ سے روانہ ہو رہا ہے ۔ حضرت صغریٰ سب سے مل رہی ہیں اور بیماری کی وجہ سے ساتھ نہیں جا سکتی ۔ اس وقت کی کیفیات کی اس سے زیادہ درد انگیز اس سے زیادہ صحیح تصویر اور کیا ہو سکتی ہے جس کو میرانیس نے یہاں بیان کیا ہے۔
 ماں بولی یہ کیا کہتی ہے صغریٰ ترے قرباں
گھبرا کے نہ اب تن سے نکل جائے مری جاں
 بے کس میری بچی تری اللہ نگہباں
 صحت ہو تجھے میری دعا ہے یہی ہر آں
کیا بھائی جدا بہنوں سے ہوتے نہیں بیٹا
کنبے کے لئے جانوں کو کھوتے نہیں بیٹا
منظر کشی:۔               الفاظ میں کسی جذبہ، واقعہ یا منظر کھینچا محاکات کہلاتا ہے۔ محاکات کی قدرت انیس میں اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ خود مرزا دبیر کے مداحوں کو میرانیس کی عظمت کو تسلیم کرنا پڑاہے۔ یہ خصوصیت ان کو(میرحسن مثنوی سحرالبیان) سے ترکہ میں ملی تھی۔ میرانیس کا کما ل یہ ہے کہ جس واقعہ کو بیان کرتے ہیں اس کی تصویرکھینچ دیتے ہیں بلکہ ان کی تصویر کبھی کبھی اصل سے بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بہت خوبصورت مثال پیش کی جاتی ہیں ۔ مثلاً اس جگہ صبح کا سماں کا کتنا اچھا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
 چلنا وہ باد صبح کے جھونکوں کا دمبدم
مرغانِ باغ کی وہ خوش الحانیاں بہم
وہ آب و تاب نہر وہ موجوں کا پیچ و خم
سردی ہوا میں پرنہ زیادہ بہت نہ کم
کھا کھا کے اوس او ربھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا
واقعہ نگاری:۔
میرانیس واقعہ نگاری کے مرد میدان ہیں ۔ بقول شبلی نعمانی
” میرانیس نے واقعہ نگاری کو جس کمال کے درجہ تک پہنچایا اُرد و کیا فارسی میں بھی اس کی نظیر یں مشکل سے ملتی ہیں۔“
میرانیس کی نگاہوں سے دقیق اور چھوٹے سے چھوٹا نکتہ بھی نہیں بچتا ۔ مثلاً ایک موقعے پر گھوڑے کی تیز روی کو لکھا ہے جب حد سے زیادہ تیز دوڑتا ہے تو اُس کی دونوں کنوتیاں کھڑ ی ہوں کرمل جاتی ہیں ۔
دونوں کنوتیاں کھڑ ی ہو کے مل گئیں
 یا جب حضرت امام حسین کے ترسانے کے لئے عمرو بن سعد نے پانی منگوا کر پیا اس موقعہ پر کہتے ہیں۔       
ظالم نے ڈگڈگا کے پیا سا منے جو آب
 ایک موقعہ پر گھوڑے پر سوار ہونے کی حالت کو لکھا ہے۔                             
کچھ ہٹ کے ہاتھ آپ نے رکھا ایا ل پر
 ہٹ کے ایال پر ہاتھ رکھنا سواری کی مخصوص حالت اور تصویر کھینچنے کے لئے یہ حالت دکھانا ضروری ہے۔ یا پھر جب رفقائے امام نے نماز سے لڑائی کے لئے اُٹھے اس موقعہ پرلکھتے ہیں ۔                  
تیار جان دینے پہ چھوٹے بڑے ہوئے
 تلواریں ٹیک ٹیک کے سب اُٹھ کھڑے ہوئے
کردار نگاری:۔                        ڈرامہ کی طرح مرثیہ میں بھی کردار نگاری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ مرثیے کے کردار مثالی ہوتے ہیں ۔ جیسے امام حسین اور ان کے ساتھی حق و صداقت کے علم بردار اور یزیدی لشکر باطل کا پیروکار ۔ انیس کے کردار زندہ اور متحرک ہوتے ہیں ۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ جیسے مرثیہ کا کردار سامع کا قریبی آدمی ہے۔ میرانیس کردار سیرت ، عمر اور مرتبے میں بڑی رعایت رکھتے ہیں یہی وہ خوبی ہے جن کی داد ان کے لکھنوی سامعین یہ کہہ دیتے ہیں کہ میر صاحب ”فرق مراتب کا لحا ظ رکھتے ہیں۔“  مثلاً                 
گردن جھکا دی تانہ ادب میں خلل پرے
قطرے لہو کے آنکھوں سے لیکن نکل پڑے
عمل خیر سے بہکانہ مجھے او ابلیس
یہی کونین کا مالک ہے یہی راس و رئیس
کیامجھے دے گا ترا حاکم مطعون و خسیس
کچھ تردد نہیں کہدے کہ لکھیں پرچہ نویس
  ہاں سوئے ابنِ شہنشاہ ِ عرب جاتا ہوں
 لے ستمگر جونہ جاتا تھا تو اب جاتا ہوں
کردار نگاری انیس پر ختم ہے یہ مصرع دیکھئیے کس قدر زور دار ہے اور کردار کا نقشہ کس قدر مکمل ہے۔      
  نکلا ڈکارتا ہوا ضیغم کچھار سے
تصادم و کشمکش:۔                میرانیس اکثر اپنے مرثیوں میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرتے ہیں اور اس کیفیت کی کشمکش بہت زور دار ہوتی ہے۔ مثلاً انیس کے ایک مشہور مرثیہ”بخدا فارس میدان تہور تھا حر“ میں ڈرامائی تصادم کی بہت اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ اس میں خیر و شر کی قوتوں کا ٹکرائو ڈرامہ اور مکالمات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکائو بار بار
پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لئے قحط ِ آب تھا
اخلاقی شاعری:۔                    انیس نے تمام کلام میں بلند اخلاقی لہر دوڑائی ہوئی ہے۔ جن اخلاق ِ فاضلہ کی تعلیم انیس نے د ی ہے وہ کسی اور جگہ نہیں ملتی ۔ انہوں نے نفسِ انسانی کے انتہائی شرافت کے نقشے جن موثر طریقوں سے کھینچے ہیں ان کا جواب ممکن نہیں ۔ یوم عاشورہ جب امام حسین میدان کا رزار میں جامے کے لئے رخصت ہونے لگتے ہیں تو سب کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں،
جس وقت مجھے ذبح کرے فرقہ ناری
رونا نہ سنے کوئی نہ آواز تمہاری
بے صبروں کا شےوہ ہے بہت گریہ و زاری
جو کرتے ہیںصبر ان کا خدا کرتا ہے یاری
ہوں لاکھ ستم ، رکھیو نظر اپنی خدا پر
 اس ظلم کا انصاف ہے اب روز جز ا پر
رزمیہ شاعری:۔                       رزمیہ شاعری اگرچہ واقعہ نگاری ہی کی ایک قسم ہے لیکن وسعت اور اہمیت کے لحاظ سے اس کے لئے جداگانہ عنوان درکار ہیں۔ سید مسعود حسن رضوی ادیب کا کہنا ہے کہ انیس جنگ کا نقشہ خوب کھینچتے ہیں ، پہلوانوں کی ہئیت ان کی آمد کی دھوم دھام ، رجز کا زور و شور، اور حریفوں کے دائو پیچ خوب دکھاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں شمشیر زنی ، نیزہ بازی ، تیراندازی ، اور شہسواری کی اصطلاحوں سے اکثر کام لیتے ہیں ۔ حرب و ضرب کے ہنگاموں کی ایسی تصویریں کھنچتے ہیں کہ میدان ِ جنگ کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ عام ہنگامہ جنگ کے علاوہ دو حریفوں کا مقابلہ اور ان کی گھاتیں اور چوٹیں اس تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ لڑائی کا سماں سامنے آجاتا ہے۔
نقارہ دغا یہ لگی چوب یک بیک
ُٹھا غریو کوہ کہ ہلنے لگا فلک
 شہپور کی صدا سے ہراساں ہوئے ملک
قرنا پھنکی کہ گونج اُٹھا دشت دور تک
 شور دہل سے حشر تھا افلاک کے تلے
مردے بھی ڈر کے چونک پڑے خاک کے تلے
فصاحت و بلاغت :۔             میرانیس کے کلام کی ایک بڑی خصوصیت ان کی فصاحت و بلاغت ہے میرانیس نے اردو شعراءمیں سب سے زیادہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مگر ان کے ہاں غیر فصیح الفاظ کا ملنا مشکل ہے اور یہی وہ خصوصیت ہے جو ان کو تمام دوسرے مرثیہ گو شعراءسے اورخود مرزا دبیر سے بھی یقےنا ممتاز اور نماےاں کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بیان کا حسن اور طرزِ اد ا کی خوبی اس درجہ موجودہے کہ وہ اردو ادب میں آج بھی اپنا حریف تلاش کررہی ہے۔ خود وہ حضرات بھی جو مرزا دیبرکے کلام کے مداح ہیں اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ انیس کے یہاں دبیر سے زیادہ فصاحت و بلاغت اور حسنِ بیان موجود ہے۔ ان خصوصیات کی مثال ان کا پورا کلام ہے اس لئے اشعار پیش کرنا تحصیل حاصل ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہوں،
دولھا سے پہلے مجھ کو اُٹھا لے تو خوب ہے
عورت کی موت خوب ہے شوہر کے سامنے
 سایہ کسی جگہ ہے نہ چشمہ نہ آب ہے
تم تو ہوا میں ہو، مر ی حالت خراب ہے
پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
 ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فرات کی
تشبیہات و استعارات:۔                     میر انیس نے تشبیہات اور استعارات کے نہایت دلکش نقش و نگار بنائے ہیں اور عجب خوشنما رنگ بھرے ہیں ۔ بقول شبلی
” اگر تکلف و تصنع سے کام نہ لیا جائے تو تشبیہات و استعارات حسنِ کلام کا زیور بن جاتے ہیں۔“
انیس کی تشبیہہیں نہایت نیچرل سادہ اور پرُ تکلف ہوتی ہیں ۔ انیس تشبیہ مرکب کا استعمال کرتے تھے۔ اور عموماً محسوسات سے تشبیہ دیتے تھے۔ ضنائع بدائع بھی کثرت سے انیس کے کلام میں موجود ہیں ۔ مگر خود انیس کی طبیعت کا رجحان اس طرف نہ تھا۔ لیکن چونکہ زمانہ کا عام مذاق یہی تھا۔ اس لئے انیس کوبھی کلام میں صنعتیں استعمال کرنا پڑیں تاہم اکثر و بیشتر صنعتیں ایسی ہیں جو بغیر کسی کوشش کے خود بخود پیدا ہو گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ پر کیف اور اثر انگیز ہے۔ میر انیس کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی فطری خصوصیت یعنی حسنِ مذاق لطافت ِ تخیل ، موزونیتِ طبع اور معیار صحیح کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ جدت و ندرت کے ساتھ بے تکلفی اور آمد پائی جاتی ہے۔ تکلف اور بھدا پن بالکل نہیں ہے۔ مثلاً
 پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
 پر تھی رخوں پہ خاک تیمم سے طرفہ آب
 باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب 
 ہوتے ہیں خاکسار غلام ابوتراب
تشبیہ کی خوبیاں جس قدر میرانیس کے کلام میں پائی جاتی ہیں اُردو زبان میں اور کہیں نہیں مل سکتی ۔ مثلاً جب حضرت عباس پر چاروں طرف سے پرچھیاں چلنے لگیں تو یہ حالت اس طرح ظاہر کی۔
یوں برچھیاں تھیں چاروں طرف اس جناب کے
 جیسے کرن نکلتی ہے گرد آفتا ب کے
 محسوسات سے جو تشبیہ دی جاتی ہے نہایت عمدہ خیال کی جاتی ہے کیونکہ محسوسات رات دن محسوس ہوتے رہتے ہیں اس قسم کی تشبیہات میرانیس کے یہا ں کثرت سے ہیں ۔ مثلابھاگڑ او ر اضطراب کا بیان،
 یوں روح کے طائر تن و سر چھوڑ کے بھاگے
جیسے کوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے
کلام کی ترتیب:۔                   یعنی الفاظ جس ترتیب سے بو ل چال میں آتے ہیں جو ترتیب نثر میں ہوتی ہے وہ ترتیب شعر میں قائم رہے ۔ یہ صفت قادرالکلامی کی انتہا ہے ۔ اور میر انیس سے زیادہ کسی شاعر کے یہاں نہیں پائی جاتی مثلاًحضرت زینب دعا مانگی ہیں،
سر پر اب علی نہ رسول فلک وقار
گھر لٹ گیا گزر گئیں خاتون روزگار
اماں کے بعد روئی حسن کو میں سوگوار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کی عدالت پناہ ہے
 کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تبا ہ ہے
روز مرہ محاورہ:۔                               انیس کو خود اپنے روزمرہ و محاورہ پر ناز تھا۔ اور بجا طورپر ناز تھا ۔دراصل روزمرہ محاورہ اصل میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔ لیکن بعض اہل تحقیق زبان دانوں نے ان میں فرق قرار دیا ہے اور وہ یہ کہ ایک سے زیادہ لفظ یا ترکیبیں حقیقی معنوں میں جس طرح اہل زبان استعمال کرتے ہیں ان کو روزمرہ اور مجازی معنوں میں مستعمل ہونا محاورہ کہلاتا ہے۔ مثلاً
 آگے تھے سب کے حضرت عباس ذی حشم
بڑھ بڑھ کے روکتے تھے دلیروں کو دمبدم
 تیغیں جو تولتے تھے ، ادھر بانی ستم
کہتے تھے سر نہ ہوگا بڑھایا اگر قدم
 میرانیس کے ان اشعار میں ”بڑھ بڑھ کے“ اور ”سر نہ ہوگا“ روزمرہ ہے اور ”تیغیں تولتے تھے“ محاورہ ہے۔
 انیس نے اردو کو موقع ومحل کے مطابق عوامی بنانے کی کوشش کی ہے ان کے مرثیوں میں بعض اوقات مقامی الفاظ اس خوبصورتی سے سماجاتے ہیں کہ ان کی مرصع ساز ی اور نگینہ سازی پر دل عش عش کر اُٹھتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انیس نے زبان کے جمالیاتی پیکر مقامی مٹی سے تراشے ہیں،شہاب سروری فرماتے ہیں،
’ ’ میرانیس نے اردو زبان کو اصطلاحات کی دولت دے کر اردو کے دامن کو مالا مال کر دیا ہے۔“
مجموعی جائزہ:۔
میرانیس کے ہاں مرثیوں میں قصیدے کی شان و شوکت، غزل کا تغزل ، مثنوی کا تسلسل ، واقعہ اور منظر نگاری اور رباعی کی بلاغت سب کچھ موجود ہے۔ مولانا شبلی انیس کے بارے میں فرماتے ہیں،
” ان کا کلام صیح و بلیغ ہے ۔ زبان صحیح اور روز مرہ بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے۔ انتخاب الفاظ مضمون اور موضوع کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ جزئیات نگاری میں اُستادانہ مہارت ، جذبا ت کے بیان کا خاص سلیقہ ، منظر نگاری اور مظاہر قدرت کے بیان میں زور تشبیہات اور استعارات میں جدت اور ندرت ہے۔“
انیس کے مرثیے رزمیہ شاعری کے شہ کار ہیں۔ مناظر ِ قدرت کے بیان انسانی جذبات کی مصوری اور رزم آرائی میں انہوں نے حیرت انگیز واقفیت کا ثبوت دیا ہے۔ فنی مہارت بلند تخیل اور مضمون آفرینی کی اس سے بہتر مثال کہیں اور نہیں ملتی ۔ انیس کے مرثیوں میں مبالغہ بھی ہے اور تکلف و تصنع بھی۔ لیکن ایک تو ان چیزوں میں اعتدال ہے دوسرے ان کی شعری خوبیوں نے ان سب پر ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ یہ چیزیں عیب کی جگہ حسن بن گئیں ہیں۔بقول رام بابو سکسینہ،
” ادب اردو میں انیس ایک خاص مرتبہ رکھتے ہیں بحیثیت شاعر کے ان کی جگہ صف اولین میں ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کو زبان اردو کے تمام شعراءسے بہترین اور کامل ترین سمجھتے ہیں اور ان کو ہندوستان کاشکسپیر اور خدائے سخن اور نظم اردو کا ہومر اور ورجل اور بالمیک خیال کرتے ہیں۔“

13 تبصرے:

  1. ادب مین آپ کا بلاگ اچھا اضافہ ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. پریس ریلیز برائے اشاعت

    کتاب "میر انیس اور قصہ گوئی کا فن"  کی اشاعت


    ڈاکٹرفرحت  نادر رضوی کی کتاب  "میر انیس اور قصہ گوئی کا فن"   کی اشاعت مکمل ہو گئی ہے.  یہ کتاب چار سو چھیانوے صفحات پر مشتمل ہے۔  ڈاکٹر فرحت کی یہ تخلیق انکی اس تحقیقی کاوش کا ثمرہ ہے جو انہوں نے 

    لکھنو یونیورسٹی میں پروفیسر انیس اشفاق صاحب کے زیر سرپرستی انجام دی. یہ گراں قدر دستاویز ان تمام طلاب و محققین کے لیے ایک بیش بہا علمی اور تحقیقی سرمایہ ہے جو میر انیس اور مراثی میں بالخصوص اور اردو ادب یا فن داستان گوئی میں بالعموم دلچسپی رکھتے ہیں۔  


    کتاب کی اشاعت لکھنو ایجوکیشنل اینڈ ڈیویلپمنٹ ٹرسٹ نے کی ہے اور اسکی طباعت یو ایس اے کی کمپنی کرئٹ اسپیس انڈیپنڈنٹ پبلشنگ پلیٹفارم پر کی گئی ہےنیز اسے آمیزن پر یو ایس اے سے جاپان تک دنیا کے سارے طول عرض میں   پیپربیک نیز کنڈل،  دونوں ہی فارمیٹ میں حاصل کیا جا سکتا ہے.  اسے امیزن پر مصنفہ کا نام یا کتاب کا نام انگریزی رسمالخط میں تائپ کر کے تلاش کیا جا سکتا ہے۔          


    لکھنو ایجوکیشنل اینڈ ڈیویلپمنٹ ٹرسٹ اعلی معیاری تحقیق و تالیف کے فروغ کے لیے مصروف عمل ہے اور وہ محققین و صاحبان قلم جو اپنی تالیف اردو انگریزی یا ہندی زبان میں ڈاکٹر فرحت کی کتاب کے طرز پر شایع کرانا چاہتے ہون وہ ٹرسٹ سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں. 



    جاری کردہ

    مسعود رضوی

    چیرمین و منیجنگ ٹرسٹی

    لکھنو ایجوکیشنل اینڈ ڈیویلوپمینٹ ٹرسٹ






    کتاب کے لنک امیزن پر:

    پیپر بیک: https://www.amazon.in/dp/1977566804

    کنڈل:https://www.amazon.in/dp/B0775FP2QS

    جواب دیںحذف کریں
  3. عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
    پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں

    جواب دیںحذف کریں
  4. میر انیس کے زمانے میں اودھ کی محاشرتی اور ثقافتی صورت حال

    جواب دیںحذف کریں

  5. اردو کے اس نامور محقق کا نام بتاٸیں جنہوں نے میر ببر علی انیس کو اقیلم ِ مر ثیہ گوٸی کے شہنشاہ کہا تھا ۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. پیاسی جو تھی سیاہ خدا تین رات کی ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فرات کی

    جواب دیںحذف کریں
  7. نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میری
    ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
    رنگ اڑتے ہیں وہ رنگیں ہے عبارت میری
    شور جس کا ہے وہ دریا ہے طبیعت میری
    عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
    پانچویں پشت ہے شبیرؔ کی مداحی میں



    اس بند میں
    نمک
    کس وزن پر باندھا گیا ہے؟

    جواب دیںحذف کریں