صفحات

بدھ, مارچ 27, 2013

پاکستانی نظم

جہاں تک نظم کی ارتقاءکا تعلق ہے تو نظم کی ترقی کا دور 1857ءکے بعد شروع ہوا لیکن اس سے پہلے بھی نظم ہمیں ملتی ہے۔ مثلا جعفر زٹلی اور اور شاہ حاتم وغیرہ کے ہاں موضوعاتی نظمیں ملتی ہیں۔ لیکن ہم جس نظم کی بات کر رہے ہیں اس کا صحیح معنوں میں نمائندہ شاعر نظیر اکبر آباد ی ہے ۔ نظیر کا دور غزل کا دور تھا لیکن اُس نے نظم کہنے کو ترجیح دی اور عوام کا نمائندہ شاعر کہلایا ۔اُس نے پہلی دفعہ نظم میں روٹی کپڑ ا اور مکان کی بات کی اور عام شخص کے معاشی مسائل کو شعر میں جگہ دی ۔ اُن کے بعد 57 تک کوئی قابل ذکر نام نہیں لیکن 57 کے بعد انگریزی ادب کا اثر ہمارے ادب پر بہت زیادہ پڑا اور اس طرح انجمن پنجاب کے زیر اثر موضوعاتی نظموں کا رواج پڑا۔ آزاد اور حالی جیسے لوگ سامنے آئے نظم کو سرسید تحریک نے مزید آگے بڑھایا لیکن اس نظم کا دائرہ محدود تھا۔ موضوعات لگے بندھے اور ہیئت پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی ۔ ہاں اس دور میں ہیئت کے حوالے سے ا سماعیل میرٹھی اور عبدالحلیم شرر نے تجربات کیے لیکن انھیں اتنی زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی ۔ اکبر الہ آبادی اور اسماعیل میرٹھی کے ہاں مقصدیت کا سلسلہ چلتا رہا
لیکن علامہ اقبال نے نظم کہہ کر امکانات کو وسیع تر کر دیا اُس نے ہیئت کا تو کوئی تجربہ نہیں کیا لیکن اُس نے نظم کی مدد سے انسان خدا اور کائنات کے مابین رشتہ متعین کرنے کی کوشش کی اور اس طرح اس فلسفے سے نئی راہیں کھلیں انھوں غیر مادی اور مابعد الطبعیاتی سوالات اُٹھائے جس کی وجہ سے نظم میں موضوع کے حوالے سے نئے راستوں کا تعین ہوا ۔ اس کے بعد رومانیت پسند وں کے ہاں نظم آئی جن میں اختر شیرانی ، جوش ،حفیظ اور عظمت اللہ خان شامل ہیں لیکن وہ اقبال کی نظم کو آگے نہ بڑھا سکے اور محدود اور عمومی سطح کی داخلیت تک نظم کو ان لوگوں نے محدود کر دیا ۔
اس کے بعد نظم کا سفر ترقی پسند تحریک تک پہنچا ان لوگوں کے ہاں بھی ہیئت کے تجربے ہمیں نظر نہیں آتے ان شعراءمیں فیض ، مجاز ، ندیم ، ساحر وغیرہ شامل تھے۔
اس کے بعد ہمارے سامنے حلقہ ارباب ذوق کی نظم آتی ہے جن میں ن۔م راشد ، میراجی شامل ہیں انھوںنے شعوری کوشش کے ساتھ آزاد نظم کے تجربات کیے اور تہذیبی روایات ان فیض سے ہوتے ہوئے جب ان لوگوں تک آئی تو ٹوٹ گئی اور انھوں نے ایک جدید نظم کی ابتداءکی ان دونوں شعراءکی نظم پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم نظم کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں ۔
47 کے بعد جو نظم سامنے آتی ہے اس میں تین بڑے رجحانات ہیں ۔پہلا ترقی پسندی جس میں رومان اور انقلاب دونوں کا حوالہ موجود ہے۔ دوسرا حلقہ ارباب ذوق کا داخلیت پسند رجحان جس میں معاشرے کی داخلی سطح کو دیکھا گیا ۔ جبکہ تیسرا رجحان جدید شعراءکا ہے جو مشینی اور صنعتی زندگی کاپیدا کر دہ ہے۔
رومانی او ر انقلابی قدروں کا رجحان
اس رجحان کو ترقی پسند تحریک سے وابستہ قرا ر دیا جاتا ہے ۔ یہ تحریک ایک مقصدی تحریک تھی جس نے مقاصد پر زیادہ زور دیا ۔ آزادی کے بعد جب عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو وہ جس لائن پر چل رہے تھے اسی پر چلتے رہے ۔ اُن کا مقصد یہ تھا کہ معاشرہ جس بحران اور غربت و افلاس کا شکار ہے اس کو ختم ہونا چاہےے ۔ اسی رجحان سے وابستہ شاعر مندرجہ ذیل ہیں ۔

ہفتہ, مارچ 02, 2013

پاکستانی غزل

غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نمائندہ جس نے اس کو باقاعدہ رواج دیا تھا۔ وہ ولی دکنی تھا۔ لیکن ولی سے غزل کاآغاز نہیں ہوتا اس سے پہلے ہمیں دکن کے بہت سے شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے۔ مثلاً قلی قطب شاہ، نصرتی ، غواصی ، ملاوجہی۔ لیکن ولی نے پہلی بار غزل میں تہذیبی قدروں کو سمویا ۔ اس کے بعد ہمارے سامنے ایہام گو شعراءآتے ہیں۔ جنہوں نے بھی فن اور فکر کے حوالے سے غزل کو تہذیب و روایات سے قریب کیا۔ایہام گوئی کے کی بعد اصلاح زبان اور فکر کی تحریک شروع ہوئی جو مظہر جانِ جاناں نے شروع کی انہوں نے غزل میں فارسیت کو رواج دیا۔ لیکن وہ مکمل طور پر ہندیت کو غزل سے نکال نہیں سکے۔لہٰذا اس کے بعدمیر تقی میر او ر سودا کا دور ہمارے سامنے آتا ہے اس میں ہمیں نئی تہذیب اور اسلوب کا سراغ ملتا ہے۔ اس میں ہمیں وہ کلچر نظر آتا ہے جو ہندی ایرانی کلچر ہے ۔وہ اسلوب ہے جس میں فارسی کا غلبہ تو ہے لیکن اندرونی طور پر ھندی ڈکشن کے اثرات ہیں۔میر اورسودا کا دور غزل کے عہد زریں کا دور ہے ۔ جس میں مکمل طور پر کلاسیکی پیمانوں کی پیروی کی گئی ۔
لکھنو میں غزل کا پہلا دور مصحفی ، انشاء، رنگین اور جرات کا ہے یہاں پہلی دفعہ کلاسیکی موضوعات پر ضرب پڑتی ہے اور اسلوب اور موضوع کے حوالے سے بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں ۔ لکھنو کا دوسرا دور جو آتش اور ناسخ کا دور ہے اس میں پچھلے دور کے اقدار کو مزید مضبوط کیا جاتا ہے۔ یہاں سے محبوب اور اس کی شخصیت تبدیل ہونی شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے جو پاکیزگی کا تصور تھا اس میں دراڑیں پڑتی ہیں
اس کے بعد غالب کا دو رآتا جس پر لکھنو کا اثر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن فکری حوالے سے اس دور میں بڑی تبدیلی نظرآتی ہے۔ یہاں سے ایسی غزل شروع ہوتی ہے جو اپنے دامن میں تفکر کے بہت سے زاویے رکھتے ہی جس میں فلسفہ اور خاص کر خدا ، انسان اور کائنات کارشتہ مقرر کرنا جیسے موضوعات غزل میں داخل ہوتے ہیں۔
1857ءکے بعد غزل کا وہ دور شروع ہوتا ہے جس میں کلاسیکی عمل کے اثرات ہیں۔ یعنی رام پور کا دور ۔ اس دور میں داغ دہلوی، امیر ، جلال اور تسلیم جیسے شاعر شامل ہیں۔
اس کے بعد صحیح معنوں میں غزل کا جدید دور شروع ہوتا ہے۔ اور وہ ہے الطاف حسین حالی کادور اس میں کوئی شک نہیں کہ حالی نے جدید غزل کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ حالی کی غزل کی بنیاد دراصل مقصدیت پر ہے۔اس کے بعد جو اہم نام جدید غزل کے حوالے سے ہمارے سامنے آتا ہے وہ اقبال کا ہے ۔ وہ حالی کی مقصدیت کو آگے لے کر چلتے ہیں لیکن وسیع معنوں میں۔ اقبال صرف اخلاقیات اور مقصدی مضامین تک محدود نہیں رہے۔ اقبال کی غزل کا مرکزی کردار مکالمے کرتا ہے ۔ فطرت سے، کائنات سے ، اور سب سے بڑھ کر اپنے داخل سے ۔ اب غزل ایک نئے تصور کے تحت آگئی ہے۔ انسان ، خدا ، کائنات اور فطرت کے رشتے اور پھیلی ہوئی کائنات سب اس میں موجود ہیں۔
اقبال کے بعداصغر ، فانی بدایونی ، حسرت موہانی ، جگر مراد آبادی اور یاس یگانہ چنگیزی جدید معمار ہیں۔ اصغر تصوف کے راستے اور فانی نے موت اور یاسیت کے راستے کائنات کی معنویت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جگر ایک رندی اور سرمستی کے راستے تلاش کرتا ہے۔ جبکہ حسرت موہانی ایک نیا تصورِ عشق سامنے لاتے ہیں ۔ انھوں نے غیر مادی تصور عشق کو مٹا کر مادی تصورِعشق دیا۔ اُس نے ایک مادی پیکر محبوب کو دیا جو اسی زمین پر ہمارے درمیان رہتا ہے۔ جبکہ یاس یگانہ چنگیزی حقیقت کے حوالے سے اور ذات کی انانیت کے حوالے سے اہم نام ہے۔
اس کے بعد ہمارے سامنے ترقی پسندوں کا گروپ آتا ہے جس میں بہت سے شاعر ساحر، فیض ، مجروح، احمد ندیم قاسمی ، عدم ، جانثار اختر وغیر ہ شامل ہیںاور ترقی پسند تحریک تک غزل پہنچتی ہے۔ اس کے بعد 1947ءکے بعد کچھ شاعر ہندوستان میں رہ جاتے ہیں اور کچھ پاکستان میں ۔