جہاں تک نظم کی ارتقاءکا تعلق ہے تو نظم کی ترقی کا دور 1857ءکے بعد شروع ہوا لیکن اس سے پہلے بھی نظم ہمیں ملتی ہے۔ مثلا جعفر زٹلی اور اور شاہ حاتم وغیرہ کے ہاں موضوعاتی نظمیں ملتی ہیں۔ لیکن ہم جس نظم کی بات کر رہے ہیں اس کا صحیح معنوں میں نمائندہ شاعر نظیر اکبر آباد ی ہے ۔ نظیر کا دور غزل کا دور تھا لیکن اُس نے نظم کہنے کو ترجیح دی اور عوام کا نمائندہ شاعر کہلایا ۔اُس نے پہلی دفعہ نظم میں روٹی کپڑ ا اور مکان کی بات کی اور عام شخص کے معاشی مسائل کو شعر میں جگہ دی ۔ اُن کے بعد 57 تک کوئی قابل ذکر نام نہیں لیکن 57 کے بعد انگریزی ادب کا اثر ہمارے ادب پر بہت زیادہ پڑا اور اس طرح انجمن پنجاب کے زیر اثر موضوعاتی نظموں کا رواج پڑا۔ آزاد اور حالی جیسے لوگ سامنے آئے نظم کو سرسید تحریک نے مزید آگے بڑھایا لیکن اس نظم کا دائرہ محدود تھا۔ موضوعات لگے بندھے اور ہیئت پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی ۔ ہاں اس دور میں ہیئت کے حوالے سے ا سماعیل میرٹھی اور عبدالحلیم شرر نے تجربات کیے لیکن انھیں اتنی زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی ۔ اکبر الہ آبادی اور اسماعیل میرٹھی کے ہاں مقصدیت کا سلسلہ چلتا رہا
لیکن علامہ اقبال نے نظم کہہ کر امکانات کو وسیع تر کر دیا اُس نے ہیئت کا تو کوئی تجربہ نہیں کیا لیکن اُس نے نظم کی مدد سے انسان خدا اور کائنات کے مابین رشتہ متعین کرنے کی کوشش کی اور اس طرح اس فلسفے سے نئی راہیں کھلیں انھوں غیر مادی اور مابعد الطبعیاتی سوالات اُٹھائے جس کی وجہ سے نظم میں موضوع کے حوالے سے نئے راستوں کا تعین ہوا ۔ اس کے بعد رومانیت پسند وں کے ہاں نظم آئی جن میں اختر شیرانی ، جوش ،حفیظ اور عظمت اللہ خان شامل ہیں لیکن وہ اقبال کی نظم کو آگے نہ بڑھا سکے اور محدود اور عمومی سطح کی داخلیت تک نظم کو ان لوگوں نے محدود کر دیا ۔
اس کے بعد نظم کا سفر ترقی پسند تحریک تک پہنچا ان لوگوں کے ہاں بھی ہیئت کے تجربے ہمیں نظر نہیں آتے ان شعراءمیں فیض ، مجاز ، ندیم ، ساحر وغیرہ شامل تھے۔
اس کے بعد ہمارے سامنے حلقہ ارباب ذوق کی نظم آتی ہے جن میں ن۔م راشد ، میراجی شامل ہیں انھوںنے شعوری کوشش کے ساتھ آزاد نظم کے تجربات کیے اور تہذیبی روایات ان فیض سے ہوتے ہوئے جب ان لوگوں تک آئی تو ٹوٹ گئی اور انھوں نے ایک جدید نظم کی ابتداءکی ان دونوں شعراءکی نظم پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم نظم کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں ۔
47 کے بعد جو نظم سامنے آتی ہے اس میں تین بڑے رجحانات ہیں ۔پہلا ترقی پسندی جس میں رومان اور انقلاب دونوں کا حوالہ موجود ہے۔ دوسرا حلقہ ارباب ذوق کا داخلیت پسند رجحان جس میں معاشرے کی داخلی سطح کو دیکھا گیا ۔ جبکہ تیسرا رجحان جدید شعراءکا ہے جو مشینی اور صنعتی زندگی کاپیدا کر دہ ہے۔
رومانی او ر انقلابی قدروں کا رجحان
اس رجحان کو ترقی پسند تحریک سے وابستہ قرا ر دیا جاتا ہے ۔ یہ تحریک ایک مقصدی تحریک تھی جس نے مقاصد پر زیادہ زور دیا ۔ آزادی کے بعد جب عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو وہ جس لائن پر چل رہے تھے اسی پر چلتے رہے ۔ اُن کا مقصد یہ تھا کہ معاشرہ جس بحران اور غربت و افلاس کا شکار ہے اس کو ختم ہونا چاہےے ۔ اسی رجحان سے وابستہ شاعر مندرجہ ذیل ہیں ۔