تحریر : فقیرا خان فقریؔ
امراؤ جان ادا مرزا محمد ہادی رسوا لکھنوی کا معرکۃ الآرا معاشرتی ناول ہے۔ جس میں انیسویں صدی کے لکھنو کی سماجی اور ثقافتی جھلکیاں بڑے دلکش انداز میں دکھلائی گئی ہیں۔ لکھنو اُس زمانے میں موسیقی اور علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ رسوا نے اس خوب صورت محفل کی تصویریں بڑی مہارت اور خوش اسلوبی سے کھینچی ہیں۔ اس ناول کو ہمارے ادب میں ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ ”شرر“ کے خیالی قصوں اور نذیر احمد کی اصلاح پسندی کے خلاف یہ ناول اردو ناو ل نگاری میں زندگی کی واقعیت اور فن کی حسن کاری کو جنم دیتاہے۔ آئیے ناول کا فنی اور فکری جائزہ لیتے ہیں۔
فنی جائزہ
کردار نگاری
فنی لحاظ سے ناول امراؤ جان ادا میں بہت زیادہ کردار ہیں۔ ناول کا مطالعہ کرتے ہوئے احسا س ہونے لگتا ہے کہ اس ناول میں قدم قدم پر نئے نئے کردار رونما ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کرداروں کے نام ان گنت ہو کر رہ گئے ہیں۔ اتنے زیادہ کردار شائد ہی اردو کے کسی ناول میں ہوں۔ لیکن اتنے زیادہ کردار ہونے کے باجود کرداروں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ہر لحاظ سے مکمل نبھاہ کیا گیاہے۔ رسوائکے ہاں اس ناول میں بڑا کردار ہویا چھوٹا کردار ، ناول نگار نے اسے اپنے تمام تر نفسیات و جذبات عادات و اطوار خاندانی پس منظر اور موجودہ حیثیت و عمر کے ساتھ پیش کر دیاہے۔
امراؤ جان ادا
ناول کا سب سے بڑا کردار امراؤ کا ہے ۔ اس کی اہمیت مسلم ہے۔ وہ قصے کی ہیروئن ہے۔ اس لئے پور ے قصے پر چھائی ہوئی ہے۔ بقول ڈاکٹر میمونہ انصاری:
”امراؤ جان ادا کا کردار اردو زبان میں اہم ترین کردار ہے۔ یہ پہلا سنجیدہ کردار ہے جو اپنی زندگی کا ضامن ہے۔ اب تک اس کردار کا ثانی کردار تخلیق نہیں ہوا۔“
امراؤ جا ن پیدائشی طوائف نہ تھی وہ شریف ذادی تھی اور شریف گھرانے میں پیدا ہوئی تھی ۔ دس برس تک شریف والدین کے زیرسایہ زندگی بسر کی ۔ پھر ایک منتقم مزاج شخص کے انتقام کی بھینٹ چڑھ کر اغوا ہوکر خانم کے کھوٹے پر پہنچی ۔ جہاں تعلیم و تربیت پا کر طوائف بنا دی گئی۔ شاعرہ تھی۔ ادب سے مس تھا۔ قبول صورت تھی ، رقص و سرور میں ماہر تھی۔ ان خوبیوں کی بنا پر مشہور ہوئی جہاں جاتی سر آنکھوں پر بٹھائی جاتی ۔امراؤ جان ادا کے کردار پر مراز رسوا نے بڑی محنت کی ہے۔ امراؤ کے کردار میں تدریجی تبدیلیاں دراصل اس کی فطرت کی شریفانہ جوہر کی پیداوار ہیں۔ یہ جو ہر اسے ورثہ میں ملاتھا۔اب اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب وہ چکلے کے گھناونے ماحول سے متنفر ہو چکی ہے اور اسے رنڈی بن کر جینا پسند نہیں۔ اس کردار کا یہ ارتقاءاس کی شخصیت و کردار میں عجیب مقناطیسی کشش پیدا کر دیتا ہے۔ اور قاری کی نظر میں مطعون اور مقہور ہونے کی بجائے رحم اور ہمدردی کی مستحق ٹھہر تی ہے۔ آخر ی عمر میں وہ سب کچھ ترک کر دیتی ہے۔ اور عام لوگوں سے بھی ملنے جلنے سے احتراز کرتی ہے۔ اور نماز روزے کی سختی سے پابندی کرنے لگتی ہے۔ آخر ی عمر میں کربلا معلی کی زیارت سے بھی فیض یا ب ہوئی۔ اس طرح اس کردار کی تشکیل میں رسوا نے گہرا نفسیاتی مطالعے سے کام لیا ہے۔
خانم
خانم کا کردار اس ناول میں ایک خاص مقام کا حامل ہے۔ اپنے کردار کے حوالے سے گناہ کی دنیا میں وہ ایک سردار اور پیش رو کی حیثیت رکھتی ہے۔ ناول کی فضاءمیں خانم جان نوابین کے لئے قدم قدم پر سامان تعیش فراہم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ملک کے طول و عرض سے بہلا پھسلا کر لائی گئی یا اغوا شد ہ لڑکیوں کو اونے پونے داموں خرید لینا خانم کا شیوہ ہے۔ وہ اپنے مکروہ عزائم اور ناپاک ارادوں کی تکمیل کی غرض سے خریدی ہوئی لڑکیوں کی پرورش کرتی ہے۔ جوان ہو جانے پروہ ان کی آبرو کی دکان لگاتے ہوئے اپنا کاروبار چمکاتی ہے۔ اس کے کردار میں تضاد بھی پایا جاتا ہے ایک طرف تو وہ طوائفوں کو قرآن پڑھانے کے لئے مولوی کا انتظام کرتی ہے اور دوسری طرح اس گھناونے دھندے پر بھی انھیں مجبور کرتی ہے۔وہ ایک مکار عورت ہے او ر مکمل طوائف پیسے کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتی ہے اپنی بیٹی کی تربیت بھی انہی خطوط کر تی ہے۔
بسم اللہ جان
یہ خانم کی بیٹی ہے اسی وجہ سے بسم اللہ جان کو ہم خاندانی طوائف کہہ سکتے ہیں دوسری نوچیوں کے مقابلے میں اس پر اپنی ماں کا بہت زیادہ اثر ہے۔ چنانچہ دوسری طوائفوں کی نسبت اپنے پیشے میں یہ سب سے زیادہ کامیاب ہے۔
خورشید جان
جہاں تک خورشید جان کا تعلق ہے۔ امراؤ جان ادا کی طرح یہ بھی ایک شریف گھرانے کی بیٹی ہے کسی زمیندار کی لڑکی ہے اغوا کرکے لکھنو کے شہر میں خانم کے ہاتھ بیچ دی جاتی ہے۔ اور خانم اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے۔ اس کے کردار میں تھوڑا بہت تضاد بھی ہے۔ کبھی تو ناول نگار اسے خوبصورت کہنے کے ساتھ ساتھ ناچ گانے کی ماہر ثابت کرتا ہے مگر کبھی کہتا ہے کہ خوبصورت مگر ناچنے گانے میں پھوہڑ، بہر حال اس کی رگوں میں شریف خاندان کا خون ہے۔ گناہ کے دھندے کوتہ دل سے قبول نہیں کرتی ۔ ا
گوہر مرزا
گوہر مرزا بنو ڈومنی کا بیٹا ہے اس کی عادات و اطوار ، حرکات و سکنات ، نشست و برخاست اور گفتگو سے اس کے خاندانی پس منظر کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ وہ کردار ہے جس کاکوئی ضمیر نہیں پرلے درجے کا شرارتی ، بیکار اور بے غیرت قسم کا کردار اگر کوئی ہے تو گوہرمرزا ہے۔
نواب سلطان
نواب سلطان کے کردار میں خاندانی وجاہت اور شرافت کا عنصر پایا جاتا ہے ٹھیک ہے وہ چھپتے چھپاتے ، اندھیرے میں امراؤ جان سے ملنے آتے ہیں ۔ جو کہ ایک بدی ضرور ہے لیکن انہیں اس کا احساس بھی ہے۔ نواب سلطان کے کردار میں ہمیں ایسا کردار نظرآتا ہے جو دوسروں پر اپنی شرافت و نیک نامی ثابت کرتا ہے ۔ بےشک بہت سی دیگر خصلتوں کے پیش نظر نواب سلطان ایک شریف انسان ہے۔ لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ طوائف کے کوٹھے پر جانا اُن کے کردار کا ایک بہت بڑا عیب ہے۔
نواب چھبن
مصنف نے ان کی گوری رنگت ، کسرتی بند اور بسم اللہ جان کا دم بھرنے کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس سے نواب چھبن کے ظاہری خدوخال ہماری آنکھوں کےسامنے پھر جاتی ہے۔ بسم اللہ جان کے دام میں اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ اپنی منگیتر بڑے چچا کی بیٹی کو بھی ٹھکرانے پر تلا ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ نواب چھبن کا ضمیر اور غیر کس قدر زندہ ہے۔ اس لئے خانم کی طعن و تشنیع سے دل برداشتہ ہو کر پانی میں ڈوب مرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ مگر زندہ بچ جانے کے باوجود دوبارہ خانم کے نگار خانے پر حاضری نہیں دیتا.
پلاٹ
جہاں تک پلاٹ کا ، قصے یا کہانی کا تعلق ہے تو صاف ظاہر ہے کے ناول کا پلاٹ ، انتہائی رواں دواں سیدھا سادہ اور ہرقسم کی پیچیدگی سے مبرا ہے۔ کہانی کے سبھی حالات و واقعات ایک خاص تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے ظہور پذیر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اور قاری کے ذہن پر مختلف نقوش ثبت کرتے رہتے ہیں۔ ناول کے پلاٹ میں سے گزرتے ہوئے ہماری آنکھوں کے سامنے مختلف حالات و واقعات مختلف اوقات میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ مختلف مناظر اور نظارے پل بھر کے لئے بہار دکھاتے ہوئے گذر جاتے ہیں مختلف زندگیاں مختلف کردار کی صورت میں اپنی اپنی بولی بول کر اوجھل ہو جاتی ہیں اور پڑھنے والا سوچوں کی اتھاہ گہرائیوں میں چھوڑ جاتی ہیں۔ ناول کے پلاٹ میں ایک ہی قصے کے باوجود بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جو باہم مربو ط ہو کر ایک بڑی کہانی تشکیل دیتے ہیں۔امراؤ جان کے اغوا سے لے کر آخر تک تمام واقعات فنکارانہ مہارت و چابکدستی سے باہم منسلک کر دئیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناول میں خرابی یا جھول محسوس نہیں ہوتا۔
اسلوب
جہاں تک ناول کی عبارت یا اسلوب کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ناول نگارنے سادہ سلیس عبارت سے کام لیا ہے۔ جو پڑھنے والے کو ذہنی دبائو یا اکتاہٹ سے دور رکھتا ہے۔ سادہ و سلیس عبارت کے نتیجے میں یہ ناول انتہائی پر کشش اور دلآویز دکھائی دیتاہے۔ جابجا چبھتے ہوئے فقرے سونے پر سہاگے کا کام دیتے ہیں۔ ناول کے حالات و واقعات سبھی عوامی ہیں سادہ وسلیس عبارت نے ناول کو اور بھی ادبی بنا دیا ہے۔
تجسّس و جستجو
فنی لحاظ سے تجسّس و جستجو یا سنسنی خیزی بھی کہانی کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ اردو ادب میں ناول امراؤ جان ادا کو بلند مقام حاصل ہے۔ اس کی وجہ بہت سی دوسری خصوصیات کے علاوہ ایک یہ خصوصیت بھی ہے کہ ناول میں قدم قدم پر بلا کی سنسنی خیزی پائی جاتی ہے۔ اغوا کے دوران میں بات بات پر امراؤ جان کو دلاور خان کی طرف سے ذبح کرنے کی کوشش کرنا ۔ ہمارے دل و دماغ پر ہےجان اور پریشانی کے نقوش ثبت کر دیتا ہے۔ ہم ہر موقع پر سوچنے لگتے ہیں کہ ا بھی دلاور خان چھری چلاتے ہوئے امراؤ جان کا سر تن سے جدا کر ڈالے گا۔ اسی طرح خانم کے کوٹھے پر مختلف لڑکیوں کا بکنا، ان کے گاہکو ں کے درمیان بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑا ۔ مثلاًنواب سلطان کا خانصاحب کو گولی مارنا ۔ نواب چھبن کا کوٹھے پر سے چلے جانا اور نہاتے ہوئے پانی سے نہ نکلنا یہ تاثر دیتا ہے کہ نواب چھبن ڈوب کر مرگیا ہوگا ۔ اسی طرح فیضو ڈاکو کے آدمیوں کانواب سلطان کے گھر پر ڈاکہ ڈالنا۔ جنگ آزادی کے حالا ت و واقعات کا ذکر ۔ بھائی کا امرا ءجان پر چھر ی اٹھانا ۔ ایسے حالات و واقعات ہیں جو ہر وقت ناول کی فضاءمیں تجسّس و جستجو اور سنسنی خیزی کا بارود بھرتے رہتے ہیں۔ اور قاری ہمیشہ تجسّس و جستجو کا شکار رہتا ہے۔ یہ اس ناول کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے۔
فکری جائزہ
فکری طورپر دیکھا جائے تو امراؤ جان ادا بیک وقت سماجی ، معاشرتی ، نفسیاتی اور تاریخی ناول ہے۔ ناول نگار نے اس ناول میں انتہائی فکر انگیز حالات و واقعات پیش کئے ہیں ۔ یہ ایسے حالات ہیں جن کے اندر ہمیں سماجی و معاشرتی حقائق کے ساتھ ساتھ معاشرے و سماج میں رہنے والے لوگوں کی نفسیات اور جذبات بھی نظرآرہے ہیں۔ اس ناول میں جہاں بہت سے ناگفتہ بہ حالات و واقعات پیش کئے گئے ہیں ۔ وہیں یہ حالات و واقعات جن لوگوں کو درپیش آئے ان کے دھڑکتے دل ، سوچیں ، آتی جاتی اور ٹوٹتی سانسیں ، خدشات ، تجربات اپنے اپنے احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ انتہائی موثر انداز میں پیش کر دیے گئے ہیں۔ یہ ایک سچا اور حقیقی ناول ہے جو اپنے وقت کے معاشرے کی ایک مکمل تصویر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ناول نگار نے کہانی کے انداز میں معاشرے اور سماج کی عکاسی کرتے ہوئے طوائفوں کے کوٹھے کو مرکز بنا کر پڑھنے والوں کو بھی وہیں بٹھا کر پورے لکھنو کے درو دیوار ، بازار اور گلی کوچے دکھائے ہیں۔ طوائفوں کا یہ بالاخانہ ایسا مقام ہے جہاں سے ہم پورے معاشرے کا نظارہ کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے یہی کہ بہت سے شریف گھرانوں کی امراؤ جان جیسی بچیاں اغوا کرکے اپنے دام کھرنے کرنے کی غرض سے گناہ کے دلدل میں دھکیل دی جاتی ہیں۔ جہاں وہ تمام عمر چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتیں ۔ امرا ءجا ن اد کے علاوہ رام دئی آبادی جان اور خورشید جان درحقیقت ایسی بے شمار لڑکیوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جنہیں اغوا کرکے اونے پونے داموں طوائفوں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا ہے۔ اس سے ہم بخوبی انداز ہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت بردہ فروشی کا ایک باقاعدہ نظام تھا۔ معاشرتی و سماجی حقیقت نگاری کا قرض ادا کرتے ہوئے ناول نگار نے یہ حقیقت ثابت کر دکھائی ہے کہ ا س وقت کی لکھنوی معاشرت میں طوائف کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ طوائف مالدار لوگوں کی ایک لازمی ضرورت تھی۔اسے سوسائٹی کا اٹوٹ انگ سمجھا جاتا تھا۔ طوائف کے ہاں آنا جانا اور اسے اپنی داشتہ بنا کر رکھنا فخر اور نمود نمائش کا درجہ رکھتا تھا۔ اس زمانے کے لکھنو ی سماج میں طوائف کا وجود ایک مقبول فیشن کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کی فضا ءمیں ان گنت نوابین اور خوانین طوائفوں کے درباروں میں سجدہ ریزی کرتے دکھائے دے رہے ہیں۔ اس میں اٹھارہ انیس سال کے نوجوان نوابوں سے لے کر ستربرس کے نواب جعفر علی خان جیسے کمر خمیدہ اور سفید ریش نواب بھی نظرآتے ہیں۔ نوجوان نوابوں میں نواب چھبن ، راشد علی راشد اور نواب سلطان پیش پیش ہیں۔ نواب سلطان ایسے لوگوں کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو منافق قسم کے سفید پوش ہوتے ہیں اور دنیا کی نظرو ں سے چھپ کر گناہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ تاکہ شرافت کا لبادہ بھی نہ اترے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل بھی ہو جائے۔
ناول نگار نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ پورا معاشرہ ایک طرح سے طوائف کا بالا خانہ بنا ہوا ہے۔ طوائفوں نے مختلف لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی خاطر ایک مخصوص منشور بنا رکھا ہے۔ وہ منشور”مسی “ کی رسم سے شروع ہوتا ہے۔ جو صرف اور صرف کوئی نواب ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ اور جس کی منہ مانگی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ اور اس طرح معصوم بچیوں کی عزت و آبرو کی قیمت خانم جیسی گھاک طوائف کے صندوق میں پہنچ جاتی ہے۔
ناول سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ لکھنو کی زوال پذیر معاشرت میں طوائفوں کا دور دورہ تھا۔ نوابوں کے محلوں اور عملداری پر طوائفوں کا سکہ چلتا تھا۔ نوابین سیر و سیاحت ، شکار اور کھیل تماشوں کے موقعوں پر طوائفوں کی فوج ظفر موج اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ بڑی بری ڈیر ہ دار طوائفوں کا ساز و سامان نوابوں کے خر چ پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا۔ نوابزادے بلکہ حرامزادے طوائفوں کے نخرے اٹھانے کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتے ۔طوائف اس وقت کی معاشرت میں اس قدر سرائت کر چکی تھی کہ طوائفوں کے کوٹھوں اور بالاخانوں کو تہذیب کا مرکز سمجھا جانے لگا۔ شرفاءاپنی اولاد کو گناہ کی ان بھٹیوں میں آداب سکھانے بھیجا کرتے تھے۔ تاکہ وہ کند ن بن کر نکلیں ، لیکن صاف ظاہر ہے کہ وہ کندن کی بجائے گندے بن کر نکلتے تھے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فکری لحاظ سے ناول امراؤ جان ادا لکھنو ی معاشر ت کے زوال کی داستان ہے لیکن اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس ناول میں ہمیں الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ اپنی معاشرت اور سماج کی زوال پذیری بھی دکھائی دینے لگتی ہے۔ عظیم ادب وہی ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے عہد بلکہ آنے والے ادوار کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ کےا آج ہمارے ہاں بردہ فروشی کا گھنائونا کاروبار نہیں ؟ کیا آج ہمارے ہاں ہیرا منڈیاں ، شاہی محلوں ، نائٹ کلبو ں ، بیوٹی پالروں اور فلمی دنیا کی صورت میں طوائفوں کے بالاخانے موجود نہیں ؟ رسوا کے عہد کی طوائف اور ہمار ے عہد کی ماڈل گرل اور اداکارہ میں کیا فرق ہے کوئی فرق نہیں چنانچہ
جب کوئی دیکھوں اداکارہ یقیں ہوتا ہے
حسن سو بارلٹے پھر بھی حسیں ہو تا ہے (فقری
جس طرح لکھنو میں گناہ کی دلدل میں دھکیل دی جانے والی لڑکیاں باہر نہیں نکل سکتی تھیں تو آج بھی جو معصوم پھول بازاروں میں بک جاتے ہیں وہ لوٹ کر گلزاروں میں نہیں جاسکتے۔
بک گئے حیف جو سب شہر کے بازاروں میں
پھول پھر آنہ سکے لوٹ کے گلزاروں میں (فقری)
لیکن رسوا نے اصلاحی اندا ز میں یہ تاثر دیا ہے کہ گناہ کی زندگی ایک لعنت ہے ہر عورت کو چاہیے کہ وہ ازدواجی زندگی اختیار کرتے ہوئے گھر کی چار دیواری کے اندر عصمت اور پاکیزی کا تقدس برقرار رکھے۔ یہی سب سے بڑی دولت ہے ۔ سکوں کی جھنکار جوانی تک ہے ۔ اس کے بعد دین و دنیا کی رسوائی ہے اور پچھتاوا ہے۔ پشیمانی ہے ، نفسیاتی توڑ پھوڑ ہے۔ رسوا نے اصلاحی پیغام بڑے دلدو ز انداز سے دیا ہے۔مگر افسوس اس کا کیا کیا جائے کہ آج بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ:
شور ہوتا رہا مے خانوں میں
حسن لٹتا رہا ایوانوں میں
رات ڈھل جانے کو تھی جب فقری
سسکیاں مل گئیں آذانوں میں
بہت عمدگی سے تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور بہت خوب تبصرہ کیا ہے ۔اس ناول میں معاشرے کی گندگی ظاہر کی ہے مگر اس خوبی سے کہ پڑھنے والے کا ذہین آلودہ نہیں ہوتا ۔۔
جواب دیںحذف کریں