صفحات

پیر, ستمبر 28, 2009

شہاب نامہ ۔ قدرت اللہ شہاب

شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت کہانی ہے۔ شہاب نامہ مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر ، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے۔ جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ شہاب نامہ دیکھنے میں ضخیم اور پڑھنے میں مختصر کتاب ہے۔ شہاب نامہ امکانی حد تک سچی کتاب ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ،
میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس رنگ میں وہ مجھے نظرآئے۔
جو لوگ قدرت اللہ شہاب کو جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ یہ ایک سادہ اور سچے انسان کے الفاظ ہیں ۔ قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب میں وہی واقعات لکھے ہیں جو براہ راست ان کے علم اور مشاہدے میں آئے اس لئے واقعاتی طور پر ان کی تاریخی صداقت مسلم ہے۔ اور بغیر تاریخی شواہد یا دستاویزی ثبوت کے ان کی صداقت میں شک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ البتہ حقائق کی تشریح و تفسیر یا ان کے بارے میں زاویہ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے۔عمومی طور پر شہاب نامہ کے چار حصے ہیں،
١)قدرت اللہ کا بچپن اور تعلیم ٢) آئی سی ایس میں داخلہ اور دور ملازمت
٣)پاکستان کے بارے میں تاثرات ٤) دینی و روحانی تجربات و مشاہدات
ان چاروں حصوں کی اہمیت جداگانہ ہے لیکن ان میں ایک عنصر مشترک ہے اور وہ ہے مصنف کی مسیحائی۔ وہ جس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں وہ لفظوں کے سیاہ خانوں سے نکل کر قاری کے سامنے وقوع پذیر ہونا شروع کر دیتا ہے۔ وہ جس کردار کا نقشہ کھینچتے ہیں وہ ماضی کے سرد خانے سے نکل کر قاری کے ساتھ ہنسنے بولنے لگتا ہے۔
اس کتاب میں ادب نگاری کی شعوری کوشش نظر نہیں آتی ۔ بے ہنری کی یہ سادگی خلوص کی مظہر ہے اور فنکاری کی معراج ، یہ تحریر ایمائیت کا اختصار اور رمزیت کی جامعیت لئے ہوئے ہے۔ کتاب کا کےنوس اتنا وسیع ہے کہ اس کی لامحدود تفصیلات اور ان گنت کرداروں کی طرف اجمالی اشارے ہی کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اشارے بھر پور ہیں۔

ہفتہ, ستمبر 19, 2009

عید کا چاند

آج اٹھائیس واں روزہ تھا۔ جب کہ بہت سے لوگوں کا انتیس واں ۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے بلکہ ایک ہی گاؤں میں ہم لوگ اپنی فرض عبادات پر بھی متفق نہیں اور اختلاف کا شکار ہیں۔ آج عشاء کی نماز کے بعد شہر میں نکلا تو ایک ہجوم امڈا ہوا ہوا تھا ۔ میونسپل کمیٹی کے سامنے جمع ان لوگوں کا مطالبہ یہی تھا کہ ہمیں چاند نظر آگیا ہے اور علماء ان کی شہادت لے کر عید کا اعلان کریں۔ شہر کے مولانا صاحبان میں سے اکثر کا آج اٹھائیسواں روزہ تھا اس لیے وہ سب غائب ۔ مگر کچھ علما کی طرف سے ان سے شہادت قبول کر لی گئی۔ دوسری طرف پشاور سے بھی اطلاع آ گئی کہ عید کا چاند نظر آگیا ہے۔ اس لیے عید کا علان کر دیا گیا۔ آج میرا اٹھائیسواں روزہ ہے اور کل پورے صوبہ سرحد میں عید ہوگی اب اگر کل روزہ رکھتا ہوں تو کہتے ہیں کہ عید کے دن شیطان کا روزہ ہوتا ہے۔ اور دوسروں کے ساتھ عید مناتا ہوں تو میرے اس روزے کا کیا بنے گا۔ اس کا جواب تو مفتی منیب الرحمن ہی دیں گے۔ جن کو صوبہ سرحد کی طرف سے موصول ہونے والی تمام شہادتیں جھوٹی لگتی ہیں۔ شاید مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کو صوبہ سرحد میں ایک بھی مسلمان نظر نہیں آتا۔ اقبال نے جس امت کو نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغرتک متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔ وہ امت ایک ہی ملک میں بلکہ ایک ہی ضلعے بلکہ ایک ہی قصبے میں عید منانے پر متفق نہیں تو باقی ہمارے درمیان فقہی اختلافات پر ایک ہونا تو اقبال کا ایسا خواب ہے جو کبھی پورانہیں ہوسکتا۔

بدھ, ستمبر 02, 2009

نعت

میرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے

نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تیری
نہ تیری مدح ہے ممکن میرے خیالوں سے

تو روشنی کا پیمبر ہے اور میری تاریخ
بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے

تیرا پیام محبت تھا اور میرے یہاں
دل و دماغ ہیں پُر نفرتوں کے جالوں سے

نہ میری آنکھ میں کاجل نہ مشک بو ہےلباس
کہ میرے دل کا ہے رشتہ خراب حالوں سے

ہے ترش رو میری باتوں سے صاحبِ منبر
خطیبِ شہر ہے برہم میرے سوالوں سے

میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے

میں بے بساط سا شاعر ہوں پر کرم تیرا
کہ باشرف ہوں قبا و کلاہ والوں سے

احمد فراز