اردو ادب میں ہی نہیں بلکہ عالمی ادب میں کمیت اور کیفیت کی بحث ہمیشہ سے رہی ہے۔ بعض اوقات تخلیق کار کی مختصر سی کاوش ہمیشہ کی زندگی پاتی ہے اور کئی قلمکار ایسے بھی ہیں جنہوں نے بہت کچھ لکھا لیکن کام کی چیز بہت کم ملتی ہے۔ پطرس کا شمار تخلیق کاروں کی پہلی قسم سے ہے بلاشبہ مختصر سے مضامین کے مجموعے نے انھیں اردو ادب میں کلاسیک کا درجہ دیا ہے ان کے مزاح نے اردو کے خالی دامن کو بھر دیا ہے۔ اور ہماری ادبی روایت کو ان کی شمولیت سے یہ فائدہ ہوا کہ مزاح کے عامیانہ عناصر ختم ہوگئے اور اس کے ساتھ ساتھ مغربی مزاح کے حربے صورت واقعہ، موازنہ، پیروڈی اور مزاحیہ کردار سے اردو ظرافت کو ایک وقار او ر سنبھلی ہوئی حالت ملی۔
ڈاکٹر احسن فاروقی پطرس بخاری کو انشاءپرداز کی حیثیت سے بہت توانا گردانتے ہیں اُن کا خیال ہے کہ پطرس ہر موضوع پر بلا تکلف لکھ سکتے ہیں اور شروع سے لےکر آخر تک اپنا رنگ برقرار رکھ سکتے ہیں ۔ اُن کاکام کھیل دکھانا تھا۔ لفظوں کاکھیل ، فقروں کا کھیل ، چست جملوں کا کھیل ، وٹ (بذلہ سنجی) کا کھیل مگر یہ ان کا خاص کھیل نہیں اُن کا کھیل موقعوں کا کھیل ہے۔ ڈرامائی حالات کا کھیل ہے ہر مضمون یہی کھیل دکھاتا ہے۔بقول رشید احمد صدیقی،
اگر ہم ذہن میں کسی ایسی محفل کا نقشہ جمائیں جہاں تمام ملکوں کے مشاہیر اپنے اپنے شعر و ادب کا تعارف کرنے کے لئے جمع ہو ں تو اردو کی طرف سے یہ اتفاق آرا کس کو اپنا نمائندہ انتخاب کریں ؟ تو یقینا بخاری کو، بخاری نے اس قسم کے انتخاب کے معیار کو اتنا اونچا کر دیا ہے کہ نمائندہ کا حلقہ مختصر ہوتے ہوتے معدوم ہونے لگا ہے یہ بات کس وثوق سے ایسے شخص کے بارے میں کہہ رہا ہوں جس نے اردو ادب میں سب سے کم سرمایہ چھوڑا لیکن کتنا اونچا مقام پایا۔
پطرس کی دنیا محدود نہ تھی ان کا مزاح مشرقی ، ذہن مغربی اور سوچ عالمگیر تھی ۔ انھوں نے جو تخلیق کیا خوب غور و خوص کے بعد تخلیق کیا ۔ انکی ہر تحریر ایک کار نامہ ہے ۔ اُن کی عظمت کا اعتراف مغرب میں بھی ہوا انگریزی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ ان کی وفات پر انھیں خرا ج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے
اُن کا تعلیمی پس منظر مشرق و مغرب ، پنجاب ہ کیمرج یونیورسٹی دونوں کو آغوش میں لیے ہوئے تھا وہ مشرق و مغرب کے عالم تھے لیکن اس خاصیت سے بڑھ کر ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ عظیم انسان تھے۔