صفحات

ہفتہ, دسمبر 26, 2009

محرم

حسین پہ داڑا پریت دا
سار یے سیرلا دا
خوایندے بالہ لہ دا
ترجمہ:۔ حسین تختہ دار پر لیٹا ہوا ہے اس کا سر کٹا ہوا ہے اور اس کی بہنیں اس کو پکاررہی ہیں

پشتو کا یہ مرثیہ آج بھی لاشعور کے کسی کونے میں بچپن کی یاد کی صورت میں موجود ہے۔ جب محرم کا مہینہ آتا ہے یہ مرثیہ پھر سے ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میری عمر پانچ سال تھی اس وقت محرم کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی گاؤں کے بچے مٹی کے زیور بنانا شروع کر دیتے تھے۔ یوں یہ سلسلہ دسویں تک جاری رہتا۔ دسویں محرم کو صبح سویرے سب بچے اٹھ جاتے اور قبرستان کا رخ کرتے وہاں سب یہ مرثیہ پڑھتے جاتے اور وہ مٹی کے زیورات قبرستان میں موجود بیری کے درختوں میں پھینکے جاتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس پورے عمل کا مقصد کیا تھا۔ مگر ہم چھوٹے بچوں کے لیے یہ ایک ایسا مشغلہ تھا جس کی ادائیگی میں سب پیش پیش رہتے تھے۔ اس کے بعد میرے دادا قبرستان جاتے ہر قبر پر پانی ڈالتے اور کجھور کی ایک شاخ وہاں چھوڑ آتے ۔ اسی محرم کی بدولت مجھے اپنے پردادا ، اور ان کے دادا کی قبروں کے متعلق معلوم ہوا۔ اس مہینے کا احترام اس قدر تھا کہ کسی بھی قسم کی موسیقی سننا گناہ کبیرہ تصور کی جاتی ۔
پھر ہم شہر آگئے ۔ بچپن میں جب بھی تعزیے کا جلوس میں ٹی وی پر دیکھتا تھا تو ڈر کے مارے اپنا منہ چادر میں چھپا لیتا تھا۔ مجھے اس وقت جلوس سے بہت خوف آتا تھا ۔ مگر یہاں شہر میں آمد کے بعد میں خود اپنے دوستوں کے ساتھ جلوس میں جاتا ۔ ہم سبیل کا شربت پیتے نیاز کے چاول اور زردہ بڑے شوق سے تناول کرتے۔ بھنگی بستی سے نکلنے والا یہ جلوس شہر کے تمام مرکزی راستوں سے ہوتا ہوا ریلوے روڈ پر ختم ہو جاتا ۔ بنوں شہر میں شعیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اس لیے ماتم کرنے والے لوگ بہت کم ہوا کرتے تھے ۔ ہاں یہاں کی مقامی سنی آبادی بڑے جوش و خروش سے اس جلوس میں شریک ہوتی ۔ جگہ جگہ سبیلیں لگائی جاتیں۔ روضے پر خواتین منتیں مانگے آتیں اور یہ جلوس ایک جم غفیر کی صورت میں آگے بڑھتاا۔ یوں محرم کا مہینہ کسی خاص فرقے یا گروہ کے بجائے ایک اجتماعی تہذیبی رنگ لیے ہوئے تھا۔
مگر گذشتہ چند سالوں سے جیسے سب کچھ بدل گیا ہے۔ محرم کا مہینہ آتا ہے تو خوف کی ایک لہر پورے شہر میں پھیل جاتی ہے۔ شہر ویران ہوجاتا ہے مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد کم ہونے لگتی ہے۔ دس محرم کو پورا شہر سیل کر دیا جاتا ہے۔ یوں ایک مخصوص علاقے میں جلوس نکالا جاتا ہے جہاں عام شہریوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ دراصل فرقہ واریت کے زہر نے جس بے دردی سے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کیا ہے شاید ہی کسی دوسری برائی نے ہمیں اتنا نقصان پہنچایا ہو۔ آج بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے۔ شاید ہم تہذیبی ، معاشرتی ، مذہبی ہر سطح پر تنزل کا شکار ہیں اور حالات مزید خراب سے خراب تر ہو تے جارہے ہیں۔

ہفتہ, دسمبر 19, 2009

صلیب

شہر کے تقریبا وسط میں میرا گھر واقع ہے۔ روز شام کو چہل قدمی کے لیے گھر سے نکلتا ہوں تو گھر کی جنوبی سمت میں واقع گلیوں گلیاروں سے ہوتے ہوئے بالکل تار گھر کی عمارت کے سامنے کشادہ سڑک پر پہنچ جاتا ہوں۔ یہاں پر ایک بہت بڑی عمارت میرا استقبال کرتی ہے۔ مشن ہاسپٹل کی اس نئی عمارت کو بنے ہوئے کئی سال ہو گئے اس پہلے یہ قدوس ڈاکٹر کا بنگلہ ہوا کرتا تھا اور انگریز کے زمانے کا ہسپتال اس کے بالکل سامنے سڑک کے دوسرے کنارے پر واقع تھا۔ اس سڑک پر کچھ آگے چل کر ایک اور سڑک بائیں جانب مڑتی ہے جہاں پر تھوڑی دور جانے کے بعد پینل ہائی سکول کی عمارت ہے یہ علاقے کا سب سے بڑا مشنری سکول ہے جہاں پر ہزاروں بچے زیر تعلیم ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ یہاں پر مشنری کی جانب سے سرگرمیاں کب شروع ہوئیں مگر ایک شخصیت کا نام ضرور معلوم ہے جس کی بدولت اس پسماندہ علاقے میں مشن کی جانب سے بہت سا کام کیا گیا۔ یہ شخصیت تھے جناب ڈاکٹر پینل۔ جنہوں نے 1900 میں یہاں آکر نہ صرف یہاں کی زبان سیکھی بلکہ یہاں کے پشتون قبائل کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان کے رنگ میں ڈھل کر تبلیغ کا کام کیا۔ ان کی بدولت علاقے میں مشن ہسپتال کو بہتر بنایا گیا ۔ پہلا مشنری سکول کھولا گیا جو آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہے۔ ہسپتال سے افغانستان تک کے باشندے مستفید ہوتے تھے۔ لیکن جناب پینل کی ان تمام کوششوں کے باوجود وہ صرف ایک ہی پٹھان کو عیسائی بنا سکے جس کا نام جان خان کاکا تھا۔ پینل کی کوئی اولاد نہیں تھی بنوں میں ہی وفات پائی اور مشن ہسپتال کے ساتھ موجود عیسائیوں کے ایک بڑے قبرستان میں دفن ہوئے۔ جس کے بڑے آہنی گیٹ پر صلیب کا نشان بنا ہوا ہے اور جس کی دیواروں پر پتھروں کو تراش کر صلیب کے نشان بنائے گئے ہیں۔ پینل ہائی سکول اور مشن ہسپتال کی بھی خاص بات یہ ہے کہ سرخ اینٹوں سے بنائی گئی ان عمارتوں میں اینٹوں کو اس ترتیب سے رکھا گیا ہے کہ ہر بالکولی ہر کھڑکی کی محراب پر مجھے صلیب کا نشان دکھائی دیتا ہے۔ سکول کے ساتھ متصل گرجے کے اوپر ایک گنبد بنا دی گئی ہے جس کے اوپر ایک بہت بڑا صلیب کا نشان لگایا گیا ہے رات کے وقت یہ صلیب کا نشان روشن رہتا ہے۔ میں روز ان عمارتوں کو دیکھتا ہوں مگر آج نجانے کیوں ذہن میں کئی سوالات گردش کرنےلگے کہ اگر ہمارے علاقے میں اس حوالے سے ریفرنڈم کرایا جائے کہ یہ صلیب کا نشان دراصل کسی خاص مذہبی سوچ کی ترجمانی کرتا ہے اس لیے اس پر پابندی لگا دی جائے تو میری کیا حالت ہوگی ۔ کیا ایک باشعور اور تہذیب یافتہ شہری ہونے کے ناطے میں یہ برداشت کر سکوں گا کہ اس قسم کے بےوقوفانہ سوال پر ریفرنڈم کرایا جائے۔ ہرگز نہیں۔ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن پھر خیال آیا کہ دنیا کے ایک ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ملک کے باشندوں نے ایسا کیوں کیا اور وہاں میناروں کی تعمیر پر پابندی کیوں لگا دی گئی۔ اس سوال کا جواب شاید میرے پاس ہو مگر اس کے باوجود میرے اندر کا انسان خاموش ہو جاتا ہے میری نظریں گرجے کی صلیب سے وہاں سامنے بنے ہوئے پریڈی گیٹ کی مسجد کے بڑے مینار پر آکر رک جاتی ہیں اور اس کے بعد میں سر جھکا کر بازار میں داخل ہو جاتا ہوں۔

بدھ, دسمبر 09, 2009

ہار

کیا ہم ہار چکے ہیں۔ اس کا جواب دینا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ خود سوچیے دو سالوں میں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرنے کے باوجود ہم انتہا پسندی کے ٹھکانوں میں ختم کرنے مین ناکام رہے ہیں۔ سوات تباہ ہوا تو ہمیں بتایا گیا کہ دہشت گردی کے منضوبہ سازوں کے ٹھکانے تباہ ہو گئے ہیں اب ہر طرف امن اور سکون کے شادیانے بجیں گے۔ پھر وزیرستان کی باری آئی جہاں پر وزیر داخلہ کے بقول ہندوستانی جاسوسوں کا بڑا نیٹ ورک تھا تمام دہشت گردی منصوبےوہاں پرتیار کیے جاتے تھے۔ وہ بھی تباہ ہوا مگر دہشت گردی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسی دن جب دھماکہ نہ ہو تو وہ بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ اب میڈیا پر کچھ فوجی نغموں اور رحمان ملک کے بیانات سے کیا یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے یا جیتی جاچکی ہے۔ اور کیا واقعی انتہا پسند ہار چکے ہیں اور گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ مگر سچائی یہ ہے کہ یہ ہارے اور گھبرائے ہوئے لوگ آج حساس علاقوں میں ایسی کاروائیاں کر جاتے ہین کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ تو وہ سوال ذہن میں آتا جو بار بار سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم جنگ ہار چکے ہیں۔
اگر اس ملک کو بچانا ہے اس قوم کو متحدرکھنا ہے تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ موجودہ حکمران اور ان کی پالیسیاں ملکی حالات کو بہتر بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ ایسی حالت میں جب ہماری ہار یقینی نظر آرہی ہے ان پالیسیوں پر ازسرنو نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم امریکی جنگ سے الگ ہو جائیں۔ ورنہ حالات مزید بدتر ہونے کا خدشہ ہے۔

جمعرات, نومبر 05, 2009

مضامین پطرس

اردو ادب میں ہی نہیں بلکہ عالمی ادب میں کمیت اور کیفیت کی بحث ہمیشہ سے رہی ہے۔ بعض اوقات تخلیق کار کی مختصر سی کاوش ہمیشہ کی زندگی پاتی ہے اور کئی قلمکار ایسے بھی ہیں جنہوں نے بہت کچھ لکھا لیکن کام کی چیز بہت کم ملتی ہے۔ پطرس کا شمار تخلیق کاروں کی پہلی قسم سے ہے بلاشبہ مختصر سے مضامین کے مجموعے نے انھیں اردو ادب میں کلاسیک کا درجہ دیا ہے ان کے مزاح نے اردو کے خالی دامن کو بھر دیا ہے۔ اور ہماری ادبی روایت کو ان کی شمولیت سے یہ فائدہ ہوا کہ مزاح کے عامیانہ عناصر ختم ہوگئے اور اس کے ساتھ ساتھ مغربی مزاح کے حربے صورت واقعہ، موازنہ، پیروڈی اور مزاحیہ کردار سے اردو ظرافت کو ایک وقار او ر سنبھلی ہوئی حالت ملی۔
ڈاکٹر احسن فاروقی پطرس بخاری کو انشاءپرداز کی حیثیت سے بہت توانا گردانتے ہیں اُن کا خیال ہے کہ پطرس ہر موضوع پر بلا تکلف لکھ سکتے ہیں اور شروع سے لےکر آخر تک اپنا رنگ برقرار رکھ سکتے ہیں ۔ اُن کاکام کھیل دکھانا تھا۔ لفظوں کاکھیل ، فقروں کا کھیل ، چست جملوں کا کھیل ، وٹ (بذلہ سنجی) کا کھیل مگر یہ ان کا خاص کھیل نہیں اُن کا کھیل موقعوں کا کھیل ہے۔ ڈرامائی حالات کا کھیل ہے ہر مضمون یہی کھیل دکھاتا ہے۔بقول رشید احمد صدیقی،
اگر ہم ذہن میں کسی ایسی محفل کا نقشہ جمائیں جہاں تمام ملکوں کے مشاہیر اپنے اپنے شعر و ادب کا تعارف کرنے کے لئے جمع ہو ں تو اردو کی طرف سے یہ اتفاق آرا کس کو اپنا نمائندہ انتخاب کریں ؟ تو یقینا بخاری کو، بخاری نے اس قسم کے انتخاب کے معیار کو اتنا اونچا کر دیا ہے کہ نمائندہ کا حلقہ مختصر ہوتے ہوتے معدوم ہونے لگا ہے یہ بات کس وثوق سے ایسے شخص کے بارے میں کہہ رہا ہوں جس نے اردو ادب میں سب سے کم سرمایہ چھوڑا لیکن کتنا اونچا مقام پایا۔
پطرس کی دنیا محدود نہ تھی ان کا مزاح مشرقی ، ذہن مغربی اور سوچ عالمگیر تھی ۔ انھوں نے جو تخلیق کیا خوب غور و خوص کے بعد تخلیق کیا ۔ انکی ہر تحریر ایک کار نامہ ہے ۔ اُن کی عظمت کا اعتراف مغرب میں بھی ہوا انگریزی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ ان کی وفات پر انھیں خرا ج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے
اُن کا تعلیمی پس منظر مشرق و مغرب ، پنجاب ہ کیمرج یونیورسٹی دونوں کو آغوش میں لیے ہوئے تھا وہ مشرق و مغرب کے عالم تھے لیکن اس خاصیت سے بڑھ کر ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ عظیم انسان تھے۔

بدھ, اکتوبر 28, 2009

سبق پھر پڑھ

زمانہ طالب علمی سے ہی ہمارے کالج کی یہ روایت رہی ہے کہ تعلیمی سال کبھی بھی پورا نہیں ہونے پایا۔ اس لیے کہ قوم پرست سیاست کے اکھاڑہ ہونے کی وجہ سے یہاں کلاسوں کا بائیکاٹ اور سٹرائیکس ایک روایت رہی ہے۔ اس کالج میں ہم نے دیکھا کہ ہر سال گولیاں چلیں ، قتل ہوئے، ہاسٹلوں میں ایسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں جو قابل دست اندازی پولیس تھیں۔ مگر اس کے باوجود ایک نظام تھا جو چل رہا تھا۔ لولا لنگڑا ہی سہی۔ اساتذہ کی طرف سے یہ کوشش ہوتی تھی کہ جیسے تیسے ہو کورس کو مکمل کرایا جاسکے۔ اس طرح مارچ اپریل تک جیسے تیسے کالج کا نظام چلایا جاتا تھا۔ مگر اب کے سال رنگ آسمان ہی کچھ اور تھا۔ اور وہ جو کہ اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ یوں یہ لولا لنگڑا نظام بھی نامعلوم مدت کے لیے بند کر دیا گیا۔ اسمبلیوں میں تقریریں کرنے والے ہمارے لیڈر کلاشنکوف کی بجائے قلم کی مانگ کرتے نظر آتے ہیں مگر اب جو چھوٹا موٹاسہارا کتاب کا باقی تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ خیر کوئی بات نہیں قوم کو کتاب کی نہیں ڈالر کی ضرورت ہے۔ اور وہ آرہا ہے بڑی بھاری مقدار میں۔ کتاب سے کیا ہوتا ہے وہ تو انسان کو اپنی رائے اور حق کے لیے لڑنے کا پیغام دیتا ہے جبکہ اس قوم میں ایسے لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم ہمیشہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے لوگ ہیں۔ جو کتاب کے بغیر کیڑوں مکوڑوں جیسی زندگی آسانی سے گزار سکتی ہے۔ ملک بھر کے بہت تعلیمی ادارے دوبارہ سے کھول دیئے گئے ہیں لیکن جنوبی اضلاع میں بدستور تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں۔ اس طرح مشکل ہے کہ اس تعلیمی سال کو چلایا جاسکے۔ اور اگر دکھاوے کے لیے تعلیمی ادارے کھول بھی دئیے گئے تو خوف کے سائے میں پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

ہفتہ, اکتوبر 17, 2009

پھر وہی ہم ہیں وہی تیشۂ رسوائی ہے

کچھ دن خاموشی کے بعد اب پھر سے وہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ عید کے بعد کا موسم شادیوں کا موسم تھا جس نے شہر میں خوشیاں بھر دی تھیں۔ اور ہم تو جیسے بھول ہی گئے تھے کہ کبھی اتنے مشکل دن بھی اس شہر نے دیکھے ہیں۔ مگر اچانک رنگِ آسمان بدلا اور یوں شہر کی شامیں پھر سے ویران ہوگئیں ہیں۔ کل سے کرفیو کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس دفعہ تو حد یہ ہوگئی کہ تمام موبائل سروسز بلاک کر دی گئی ہیں یہ تو اچھا ہوا پی ٹی سی ایل کے کنکشن ابھی بحال ہیں جس کی وجہ سے دنیا سے رابطہ ہے ورنہ شاید شہر سے باہر ہمارے عزیزوں پر کیا گزرتی۔ مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ آپریشن جنوبی وزیرستان میں ہے اور کرفیو بنوں میں لگایا گیا ہے حالانکہ جنوبی وزیرستان کی سرحدیں ٹانک اور ڈی آئی خان سی ملتی ہیں۔ ویسے اس بات کا اندازہ تھا کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے اس لیے کہ کئی مہینوں سے ایسی زبردست تیاری ہو رہی تھی کہ یقین نہیں آ رہا تھا۔ میرے خیال میں اتنی تیاری تو ہماری فوج انڈیا کے خلاف بھی نہ کرتی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ فیصلہ کن ثابت ہوگی اور کس کے حق میں فیصلہ کن ہوگی۔ دنیا کے مشکل ترین محاذ پر فوج لڑنے جارہی ہے اور اس محاذ پر لڑائی اپنے لوگوں سے ہو رہی ہے۔

شاید جو آگ ہم نے دوسروں کے لیے لگائی تھی آج ہمارا دامن اسی میں جھلس رہا ہے۔ دوسروں کے گھروں پر کمند اچھالنے والوں کے اپنے گھر آج غیر محفوظ ہیں۔ ہم وہی قوم ہیں جس کا اپنا کوئی قومی مفاد نہیں جو کچھ ڈا لرز کے عوض چند لمحوں میں بندوق اٹھا کر جہاد کا اعلان کر سکتی ہے اور پھر جب عالمی طاقتوں کی ترجیحات بدلتی ہیں تو ہمارا قومی مفاد تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر جہادی اور شدت پسند ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ یہ دوسرا موقع ہے جب کسی اور کی جنگ کو ہماری جنگ بنا دیا گیا۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ کیا اس قوم کی اپنی سوچ بھی کہیں ہے جو اس کو اپنے فیصلے خود لینے کی قوت دے سکے۔ تو جواب ہمیشہ نفی میں آتا ہے۔

پیر, ستمبر 28, 2009

شہاب نامہ ۔ قدرت اللہ شہاب

شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت کہانی ہے۔ شہاب نامہ مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر ، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے۔ جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ شہاب نامہ دیکھنے میں ضخیم اور پڑھنے میں مختصر کتاب ہے۔ شہاب نامہ امکانی حد تک سچی کتاب ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ،
میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس رنگ میں وہ مجھے نظرآئے۔
جو لوگ قدرت اللہ شہاب کو جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ یہ ایک سادہ اور سچے انسان کے الفاظ ہیں ۔ قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب میں وہی واقعات لکھے ہیں جو براہ راست ان کے علم اور مشاہدے میں آئے اس لئے واقعاتی طور پر ان کی تاریخی صداقت مسلم ہے۔ اور بغیر تاریخی شواہد یا دستاویزی ثبوت کے ان کی صداقت میں شک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ البتہ حقائق کی تشریح و تفسیر یا ان کے بارے میں زاویہ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے۔عمومی طور پر شہاب نامہ کے چار حصے ہیں،
١)قدرت اللہ کا بچپن اور تعلیم ٢) آئی سی ایس میں داخلہ اور دور ملازمت
٣)پاکستان کے بارے میں تاثرات ٤) دینی و روحانی تجربات و مشاہدات
ان چاروں حصوں کی اہمیت جداگانہ ہے لیکن ان میں ایک عنصر مشترک ہے اور وہ ہے مصنف کی مسیحائی۔ وہ جس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں وہ لفظوں کے سیاہ خانوں سے نکل کر قاری کے سامنے وقوع پذیر ہونا شروع کر دیتا ہے۔ وہ جس کردار کا نقشہ کھینچتے ہیں وہ ماضی کے سرد خانے سے نکل کر قاری کے ساتھ ہنسنے بولنے لگتا ہے۔
اس کتاب میں ادب نگاری کی شعوری کوشش نظر نہیں آتی ۔ بے ہنری کی یہ سادگی خلوص کی مظہر ہے اور فنکاری کی معراج ، یہ تحریر ایمائیت کا اختصار اور رمزیت کی جامعیت لئے ہوئے ہے۔ کتاب کا کےنوس اتنا وسیع ہے کہ اس کی لامحدود تفصیلات اور ان گنت کرداروں کی طرف اجمالی اشارے ہی کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اشارے بھر پور ہیں۔

ہفتہ, ستمبر 19, 2009

عید کا چاند

آج اٹھائیس واں روزہ تھا۔ جب کہ بہت سے لوگوں کا انتیس واں ۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے بلکہ ایک ہی گاؤں میں ہم لوگ اپنی فرض عبادات پر بھی متفق نہیں اور اختلاف کا شکار ہیں۔ آج عشاء کی نماز کے بعد شہر میں نکلا تو ایک ہجوم امڈا ہوا ہوا تھا ۔ میونسپل کمیٹی کے سامنے جمع ان لوگوں کا مطالبہ یہی تھا کہ ہمیں چاند نظر آگیا ہے اور علماء ان کی شہادت لے کر عید کا اعلان کریں۔ شہر کے مولانا صاحبان میں سے اکثر کا آج اٹھائیسواں روزہ تھا اس لیے وہ سب غائب ۔ مگر کچھ علما کی طرف سے ان سے شہادت قبول کر لی گئی۔ دوسری طرف پشاور سے بھی اطلاع آ گئی کہ عید کا چاند نظر آگیا ہے۔ اس لیے عید کا علان کر دیا گیا۔ آج میرا اٹھائیسواں روزہ ہے اور کل پورے صوبہ سرحد میں عید ہوگی اب اگر کل روزہ رکھتا ہوں تو کہتے ہیں کہ عید کے دن شیطان کا روزہ ہوتا ہے۔ اور دوسروں کے ساتھ عید مناتا ہوں تو میرے اس روزے کا کیا بنے گا۔ اس کا جواب تو مفتی منیب الرحمن ہی دیں گے۔ جن کو صوبہ سرحد کی طرف سے موصول ہونے والی تمام شہادتیں جھوٹی لگتی ہیں۔ شاید مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کو صوبہ سرحد میں ایک بھی مسلمان نظر نہیں آتا۔ اقبال نے جس امت کو نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغرتک متحد ہونے کا پیغام دیا تھا۔ وہ امت ایک ہی ملک میں بلکہ ایک ہی ضلعے بلکہ ایک ہی قصبے میں عید منانے پر متفق نہیں تو باقی ہمارے درمیان فقہی اختلافات پر ایک ہونا تو اقبال کا ایسا خواب ہے جو کبھی پورانہیں ہوسکتا۔

بدھ, ستمبر 02, 2009

نعت

میرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے

نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تیری
نہ تیری مدح ہے ممکن میرے خیالوں سے

تو روشنی کا پیمبر ہے اور میری تاریخ
بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے

تیرا پیام محبت تھا اور میرے یہاں
دل و دماغ ہیں پُر نفرتوں کے جالوں سے

نہ میری آنکھ میں کاجل نہ مشک بو ہےلباس
کہ میرے دل کا ہے رشتہ خراب حالوں سے

ہے ترش رو میری باتوں سے صاحبِ منبر
خطیبِ شہر ہے برہم میرے سوالوں سے

میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے

میں بے بساط سا شاعر ہوں پر کرم تیرا
کہ باشرف ہوں قبا و کلاہ والوں سے

احمد فراز

جمعرات, اگست 27, 2009

نسوار اور رمضان

میرا تعلق دنیا کے اس خطے سے ہے جس کی نسوار پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اب آپ پوچھیں گے بھلا نسوار اور رمضان کا کیا تعلق تو جناب جہاں کی نسوار اتنی مشہور ہو وہاں پر نسوار کھانے والے کتنے زیادہ ہوں گے اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اور ایسی حالت میں جب رمضان آتا ہے تو پھر ان نسواری حضرات کی جو حالت ہوتی ہے وہ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ میرے شہر میں سب سے زیادہ لڑائیاں جھگڑے اسی مہینے میں ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ نسوار پر پابندی ہوتی ہے۔ مجال ہے جو آپ کسی سے بلند آواز میں بات کر سکیں ایک طرف تو روزے کی دہشت دوسری نسوار سے دوری ہر شخص منہ میں آگ لیے رہتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میں بہت چھوٹا تھا تو اس دور میں سخت گرمیوں میں رمضان کا مہینہ آتا تھا۔ ابا اس وقت جوان جہان بندے تھے کافی غصے والے تھے ہمارا شور وہ کسی طور برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ افطاری کے وقت ہم لڑتے اور وہ ہمیں مارتے اس لیے اس کا حل اماں نے یہ نکالا کہ افطاری کے وقت ہمیں ان سے دور کر دیا جائے جب آرام سے کھانا کھا چکتے تو تکیہ سے ٹیک لگا کر نسوار کی پڑیا نکالتے ۔ ایسے میں ان کے چہرے کی بشاشت دیکھ کر ہمیں پھر سے شرارت کی سوجھتی اور ہم بہن بھائی پھر سے کسی بات پر لڑنا شروع کر دیتے ۔ مگر نسوار ان کے منہ میں داخل ہوا اور ہم چپ اس لیے کہ اس وقت کا شور شاید ہماری جان بھی لے سکتا تھا۔ اب ابا میں وہ دم خم نہیں رہا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ اپنے نواسے نواسیوں پوتے پوتیوں کا شور انہیں برا کیوں نہیں لگتا۔ اب بھی وہی نسوار کا نشہ ہوتا ہے مگر ابا کا غصہ نجانے کہاں غائب ہو گیا ہے۔ شاید سچ ہے کہ اولاد کی اولاد انسان کو بہت پیاری ہوتی ہے۔
بچپن میں رمضان کے مہینے میں ہماری دادی کی حالت بھی دیکھنے کے قابل ہوتی تقریبا ایک بالٹی شربت پینے کے بعد جب وہ نسوار منہ میں رکھتی تو سب کھایا پیا باہر آ جاتا۔ یوں نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی رہتیں سارا رمضان اسی طرح سے گزرتا۔ دادا چلم کڑکڑاتے اور دادی بے چاری ایک کونے میں پڑی گرمی کو کوس رہی ہوتی۔ اسی مہینے میں ساس بہو کی لڑائیاں بہت زوروں پھر ہوتیں اور آج بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں زیادہ تر بوڑھی عورتیں نسوار سے شغف فرماتی ہیں یوں تو پہلے سے ہی دونوں حریفوں کے درمیان حالات کشیدہ رہتے ہیں لیکن رمضان سونے پہ سہاگے کا کام کرتا ہے۔ یہ رمضان کا مہینہ ہی ہے جس میں ہم ان چیزوں کو چھوڑ سکتے ہیں مگر نجانے کیوں میں نے دیکھا ہے کہ اس مہینے میں نسوار کا استعمال اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ سپیشل رمضانی پڑیاں تیار ہوتی ہے۔ جس میں ایک دو خوراکیں ہوتی ہیں۔ افطاری اور سحری میں اسی سے تواضع کی جاتی ہے۔ میں اکثر دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ آخر کیا ہے اس نسوار میں جو تم لوگ اس کے اتنے دیوانے ہو۔ ان کا جواب یہی ہوتا ہے ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں۔

منگل, اگست 18, 2009

کتابوں سے آگے

میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ میں زمین پر سب سے فرومایہ اور نفرت انگیز لوگوں کی زبان استعمال کررہا ہوں مجھے اس کی عمر اور حلقہ اثر بڑھانے یا اس کے لہجے کو مالا مال کرنے کی کوئی خواہش یا اس کے لہجے کو مالا مال کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔۔۔۔۔ انگریزی میں لکھنا ایک طرح کی ثقافتی غداری ہے مستقبل میں اس غداری کو جل دینے کا طریقہ میں نے سوچا ہے ۔۔۔۔ میں یہ کام اپنی تحریر کو مکمل طور پر غیر اخلاقی اور تخریبی بنانے کا عزم رکھتا ہوں۔
لکداس وکرم سنہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقصان کیا ہے وقت پر چوک جانا
بھرتری ہری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تمہارے الہام کا دھواں تمہارے سگریٹ کے دھویں میں آمیز ہو جائے تو مجھے یاد کرنا
امرتا پریتم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلامی کے بعد بے حیائی اور ڈھٹائی کی منزل آتی ہے اور اس منزل پر پہنچ کرہرقوم مردہ ہو جاتی ہے غلامی سے آزادی نصیب ہو سکتی ہے لیکن جب قوم غلامی کی ھدود سے گزر کر بے حیائی اور ڈھٹائی اور بے عملی کا ثبوت دینے لگے تو پھر وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکی۔
کرشن چندر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے اور دونوں جگہ فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے جو آدمی خود کو دھوکہ دینا چاہے اس کے لیے اس سے اچھا مقام کیا ہوسکتا ہے۔
بابو گوپی ناتھ۔ منٹو

بدھ, اگست 12, 2009

حیات ِجاوید . الطاف حسین حالی

سوانح حیات اس تصنیف کو کہیں گے جس میں کسی شخص کی زندگی کے واقعات مفصل طور پر بیان کیے گئے ہوں ۔ چمیبرس انسائیکلو پیڈیا میں سوانح نگاری کا اطلاق انسان اور افرادکی زندگی کی تاریخ ہی کیا گیا ہے اور اس کو ادب کی ایک شاخ کہا گیا ہے۔
ایک بڑے اور اچھے سوانح نگاری کو اپنے ہیروسے مکمل آگاہی ، اپنے ہیرو سے ہمدردی ،خلوص اور ہرقسم کے تعصبات سے بالاتر ہونا چاہیے ۔جبکہ ایک اچھی سوانح عمری میں جزئیات میں داخلی اور باطنی تصویر ، ابتدا ءسے لے انتہا تک جامعیت ، معنی خیز واقعات کا انتخاب جو کسی تحریک یا حرکت سے تعلق رکھنے والے ہوں، ہونے چاہیے۔
اردو ادب میں سوانح عمریوں کا ذخیرہ بہت کم ہے اور یہ صنف اردو میں انگریزی ادب کے حوالے سے داخل ہوئی ۔ اردو نثر کی ابتداءسے لے کر دور ِ متاخرین تک اردو میں کوئی قابلِ ذکر سوانح عمری نہیں ہے۔ البتہ شعراءکے تذکرے موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ سیرت رسول اکرم اور صحابہ کرام اور اولیاءکرام کے سوانح حیات ملتے ہیں ۔ اردو ادب میں سوانح عمر ی کی باقاعدہ ابتداءسرسید تحریک سے ہوئی ۔جس کا مقصد لوگوں کو اپنے بزرگوں کے کارناموں اور زندگی سے آگاہ کرنا تھا۔ تاکہ وہ ان راستوں کو اپنا کر ملک و قوم کے لیے ترقی کا سبب بن سکیں۔ اس مقصد کے لیے حالی ، شبلی اور سرسید وغیرہ نے اعلیٰ پائے کی سوانح عمریاں لکھیں ۔ لیکن ان میں سب سے بڑااور اہم نام مولانا حالی کا ہے جنہوں نے ”حکیم ناصر خسرو“، ” مولانا عبدالرحمن“”حیات سعدی “ ، ”یادگارِ غالب“، ”حیات جاوید “ جیسی سوانح لکھ کر اردو ادب کا دامن اس صنف سے بھر دیا۔ لیکن ان سوانح میں سب سے زیادہ شہرت حیات جاوید کے حصے میں آئی ۔
حیات ِ جاوید:۔
مولوی عبدالحق حیات جاوید کے بارے میں لکھتے ہیں
حیات ِ جاویدحالی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔ اس میں صرف سرسید احمد خان کی سیرت ، اس کے حالات اور کارناموں کا بیان نہیں بلکہ ایک اعتبار سے مسلمانوں کے ایک صدی کے تمدن کی تاریخ ہے۔
ایک اور جگہ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں
ہماری زبان میں یہ اعلی اور مکمل نمونہ سوانح نگاری کی مثال ہے
بقول ڈاکٹر سید عبداللہ
یہ امر بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں ان میں شاید” حیات جاوید“ بہترین سوانح عمری ہے۔
حیات ِ جاوید دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ پہلا حصہ جو کہ 300صفحات پر مشتمل ہے۔ سرسید کے خاندان اور ان کے خاندانی حالات کے لیے مخصوص ہے۔ جن میں ان کے بچپن کے حالات لکھے گئے ہیں۔ ان کے عفوان شباب کا بھی نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس حصے میں ان کی ملازمت اور خطاب ِ شاہی کا بھی ذکر ہے ۔جبکہ ایام ِ غد ر میں سرسید کی انگریز دوستی کا بھی احوال موجود ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ جو کہ ٨٥٥ صفحات پر مشتمل ہے اس میں سرسید کے کاموں پر ریویو ہے۔ ان کی ترقی کے اسباب بیان کیے گئے ہیں ۔ ان کی بے غرضی ، دیانت داری آزادی ، بے تعصبی ، اور وفاکیشی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیکنیکی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو حالی کی یہ سوانح عمری پہلی دو سوانح عمریوں سے بہتر ہے۔کیونکہ اس میں فن سوانح نگاری کے تمام لوازمات کو برتا گیا ہے۔ آئیے اس کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔

اتوار, اگست 02, 2009

پود ے۔۔۔کرشن چندر

رپورتاژ صحافتی صنف ہے اسے بطور ادبی صنف صرف اردو ادب میں برتا گیا ۔ لفظ (Reportage)لاطینی اور فرانسیسی زبانوں کے خاندان سے ہے جو انگریزی میں (Report)رپورٹ کے ہم معنی ہے۔ رپورٹ سے مراد تو سیدھی سادی تصویر پیش کرنے کے ہیں۔لیکن اگر اس رپورٹ میں ادبی اسلوب ، تخیل کی آمیزش اور معروضی حقائق کے ساتھ ساتھ باطنی لمس بھی عطا کیا جائے تو یہ صحافت سے الگ ہو کر ادب میں شامل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ادبی اصطلاح میں رپورتاژ ایک ایسی چلتی پھرتی تصویر کشی ہے جس میں خود مصنف کی ذات ، اسلوب ، قوتِ متخیلہ ، تخلیقی توانائی اور معروضی صداقت موجود ہوتی ہے۔ اکثر سفر ناموں کو بھی رپورتاژ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے لیکن سفر نامے کے لیے سفر کی ضرور ت ہوتی ہے لیکن رپورتاژ میں ایسا ضروری نہیں۔ مصنف چشم ِ تخیل کے ذریعے ہی رپورتاژ تخلیق کر سکتا ہے۔
اردو ادب کی پہلی باقاعدہ رپورثاژ کرشن چندر کی ”پودے “ہے اس کے بعد ترقی پسندوں نے اس صنف کوآگے بڑھایا ۔1947کے واقعات نے رپورتاژ نگاری کے ارتقاءمیں اہم کردار ادا کیا۔ فسادات پر لکھی جانے والی رپورتاژ ادبی شہکار ثابت ہوئیں۔ ان میں محمود ہاشمی کی رپورتاژ ”کشمیر ادا س ہے“ قدرت اللہ شہاب کی کاوش ”اے بنی اسرائیل“ ابراہیم جلیس کی ”دو ملک ایک کہانی“ رامانند ساگر کی ”اور انسان مر گیا “ اور جمنا داس اختر کی ”اور خدا دیکھتا رہا “ ایسی رپورتاژیں ہیں جو سیدھے سادے سچے واقعات پر دلگذار تبصرہ ہیں۔ ان واقعات میں صداقت اور افسانوی انداز دونوں موجود ہیں۔ اس کارآمد صفِ ادب کو تقسیم ہند کے واقعے کو بہت بھر پور طریقے سے پیش کرنے میں مدد دی۔

منگل, جولائی 21, 2009

اردو وکی پیڈیا

وکی پیڈیا کے ساتھ میرا تعارف کچھ سال پہلے ہوا۔ اس وقت میں اردو ویب کے ساتھ کام کررہا تھا۔ وکی جیسا منصوبہ دیکھ کر جی میں آیا کہ اردو ویب پر کام کرنے والے بہت ہیں لیکن وکی پر کام کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے اور رضاکاروں کا وہاں پر فقدان ہے۔ اس لیے وکی پر کام شروع کیا۔ اس وقت شاید وکی پر مضامین کی تعداد صرف پانچ سو تھی۔ مگر ان چند سالوں میں دوستوں کی محنت سے اب وہاں پر مضامین کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔ اور جس طرح ابتداء میں جو خواب ہم نے دیکھا تھا کہ وکی پر مضامین کی تعداد دس ہزار کو پہنچے آخر کار پورا ہوا۔ پچھلے دنوں دیوان عام میں علوی صاحب کی طرف سے وکی پیڈیا کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کی گئی تھیں جس کا تعلق بلاگرز کے حوالے سے تھا۔ اسی حوالے سے سوچا کہ کچھ نہ کچھ وکی کے بارے میں لکھا جائے تاکہ دوستوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جا سکتے۔

وکی دراصل ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پر کام کرنے کے بہت زیادہ مواقع ہیں۔ آپ تاریخ ، سیاست ، سائنس جونسا بھی شعبہ آپ کو پسند ہو کچھ نہ کچھ لکھ کر اس کار خیر میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اکثر بلاگرز کو شکایت رہی ہے کہ وہاں کے منتظمین کی طرف سے تعاون نہیں کیا جاتا اور مضامین کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ تو اس کے لیے میری تجویز یہ ہے کہ جو کچھ بھی لکھیں غیر جانبدار لکھیے میں یقین دلاتا ہوں کہہ آپ کے مضمون کو وہاں جگہ ضرور ملے گی۔ اور اگر کوئی مسئلہ ہے بھی تو تبادلہ خیال کا پیج کس لیے ہے۔ انگریزی وکی پر تبادلہ خیال کے پیجز کو دیکھیے وہاں بات منوانے کے لیے کیا کیا جھگڑنے نہیں ہوتے لیکن منتظمین کو قائل کیا جاتا ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر لکھاری وکی پیڈیا پر وہی لوگ آتے ہیں جو کسی سیاسی جماعت یا مذہبی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مضامین غیر جانبداری کا عنصر ذرا کم ہوتا ہے اس لیے جب منتظمین کی طرف سے کوئی اعتراض کیا جاتا ہے تو بات بگڑ جاتی ہے۔ لیکن پلیز میں بلاگرز سے اپیل کرتا ہوں کہ وکی کی ترقی و ترویج ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس کی طرف ضرور توجہ دی اجائے۔

نئے مضامین کے علاوہ وکی پر اور بھی بہت سا کام ہے۔ اگر آپ دوست لکھ نہیں سکتے تو مضامین کی نوک پلک درست کرنے ان کے درمیان روابط قائم کرنے۔ ان کو نئے زمرہ جات میں تقسیم کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے بھی آپ اردو زبان کی خدمت کر سکتے ہیں۔ کیونکہ وکی پر بہت سا مواد بکھرا پڑا ہے ان کے درمیان روابط اور ان کو بہتر زمرجات میں تقسیم کرکے یوزرز کو بہتر سے بہتر معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ امید ہے آپ دوست میری اس درخواست پر ضرور غور فرمائیں گے۔

وکی کے ذیلی مضوبے وکیشنری میں بھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ وہاں پر اردو ایک اچھے اور بہتر لغت کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہاں پر رضاکار موجود ہوں۔ جو وقتاً فوقتاً ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرتے رہیں اور ساتھ ہی الفاظ کے تراجم میں بھی مدد دے سکیں۔وکی اقتباس اور وکی بکس بھی ایسے ہی پلیٹ فارمز ہیں جہاں دوستوں کی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔

پیر, جولائی 13, 2009

جنگ اور امن

اٹھارہ سو چھپن سے اٹھارہ سو انسٹھ کے درمیان لکھا جانے والا ناول جنگ اور امن ٹالسٹائی کی بلند پروازی کا کمال اورآج وہ روسی ادب ہی نہیں بلکہ عالمی ادب کا ایک عظیم فن پارہ اور شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے۔ تین سو سے زیادہ کرداروں پر مشتمل یہ ناول ایک لافانی تخلیق ہے ۔ فکری اعتبار سے اس کی وسعت اور پھیلا ؤ اس کی عظمت کی دلیل ہے۔ جنگ اور امن کا زمانہ اانیسویں صدی کے پہلے بیس پچیس سال ہیں۔ شروع میں روسی سوسائٹی اور اخلاق کی پستی اور کھوکھلے پن کا منظر دکھایا گیا ہے پھر ہم سیاست اور جنگ کے میدان میں پہنچ جاتے ہیں جب نپولین روس پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور آوسٹرلز کی لڑائی کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد امن کا مختصر دور آتا ہے لیکن ایک بار پھر نپولین روس پر حملہ کر دیتا ہے اور ماسکو میں داخل ہوجاتا ہے ۔ مگر واپسی پر نپولین کی فوج موسمی حالات کی وجہ سے تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ نپولین کا یہ حملہ اور پسپائی روسی قوم میں ہمدردی ۔ اتحاد و عمل اور ایثار کے بیج بو دیتا ہے۔ اس ناول کے لازوال کرداروں میں انسانی جذبوں کی خوبصورت عکاسی ملتی ہے۔ نفرت ۔ جوش۔ محبت ۔ رقابت جیسے انسانی رویوں کو بہت خوبصورتی سے اس ناول کا حصہ بنایا گیا ہے۔

پچھلے دنوں اس ناول کی ڈرامائی تشکیل دیکھنے کا موقع ملا۔ عام طور پر کلاسیکس کے بارے میں یہ رائے دی جاتی ہے کہ ان کی ڈرامائی تشکیل فن پارے کی عظمت کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتی ۔ لیکن یہ ڈرامائی تشکیل کافی حد تک اس تاثر کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ جنگ اور امن کی یہ منی سیریل دیکھتے ہوئے مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا جیسے میں ان کرداروں کے ساتھ جی رہا ہوں۔ نتاشا۔ اندرے۔ سونیا۔ پیوش میرے آس پاس رہنے والے کردار محسوس ہو رہے تھے۔ اس لیے سوچا کہ اس عالمی کلاسیک کی ڈرامائی تشکیل کو آپ کے ساتھ بھی شئیر کیا جائے۔ نیچے ٹورنٹ کا لنک درج ہے جہاں سے آپ باآسانی یہ ڈرامہ ڈاون لوڈ کر سکتے ہیں۔

جنگ اور امن کا ٹورنٹ


جمعہ, جولائی 10, 2009

اے میرے شہر کے فنکار۔۔۔۔

اے میرے شہر کے فنکار تجھے کیا معلوم
میری مٹی میں دھڑکتے ہوئے طوفاں کیا ہیں
تیری سوچوں میں ابھی تک ہے وہی صبحِ بہار
تو نہ سمجھے گا یہاں درد کے امکاں کیا ہیں

وہ تیری سوچ کی گلیاں وہ تیرے کوچہ و در
آج بھی پچھلے زمانے کی طرح ہیں لیکن
نین سے نین لڑانے کے وہ دلکش منظر
آج بھی حشر اٹھانے کی طرح ہیں لیکن

ان پہ چھائی ہے کڑے وقت کی ایسی چادر
جس نے ہر نقش کو دامن میں چھپا رکھا ہے
غمِ اغیار کی پروردہ نگاہوں سے مگر
تو نہ سمجھے گا کہ اس کہر میں کیا رکھا ہے

وہی کاندھے جو سہارے تھے کسی ڈولی کے
آج اپنوں کے جنازوں سے بہت بوجھل ہیں
وہی چہرے جو سرِ شام کھلا کرتے تھے
ان پہ اب خوفِ خزاں نو کے گھنے بادل ہیں

تم نے اس شہر میں چلتے ہوئے ٹانگے دیکھے
اب ذرا تار پر لٹکی ہوئی ٹانگیں دیکھو
تم حسین رنگ زمانے کے بتاتے ہو مگر
یہ ذرا خون بہاتی ہوئی آنکھیں دیکھو

جا بجا کوچہ و دیوار سے لپٹا ہے لہو
ہر جگہ جلتے ہوئے گوشت کی بو آتی ہے
گیت خوشیوں کے کسی وقت بجا کرتے وقت
اب تو ہر سمت سے بڑھتی ہوئی ہَو آتی ہے

بے حسی ایسی گھٹا بن کے یہاں چھائی ہے
جس میں اک چاک بھی شاید کبھی امکان نہ بنے
دعوہِ ثانیِ عیسٰی تو سبھی کو ہے مگر
کوئی قائد بھی یہاں درد کا درماں نہ بنے

اے میرے شہر کے فنکار یہ افتادِ گراں
شک نہیں اس میں کہ غیروں کی عطا کردہ ہے
پر میرے اپنے ہی ملبوس بنے ہیں ان کے
اور درِ غیر ہی ان سب کا رخِ سجدہ ہے

یہ تماشا سرِ بازار تجھے کیا معلوم
سر پہ لٹکی ہوئی تلوار تجھے کیا معلوم
کیسے کٹتے ہیں یہ پُر ہول شب و روز یہاں
اے میرے شہر کے فنکار تجھے کیا معلوم۔۔

سلمان نذر

جمعرات, جولائی 02, 2009

مختار مسعود (آوازِ دوست)۔

چند علمی خیالات کو ایک منظم شکل دینا اور اختصار کے ساتھ بیان کرنا مضمون کہلایا۔ سرسید تحریک کے زیر اثر مضمون میں اصلاحی رنگ نمایاں رہا ۔ سرسید کے سارے مضامین یورپ کی تہذیب و تمدن سے متاثر ہو کر لکھے گئے ۔ اور ایک واضح شکل اختیار کرنے سے قاصر رہے۔ سرسید کے بعد اس صنف نے مزید ترقی کی اور تاریخی ، علمی ، سائنسی ، نفسیاتی اور سماجی تمام پہلوئوں کواپنے اندر سمو دیا۔ سرسید نے جن مضامین کی ابتداءکی اسکا نقطہ عروج جدید اردو ادب میں ”آواز دوست“ کی صورت میں سامنے آیا۔ ”آواز دوست“ اپنے اندر کئی ایسے پہلو رکھتی ہے جو اس سے پہلے مضامین کا موضوع نہیں رہے ۔ مثلاً جس طرح ادب، فلسفے اور تاریخ کو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کرکے پیش کیا گیا ہے اس پہلے ایسی مثال نہیں ملتی ، ”آواز دوست“ کے مضامین ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہے۔ ”آواز دوست“ کی صحیح قدر متعین کرنے کے لئے ایک نقاد کو اس کے منصب کے تمام حوالوں کو بروئے کار لانا پڑے گا۔بقول محمد طفیل ایڈیٹرنقوش
اس کتاب کے بارے میں چھت پھاڑ قسم کی تعریفیں ہوئیں ، بے شک یہ کتاب تعریف کے قابل ہے ۔ جتنا چاہیں جھوٹ بول لیں ،جتنا چاہیں سچ بول لیں۔ دونوں چکر چل جائیں گے۔ یہ گنجائش میں نے تو محمد حسین آزاد کی کتاب”آب حیات“ میں دیکھی یا پھر مختار مسعود کی کتاب ”آواز دوست“ میں۔
مختا ر مسعود علی گڑھ سے تعلیم یافتہ ہیں وہ محکمہ مالیات کے ایڈیشنل سیکرٹری تھے۔ یعنی پاکستانی بیورو کریسی کاایک حصہ تھے۔ اس کے علاوہ وہ مینار پاکستان کی تعمیر ی کمیٹی کے صدر بھی تھے۔ اُن کے والد صاحب علی گڑھ یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد رہ چکے تھے۔ مختا ر مسعود آج کل لاہور میں مقیم ہیں اور اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ آواز دوست کے علاوہ ”لوح ایام“ اور ”سفر نصیب“ کے عنوا ن سے اُن کے دو سفر نامے منظر عام پر آچکے ہیں۔

ہفتہ, جون 20, 2009

ممتاز مفتی (لبیک)۔

اردو میں حج کے سفر ناموں کی روایت کافی قدیم اور بھر پور ہے یہ روایت بھی فارسی کی دین ہے اردو حج ناموں میں ” حاجی محمد منصب علی خان کا سفر نامہ ماہ مغرب پہلا حج نامہ تسلیم کیا جاتاہے ۔ یہ معلوماتی اور واقعاتی سفرنامہ ہے ۔ اس سفر نامے کا اسلوب سیدھا سادھا ہے یعنی اردو کایہ پہلاحج نامہ رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔
برصغیر دیار مقدس سے خاصے فاصلے پر ہے اور انیسویں صدی کے آخر تک سفر کی مناسب سہولتیں بھی میسر نہ تھیں ۔ چنانچہ کم زائرین کو یہ سہولتیں اور سعادت نصیب ہوتی تھی ۔ اس دور نے آتش شوق کو فروزاں کئے رکھا۔ اور حج کے سفر نامے لکھے گئے تو انہیں وصل کا ایک ذریعہ سمجھ کر پڑھا گیا وہ تمام زائرین جو مقدس مقامات دیکھنے کے بعد لوٹتے ہجر و فراق کی کیفیت سے بھی گزرتے اور اس بیان نے حج کے سفر ناموں کے اسلوب کو گداز بنا دیا ۔ اس عہد کے قاری کے لئے حج کے سفر نامے نعمت عظمیٰ سے کم نہ تھے۔ اور پھر ذرائع آمدورفت کی بدولت یہ سفر آسان ہواتو حج کے سفر نامے داخلی کیفیت سے آشنا ہوئے ۔ حج کے ابتدائی سفر ناموں میں معلومات اور مناسک کی تفصیل ہوتی تھی۔ موجودہ دور کے حج کے سفر ناموں میں تاثرات کی بہتات ملتی ہے۔ آج زبان و بیان کا قرینہ اور سلیقہ خالق کو اپنی باطنی تجربات تحریری شکل میں لانے میں مدد دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ابتدائی سفر نامے ”کیا ہے“ کی تفصیل تھے جبکہ موجودہ حج ناموں میں ”کیا پایا “ کی تشریح ملتی ہے۔ اس دور کے حج نامے آپ بیتی کے قریب ہیں۔ تکنیکی اعتبار سے اُ ن کا اندازڈائری جیسا ہے اور مقصد محسوسات ، قلب اور تجربات روحانی کا بیا ن کرنا ہے۔
ان حج ناموں میں ذات کی خود نمائی کا احساس نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر جگہ ذات کی نفی کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔ عاجزی انکساری حج ناموں کی بنیادی خصوصیت رہی ہے۔ شور ش کاشمیری کا حج نامہ ” شب جائے کہ من بودم‘ ‘ غلام ثقلین کا ” ارض ِ تمنا“ عبداللہ ملک کا ” حدیث دل“ اور ممتاز مفتی کا لبیک جدید حج ناموں کی چند نمایاں جہتیں پیش کرتی ہیں۔
لبیک
ممتاز مفتی کا ”لبیک“ منفرد حیثیت و اہمیت کا حامل ہے یہ ایک باغی شخص کی قلبی واردات ہے جو اسرار کھولنا چاہتا ہے ۔ پردہ اٹھانا چاہتا ہے ہر لمحہ قاری کو اپنا ہمنوا بنائے رکھتا ہے ۔ بقول ظہور احمد اعوان
مفتی ایک مہم جو کی طرح اپنی ذات کی تسخیری مہم پر رواں تھا۔ اس نے جگہ جگہ رسمی تصورات پر چوٹیں کی ہیں ۔ فرسودہ رسومات پر طنزکے تیر برسائے ہیں ۔ خارجی رسمیات سے آگے گزر کر داخلی اور روحانی دنیا میں جھانکنے کی کوشش بھی کی ہے۔

منگل, جون 16, 2009

کرفیو



اکثر میرے دوست فون کرکے، میل کرکے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں۔ میرا ان کو یہی جواب ہوتا ہے کہ جس طرح اتنی دور رہتے ہوئے آپ بے خبر ہیں۔ ہمیں بھی کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اوپر دی گئی ویڈیو فوج کی جانی خیل کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ اس پیش قدمی کے بعد تمام راستے بند کر دئیے گئے ۔ وہاں سے آنے والے متاثرہ خاندانوں کو شمالی وزیرستان کی طرف دھکیل دیا گیا ایسے میں وہاں کے حالات کے متعلق جاننا بہت مشکل ہے۔ میرے کئی شاگرد ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کے موبائل فون بند ہیں۔ بس ہم لوگ صرف شیلنگ کی آوازیں سن رہے ۔ اور وہ بھی ایسی زبردست کہ نہ دن کو چین نہ رات کو آرام ۔ ہم لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ جانی خیل اور بکا خیل اتنا بڑا علاقہ تو نہیں ابھی تک تو اس شیلنگ سے وہ کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہوگا۔ مگر علاقے کا صحیح احوال کسی کو معلوم نہیں۔ شہر کا احوال کیا لکھوں۔ جس شہر کی شامیں بیلے کی خوشبو سے معطر رہتی تھیں۔ جہاں ڈھول کی تھاپ پر اٹھتے ہوئے جوانوں کے ہاتھ دکھائی دیتے تھے۔ جو شہر جنوبی اضلاع میں ایک اہم کاروباری مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب سنسان پڑا ہے۔ شہر کا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ خصوصی طور پر نچلا طبقہ بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ اور نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔ کرفیو میں نرمی کے دوران میں نے اکثر دیکھاکہ مزدور مزدوری کی تلاش میں نکلتے ہیں مگر انہیں مزدوری نہیں ملتی۔ ریڑھی والے کی بکری نہیں ہوتی ۔ یعنی ایک طرح سے اپنے ہی علاقوں میں لوگ آئی ڈی پیز بن گئے ہیں۔ جن کی زندگی آہستہ آہستہ مشکلات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آپریشن کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ اتنی جلدی ختم ہونے والا نہیں۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ متاثرہ افراد کی طرف خصوصی توجہ دے۔ ااس کے علاوہ عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ آپریشن ذدہ علاقوں میں میڈیا کو جانے کی اجازت دی جائے تاکہ آپریشن کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات دئیے جا سکیں۔

پیر, جون 15, 2009

یہ کس کا لہو ہے

اے رہبرِ ملک و قوم بتا
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا
کچھ ہم بھی سنیں ، ہم کو بھی بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
دھرتی کی سلگتی چھاتی کے بے چین شرارے پوچھتے ہیں
تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں
سڑکوں کی زباں چلاتی ہے، ساگر کے کنارے پوچھتے ہیں
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبرِ ملک و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
وہ کون سا جذبہ تھا جس سے فرسودہ نظامِ زیست ملا
جھلسے ہوئے ویراں گلشن میں اک آس امید کا پھول کھلا
جنتا کا لہو فوجوں سے ملا ، فوجوں کا لہو جنتا سے ملا
اے رہبرِ ملک و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبر ملک و قوم بتا
کیا قوم وطن کی جے گا کر مرتے ہوئے راہی غنڈے تھے
جو دیس کا پرچم لے کے اٹھے وہ شوخ سپاہی غنڈے تھے
جو بارِ غلامی سہہ نہ سکے ، وہ مجرم شاہی غنڈے تھے
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبر ملک و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے عزمِ فنا دینے والو! پیغام ِ بقا دینے والو
اب آگ سے کیوں کتراتے ہو؟ شعلوں کو ہوا دینے والو
طوفان سے اب ڈرتے کیوں ہو؟ موجوں کو صدا دینے والو
کیا بھول گئے اپنا نعرہ
اے رہبر ملک و قوم بت
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
سمجھوتے کی امید سہی، سرکار کے وعدے ٹھیک سہی
ہاں مشقِ ستم افسانہ سہی، ہاں پیار کے وعدے ٹھیک سہی
اپنوں کے کلیجے مت چھیدو اغیار کے وعدے ٹھیک سہی
جمہور سے یوں دامن نہ چھڑا
اے رہبرِ ملک و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
..............
ساحر لدھیانوی

جمعہ, جون 12, 2009

میرا شہر

کل میں تقریباً گیارہ دن کے بعد اپنے شہر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں موجود ناکوں سے گزرنے کے بعد جب ہم بنوں پہنچے تو شہر سے باہر کئی خاندانوں کے قافلے نظر آئے جو حالات کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ کرفیو میں نرمی ایک بجے تک ہوگی مگر بارہ بجے دوبارہ کرفیو لگا دیاگیا۔ جب میں شہر کے اڈے میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ جس ہنستے بستے شہر کو میں دس دن پہلے چھوڑ کر گیا تھا یہ وہی شہر ہے۔ سڑکیں سنسان، اکا دکا پیدل چلنے والے نظر آئے جو کہ پولیس کی نظروں سے بچ کر گھروں کی طرف جارہے تھے۔ گھر جانے کا رسک میں نہیں لے سکتا تھا اس لیے اڈے سے متصل اپنے دوست نیاز انور کے گھر چلا گیا۔ وہاں پہنچتے ہی توپوں کی گن گرج شروع ہوئی۔ نیاز ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ تمہارے پہنچنے کی خوشی میں فوج تمہیں توپوں کی سلامی دے رہی ہے۔ شیلنگ کی آواز اتنی تیز تھی کہ ہوش اڑ گئے۔ نیاز کے بچے کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ نیاز نے بتایا کہ اب بچوں کو عادت ہوگئی ہے۔ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوجاتے ہیں پھر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد میں نے اپنے کزن کو فون کیا جو ون فائیو کی گاڑی لے کر آیا۔ گاڑی جب شہر میں داخل ہوئی تو مجھ سے یہ منظر دیکھا نہیں جارہا تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ شہر جس کی شاموں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ وہاں ہر چیز سنسان پڑی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے مردوں کا شہر ہے ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ گاڑی نے مجھے میرے محلے سے باہر اتار دیا۔ وہاں پر گلیوں میں کچھ چہل پہل موجود تھی۔ گھر پہنچ کر سکھ کا سانس لیا۔ مگر یہ سکھ کا لمحہ کچھ ہی دیر کے لیے تھا۔ ایک دفعہ پھر گولہ باری کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں یہ گولے کس پر برسائے جارہے ہیں۔ کون ہلاک ہو رہا ہے۔ حالات شاید مزید خراب ہوں مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ شہر میں کس طرح چھوڑ کر جاؤں گا جہاں ہماری نسلیں جوان ہوئیں۔ جہاں ہمارے آباؤ اجداد کی قبریں ہیں۔ اس شہر کو میں چھوڑ کر کسی محفوظ جگہ پر جاؤں بھی تو کیسے جاؤں۔ اس وقت ذہن میں صرف ایک شعر بار بار گونج رہا ہے۔

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں

بدھ, مئی 27, 2009

ملا وجہی (سب رس)۔

پروفیسر افتخار احمد شاہ اپنے مضمون ”دکن میں اسالیب نثر “ میں لکھتے ہیں
سب رس اپنے موضوع ، زبان اور اسلوب کے اعتبار سے ایک ایسی تصنیف ہے کہ جسے اس دور کی جملہ تصانیف میں سب سے زیادہ ادبی اہمیت کی مالک ہونے کا مقام حاصل ہے۔ جسے موضوع کی دلچسپی ، جذبے کی موجودگی، زبان کی دلکشی اور اسلوب کی انفرادیت پر خالص ادبی تحریر قرار دیا جاسکتا ہے۔
سب رس ایک تمثیل:۔
سب رس کو عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر وجہی نے لکھا۔ اس کتاب کو اردو نثر کی اولین کتاب ہونے کا شرف حاصل ہے۔یہ وجہی کہ اپنی طبع ذاد نہیں اس کتاب میں فتاحی نیشاپوری کی مثنوی ”دستور العشاق“(نظم )اور ”قصہ حسن ودل “ کو نثر کےپیرائے میں تمثیل کے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ تمثیل انشاءپردازی کی اس طرز کو کہتے ہیں جس میں کسی تشبیہ یا استعارہ کو یا انسان کے کسی جذبے مثلاً غصہ،نفرت، محبت وغیرہ کو مجسم کرکے یا دیوی دیوتاؤں کے پردے میں کوئی قصہ گھڑ لیا جاتا ہے۔ یہ قصہ صوفیانہ مسلک کا آئینہ دار ہے۔ مگر اپنے اسلوب اور بیان میں سب رس ایک کامیاب تمثیل ہے۔ اس میں حسن و دل اور عقل و دل کی جنگ کو بڑی خوبصورت اور کامیاب تمثیل کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔
سنگ میل:۔
سب رس اردو نثر کا سب سے ممتاز اور ترقی یافتہ شاہکارہے۔ اس میں اسلوب بیان نے ایک خاص انگڑائی لی ہے اور زندگی کی آنکھ کھولی ہے۔ سب رس سے پہلے جو نمونے اردو نثر میں ملتے ہیں ۔ اسے اردو نثر کا دور بدویت کہا جاسکتا ہے۔ یعنی اس دور میں وہ انداز بیان تھا جس میں لہجے کا دیہاتی پن، کہنے کا سادہ بے تکلف اور درست انداز اور آرائش کی ہر کوشش سے آزاد تھا ۔جتنے لوگوں نے اس زمانے میں لکھا، مذہبی مسائل پر لکھا اور ان کے مخاطب عوام تھے جن تک بات پہنچانا مقصود تھا۔ اس لیے سادگی ، سلاست و راست بیانی کے علاوہ شیرازہ بندی اور فقروں کی ساخت سے بے پروائی کا رویہ عام تھا۔ مگر ”سب رس“ اردو نثر کا ایک ایسا سنگ میل ہے جس میں اس بات کی کوشش نظر آتی ہے کہ مصنف اپنی بات کو موثر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
اسلوب:۔
سب رس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی ترقی یافتہ زبان اور اس کا اسلوب بیان ہے۔ سب رس میں پہلی دفعہ زبان اردو کی ایک ترقی یافتہ صورت ہمارے سامنے آئی اور پہلی دفعہ زبان کے ایسے اسالیب اور زبان کے ایسے ایسے خصائص وجودمیں آئے جن کی بنا پر ”سب رس“ کی زبان اس سے پہلے کے مصنفوں کی زبان سے اور اپنے معاصروں کی زبان و اسلوب سے علیحدہ ہو گئی۔ پروفیسر شیرانی لکھتے ہیں
جو چیز ”سب رس “ کو ہماری نگاہ میں سب سے زیادہ قیمتی بناتی ہے۔ وہ اس کے اسالیب ہیں۔ جب ہم ان اسالیب کا موجودہ زبان سے مقابلہ کرتے ہیں توآج کی زبان میں اور اس زبان میں خفیف سا فرق معلوم ہوتا ہے۔

ہفتہ, مئی 23, 2009

تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے

کراچی سے آنے والی خبروں نے ہم پشتونوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جس پاکستان کی سالمیت کے نام پر لڑے جانے والی جنگ میں ہماری نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس پاکستان کے بسنے والے لوگ آج ہمیں کہہ رہے ہیں کہ صوبہ سرحد سے آنے والے افراد کی رجسٹریشن کرائی جائے اور انھیں صرف کیمپوں تک محدود رکھا جائے۔ خیر رجسٹریشن کی بات تو چلیں مان لیتے ہیں۔ اس لیے کہ آبادی کی اتنی بڑی نقل مقانی کا کوئی نہ کوئی ریکارڈ رکھنا اشد ضروری ہے۔ مگر یہ بات حلق سے نہیں اتر رہی کہ متاثرین کو کیمپوں تک محدود رکھا جائے۔ یا پھر ان کو صوبہ سرحد سے نکلنے ہی نہ دیا جائے۔ دوستو! کیا پاکستان کے کسی بھی شہر میں کسی بھی حالت میں مجھے آباد ہونے کا حق حاصل نہیں۔ اگر نہیں تو پھر پاکستان کو ایک یونٹ میں رکھنے کا فائدہ کیا ہوا۔ اگر مجھے سندھ میں رہنے کے لیے الطاف بھائی کا ویزہ درکار ہوگا تو پھر ایسے پاکستان کو میں اپنا پاکستان کیسے کہوں گا۔ کیا واقعی یہ میرا پاکستان ہے۔ جس کے حکمرانوں کی غلط پالیسویں کی کاشت کی ہوئی فصل کو آج میرے بچوں کے خون سے سینچا جارہا ہے۔ جہاں میرے خون کا سودا کرکے اس پاکستان کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمایا جارہا ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے باجود مجھے اس مٹی سے محبت ہے۔ میں اس میں رہنا چاہتا ہوں یہ میرا وطن ہے میرے بچوں کا وطن ہے۔ اس کا نقصان میرا نقصان ہے۔ اگر یہ ملک تقسیم ہوا تو شاید میں زندہ نہ رہوں۔ مگر نجانے اس محب وطن پاکستانی کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ اور کیوں زبردستی اسے دہشت گرد یا باغی بنایا جاررہا ہے۔ ویسے الطاف بھائی آپ سے ایک سوال ہے۔ تقسیم ہند کے دوران آپ بتا سکتے ہیں گاندھی اور جناح کے درمیان یہ بات کہاں طے ہوئی تھی۔ کہ ہندوستان کے مسلمان پاکستان ہجرت کریں گے۔ مگر اس کے باوجود جب وہاں حالات خراب ہوئے تو لاکھوں لوگوں نے ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کی۔ کیا وہ ہجرت بھی غیر قانونی تھی۔ کیا ان لوگوں کو بھی آج تک کیمپوں تک محدود رکھا جاتا تو اچھا ہوتا۔

جمعرات, مئی 21, 2009

مقدماتِ عبدالحق

مقدمہ عربی کی اصطلاح ہے جو دوسری زبانوں کی کتابوں کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی بہت استعمال ہوتی ہے۔ اور اس کا تعلق مقدمہ الجیش سے ہے۔ جیش کہتے ہیں لشکر کو۔ وہ ہر اول لشکر جو کہ فوج کے آگے چلتا تھا۔ اس کومقدمہ الجیش کہا جاتا تھا۔
جہاں تک ادبی مفہوم کا تعلق ہے تو مقدمہ سے مردا یہ ہے کہ کتاب کے شروع میں کتاب کے مصنف یا مولف کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ اس تعارف میں اُس کے زندگی کے حالات اور اُس کے کردار کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں اُس کی مختلف تصانیف پر بھی اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی ہے۔ حالات اور سیرت پر روشنی ڈالنے کے بعد کتاب کی ادبی، فنی اور لسانی حیثیت بھی متعین کی جاتی ہے۔ اردو ادب میں مقدمہ نگاری کی باقاعدہ ابتداءکے سہرا مولوی عبد الحق کے سر ہے۔ اُن کے مشہور مقدمات میں ” سب رس کا مقدمہ“ ’انتخاب کلام میر“ اور ”باغ و بہار کا مقدمہ شامل ہیں۔
مولوی صاحب کے مقدمات:۔
مقدمات عبدالحق میں سب سے اہم وہ مقدمے ہیں جو خود ان کی مرتب کی ہوئی کتابوں پر لکھے گئے ہیں۔ یہ کتابیں اردو کے قدیم کلاسیکی ادب سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کتابوں پر مولوی صاحب کے مقدمے تحقیقی اور تنقیدی نقطہ نظر سے روشنی ڈالتے ہیں۔ جس سے ان کی کتابوں کے مصنفوں کے حالات ، شخصیت ، ماحول اور ادبی مرتبے کے تمام خدوخال واضح ہو جاتے ہیں ۔ ان مقدمات میں مولوی صاحب کے ذوق تحقیق نے عہد ماضی کے بیشتر مخفی حقائق کی نقاب کشائی کی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہماری ادبی اور تہذیبی تاریخ میں انقلاب آفرین اضافے ہوئے ہیں اور مستقبل کے مورخین و محققین کے لئے راہیں صاف ہو گئی ہیں۔
مولوی عبدالحق نے میر تقی میر پر دو معرکتہ الارا مقدمے لکھے ہیں ۔ ایک ان کے انتخاب کلام میر پر ہے اور دوسرا میر کی خود نوشت ، سوانح حیات ، ”ذکر میر ‘ ‘ پر ہے۔ یہ مقدمے آ ج سے برسوں پہلے لکھے گئے ہیں لیکن ان میں میر کی زندگی ، شخصیت ، اور شاعرانہ مرتبے پر پورے اطمینان سے دوٹوک انداز میں تحقیق کی گئی ہے اور تنقیدی بصیرت سے خیال افروز فیصلے دئیے گئے ہیں۔

منگل, مئی 19, 2009

رشید احمد صدیقی (مضامینِ رشید)۔

مضامین رشید۔ رشید احمد صدیقی کے 20 مضامین پر مشتمل کتاب ہے۔ ان مضامین کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ان میں مزاحیہ مضامین میں چارپائی ، ارہر کا کھیت ، گواہ ، مغالطہ ، دھوبی اور حاجی صاحب ہیں۔ اپنی یاد میں ، سرگزشت، مولانا سہیل ، مرشد ، حاجی صاحب اور ماتا بدل ان کی شخصیت نگاری ( خاکہ نگاری) کی اولین نقوش ہیں۔ سرگزشت عہد گل ، اپنی یاد میں اور سلام ہو نجد پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور سرسید احمد خان کی شخصیت سے عبارت ہیں ۔ جبکہ مرشد ، آمد مین اورد ، اپنی یادمیں اور پاسبان انشائیے ہیں۔پروفیسر وحید اختر مضامین رشید کے بارے میں کہتے ہیں
مضامین رشید ،میں محض علی گڑھ نہیں ، ہندوستان کی جہد آزادی بھی ہے۔ برطانوی انگریز اور ہر قسم کے ہندوستانی بھی ہیں۔ پہاڑوں کی سیر بھی ہے، ریل کا سفر بھی ہے ، پھلوں کابیان بھی ہے ۔اور لکھنو بھی ، ہسپتال بھی ، ڈاکٹر بھی، نرسیں بھی ، دوست بھی ہیں ملازمین بھی ، بڑے لوگ بھی ہیں او رمزدور بھی ۔ اور یہی نہیں ہندوستان کا وہ دیہات بھی جو پریم چند کی کہانیوں اور ناولوں میں ملتا ہے۔کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم متفرق مضامین نہیں ایک مسلسل افسانے کے اجزاءیا ناول کے متفرق ابواب پڑھ رہے ہیں۔
مضامین رشیدکو اردو ادب میں ایک اہم مقام اور حیثیت حاصل ہے ۔ آئیے ان مضامین کے خصوصیات او ر اسلوب کا جائزہ لیتے ہیں،
علی گڑھ کا اثر:۔
ان مضامین کے عنوانات اگرچہ ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں لیکن ان سب کا محور ماحول اور فضاءعلی گڑھ کالج (علی گڑھ مسلم یونیوسٹی ) اور سرسید احمد خان کی شخصیت ہیں۔ رشید احمد صدیقی آ پ کو دنیا جہاں میں گھوما پھرا کے آپ کے ساتھ دنیا جہاں کی باتیں کرکے آخر میں علی گڑھ کالج اور سرسید احمد خان کی شخصیت پر لا کھڑا کردے گا۔ ان مضامین سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مصنف کو خود علی گڑھ سے کتنی محبت اور لگائو ہے اور سرسید احمد خان کی شخصیت سے کس قد ر عقیدت رکھتے ہیں۔ اور خود ان سے کس قدر متاثر ہیں اپنے مضامین میں علی گڑ ھ کے اثر کے بارے میں خود رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں
اپنے طالب علمی کی یاد ہر شخص کو خوشگوارمحسوس ہوتی ہے چاہے وہ زمانہ تکلیف و تردد ہی کا کیوں نہ رہا ہو۔ ۔۔۔اورجس نے اپنی زمانہ طالب علمی کا بہترین زمانہ ایسے ادارے میں بسر کیا جو ہندوستان کے مسلمانوں کی دیرینہ علمی اور تہذیبی ورثے کا امین ، ان کے حوصلوں کا مرکز اور امیدوں کا سرچشمہ رہا ہو ایسے ساتھیوں میں گزر ا ہو جو مذہب ملک سوسائٹی اور علوم و فنون کی دی ہوئی طرح طرح کی نعمتوں اور برکتوں سے بہر مند تھے۔ ایسی روایات ایسی فضا ایسا ساتھ ایسے روز شب ان سب کا آخر کچھ تو اثر ہوتا ہی ہے۔

جمعہ, مئی 15, 2009

دجلہ

شفیق الرحمن کی کتاب دجلہ سے کچھ اقتباسات پیش کر رہاہوں۔ یہ کتاب میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔ شفیق الرحمن کا شگفتگہ اسلوب اس کتاب کی پسندیدگی کی بنیادی وجہ ہے۔ ان کے اسی اسلوب کی جھلک آپ کو ان اقتباسات میں بھی نظر آئے گی۔

ثانیہ نے عینک اتار دی اور ایک اور لبادہ بھی۔ اب وہ کہیں بہتر لگ رہی تھی۔
یہ بتائیے کہ آپ تاریخ اسی طرح پڑھتی ہیں؟ میں نے اسے چھیڑا۔
تو اور کس طرح پڑھتے ہیں؟
آپ جغرافیہ بھی ساتھ ملا لیتی ہیں۔ ناپ ، لمبائی ، چوڑائی ، بلندی وغیرہ ۔۔۔یہ سب کچھ جغرافیے میں ہوتا ہے۔ تاریخ کو کسی اور زاویے سے لینا چاہیے۔ اس میں طرح طرح کے موڑ آتے ہیں۔ مثلاً اب مجھ سے کہا جائے کہ آنسہ ثانیہ کا جغرافیہ بیان کرو، تو میں کہوں گا کہ ثانیہ کا قد پانچ فٹ چارانچ کے لگ بھگ ہے۔ وزن نو سٹون ہوگا۔ بے شمار رومال سکارف ہٹا دئیے جائیں تو خوش شکل ہے۔ انگریزی بولتی ہے۔ لیکن اگر تاریخ بیان کی جائے تو پھر ثانیہ کی سبز آنکھوں کا بھی ذکر ہوگا جو مصر میں نہیں ہوتیں۔ بالوں کی سنہری جھلک کا حوالہ بھی دیا جائے گا ۔ اور یہ کہ اس کا نام ثانیہ نہیں اوّلہ ہونا چاہیے۔ یہ بھی کہا جائے گا کہ ثانیہ بیت النیل ہے۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک کسی کے جغرافیے میں جاذبیت نہ ہو اس کی تاریخ دلچسپ نہیں ہوسکتی۔۔۔وہ مسکرانے لگی۔(ص: 25)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اتوار کو پروگرام بنا کہ چل کر دیکھیں تو سہی کہ کہاں جاتے ہی۔
لاری سے دوسرے پہاڑ پر پہنچے ۔ وہاں چند ہم عمر مل گئے جنہیں چاء پر مدعو کیا۔ اگلے اتوار کو وہ آئے تو بڑی عالمانہ اور کارآمد گفتگو ہوئی۔ کئی انٹلکچول موضوع زیر بحث رہے۔ مثلا۔۔۔۔معاشرتی اصلاحات ، شاعری کی پرانی قدریں اور لڑکیاں۔۔۔۔کاشت کاری میں مشینوں کی اہمیت، لڑکیاں اور مغرب میں جذباتیت کا زوال ۔۔۔۔داستان حاجی بابا اصفہانی ، لڑکیاں اور مشرق میں جذباتیت کا عروج۔۔۔۔لڑکیاں، برنارڈشا اور لڑکیاں۔۔۔۔۔۔
پھر انہوں نے بلایا ، ایک آسیب زدہ سی عمارت میں جہاں کبھی اچھے وقتوں میں کلب ہوا کرتا تھا۔ ہال میں داخل ہوتے ہی لڑکیوں کی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئے۔۔۔۔دہنے ، بائیں ، سامنے جدھر نظر جاتی لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔
کچھ دیر میں جب کیمپ کی مسلسل تنہائی کا اثر کم ہوا او رانہیں گنا تو لڑکیاں صرف چھ نکلیں۔(ص:50)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر کوئی پوچھ بیٹھا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں۔۔۔؟
شادی کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جوانی جہان گردی اور فیلڈ سروس کی نذر ہوگئی۔ ادھیڑ عمر کا ہوا تو پھر خیال چھوڑ دیا۔ دراصل محبت فقط نوعمروں کے لیے ہے۔ اس عمر میں ہر چیز خوامخواہ رنگین معلوم ہوتی ہے۔ ہر جذبے میں بے ساختگی ہوتی ہے اور بلا کا خلوص۔ محبوب ایک دفعہ مسکرا دے تو ہفتے مہینے خوشی خوشی گزر جاتے ہیں اور یقین ہو جاتا ہے کہ امتحان میں ضرور کامیابی ہوگی، مالی حالت بہتر ہو جائے گی ، دوست دشمن سب مہربان ہو جائیں گے اور محبوب کی بے رخی سے سب تہس نہس ہو جائے گا۔ آئرلینڈ کی وہ جھلمل جھلمل کرتی ندیاں ، وہ لہلہاتے کھیت ، شادب کنج گھنے جنگل مجھے اب تک یاد ہیں۔ اگرچہ ان لڑکیوں کے نام اور چہرے یاد نہیں جو ان دنوں میرے ساتھ ہوا کرتیں ۔ پتہ ہی نہیں چلتاتھا کہ کب بادل آئے تھے اور کب بوندیں تھم گئیں۔ غروبِ آفتاب کے بعد اتنی جلدی چاند کیسے نکل آیا۔۔۔ذرا دیر پہلے گھپ اندھیرا تھا، دفعتاً یہ روشنی کہاں سے آگئی۔ وہ جگمگاتی صبحیں۔۔۔۔وہ رنگین شامیں ۔۔۔۔وہ مستی کے شب و روز۔۔۔۔محبت کی اصلی عمر وہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد دکھاوا ہے۔ اگرچہ میں شادی کے قضیے سے بالکل مبرا ہوں اور تم لڑکوں کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اپنی کمر پر زین نہ کسوانا لیکن اگر خدانخواستہ کبھی پھنسنے لگو تو جذبات کے دھارے میں مت بہہ جانا۔ ایسا چہرہ چننا جس کی کشش اور دلربائی دیرپا ہو۔ شاید تم نہیں جانتے کہ گزرتے ہوئے ایام چہروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اورمحض دس پندہ سال کا وفقہ چہروں میں کیسی کیسی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ (ص:208)۔

منگل, مئی 12, 2009

مولانا ابو الکلام آزاد (غبارِ خاطر)۔

ہم ایک شخص سے کوئی بات کہنا چاہیں اور و ہ ہمارے سامنے موجود نہ ہو تو اپنی بات اور گفتگو اُسے لکھ بھیجنا مکتوب نگاری کہلائے گا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں
خط دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہے۔
مکتوب نگاری ادب کی قدیم صنف ہے مگر یہ ادبی شان اور مقام و مرتبہ کی حامل کب ہوتی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال ہے ۔
خطوط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اس کو خاص ماحول خاص مزاج، خاص استعداد ایک خاص گھڑی اور خاص ساعت میسر آجائے تو یہ ادب بن سکتی ہے۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے۔ تو اس میں بھی خطوط نویسی کا دامن بہت وسیع ہے ۔ اور خطوط نویسی کی روایت اتنی توانا ہے کہ بذات خود ایک صنف ادب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال غالب کے خطوط ہیں۔ ابوالکلام آزاد بھی مکتوب نگاری میں ایک طرز خاص کے موجد ہیں۔مولانا کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ” مکاتیب ابولکلام آزاد “، ”نقش آزاد“، ”تبرکات آزاد“، ”کاروانِ خیال“اور غبار خاطر قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ شہرت ”غبار خاطر “ کے حصے میں آئی ۔
غبار خاطر:۔
غبار خاطر مولانا آزاد کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو قلعہ احمد نگر میں زمانہ اسیری میں لکھے گئے ۔ مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط و کتابت کرنے کی۔ اس لئے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور ”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ایک خط میں شیروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں
جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لئے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔

اتوار, مئی 10, 2009

مبارک ہو

مبارک ہو جناب۔ اب آپ کے لائف سٹائل کو کوئی خطرہ نہیں۔ صبح اٹھیے۔ واک کے لیے پارک میں جائیے۔ رات کو پارکوں میں جائیے۔ ائیر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر حالات کا تجزیہ کیجیے۔ بچوں کو بڑے بڑے سکولوں میں داخل کیجیے ان کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیجیے۔ مگر میرا کیا ہوگا۔ میں اپنے گھر سے دور ایک خمیے میں پڑا ہوا ہوں۔ نہ کھانا ہے نہ پینے کو پانی۔ میرے بچے بیمار ہیں۔ اس لیے کہ آپ کے لائف سٹائل کو بچانے کے لیے مجھے قربانی دینا پڑے گی۔ اس کے علاوہ یہ قربانی ان ڈالروں کے لیے بھی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔ ملک ترقی کرے گا اور آپ کا کاروبار خوب چمکے گا۔ مگر مجھے کیا ملے گا۔ عمر بھر کی محرومی۔ یہ جنگ جس کسی کی بھی ہو آپ کی ہو یا امریکہ کی مگر میری ہرگز نہیں۔ مجھے جنگ نہیں۔ امن چاہیے۔ میرے بچوں کو ایک چھت چاہیے میں اس کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ پگڑی باندھ سکتا ہوں ڈاڑھی رکھ سکتا ہوں۔ بس مجھے امن چاہیے صرف امن ۔ اب اگر آپ کو جنگ پسند ہے تو بسم اللہ کیجیے اپنا گھر میرے لیے خالی کر دیجیے اور میرے خیمے میں مقیم ہو جائیے تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ لائف سٹآئل کیا ہوتا ہے۔ میں آپ کے گھر میں رہ کر گزارہ کرلوں گا۔ خصوصی طور پر الطاف بھائی کا لندن والا گھر میرے لیے اچھا رہے گا۔ کیوں الطاف بھائی میرے خیمے میں رہنے کے لیے آپ لندن سے کب لوٹ رہے ہیں اور میرے اور میرے بچوں کے لیے ویزہ اور ٹکٹ کا بندوبست بھی جلد کر دیجیے تاکہ آپ کہ حب الوطنی کا یہ شاندار مظاہرہ ملک کے تمام افراد کے سامنے ایک بڑی مثال بن سکے۔

ہفتہ, مئی 09, 2009

محمود نظامی (نظر نامہ)۔

محمود نظامی کا ”نظر نامہ“ بیسویں صدی میں سفر نامے کے اس موڑ کی نشاندہی کر تا ہے جہاں قدیم روایتی انداز سے صرف ِنظر کرکے فنی طور پر سفر نامے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ۔ڈاکٹر انور سدید نے جدید سفر نامے کی تعریف یوں کی ہے
سفر نامے کا شمار ادب کے بیانیہ اصناف میں ہوتا ہے اس صنف میں مشاہدے کا عمل دخل زیادہ اور تخلیق کا عنصر بے حد کم ہے سفر نامہ چونکہ چشم دید واقعات و حالات کا بیانیہ ہوتا ہے اس لئے سفر اس کی اساسی شرط ہے۔
نظر نامہ کے بارے میں مولانا صلاح الدین فرماتے ہیں
کہنے کو تو یہ سفر نامہ ہے لیکن اصل میں یہ ان چند نادر تاثرات کا مجموعہ ہے جو صاحب مضمون نے اپنی عمر کے مختلف حصوں میں اپنے وطن سے دور دیار ِ فرنگ کی جلوتوں اور خلوتوں میں قبول کئے ۔
یہ سفر نامہ فنی اعتبار سے کیسا ہے ؟ اس کا ادبی معیار کیا ہے؟ کن خوبیوں سے متصف اور کن خامیوں کا مرتکب ہوا ہے ؟ مصنف نے ان مباحث میں پڑنے کی بجائے اُسے ”نظر نامہ“ کا نام دے دیا ۔ اور نہایت صاف گوئی سے یہ بھی کہہ دیا۔
سیاحت میرا مستقل مشغلہ ہے نہ کہ سفر نامہ لکھنا میرا مقصدِ حیات یہ تو ایک اتفاق تھا کہ اکتوبر 1952 ءمیں مجھ کو زندگی کا بیشتر حصہ گھر کی چاردیواری میں بسر کر چکنے کے بعد باہر نکلنے کا موقع ہاتھ آگیا۔
مصنف کے اس اعتراف کے باوجود جب ہم برصغیر کے سفر ناموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نظر نامہ اردو ادب کا پہلا باقاعدہ سفر نامہ ہے جو جدید دور کے تقاضوں پر پور ا اترتا ہے۔بیسویں صدی کے نصف اول میں جو سفر نامے لکھے گئے ہیں ان میں سر عبدالقادر کے سفر نامے ”مقام خلافت“ کوقدیم اور جدید سفر ناموں کی درمیانی کڑی کہا جاتا رہا ہے لیکن سفر نامہ نگاری کا تیسرا دور جو 1950ءکے بعد شروع ہوا اس دور کا پہلا باقاعدہ سفر نامہ بلاشبہ محمود نظامی کا ”نظر نامہ ‘ ‘ ہے۔
نظر نامہ محمود نظامی کے عالیٰ ذوق اور ادیبانہ اسلوب کی عکاسی کرتا ہے وہ کوئی باقاعد ہ ادیب نہ تھے اور نہ نظر نامہ سے پہلے ان کی کوئی ادبی کاوش منظر عام پر آئی تھی ۔ وہ ریڈیوپاکستان کے ملازم تھے اور اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں اکتوبر 1952ءکو یونیسکو کے زیر اہتمام دوسرے ملکوں کی نشرگاہوں کا جائزہ لینے کے لئے ملک سے باہر جانے کا موقع ملا چونکہ وہ ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اس لئے اس سفر سے واپسی پر انہوں نے اس کی روداد لکھ کر ہر خاص و عا م کی داد حاصل کی۔ نظامی کا اصل نام مرزا محمود بیگ تھا وہ زمانہ طالب علمی ہی سے خواجہ حسن نظامی سے بہت متاثر تھے ایک دفعہ اپنے والد کے ساتھ خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خواجہ اپنے نوجوان عقیدت مند کی ذہانت اور صلاحیت سے بہت خوش ہوئے اور ازرائے شفقت انہیں اپنی کتابیں دیں اور کہا
کہ”صاحبزادے آج سے تم نظامی ہو۔“ محمود بیگ نے اس نسبت کو بڑی خوشی اور فخر سے قبول کیا اور مرزا محمود بیگ کے بجائے محمود نظامی کہلانے لگے۔آئیے نظر نامہ کاجائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اس سفر نامے کو اردو ادب کا پہلاباقاعدہ سفر نامہ مانا جاتا ہے۔

بدھ, اپریل 29, 2009

میں

میرانشاہ میں ڈرون حملہ ۔ مرنے والوں میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں۔تمام مارے جانے والے لوگ پاکستانی تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں عورتیں اور بچے شامل ہیں
آج سوات میں سڑک کنارے ایک لاش ملی جس کے ساتھ ایک رقعہ پڑا ہوا تھا۔ رقعہ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ یہ شخص جاسوس ہے اور تین دن تک اس کی لاش یہیں پڑی رہنے دی جائے اور اگر کسی نے اس کو اٹھانے کی جرات کی تو اس کا بھی یہی حشر ہوگا۔
کرک سے ایک دکاندار کا اغوا۔ پچاس لاکھ تاوان کا مطالبہ
آج بنوں میں ایک نوجوان دکاندار کو فوجی کانوائے نے میرانشاہ سے بنوں جاتے ہوئے گولی سے اڑا دیا۔ نوجوان سڑک کے کنارے بیٹھا پکوڑے بیچ رہا تھا۔
بونیر میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کئی گولے عام لوگوں کے گھروں پر گرے کئی ہلاکتوں کا خدشہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو! آج کل ذرائع ابلاغ میں اس قسم کی خبریں آپ کو عام نظر آئیں گی۔ ان تمام خبروں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے میں۔ یعنی ان خبروں میں مرنے والا ہر شخص میں ہوں۔ یعنی ایک عام آدمی۔ جسے یہ معلوم نہیں کہ اسے کیوں مارا جارہا ہے۔ اور اس کے خون کا حساب کون دے گا۔
صوبہ سرحد میں بسنے والے عوام کے لیے فرار کا کوئی راستہ موجود نہیں جسا کہ ان خبروں سے آپ کو پتہ چل چکا ہوگا۔ یہاں کا عام آدمی اگر طالبان کا ساتھ دیتا ہے تو اس کے گھر کو ڈرون طیاروں سے امریکہ اڑا دے گا۔ اگر وہ حکومت کا ساتھ دیتا ہے تو اس کی لاش کسی چوراہے پر سڑتے ہوئے ملے گی۔ اور اگر وہ غیر جانبدار رہتا ہے تو بھی فرار ممکن نہیں یا تو فوجی کانوائے اسے گولی سے اڑا دے گی۔ یا پھر طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کے دوران اس کے گھر پر ایک گولہ گرے گا۔ اس کے علاوہ حکومت اور طالبان کی آپسی لڑائی کی وجہ سے عام آدمی جرائم پیشہ افراد کے لیے ایک تر نوالہ بن چکا ہے۔ کیونکہ پولیس خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتی وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کیا کرے گی۔ اس طرح جب چاہے جہاں چاہے کسی بھی عام آدمی کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور تاوان نہ ملنے کی صورت میں اس شخص قتل کر دیا جاتا ہے۔
اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ ایسی حالت میں جہاں میری عزت جان و مال کو شدید خطرہ ہے۔ جہاں میرا اور میرے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے میں کیا کروں کہاں جاؤں۔

ابن انشاء’’اردو کی آخری کتاب‘‘۔

اردو ادب میں مزاحیہ اور طنزیہ ادب لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ صرف نام گنوانے کے لئے ہی کئی صفحات چاہئیں۔ اس فہرست میں ایک چمکتا ہوا نام ”ابن انشاء“ کا ہے ابن انشاءادب مزاح کی گراں قدر مالا کا وہ خوبصورت موتی ہے۔ جو موزنیت اور مناسبت کے لحاظ سے ہر رنگ میں اپنا جواب آپ ہیں ۔ اس نگینے سے نکلنے والی چمک خواہ شاعری میں ہو ، خواہ نثر میں ہر جگہ منفرد اور نمایاں ہے۔بقول محمد اختر صاحب
ابن انشاءایک قدرتی مزاح نگار ہے جتنا زیادہ وہ لکھتا ہے اس کا اسلوب نکھرتا جاتا ہے۔
دور جدید کے عظیم مزاح نگار ”مشتاق احمد یوسفی “ ابن انشاءکے بارے میں لکھتے ہیں
بچھو کا کاٹا روتا ہے اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے انشاءجی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔
ابن انشاءاردو ادب میں ایک رومانی شاعر، ایک حساس کالم نویس، سفرنامہ نگاراور طنز و مزاح کے حوالے سے منفرد حیثیت رکھتے ہیں ۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ خود فنکار ادب میں ایک سے زائد اصناف میں کام کرتے ہیں تو اُن کی تخلیقی قوت منتشر ہو جاتی ہے لیکن ابن انشاءکا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ہر صنف ادب میںاپنا لوہا منوایا ہے اگرچہ اپنے اظہار کے لئے انہوں نے کئی میدانوں کا انتخاب کیا ۔اور یہی وجہ ہے کہ ان کا دل شاعر ہے اور دماغ بہترین نثرنگار ۔اُن کے سفرنامے ”چلتے ہو تو چین کو چلیے ،”دنیا گو ل ہے“، ”آوارہ گرد کی ڈائری“ ، ”ابن بطوطہ کے تعاقب میں “ ، طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب کے حامل ہیں ۔ لیکن ان دو کتابوں کومکمل طور پر مزاح کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں ۔ ایک ”اردو کی آخری کتا ب“ اور دوسری ”خمار گندم“ ۔آئیے اُن کی کتاب ”اردو کی آخری کتاب “ کا جائزہ لیتے ہیں۔

اتوار, اپریل 26, 2009

مشتاق احمد یوسفی ’’چراغ تلے‘‘۔

اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں مشتاق احمد یوسفی کا فن توجہ اور سنجیدہ توجہ کا حامل ہے ۔ کیونکہ ان کافن محض وقت گزاری کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔بقول احسن فاروقی،
وہ مزاح کو محض حماقت نہیں سمجھتے اور نہ محض حماقت ہی سمجھ کو پیش کرتے ہیں بلکہ اُسے زندگی کی اہم حقیقت شمار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کے مطابق
ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔
ابن انشاءبھی مشتاق یوسفی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
اگر مزاحیہ ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کر سکتے ہیں تو وہ یوسفی ہی کا نام ہے
ہربڑ افنکار اپنے عہد کے لئے نئے پیمانے متعین کرتا ہے اور پہلے سے موجودہ روایت کی ازسرنو تشکیل کرتا ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بڑا ادب خود کسوٹی بن جاتا ہے۔ اور اس کسوٹی پر بعد میں آنے والوں کی تخلیقات کو پرکھا جاتا ہے۔ بلا شبہ یوسفی اپنے عہد کی ایک ایسی ہی کسوٹی ہے۔ جس میں نہ صرف یہ کہ پہلے سے موجود روایت جمع روایات جمع ہو گئی ہیں بلکہ جدید اسلوب سے انہو ں نے اس کی خوبصورت تشکیل بھی کی ہے۔ انھوں نے ”چراغ تلے“ ،”خاکم بدہن“ ، ”زرگزشت“ کی صورت میں اردو ادب کو مزا ح کے بہترین نمونوں سے نوازا۔
اپنے ان تخلیقات میں یوسفی اول سے آخر تک لوگوں سے پیار کرنے والے فنکار نظر آتے ہیں اور اس سے بڑھ کر ایک تخلیق کار کی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ جھنجلاہٹ میں مبتلا نہیں ہوتا ۔ بلکہ ہنس ہنس کر اور ہنسا کر زندگی کو گلے لگاتا ہے۔ اس طرح وہ زندگی کو نئے زاویہ نظر سے دیکھتا بھی ہے اور قاری کو بھی دکھاتا ہے۔ لیکن صرف ہنسنے اور ہنسانے کا عمل مزاح نگاری نہیں کہلاتا ۔ اس کے لئے لہجے کی ظرافت، عظمت خیال اور کلاسیکی رچائو کے ساتھ مہذب جملوں کی ضرورت ہے۔ اگر مزاحیہ ادب کی روایت کو بغور دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مزاح نگاری نے وقت کی آواز بن کر سچا کردار ادا کیا ہے۔ مرزا غالب ، فرحت اللہ بیگ ، رشید احمد صدیقی ، پطرس بخاری ، مجید لاہوری، کرنل محمدخان ، شفیق الرحمن اور ابن انشاءوغیر ہ کی تخلیقات میں معاشرے کی ناہمواریوں کا پہلو کبھی نظر انداز نہیں ہوا۔ یوسفی بھی اس صف میں نظر آتے ہیں۔ کہ انہوں نے مزاحیہ نثر میں بدنظمی کا شائبہ تک پیدا نہیں ہونے دیا۔

ہفتہ, اپریل 25, 2009

”خطوط ِ غالب“

مرزا اسد اللہ خان غالب کی شخصیت کو کون نہیں جانتا ۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیت شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان ذد خلائق ہیں۔ اور بحیثیت نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی ، انشاءپردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین ۔ یہی نمونہ نثر آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے ۔ انہوں نے اپنے خطوط کے ذریعہ سے اردو نثر میں ایک نئے موڑ کا اضافہ کیا۔ اور آنے والے مصنفین کو طرز تحریر میں سلاست روانی اور برجستگی سکھائی ۔ البتہ مرزا غالب کے مخصوص اسلوب کو آج تک ان کی طرح کوئی نہ نبھا سکا۔ غالب کے خطوط آج بھی ندرت کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔
غالب نے فرسودہ روایات کو ٹھوکر مار کر وہ جدتیں پیدا کیں جنہوں نے اردو خطو ط نویسی کو فرسودہ راستے سے ہٹا کر فنی معراج پر پہنچا دیا۔ غالب کے خطوط میں تین بڑی خصوصیات پائی جاتی ہیں اول یہ کہ انہوں پرتکلف خطوط نویسی کے مقابلے میں بے تکلف خطوط نویسی شروع کی۔ دوسری یہ کہ انہوں نے خطوط نویسی میں اسٹائل اور طریق اظہار کے مختلف راستے پیدا کئے ۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے خطو ط نویسی کو ادب بنا دیا۔ اُن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ”محمد شاہی روشوں “ کو ترک کرکے خطوط نویسی میں بے تکلفی کو رواج دیا اور القاب و آداب و تکلفا ت کے تمام لوازمات کو ختم کر ڈالا۔

جمعہ, اپریل 24, 2009

بیگم اختر ریاض الدین” سات سمندر پار“

محمود نظامی نے نئے سفر نامے کے لئے جو راہیں کھولیں ان پر سب سے پہلے بیگم اختر ریاض الدین نے قدم رکھا ۔ اردو ادب میں خواتین لکھاریوں کی شروع ہی سے کمی رہی ہے۔ سفر نامے میں یہ تعداد قلیل ہے۔ نازلی رفیہ سلطانہ بیگم کا سفر نامہ”سیر یورپ“ اوررفیہ فیضی ” کا زمانہ تحصیل “ ایسے ابتدائی سفر نامے ہیں جو ان خطوط پر مشتمل ہیں جو انھوں نے سفر کے دوران اپنے عزیزوں کو لکھے ۔ چنانچہ ان سفر ناموں کو سفرنامنے کی ایک تکنیک تو کہا جا سکتا ہے لیکن مکمل سفر نامے نہیں کھلائے جا سکتے ۔ ایسی قلت کے دور میں بیگم اختر ریاض الدین کا سفر نامہ” سات سمندر پار “ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔
بیگم صاحبہ 15 اکتوبر 1928کو کلکتہ میں پیداہوئی ۔ لاہور سے بی ۔ اے کیا ۔ اور 1951ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی میں انہوں نے تدریسی شعبے کا انتخاب کیا وہ انگریزی روزنامچہ ”پاکستان ٹائمز “ کی باقاعدہ لکھاری رہی ہیں۔ لیکن مولانا صلاح الدین کے بے حد اصرار پر اردو میں بھی طبع آزمائی کی جو بے حد کامیاب ثابت ہوئی۔ مولانا کی فرمائش اور اصرار پر ہی انہوں نے 1963ءمیں ”ٹوکیو“، ”ماسکو“، ” لینن گراڈ“ ، ”قاہرہ“ ، ” نیپلز“ ، ”لندن“ اور ”نیویارک“ کے سفر پر مبنی پہلا سفر نامہ ، ”سات سمندر پار“ کے نا م سے لکھا ۔ ان کا دوسرا سفر نامہ ”دھنک پر قدم “ ہے جسے آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بیگم صاحبہ کا شمار ان گنے چنے سفرنامہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہیں فطرت کے حسن کوکاغذ پر اتارنے کا فن آتا ہے ۔ ان کے سفر ناموں مےں نشونما، رنگینی ، اور لطافت کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ آئیے ”سات سمندر پار“ کے حوالے سے اُن کے کام کا جائزہ لیتے ہیں۔

جمعرات, اپریل 23, 2009

غبارِ خاطر

سوچا کہ بلاگ کے عنوان کے متعلق کچھ بات ہو جائے۔ دراصل غبار خاطر کا عنوان سب سے پہلی مرتبہ میر عظمت اللہ بے خبر بلگرامی نے اپنے رسالہ کے لیے استعمال کیا۔ جو کہ صوفی ، شاعر اور حقائق گو تھے۔
مپرس تاچہ نوشت ست کلک قاصر ما
خطِ غبارِ من ست ایں غبار خاطر ما
ترجمہ:مت پوچھ کہ ہمارے قلم فرومایہ نے کیا کچھ لکھ ڈالا، یہ تو ہمارے دل کا غبار تھا جس نے ان شکستہ حروف کی شکل اختیار کر لی۔
اس کے بعد عبدالکلام آزاد نے اپنے نجی خطوط کے مجموعے کا نام غبارِ خاطر رکھا یہ خطوط مولانا نے قلعہ احمد نگر سے اپنی اسیری کے دوران اپنے دوست کو لکھے۔اردو ادب میں آج یہ مجموعہ ایک کلاسک کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کتاب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب ممتاز اورنامور ادیب اعصابی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں تو ’’غبارِ خاطر‘‘ کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں اور پھر ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں کیف و سرور ہے ، جذب و سوز ہے اور فرحت و شگفتگی ہے۔ مولانا کی اسی کتاب سے متاثر ہو کر میں نے اپنے بلاگ کا نام غبارِ خاطر رکھا ہے۔

بدھ, اپریل 22, 2009

منٹو

لوگ بدک اٹھے اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا تو ایک ادیب نے منٹو سے کہا
لاہور کے کچھ سرکردہ بھنگیوں نے ارباب عدالت سے شکایت کی ہے کہ آپ نےایک افسانہ ’’بو‘‘ لکھا جس کی بدبو دور دور تک پھیل گئی ہے۔
منٹو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
کوئی بات نہیں میں ایک افسانہ فینائل لکھ کر ان کی شکایت رفع کردوں گا۔
منٹو صاحب سے جب احمد ندیم قاسمی کا کیریکٹر سکیچ لکھنے کی فرمائش کی گئی تو وہ اداس ہو کر نہایت بجھے بجھے لہجہ میں کہنے لگے۔
قاسمی کا سکیچ۔۔۔۔۔۔وہ بھی کوئی آدمی ہے جتنے صفحے چاہو سیاہ کر ڈالوں لیکن بار بار مجھے یہی جملہ لکھنا پرے گا
قاسمی شریف آدمی ہے
عبدالمجید بھٹی نے منٹو کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے نہایت انکسار سے کہا۔
منٹو صاحب !میں نے ایک ناول لکھا ہے قاسمی صاحب کو سنا رہا ہوں بیٹھیے آپ بھی سنیے
منٹو نے کھڑے کھڑے تلملاتے ہوئے جواب دیا ۔
لاحول ولا میں اور تمہارا ناول سنوں ؟ تم بھی عجیب ہونق انسان ہو کیا مجھے بھی قاسمی کی طرح کوئی بزدل اور شریف آدمی سمجھ لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجی چھوڑیے ا وپندر ناتھ اشک کی بات ، آپ بھی بھی کس دوذخی کا ذکرلے بیٹھے ، بیحد بخیل ہے بنیاء سنیے! خوب یا د آیااور اس تمہید کے بعد منٹو نے کہنا شروع کیا۔
کم بخت نے ایک بلی پال رکھی ہے جی ہاں بلی! صبح سویرے اسے اڑوس پڑوس کے گھروں میں بھیج دیتے ہیں ، اور وہ شطو نگڑی بھی کہیں نہ کہیں سے آنکھ بجا کر دودھ پی کر جب واپس آتی ہے تو اشک صاحب اسے الٹا لٹکا کر اس کے پیٹ سے سب دودھ باہر نکال لیتے ہیں اور پھر اسی دودھ کی چائے بنا کر پیتے ہیں، جی ہاں بالکل سچ کہہ رہا ہوں ، رتی بھر مبالغہ نہیں ، نہیں صاحب ! سنی سنائی نہیں آنکھوں دیکھی بات ہے میں خود ان کے ہاں اس دودھ کی چائے پی چکا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منٹو کا انتقال ہوا تو راشد لاہور ہی میں تھا چند روز بعد چھٹی گزارنے کے لیے پشاور آیا میں اس سے ملنے چودھری محمد اقبال کے یہاں جارہا تھا جہاں وہ مقیم تھا ۔۔۔میزبان اور مہان صدر سے پیدل آرہے تھے ۔ وہ مجھے پشاور کلب کے سامنے مال روڈ کے چوراہے پر ملے ۔ راشد ٹھیٹ مشرقی انداز میں مجھ سے بغل گیر ہوا۔’’منٹو نوں ٹور سٹیا جے‘‘ راشد مجھے کوئی چار سال کے بعد ملا تھا ۔ چار سال کی خاموشی کے بعد یہ اس کا پہلا جملہ تھا ۔ ان الفاظ اور اس لہجہ کا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن کچھ یوں سمجھ لیجیے جیسے وہ مجھ سےخطاب کرتے ہوئے سارے معاشرہ سے کہہ رہا ہے کہ آخر تم نے اسے مار کے ہی دم لیا۔ (ابو سعید قریشی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہا جی ۔ منٹو مر گیا؟
ظ۔ انصاری نے آہستہ سے کہا ہاں بھائی اور پھر اپنی بحث شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔۔
کوچوان دھیرے سے اپنا تانگہ چلاتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن موری گیٹ کے پاس اس نے اپنے تانگے کو روک لیا ۔ اور ہماری طرف گھوم کر بولا! صاحب : آپ لوگ کوئی دوسرا ٹانگہ کرایئے میں آگے نہیں جاؤں گا۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سے رقت تھی۔
پیشتر اس کے کہ ہم کچھ کہتے وہ ہماری طرف دیکھے بغیر اپنے تانگے سے اترا اور سیدھا سامنے کی بار میں چلاگیا۔(کرشن چندر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منٹو نے بچپن ہی میں اپنا گھر چھوڑ دیا تھا اور اپنے لیے نئی راہ تلاش کرنا شروع کر دی تھی۔ علی گڑھ ، لاہور ، امرتسر ، ممبئی، دہلی ان مقامات نے منٹو کی زندگی کے مختلف رنگ دیکھے ہیں ۔۔۔روسی ادب کا پرستار منٹو ، چینی ادب کا شیدا منٹو ، تلخی اور یاسیت کا شکار منٹو ، گمنام منٹو، بدنام منٹو ، بھٹیار خانوں ، شراب خانوں اور قحبہ خانوں میں جانے والا منٹو اور پھر گھریلو منٹو ترشی اورتلخی کو مٹھاس میں سمونے والا منٹو اردو ادب کا مصروف ترین ادیب منٹو ان مقامات نے منٹو کو ہر رنگ میں دیکھا ہے اور منٹو نے بھی ان مقامات کو خوب دیکھا ہے، منٹو نے زندگی کے مشاہدے میں اپنے آپ کو ایک مومی شمع کی طرح پگھلایا وہ اردو ادب کا واحد شنکر ہے جس نے زندگی کے زہر کو خود گھول کر پیا ہے اور پھر اس کے ذائقے کو، اس کے رنگ کو کھول کھول کے بیان کیا ہے لوگ بدکتے ہیں ڈرتے ہیں مگر اس کے مشاہدے کی حقیقت اور اس کے ادراک کی سچائی سے انکار نہیں کر سکتے زہر کھانے سے اگر شنکر کا گلا نیلا ہوگیا تھا تو منٹو نے بھی صحت گنوالی ہے اس کی زندگی انجکشنوں کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے یہ زہر منٹو ہی پی سکتا تھا اور کوئی دوسرا ہوتا تو اس کا دماغ چل جاتا مگر منٹو کے دماغ نے زہر کو بھی ہضم کر لیا ہے ان درویشوں کی طرح جو پہلے گانجے سے شروع کرتے ہیں اور آخر میں سنکھیا کھانے لگتے ہیں ، اور سانپوں سے اپنی زبان ڈسوانے لگتے ہیں، منٹو کے ادب کی تیزی و تندی اور اس کی زبان کی نشتر زنی اس امر کی آئینہ داری کرتی ہے کہ منٹو کا فقر آخری منزل پر پہنچ چکا ہے۔ (کرشن چندر 1948)۔

منگل, اپریل 21, 2009

نظام عدل

ضلع سوات میں نظام عدل کے نفاذ پر مختلف حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون پاکستان کے آئین کے خلاف ہے اور اس طرح سے انتہا پسندوں سے معاہدہ دراصل ان قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے مترادف ہے۔ ان معترضین میں جو مشترک بات مجھے نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان سب کا تعلق صوبہ سرحد سے نہیں۔ اس لیے کراچی ، اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر صرف تجزیہ کرنا آسان ہے برعکس اس کے ان لوگوں کی رائے بالکل مختلف ہو سکتی ہے جو خود یہاں کے حالات سے متاثر ہو رہےہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ کو اب کئی سال ہوگئے ہیں۔ ان سالوں میں صوبہ سرحد کے عام آدمی کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہر وقت عدم تحفظ کا احساس شکار یہ عوام اب صرف اور صرف امن کی خواہش مند ہے خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ نظام عدل سے یہاں کے تعلیم یافتہ طبقے کو لاکھ تحفظات صحیح لیکن سب لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے ذریعے سے سوات میں امن بحال ہوا۔ اس لیے نظام عدل کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کا قائم رہنا اشد ضروری ہے۔
اس کے علاوہ تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ وفاقی حکومت کے مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قانون اور معاہدے کی وجہ سے انتہا پسند مزید طاقتور ہوں گے۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ ایک سال کے فوجی اپریشن کے دوران اس انتشار پر قابو پانے میں آپ کی فوج ناکام رہی اس لیے اس معاہدےکے سوا ہمارے پاس کوئی چاراہی نہیں تھا۔ اس لیے عام لوگوں کی نظر میں اس معاہدے کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور سب کی خواہش ہے کہ یہ معاہدہ چل سکے ۔ کیوں کہ پاکستانی حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں۔ معاہدے کی ناکامی کی صورت میں ایک بہت بڑی تباہی کا خدشہ ہے جس میں عام عوام کے پسے جانے کا اندیشہ بہت زیادہ ہے۔
عالمی سطح پر بھی اس معاہدے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جارہا ۔ خصوصی طور پر امریکہ کا خیال ہےکہ دہشت گردی کے خلاف ان کی جاری جنگ کو اس معاہدے سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ دوسروں کی جنگیں لڑ کر خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ امریکہ کے ان تمام اعتراضات میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان بڑا خوش آئند ہے کہ امریکہ کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہم اپنے ملک کے حالات کو ان سے بہتر جانتے ہیں۔

ہفتہ, مارچ 21, 2009

منٹو مغربی استعمار کے خلاف ایک توانا آواز

آج تک بیشتر نقادوں کی نظر میں سعادت حسن منٹو صحت مند جنسی اور نفسیاتی شعور رکھنے والا افسانہ نگار ہے۔ ۔ کبھی کبھار تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے نقادوں نے انھیں جنس اور نفسیات جیسے انفرادی اور داخلی رجحانات تک محدود کردیا ہے۔ حالانکہ انھوں نے خارجی اور اجتماعی موضوعات کو بھی اپنی تحریروں میں جگہ دی ہے۔ دوسرے ترقی پسند مصنفین کے مقابلے میں انہوں نے ہنگامی موضوعات کے بجائے آفاقی اور بین الاقوامی مسائل کو اپنی فکر کا حصہ بنایا۔ منٹو نے تیسرے دنیا کے فرد کی آواز بن کر مغربی استعمار کی اس سوچ کی نشاندہی کی جس نے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے سے لاکھوں ذہنوں کی آزادی سلب کرکے انھیں جینے کے بنیادی حق سے محروم کر دیا تھا۔ ان کا ابتدائی افسانہ تماشہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جس میں ان استعماری قوتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اپنے مفاد کی خاط تیسری دنیا کے اقوام کی آزادی کو سلب کرکے اپنے مزموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے انھیں غلامی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ اس افسانے میں موجود بادشاہ کا کردار اس مگربی استحصالی اور استعماری قوت کی علامت ہے جن نے انسانی سوچ پر پہرے لگا دئیے ہیں اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو وہ بے دردی سے کچل دیتا ہے۔ حامد کے باپ کی صورت میں تیسری دنیا کے عوام کی اجتماعی بے حسی کا بھی ذکر ہے جو کہ ان تمام مظالم کے باجود حالات سے سمجھوتہ کیے بیٹھے ہیں۔