صفحات

ہفتہ, دسمبر 10, 2011

میر انیس کی مرثیہ گوئی

میر انیس
 میرانیس اُردو کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے زمین سخن کو آسمان کردیا ہے۔ جس طرح سودا قصیدہ گوئی میں میر غزل گوئی میں اور میر حسن مثنوی نگاری میں بے مثل ہیں اسی طرح میر انیس مرثیہ نگاری میں یکتا ہیں ۔ اوّل تو میر انیس نے اپنی مرثےوں میں بہت سے نئے موضوعات کو شامل کیا ہے۔ اور اس طرح اس کے دامن کو وسیع کر دیا ہے۔ دوسرا انہوں نے شاعری کو مذہب سے وابستہ کرکے اس کو ارفع و اعلیٰ بنا دیا ہے۔ اس طرح اردو شاعری مادیت کے سنگ ریزوں سے نکل کر روحانیت کے ستاروں میں محو خرام ہو گئی ہے۔
واقعہ کربلا کے کئی سو سال بعد صفوی دور میں فارسی شعراءنے مذہبی عقیدت کی بنا پر مرثیہ نگاری شروع کی جن میں محتشم کانام سر فہرست ہے اردو کے دکنی دور میں بے شمار مرثیے لکھے گئے شمالی ہند میں بھی اردو شاعری کے فروغ کے ساتھ ساتھ مرثیہ گوئی کاآغاز ہوا۔ لیکن سودا سے پہلے جتنے مرثیے لکھے گئے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سودا پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اس کو فنی عظمت عطا کی اور مرثیے کے لئے مسدس کو مخصوص کر دیا جس کو بعد کے شعراءنے بھی قائم رکھا ۔ سودا کے بعد میر خلیق ، میر ضمیر ، دیگر اور فصیح وغیرہ نے مرثےہ کو ترقی دی لیکن فنی بلندی ، امتیازی خصوصیات کو نکھارنے اور جاذب دل و دماغ بنانے کے لئے ااس صنف کو میرانیس کی ضرورت تھی جنہوں نے مرثیہ کو معراج کمال پر پہنچایا انیس نے جس خاندان میں آنکھ کھولی اس میں شعر وشاعری کا چرچا تھا ۔ اور وہ کئی پشت سے اردو ادب کی خدمت کر رہا تھا۔ علاوہ دوسرے اصناف کے مرثیے میں طبع آزمائی کی جارہی تھی۔ میر ضاحک ، میر حسن اور میر خلیق اپنے وقت کے ممتاز مرثیہ نگار تھے۔ الفاظ زبان کی صفائی ، اور صحت پر خاص زور تھا ۔ انیس نے جس وقت مرثیے کی دنیا میں قدم رکھا اس وقت لکھنو میں لفظی اور تصنع پر زیادہ زور تھا اس ماحول میں انیس نے مرثیہ گوئی شروع کی اور دہلی والوں کی اس کہاوت کو غلط ثابت کر دیا کہ ”بگڑا شاعر مرثیہ گو“
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں     
 پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
 رام بابو سکسینہ مصنف ”تاریخ ادب اردو “ کہتے ہیں ۔

ہفتہ, نومبر 19, 2011

گلزارِ نسیم (پنڈت دیا شنکر نسیم)

اردو میں دو ہی مثنویوں نے بے پناہ شہرت حاصل کی ہے ایک میر حسن کی مثنوی ”سحرالبیان“ نے دوسری پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی”گلزار نسیم ۔ ان میں سے اگر ایک فتنہ ہے تو تو دوسری ”عطر فتنہ“ دونوں نے اردو شاعری کی دنیا میں قیامت برپا کر دی ہے۔ ”سحرالبیان“ میں سادگی کا حسن ہے اور ”گلزار نسیم“ میں پرکاری کا جادو ہے، غر ضیکہ دونوں میں ساحری اور عشوہ طرازی موجود ہے۔مولانا محمد حسین آزاد لکھتے ہیں،
” ہمارے ملکِ سخن میں سےنکڑوں مثنویاں لکھی گئیں مگر ان میں فقط دو نسخے ایسے نکلے جنہوں نے طبیعت کی موافقت سے قبول عام کی سند پائی ۔ ایک” سحرالبیان“ اور دوسرے ”گلزار نسیم“ اور تعجب یہ ہے کہ دونوں کے رتبے بالکل الگ الگ ہیں۔“
مثنوی”گلزار نسیم“ پنڈت دیا شنکر نسیم کی وہ مثنوی ہے جس نے انہیں حیات جاوید عطا کی اور یہی وہ مثنوی ہے جسے لکھنو کے دبستان شاعری کی پہلی طویل نظم کا شرف حاصل ہے۔ نسیم حیدر علی آتش کے شاگر دتھے۔ اور اس مثنوی کی تصنیف کے دوران شاگرد کو قدم قدم پر استاد کی رہنمائی حاصل رہی آتش کی ہدایت پر ہی نسیم نے مثنوی کو مختصر کرکے نئے سرے سے لکھا او ر ایجاز و اختصار کا معجزہ کہلایا ۔بقول فرمان فتح پوری کہ،
” اس میں کردار نگاری ، جذبات نگاری اور تسلسل بیان کی کم و بیش وہ سبھی خصوصیات ہیں جو کہ ایک افسانوی مثنوی کے لئے ضروری خیال کی جاتی ہیں لیکن اس کی دلکشی کا راز دراصل اس کی رنگین بیانی، معنی آفرینی ، کنایاتی اسلوب، لفظی صناعی اور ایجاز نویسی میں پوشیدہ ہے ان اوصاف میں بھی اختصار ایجاز کا وصف امتیازی نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔“
پلاٹ:۔
 ”گلزارنسیم “ کے پلاٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بادشاہ کا نام زین الملوک تھا۔ اس کے چار بیٹے تھے کچھ عرصہ بعد پانچواں بیٹا پیدا ہواجس کا نام تاج الملوک تھا۔ اس بیٹے کے بارے میں نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ اگر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہوگااو ر ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ طبیبوں نے اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ ایک پھول ہے” گل بکاولی“ اُس سے اس کی بےنائی واپس آسکتی ہے بس اس طرح سارے قصے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔
 گلزار نسیم کی ایک خصوصیت اس کے پلا ٹ کی پیچیدگی ہے یہ صرف تاج الملوک اور بکاولی کی کہانی نہیں نہ صرف ایک پھول حاصل کرنے کی کہانی ہے بلکہ اس میں کئی کہانیاں گُتھ گئی ہیں ۔ تاج الملوک کی شادی کے ساتھ ہی قصہ ختم ہو جانا چاہئے تھا مگر راجہ اندر اور چتراوت اس کہانی کو آگے لے جاتے ہیں دراصل یہ کہانی ایک استعارہ ہے کہ مقصد کے حصول میں کتنی دشواریاں ہوتی ہیں کس طرح آگ کے دریا میں گزرنا پڑتا ہے۔ پھر مقصد حاصل ہونے کے بعد ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ مگر ارادہ پختہ اور کوشش مستحکم ہو تو پھر ہاتھ آجاتا ہے۔

اتوار, اکتوبر 30, 2011

مثنوی سحرالبیان ( میر حسن )

مثنوی کا لفظ” مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں اصطلاح میں ایسی صنفِ سخن کوکہتے ہیں جس کے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے ، مثنوی میں لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیاجاتا ہے ، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے۔ یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں،مثنوی ایران سے ہندوستان میں آئی ۔ اردو مثنوی کی ابتداءدکن سے ہوئی ، دکن کا پہلا مثنوی نگار نظامی بیدری تھا۔
مثنوی سحرالبیان:۔
مثنوی سحر البیان
 جب قیامت کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات محبوب کی جوانی تک پہنچتی ہے اور جب مثنوی کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات ”سحرالبیان “ تک پہنچتی ہے یہ حقیقت ہے کہ جس قدر نشہ ، خمار ، کشش اور ساحری محبوب کی جوانی میں ہوتی ہے اسی قدر یہ خصوصیت دوسری اشیاءمیں نہیں ہوتی ہیں اسی طرح سے اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی گئی ہیں مگر جو دلکشی اور ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے محروم ہیں اس لئے ہم بلا تکلف یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔
”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یکساں طور پر مقبول رہی ہیں اس مثنوی کی مقبولیت پر غور کیجئے تو بہت فنی محاسن ایسے نظر آتے ہیں جو دوسری مثنویوں میں نہیں ملتے ہیں۔ اس لئے ” سحرالبیان “ ایک مقبول عام مثنوی ہے۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پلاٹ ، جذبات نگاری ، مکالمہ نگاری ، مرقع نگاری ، منظر نگاری اور سراپا نگاری کے علاوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔
 اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روائتی طرز فکر اور تصورِ زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ ”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی تصویریں بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے اسی لئے اس مثنوی ” گلزار نسیم“ کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں۔ اس مثنوی کا اسلوب و لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور نہیں جو بعد میں گلزار ِ نسیم کی صورت میں نمودار ہوا۔پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ”سحر البیان پر ایک نظر“ میں یوں لکھتے ہیں،

جمعرات, اکتوبر 20, 2011

محسن کاکوروی کی قصیدہ نگاری


 محسن کاکوروی کا عہد کشاکش حیات، رنگین بوالہواسی کا دور تھا۔ مغل سلطنت کا خاتمہ اور ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ہو رہا تھا۔ انگریز ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کا جانی دشمن بن گیا تھا افراتفری کے باوجود میرضمیر ، میر خلیق ، میر انیس ، مرزا دبیر ، امیر مینائی اور محسن کاکوروی نے زمانے کی کج روی کے خلاف اُردو ادب کو اعلیٰ خیالات و جذبات سے مالا مال کیا محسن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کی ابتداءنعت سے کی۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اُردو شاعری میں نعت گوئی کا حقیقی دور محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری سے ہی شروع ہوتا ہے۔
سخن کو رتبہ ملا ہے میری زبان کے لئے
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لئے
ازل میں جب ہوئیں تقسیم نعمیتں محسن
کلام ِ نعتیہ رکھا میری زباں کے لئے
محسن نے اپنی زندگی نعت کے لئے وقف کر دی ۔ اُن کا نعتیہ قصیدہ ”گلدستہ کلامِ رحمت “ کے نام سے ٢٥٩١ءکی تصنیف ہے یہ ان کا پہلا قصیدہ ہے اس سے پہلے قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
 آج کس صاحبِ شوکت کی میں تکتا ہوں راہ             
 کہ فرشتے ہیں اُٹھائے ہوئے در کی چلمن
 رنگ و بو کس گل ِ رعنا کی پسند آئی ہے                 
نہ مجھے خواہش ِ گل ہے نہ ہے پروائے چمن
ان کا شعری سرمایہ ذیل ہے۔           ١) گلدستہ ِ کلام رحمت     ٢) ابیات ِ نعت    ٣) مدیح خیر المرسلین      ٤) نظم دل افروز   ٥) انیس آخرت        ٢)مثنویات          ٧) صبح تجلی      ٨) فغانِ محسن     ٩)چراغ کعبہ        ٠١) نگارستانِ الفت          ١١) شفاعت و نجات            12) اسرار معنی در عشق    
13) حلیہ مبارک سراپا رسول           14)رعبایاں 1857ءکے دوران
 ہر صنف ِ شاعری ایک مخصوص مزاج کی حامل ہوتی ہے اور یہ مزاج درحقیقت ان عناصر سے ترتیب پاکر تیار ہوتا ہے جنہیں بہ اعتبار موضوع کی بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ہر صنف کا مزاج دوسری صنف ادب سے مختلف ہوتا ہے قصیدے کا مزاج غزل اور دیگر اصنافِ سخن سے الگ ہے ۔قصیدے کی صنف کو بام عروج پر پہنچانے والے شعراءمیں محسن کا نام سر فہرست ہے ان کے تصنیف کردہ چند قصائد ہیں لیکن فنی محاسن کے بہترین نمونے ہیں ۔
 ان کے قصائد مسدس ، مخمس اور مثنویاں نعتیہ ادب کے ایسے شہپارے ہیں کہ جن کا جواب اب تک نہ ہوسکا ۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ،

بدھ, ستمبر 28, 2011

ذوق کی قصیدہ نگاری

 ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی قصیدے کی تعریف یوں کرتے ہیں،
” لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معنی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں۔“
 قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ مگر قصیدے میں ردیف لازمی نہیں ہے۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے زیادہ سے زیادہ کوئی حد مقرر نہیں ۔ اُردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں۔
اُردو میں قصیدے کی ابتداء:۔
 فتح ایران کے بعد قصیدے کی صنف مسلمانوں کے ساتھ عرب سے ایران اور ایران سے سرزمین پاک و ہند میں آئی ۔ اردو قصیدے کی ابتداءدکن سے ہوئی ۔ دکن کا شاعر نصرتی اردو کا پہلا قصیدہ گو شاعر ہے۔
 قصیدہ کی دو قسمیں ہیں (١) ا تمہید جس میں قصیدے کے چاروں اجزاء، تشبیب، مدح، گریز ، دعا، موجود ہوتے ہیں ۔ (٢) مدحیہ جو تشبیب اور گریز کے بغیر   براہ راست مدح سے شروع ہوتے ہیں
ذوق کی قصیدہ نگاری:۔
 شیخ محمد ابراہیم ذوق اس عہد کے شاعر ہیں جب اردو شاعری میں الفاظ و تراکیب کی شوخی اور چستی محاورہ اور روزمرہ کی خوبصورتی اور قدرت ِ زبان کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اس اعتبار سے ذوق کو اپنی زندگی میں ہی استادی کی خلعت فاخرہ نصیب ہوئی۔ ذوق نے اسی روش کے پیش نظر شاعری کو اپنی خصوصی لوازم سے معطر کیا اوراپنی شاعری کو فکر و خیال کی توانائیوں اور خوبصورتیوں سے مرصع کیا۔
 قصیدہ نگاری کے فن سے ذوق کا نام الگ کرنا ایسا ہی مشکل ہے جس طرح گوشت سے ناخن کا جدا کرنا محال ہے۔ قصید ہ نگاری سے ذوق کا نام چسپاں ہے اگر ذوق کو قصیدہ سے قصید ہ کو ذوق سے علیحدہ کردیا جائے تو یہ فن خزاں کی طرح ویران نظرا ئے گا۔
 ذوق نے اپنی قصیدہ نگاری کی مشعل کو سودا کے چراغ سے روشن کیا ہے ۔ ذوق جب اُنیس سال کے تھے اسی وقت سے وہ ایک مستند قصیدہ گو شمار کئے جاتے تھے چنانچہ اس عمر میں انہوں نے اکبر شاہ ثانی کی تعریف میں ایک قصیدہ کہاا س کا مطلع ہے۔

اتوار, ستمبر 18, 2011

ہجویاتِ سودا

بعض لوگ ہجو کو ایک مستقل صنف سخن سمجھتے ہیں حالانکہ یہ قصیدے ہی کی ایک قسم ہے۔ جو نظم کسی کی مذمت برائی یا عیوب کے بیان میں لکھی جائے وہ ہجو یا ہجویہ قصیدہ کہلاتی ہے۔ نفرت ، اور غصہ کا بے محابا اظہار ہجو کی اساس ہے۔ جیسے تحسین و پسندیدگی ، قصیدہ نگاری سے مخصوص ہیں ۔ لیکن جہاں قصیدہ ایک مخصوص ہیئت کا پابند ہے، ہجو کے لئے کوئی ہیئت متعین نہیں۔ چنانچہ ہجو کی شناخت کا واحد وسیلہ موضوع کی تئیں شاعر کا رویہ ہے۔ اگر شاعر کسی فرد، واقعے یا شے کی تذلیل کرتا ہے تو ہجو ہوگی۔ خواہ اس منفی ردعمل کے اظہار کے لئے شعری ہیئتوں میں سے کسی کا بھی انتخاب کیا گیاہو۔ہجو نگار اپنے مخالف کو تباہ و برباد کردینا چاہتا ہے ۔ ہجو ایسی ہو جو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دے اور اگر یہ ممکن نہیں تو کم از کم اس کی اتنی تذلیل کر دے کہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہے۔ ہجو نگاراپنی نفرت اور غصہ پر قابو رکھنے کا اہل نہیں ہوتا ۔
 اردو میں شمالی ہند کی اردو شاعری کے آغاز ہی سے ہجو گوئی کی ابتداءہوئی ہے۔ اس سلسلے میں میر جعفر زٹلی غالباً پہلے ہجو گو شاعر ہیں۔ لیکن ہجو یہ گوئی کو باقاعدہ فن کی صورت سودا ہی نے دی۔
ہجویات سودا:۔
 بقول رشید احمد صدیقی
”سودا کو ہجو ہجا میں نہ صرف فضل و تقدیم حاصل ہے بلکہ ان کے کلام سے طنزیات کی بہترین استعداد بھی نمایاں ہے۔“
 اردو میں باقاعدہ طور پر ہجو گوئی کا آغاز سودا سے ہوتا ہے۔ سودا نے اپنی ہجووں کے لئے قصیدہ ، مثنوی ، قطعہ، غزل ، رباعی ، ترکیب بند، ترجیع بند، غرض سبھی اصناف سخن استعمال کئے ہیں۔سودا نے فارسی ہجویات کی روایت کے مطابق ہر قسم کی لعن طعن ، طنز و تشنیع ، سب و شتم اور فحاشی سے کام لیا ہے اور خودہی دعویٰ کیاہے کہ اس فن میں خاقانی اور عبید زاکانی بھی ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ کسی کے ہجو لکھنے پر اتر آتے تو اسے بے عزت ہی کرکے چھوڑتے ۔ آزاد ”آب حیات“ میں لکھتے ہیں کہ ”غنچہ“ نام ان کا ایک غلام تھا۔ ہر وقت خدمت میں رہتا تھا۔ اور ساتھ قلم دان لئے پھرتا تھا۔ جب کسی سے بگڑتے تو فوراً پکارتے ارے غنچے لا تو قلم دان، ذرا میں اس کی خبر تو لوں ، یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔ پھر شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منہ کھول کر وہ بے نقط سناتے کہ شیطان بھی امان مانگے۔

جمعرات, ستمبر 08, 2011

سودا کی قصیدہ نگاری

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی قصیدے کی تعریف یوں کرتے ہیں،
” لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معنی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں۔“
 قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے پہلے شعر کے دونوں مصرعی اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ مگر قصیدے میں ردیف لازمی نہیں ہے۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے زیادہ سے زیادہ کوئی حد مقرر نہیں ۔ اُردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں۔
اردو میں قصیدے کی ابتدا:۔
 فتح ایران کے بعد قصیدے کی صنف مسلمانوں کے ساتھ عرب سے ایران اور ایران سے سرزمین پاک و ہند میں آئی ۔ اردو قصیدے کی ابتداءدکن سے ہوئی ۔ دکن کا شاعر نصرتی اردو کا پہلا قصیدہ گو شاعر ہے۔
قصیدہ کی دو قسمیں ہیں (١) ا تمہید جس میں قصیدے کے چاروں اجزاء، تشبیب، مدح، گریز ، دعا، موجود ہوتے ہیں ۔ (٢) مدحیہ جو تشبیب اور گریز کے بغیر   براہ راست مدح سے شروع ہوتے ہیں

جمعہ, اگست 26, 2011

ستارہ یا بادبان (حسن عسکری)۔

 بقول پروفیسراحتشام حسین
” عسکری کی جاندار خوبصورت اور ادبی نثر نقد ادب کے متعلق بہت سے سوالات اُٹھاتی ہے۔ سوالوں کا جواب نہیں دیتی ، اپنا مبہم سا ذائقہ پیداکرتی ہے۔ توانائی نہیں بخشتی شک میں مقید کرتی ہے یقین کے دروازے نہیں کھولتی۔“         
 اگر نظری اور عملی تنقید میں حسن عسکری کو حالی کے بعد اردو کا سب سے بڑا اہم نقاد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تنقید میں ان کی رائے سے اختلافات چاہے جتنے بھی ہوں لیکن وہ تنقیدی شعور اور تنقیدی بصیرت کی جن بلندیوں کو پہنچے وہ کم ناقدین کو نصیب ہے۔ اردو میں تجزیاتی تنقید ان کی بدولت آئی ورنہ تنقید کا عام طور پر طریقہ کار یہ رہا ہے کہ ہر ادیب و شاعر کی پانچ دس خصوصیات کو چن کر ان کا مقام متعین کیا جائے۔ ترقی پسند ناقدین نے سب سے پہلے اس روش سے انحراف کیا۔ ترقی پسند تحریک کے ابتدائی زمانے میں میراجی نے مشرق و مغر ب کے مختلف شعراءپر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سے اردو ادب میں نفسیاتی تنقید کی بنیاد پڑ ی ایک معاصر کی حیثیت سے عسکری بھی نفسیاتی تنقید سے متاثر ہوئے اور اس طرح اردو ادب کے قائدین کو عالمی ادب سے روشناس کرانے میں میراجی اور حسن عسکری کا حصہ سب سے زیادہ ہے بلکہ کیفیت و کمیت کے لحاظ سے عسکری ، میراجی پر بھاری ہیں۔
موضوعات کی رنگارنگی ، مطالعے کی وسعت اور گہرائی ، پاکستانی ادب کا نعرہ ، فوٹو گرافی سے لگائو، اسلامی ادب کی تحریک اور میر سے فراق تک پہنچا ہوا عشق حسن عسکری کو جاننے کے لئے افکار ہی کی یہ دولت کافی نہیں۔ بلکہ ناقدین میں ممتاز ، شیریں ، جمیل جالبی ، سلیم احمد، انتظار حسین اور مظفر علی سید تک عسکری سے متاثر ہیں۔ ان کے نظریات اور اسلوب میں چونکا دینے والی کیفیت ملتی ہے۔

جمعہ, اگست 05, 2011

اصول انتقادِ ادبیات (عابد علی عابد)۔

اردو ادب میں تنقیدی روایات جن معتبر ناقدین کی وجہ سے شعور و بصیرت سے مامور ہیں ان میں عابد علی عابد کا نام بہت نمایاں ہے ۔ اردو ادب میں انگریزی ادب کے گہرے اوروسیع مطالعے کے مالک بہت کم ناقدین نظرآتے ہیں ۔ اُن میں ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ، حسن عسکری، کلیم الدین احمد، اور عابد علی عابد کا نام اعتماد کے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عابد علی عابد اس لحاظ سے دوسر ے ناقدین میں منفرد مقام رکھتے ہیں کہ ان کے ہاں روایت پسندی نظر آتی ہے۔ وہ توڑ پھوڑ اور تخریبی رویہ جو کلیم الدین احمد، حسن عسکری اور احسن فاروقی کی تنقید میں موجود ہے عابد علی عابد کے ہاں معتد ل اور متوازن ہو جاتا ہے۔ اس بنا ءپر ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں،
” مشرقی تنقید سے عابد صاحب کو جو بے پنا ہ لگائو تھا وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ قدم قدم پر اس کی حمایت میں سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔“
روایت:۔
 عابد علی عابد نے اپنی تنقیدی بصیرت میں جہاں مغرب کے بھر پور مطالعے سے فائدہ اُٹھایا وہاں مشرقی اقدار کی پاسداری کا حق بھی ادا کیا ۔ ہماری تنقید میں ایک ایسا دور بھی آیا ۔ جب روایت اور بغاوت اور ان سے وابستہ مسائل پر گرما گرم بحثیں ہونے لگیں۔ ترقی پسند ادب میں پہلی بار ادب کے مادی تشکیل کا نظریہ پیش کیا گیا اور محنت کش طبقے کی حمایت میں ہنگامی ادب کو فروغ دیا گیا ( ہنگامی ادب سے مراد صحافتی ادب جو ایک دن کا ہوتا ہے) اب تنقیدی رویوں میں بھی روایت پسندی کو برا سمجھا گیا اور نئے انتہا پسند انہ رویے سامنے آئے۔ جن میں مردہ سرمایہ دارانہ نظام سے پیدا شدہ روایت کی تکذیب کی گی یعنی بر بھلا کہا گیا۔ ایسے حالات میں روایات کا دفاع کرنے والوں میں ٹی۔ایس ایلیٹ کی بھر پور چھاپ صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ جو روایت کا حامی ہے اور روایت کے ذریعے نئے آنے والے ادب کی تشکیل و تعمیر کا نظریہ پیش کرتا ہے۔
  بطور خاص اُن کا ایک مضمون Tradition and Individual Talentیعنی روایت اور انفرادی صلاحیت آج بھی روایت پسندوں کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ ”اصول انتقاد ادبیا ت “ میں عابد علی عابد نے سب سے پہلے روایت اور روایت پسندی پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کے بعض جملے ایلیٹ کے مذکورہ مضمون کے بامحاورہ ترجمے معلوم ہوتے ہیں۔مثلا ایلیٹ نے لکھا ہے۔

منگل, جولائی 26, 2011

ظفری خان

میں نے پہلی بار ظفر علی خان ظفری کا نام بچپن میں سنا ۔ انتخابی پوسٹر پر اس شخص کی تصویر ایک سہمے ہوئے فرد جیسی دکھائی دے رہی تھی۔ جس کی بے حد گھنی بھوئیں چہرے پر شدید حیرت لیے ہوئے دیکھنے والوں کو بے وجہ ہنسنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔ اُس دور میں ہم انتخابات کے مفہوم سے مکمل ناواقف تھے مگر انتخابی پوسٹر جمع کرنے کا شوق پتہ نہیں کہاں سے چڑھ دوڑا تھا۔ یونین کونسل کے ان انتخابات کے نجانے کتنے ہی پوسٹر ہم نے دیواروں سے اکھاڑ کر اور کچھ لوگوں سے مانگ تانگ کر جمع کر لیے تھے۔ ان میں سے سب سے مخدوش اور اخباری کاغذ پر چھاپا گیا پوسٹر ظفر علی خان ظفری کا تھا۔ اس دور میں ہمیں صرف یہ معلوم تھا کہ ظفری علی خان ظفری انتخاب لڑ رہے ہیں اور سننے میں یہ بھی آتا تھا کہ اس کا مقابلہ ایک روایتی امیدوار کے ساتھ ہے جو سالوں سے اپنے اثررورسوخ اور طاقت کے بل پر انتخاب جیتتا آرہا ہے۔ مگر ظفری اس کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہے۔ اس کے جلسوں کا احوال بھی بڑوں سے معلوم ہوتا رہتا تھا سب بڑے اس کے جلسوں کو چٹخارے لے کر بیان کرتے اور ہمارے آنے پر وہ خاموش ہوجاتے ۔ ان کی اس خاموشی کی وجہ بعد میں معلوم ہوئی۔ انتخابات ہوئے اور ہمیں صرف انتا معلوم ہوسکا کہ ظفری خان ظفری کو گنتی کے چند ووٹ ہی مل سکے۔ جیت اسی امیدوار کی ہوئی جس کے مقابلے میں ظفری خان میدان میں اترے تھے۔
پھر جیسے جیسے عمر گزرتی گئی ہم پر ظفر علی خان ظفری کی زندگی کے چند دوسرے اہم باب کھلے ۔ پہلے تو جناب ایک نانبائی تھے دوسرا ان کی زبان میں لکنت تھی اور تیسرے ایک پیر میں بھی لنگڑ تھا۔ مگر ان تمام باتوں کے باجود ہم نے دیکھا کہ نوے کی دہائی میں ہونے والے ہر صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشن میں ظفری خان ظفری نے کاغذاتِ نامزدگی ضرور جمع کرائے۔ الیکشن کے دنوں میں ظفری خان ایک موسٹ وانڈڈ فیگر بن جاتے ۔ ان کے جلسوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے۔ یہ شعر ہم نے پہلی مرتبہ اسی دور میں سنا تھا۔
یہ بازی موت کی بازی ہے یہ بازی تم بھی ہارو گے
ہر گھر سے ظفری نکلے گا تم  کتنے ظفری مارو گے
ظفری خان کا انتخابی نشان جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ بندوق قرار پایا تھا۔ جلسوں میں وہ بندوق لے کر ہی سٹیج پر برآمد ہوتے ۔ ساتھ میں پس پردہ موسیقی کے طور پر ڈھول کی تاپ چلتی ۔ سب لوگ ناچتے گاتے ۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگتے اور پھر ظفری خان تقریر کرنا شروع کر دیتے ۔ اس تقریر میں وہ ان کے مقابلے میں کھڑے جاگیردار اور سرمایہ دار سیاسی قوتوں کی خوب سوشل بے عزتی کرتے ۔ ان کی کئی پشتوں تک کو نہ بخشتے۔  اس کے بعد دیگر شریکِ جلسہ بھی میدان میں کود پڑتے یہ سب ایسے سسٹم کے مارے لوگ ہوتے جن کو دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضروت ہوتی تھی ۔ ان کی طرف سے بھی خوب کانٹے کی تقاریر ہوتیں۔ لوگ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔ یوں شہر میں روز میلہ لگتا ۔ مگر جب انتخابات ہوتے تو ظفری خان کو وہی گنے چنے ووٹ ہی ملتے۔  پچھلے دو انتخابات میں ظفری خان بی اے کی شرط کی وجہ سے انتخاب میں حصہ نہ لے سکے۔ عمر ڈھل گئی بال سفید ہو گئے مگر ظفری خان آج بھی ان روایتی قوتوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار اور کمر بستہ ہیں۔  نہ ان کا حوصلہ پست ہوا اور نہ کبھی انہیں ڈر محسوس ہوا۔  میرے خیال میں لوگ آج بھی ظفری کو مسخرہ تصور کرتے ہیں ۔ اس کی باتوں کو ہنس کر ٹال جاتے ہیں شاید ظفری مسخرہ نہیں بلکہ وہ تو مزاحمت کی ایک بہت بڑی آواز ہے جو کہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور معذوری کے باجود سسٹم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاید اس قوم کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو پاگل تصور کر لیتے ہیں۔ جبکہ تمام تر شعور کے باجود خود ہم میں کچھ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔

جمعہ, جولائی 22, 2011

آبِ حیات (محمد حسین آزاد)۔

 بقول احسن فاروقی
محمد حسین آزاد نے اُردو تنقید نگاری کی بنیاد رکھی ٹیڑھی مگر پھر بھی کیا کم ہے کہ انہوں نے بنیاد رکھی تو۔
آبِ حیات
 اردو ادب میں تذکرے معاصر شعراءکے کلام کو پرکھنے کی اولین معروضی کوشش ہیں۔ بعض اوقات تذکرہ نگاروں کے تعصبات ان کی فیصلو ں پر اثراانداز ہوتے ہیں اور اکثر جگہوں پر تذکرہ عربی و فارسی تنقید کی توسیع دکھائی دیتی ہے اردو میں مغربی تنقید کے اثرات قبول کرنے کا آغاز تحریکِ سرسید سے منسلک ہے۔ اور اس سلسلے میں مولانا حالی کی تصنیف کو عام طور پر جدید تنقید کا نقطہ آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کتاب میں مغربی تنقید کے حوالے جا بجا ملتے ہیں۔ مگر جدید اردو تنقید کے آغاز کا سہرا حالی کے بجائے آزاد کے سر ہے۔ جس کے ہاں پہلی بار اردو تنقید کے سلسلے میں مغرب سے متاثر ہونے کے شواہد ملتے ہیں ۔اس کے علاوہ محمد حسین آزاد قدیم اور جدید تنقید کے سنگم پر دکھائی دیتے ہیں۔ آزاد نے تنقیدی نظریات پر کوئی باقاعدہ کتاب نہیں چھوڑی لیکن اس کے تنقیدی خیالات آبِ حیات ، نیرنگ خیال ، سخندانِ فارس جیسی کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف لیکچرز میں تنقید پر بالخصوص بات کی انہوں نے اپنی تنقیدی خیالات کا اظہار سب سے پہلے 15 اگست 1867ءمیں انجمنِ پنجاب کے مشاعرے میں اپنے ایک لیکچر بعنوان ”مشاعرے اور کلام ِ موزوں کے باب میں خیالات“ میں پیش کئے۔

بدھ, جولائی 13, 2011

تھرڈ ڈویژن (سید محمد جعفری)۔

جینے کی کشمکش میں نہ بیکار ڈالیے
میں تھرڈ ڈویژنر ہوں مجھے مار ڈالیے
پھر نام اپنا قوم کا معمار ڈالیے
ڈگری کو میری لیجیے اچار ڈالیے
کچھ قوم کا بھلا ہو تو کچھ آپ کا بھلا
میرا بھلا ہو کچھ مرے ماں باپ کا بھلا

جاتا ہے جس جگہ بھی کوئی تھرڈ ڈویژنر
کہتے ہیں سب کہ آگیا تو کس لیے ادھر
تو چل یہاں سے تیری نہ ہوگی یہاں گزر
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر ہوں میں ، مگر
یار رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
ہر شخص مجھ کو آنکھ دکھاتا ہے کس لیے

میں پاس ہو گیا ہوں مگر پھر بھی فیل ہوں
تعلیم کے اداروں کے ہاتھوں میں کھیل ہوں
جس کا نشانہ جائے خطا وہ غلیل ہوں
میں خاک میں ملا ہوا مٹی کا تیل ہوں
اوریونیورسٹی بھی نہیں ہے ریفائنری
صورت بھی تصفیے کی نہیں کوئی ظاہری

اخبار میں نے دیکھا تو مجھ پر ہوا عیاں
ہوتے ہیں پاس وہ بھی نہ دیں جو کہ امتحاں
یعنی کہ آنریری بھی ملتی ہیں ڈگریاں
میں جس زمیں پہ پہنچا وہیں پایا آسماں
ہے آسماں کی گردشِ تقدیر میرے ساتھ
ڈگری ہے اک گناہوں کی تحریر میرے ساتھ

گر ہو سکے تو مانگ لوں اک عمر کو اُدھار
اور امتحان جس کا نہیں کوئی اعتبار
اس امتحاں کی بازی لگاؤں گا بار بار
کہتے ہیں لوگ اس کو یہ مچھلی کا ہے شکار
یہ امتحان مچھلی پھنسانے کا جال ہے
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

جمعہ, جولائی 08, 2011

شعرالعجم (شبلی نعمانی)۔

 بقول عبدالشکور:۔
" حالی کی بعد شبلی تنقید کے سٹیج پر جلوہ فرما ہوتے ہیں متعدد و دلچسپ اور اہم تنقیدی تصانیف ملک کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ شبلی حیرت انگیز اوصاف کا مجموعہ تھے۔ بلند پایہ مورخ ، ادیب، شاعر ، محقق اور تنقید نگار تھے۔ طبیعت میں بلا کی شوخی اور تیزی موجود تھی بڑے گہرے عالم ، دقیقہ رس فاضل اور سخن سنج ماہر اور ماہر ادبیات تھے۔“    
 تنقید کے حوالے سے شبلی کی شخصیت اس قدر مقبول ِ عام نہیں جتنی کہ ایک مورخ ، سوانح نگار ، سیرت نگار اور شاعر وغیر ہ کے حوالے سے معروف ہے ۔ فنونِ نظر کے بارے میں بھی شبلی کے تنقیدی افکار مختلف مقالات اور تصانیف میں خال خال پائے جاتے ہیں۔ مگر ان کا خاص میدان شاعری کی تنقید ہے۔ جہاں تک ”موازنہ انیس و دبیر“ کا تعلق ہے اس میں شبلی نے مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کی ہے اور ساتھ ہی انیس اور دبیر کے مرثیوں کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے انیس کے کلام کو خاص طور پر اپنے پیش نظر رکھا ہے۔ اور اس کی مختلف خصوصیات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ جانبداری کے ساتھ ساتھ اس بحث کا انداز تشریحی اور توضیحی زیادہ ہے لیکن اس میں جگہ جگہ اعلیٰ درجہ کی تنقید کا احساس ضرور ابھرتا ہے۔ ایک اور اہم بات اس کتاب میں یہ ہے کہ اس میں شبلی نے فصاحت و بلاغت پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے مختلف پہلوئوں پر اصولی اورنظریاتی انداز ِ نقد برتا ہے جس میں شبلی کا تنقیدی شعور نمایاں ہے ۔ بہر حال یہ کتاب بھی تنقیدی اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے۔

پیر, جون 20, 2011

مقدمۂ شعر و شاعری (الطاف حسین حالی)۔

بقول احسن فاروقی
جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آج کل کے نقاد باوجود ڈگریوں کے جوا ن کے علم کی سند ہے ادب اور زندگی کے تعلق کو واضح کرنے میں کسی طرح حالی سے آگے نہیں بڑھ پائے تو ہمارے دل میں حالی کی قدر بڑھتی ہے۔ ۔۔۔ ۔ حالی کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہوتی کہ انہوں نے اس موضوع ( یعنی ادب اور زندگی کا رشتہ) پر غور کرنے والوں کے لئے راہ کے پہلے نقوش بنائے۔
الطاف حسین حالی
  یوں تو مولانا الطاف حسین حالی کی شخصیت کئی لحاظ سے مطالعہ کے قابل ہے۔ آزاد او ر شبلی کی طرح وہ بیک وقت شاعر ، ادیب ، سوانح نگار اور نقاد ہیں۔ وہ ایک منفرد شاعر، صاحب طرز ادیب ، باذوق سوانح نگار اور وسیع النظر نقاد کی حیثیت سے اردو ادب میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ حالی کا تعلق سرسید کی تحریک اور سرسید کی شخصیت سے بہت زیادہ تھا۔ اور سرسید کے زیر اثر ہی حالی نے مسدس حالی تصنیف کی۔ سرسید کی رفاقت ، مولانا محمد حسین آزاد کی دوستی اور محکمہ تعلیم کی ملازمت کے دوران انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہونے والی کتابوں کے مطالعے نے حالی کو اردو شاعری میں نئے رجحانات سے آشنا کیا۔ چنا نچہ انھوں نے پرانی طرز شاعری کو ترک کرکے نئے اسلوب شعر کی طرف توجہ کی اور کچھ اس طرح توجہ کی اردو میں جدید شاعری کے اولین استاد کہلائے، خود نئے انداز میں شعر کہنے شروع کیے۔ اور دوسروں کو نئے شعر کی طرف راغب کیا۔ اُ ن کے تنقیدی نظریات مختلف کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ لیکن مقدمہ شعر و شاعری اُ ن کی تنقید کی باقاعدہ کتا ب ہے۔ اُنھوں نے مغربی تنقید کے اصولوں کو مشرق میں رواج دینے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ مختلف اصنافِ سخن پر بھی بحث کی ۔ مقدمہ شعر و شاعری کے دو حصے ہیں۔

ہفتہ, جون 11, 2011

ٹی ۔ایس ایلیٹ

ٹی ۔ایس ایلیٹ
 ٹی ایس ایلیٹ  امریکہ کے شہر سینٹ لوئیس میں پیدا ہوا۔ 1914ءمیں اس نے انگلستان ہجرت کی اور 1937ءمیں باقاعدہ انگلستان کی شہریت اختیار کی۔ اس کا تعلق ان انگریز خاندانوں سے تھا جو سترہویں صدی میں امریکہ آ بسے تھے۔ اس کی ماں مصنفہ اور شاعرہ تھیں۔ ایلیٹ بچپن ہی سے نہایت ذہین تھا۔ 1900ءمیں اُسے سکول سے لاطینی زبان کی استعداد کے لئے طلائی تمغہ دیا گیا۔1902ءسے 1910ءتک وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہا۔ جہاں اس نے کلاسیکی ادب جرمن ادب ، فرانسیسی اور انگریز ی زبان و ادب کا تقابلی مطالعہ کیا۔ یہیں سے وہ دانتے اور ”ڈ ن“ جیسے شاعروں سے روشناس ہوا۔ جس کا اثر اس کے بعد کی تخلیقات پر گہرا ہے۔ اور اس یونیورسٹی میں اُسے Iriving Babbitاور جارج سندینہ کے روایت کے بارے میں لیکچر سننے کا موقع ملاِ اور وہ روایت کو اپنے نظام ِ فکر کے اندر شامل کرنے کے قابل ہوا۔ اس زمانے میں ہارورڈ یونیورسٹی میں ڈرامے کے بارے میں کافی جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ اسی لئے ایلیٹ نے ڈرامے لکھنے کی کوشش بھی کی۔ تخلیقی لحاظ سے ایلیٹ کے لئے یہ دور بڑا زرخیز تھا اور اُسے ایک بہترین شاعر کے طور پر مانا گیا۔

جمعرات, جون 02, 2011

متھیو آرنلڈ

بقول ڈاکٹر سید عبداللہ
آرنلڈ اپنے عہد کے اخلاقیات کا نقاد و معترض تھا وہ شاعر بھی تھا اورنقاد بھی لیکن ان اوصاف کے علاوہ وہ نقادوں کا نقاد اور معاشرے کا بھی نقاد تھا۔ 
متھیو آرنلڈ
 متھیوآرنلڈ کو نہ صرف اعلیٰ ادیب کی حیثیت سے امتیاز حاصل ہے بلکہ اس سے بڑھکر وہ ایک منفرد نقاد کی حیثیت سے ممتاز رہے ہیں۔ مغربی ادب میں لانجائنس اور کولرج کے نظریات کے تحت تخلیق کار اور ناقدین رومانوی انتشار کا شکار ہوگئے تھے۔ رومانیت اپنی انتہا میں جس اِنتشاری کیفیت سے دوچار ہوا کرتی ہے اور قاری اور خالق کا رشتہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال مغربی ادب پر چھائی ہوئی تھی۔
جس طرح ہر عمل کا ردعمل لازمی ہے اس طرح رومانیت کے ردعمل کے طور پر آرنلڈ نے اپنے تنقیدی نظریات پیش کئے ۔ آرنلڈ روایت، کلاسک اور تہذیب کا دلدادہ تھا اور اس سلسلے میں اس نے جن مباحث کا آغاز کیا ان کی گونج آج بھی ادبی فضاءمیں موجود ہے۔ اور اس مکتبہ فکر کا پروردہ ٹی ایس ایلیٹ اہم نقاد مانا جاتا ہے۔یہ بات طے ہے کہ کولرج کی طرح آرنلڈ کا شمار بھی اُن ناقدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عہد کے مزاج کو بدل ڈالا سکاٹ جیمز کا کہنا ہے کہ آرنلڈ اتنا بڑا نقاد ہے کہ تقریباً پچاس سال تک ادبی فضاءپر اُن کے خیالات چھائے رہے۔اور ہربٹ پال کا یہ کہنا بھی بجا معلوم ہوتا ہے کہ
 آرنلڈ نے صرف خود ہی کتابوں پر تنقید نہیں کی بلکہ اس نے دوسروں کو بھی تنقید کرنا سکھایا۔

بدھ, مئی 25, 2011

کولرج

کولرج
کولرج کی اہم ترین تنقیدی کتاب عملی تنقید کی بہترین مثال ہے ۔ اس میں کولرج نے ورڈزورتھ کی نظموں پر تنقید،نظریات اور ادبی جمالیات پر بحث کی ہے اورنئے تنقیدی نظام کے واضح اشارے پیش کئے ہیں۔ کولرج نے اس کتاب میں ادبی شاہکار وں کا جائزہ لیا ۔ اور اپنی تنقیدی آراءپیش کیں ہیں۔ تنقید کی یہ کتاب ایک قابلِ قدر شاہکار ہے۔ مگر ناقدین نے اس کتاب میں بھی انہی خامیوں کی نشاندھی کی ہے۔ جو کولرج کی طبیعت اور شاعری کا حصہ تھیں۔ یعنی موضوع کی مرکزیت کی کمی صاف محسوس ہوتی ہے۔ بے تکان جملے بکھرے پڑے ہیں۔ ایک مغربی نقاد بائیو گرافیہ کے بارے میں لکھتا ہے۔
یہ انگریزی میں عظیم ترین تنقیدی کتاب ہے اور دنیا کی زبانوں میں سب سے زیادہ پریشان کن کتاب ہے۔
 کولرج نے خود اسے بے ڈھنگے متفرقات کا مجموعہ کہا ہے۔ کولرج نے اپنے تنقیدی نظریات کی بنیاد انسانی نفسیات پر رکھی ہے۔ وہ خالق کو سامنے رکھ کر تخلیق تک رسائی حاصل کرنے کے قائل ہیں۔ یہی نظامِ فکر ہے جس نے کولرج کو تنقید کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت دلا دی ہے۔ کولرج نے پہلے اپنی کتاب کا نام آٹو بائیو گرافیہ رکھا اور بعد میں صرف بائیو گرفیہ کے نام سے یہ کتاب منظر عام پر آئی۔ مئی 1815ءمیں کولرج نے ورڈزورتھ کو لکھا کہ وہ اپنی نظموں پر ایک مقدمہ لکھ رہا ہے۔ اور ورڈزورتھ کی کچھ نظموں کا جائزہ بھی لے گا۔ دو ماہ بعد اس نے لکھا کہ اس نے مقدمے کو بڑھا کر ایک خود نوشت ادبی سوانح بنا رہا ہے۔ اس میں اس کی ادبی زندگی اور نظریات ہوں گے۔ پھر اس نے ادب کے موضوع کو بالکل چھوڑ کر جدید فلسفے اور نفسیات پر بات شروع کی اور اس طرح ایک بھر پور مقالے کی شکل اختیار کرتے ہوئے یہ کتاب اختتام کو پہنچی ۔

جمعرات, مئی 19, 2011

لانجائنس

 ادب میں افلاطون کے اخلاقی اور ارسطو کے افادی نظریے نے کافی حد تک مقصدیت کے عنصر کو نمایاں کر دیا چنانچہ ضرورت اس امر کی محسوس کی جانے لگی کہ ادب کے جمالیات اور فنی لوازمات پر توجہ دی جائے اد ب میں عمل کا ردعمل موجود رہتا ہے اس کی ایک مثال مختلف تخلیقات کے تحت مختلف رجحانات کی ہے۔
 اردو ادب میں تحریک ِ مقصدیت اد ب کے فنی پہلو کو نظر انداز کرتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن فوراً اس کا ردعمل رومانوی تحریک کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جب ادب کے جمالیات کے پہلو کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ اس طرح ادب کا فکری اور مقصدی پہلو کمزور پڑنے پر ترقی پسند تحریک میدان ِ عمل میں اترتی ہے اور اس طرح عمل اور ردعمل سے ادب میں توازن کی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ مغربی ادب میں بھی تحریکات اور مختلف رجحانات کی بنیاد پر ادب میں ایسی ہی صورت سامنے آتی ہے۔ مغربی ادب میں ” لانجائنس “ پہلا باقاعدہ رومانو ی نقاد جانا جاتا ہے۔ جس کے ہاں ” نظریہ ترفع“ اور ”عالم وجد “ ملتے ہیں۔ نظریہ ترفع میں لانجائنس اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہ خالق عمل تخلیق میں ایک عالم وجد میں پہنچ جاتا ہے۔ اور اس سطح سے جب وہ کوئی تخلیق قاری کے سامنے پیش کرتا ہے تو لازم ہے قاری بھی اس عالم وجد میں پہنچ جائے۔ اس کی کیفیت خالق سے ہم آہنگ ہو جائے وہ اپنی سطح سے اُٹھ کر خالق کی سطح پر جا پہنچے اور ایک وجدانی کیفیت سے دوچار ہو جب قاری اپنی سطح سے اوپر اُٹھے تو یہ عمل ترفع سے ہم آہنگ ہے۔ اور وہ حقیقی مضمون میں ادب سے حظ اٹھانے کے قابل ہو جائے ۔
ذاتی حالات:۔
 لانجائنس کی ذاتی زندگی پر پردے پڑے ہیں۔ بعض ناقدین کا خیا ل ہے کہ وہ ”پامیریا“ کی ملکہ”زینوبیا“ کا سےکرٹری تھا اس طرح ان کی شخصیت نیم تاریخی ہے اس بات میں اختلاف ہے کہ اس کا تعلق کس صدی عیسوی سے تھا بعض ناقدین اسے پہلی اور کچھ تیسری صدی سے منسوب کرتے ہیں۔ لانجائنس کے بنیادی مباحث اور ہم عصر ناقدین کا اس نے تذکرہ کیا ہے ان کو دیکھتے ہوئے یہ تو طے ہے کہ اس کا تعلق پہلی صدی سے تھا۔

ہفتہ, مئی 14, 2011

ارسطو (بوطیقا)۔

ارسطو
 قدما یونان کا دور ایک زرخیز دور تھا اس دور میں ایسے ایسے فلسفی اور نکتہ دان پیدا ہوئے جنہوں نے مختلف علوم و فنون کو ایسا خزانہ دیا کہ جس پر یونان والے بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ۔ شاعری ادب اور ڈرامے پر خاص طور عمدہ تنقید دیکھنے میں آئی ہے۔ اس دور کے نظریات میں سے بہت سے ایسے ہیں جو آج سے دو ڈھائی ہزار برس گزرنے کے باوجود بھی قابل توجہ سمجھے جاتے ہیں۔ خاص کر افلاطو ن اور ارسطو ، ایک نقاد کا کہنا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دو ڈھائی ہزار سال گزرنے جانے کے باوجود افلاطون ، ارسطو ، ہیوریس ، لان جائی نس پر وقت کی گرد نہیں جمنے پائی۔ ان کی نگارشات کے مطالعے کے بغیر ادبی تنقید کا مطالعہ تشنہ رہ جاتا ہے۔ اور تنقید کے بعض بنیادی اور اہم مسائل پر غور و فکر کی بصیرت پیدا نہیں ہوتی۔
  ارسطو کا زمانہ افلاطون کے فوراً بعد کا زمانہ ہے وہ افلاطون کا شاگرد تھا لیکن شاعری اور ڈرامے کے بارے میں اس سے مختلف رائے رکھتا تھا۔ اس نے افلاطون کا نام لئے بغیر اس کے اعتراضوں کے جواب دیے ہیں خیال ہے کہ اس نے کئی مختصر کتابیں لکھیں جن میں سے ”فن خطابت “ ”RHETORIES“ اور فن شاعری یا ”بوطیقا“” ُPOETICS“ ہم تک پہنچی باقی انقلابات زمانہ کی نذر ہوگئیں ۔

بدھ, مئی 11, 2011

تنقید

تنقید کیاہے
 تنقید عربی کا لفظ ہے جو نقد سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ” کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا “ ہے۔ اصطلاح میں اس کامطلب کسی ادیب یا شاعر کے فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ کرتے ہوئے اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنا ہے۔ خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کر کے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ شاعر یا ادیب نے موضوع کے لحاظ سے اپنی تخلیقی کاوش کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا ہے مختصراً فن تنقید وہ فن ہے جس میں کسی فنکار کے تخلیق کردہ ادب پارے پر اصول و ضوابط و قواعد اور حق و انصاف سے بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا جاتا ہے اور حق و باطل ، صحیح و غلط اور اچھے اور برے کے مابین ذاتی نظریات و اعتقادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرق واضح کیا جاتا ہے۔ اس پرکھ تول کی بدولت قارئین میں ذوق سلیم پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انگریزی میں Criticismکہتے ہیں۔ اس کا ماخذ یونانی لفظ Krinien ہے۔ویسے مختلف نقادوں نے اس کی مختلف تعریف و توصیحات کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں
 ١۔ کسی ادب پارے میں فن پارے کے خصائص اور ان کی نوعیت کا تعین کرنا نیز کسی نقاد کے عمل یا منصب یا وظیفہ ۔
  ٢۔تنقید کامل علم و بصیرت کے ساتھ اور موزوں اور مناسب طریقے سے کسی ادب پارے یا فن پارے کے محاسن و معائب کی قدر شناسی یا اس بارے میں فیصلہ صادر کرنا ہے۔
 ٣۔ تنقید اس عمل یا ذہنی حرکت کا نام ہے جو کسی شے یا ادب پارے کے بارے میں ان خصوصیات کا امتیاز کرے جو قیمت رکھتی ہے۔ بخلاف ان کے جن میں قیمت نہیں۔
 ٤۔ محدود معنوں میں تنقید کا مطلب کسی ادب پارے کی خوبیوں اور خامیوں کا مطالعہ ہے وسیع تر معنوں میں اس میں تنقید کے اصول قائم کرنا اور ان اصولوں کو تنقید کے لئے استعما ل کرنا بھی شامل ہے۔
٥۔تنقید کا کام کسی مصنف کے کام کاتجزیہ ، اس کی مدلل توضیح کے بعد اس کی جمالیاتی قدروں کے بارے میں فیصلہ صادر کرناہے۔
 ٧۔ سچی تنقید کا فرض ہے کہ وہ زمانہ قدیم کے عظیم فن کاروں کی بالترتیب درجہ بندی اور رتبہ شناسی کرے اور زمانہ جدید کی تخلیقات کا بھی امتحان کرے۔ بلند تر نوع تنقید یہ بھی ہے کہ نقاد کے انداز و اسلوب کا تجزیہ کرے اور ان  وسائل کی چھان بین کرے جن کی مدد سے شاعر اپنے ادراک و کشف کو اپنے قارئین تک پہنچاتا ہے۔٩۔ تنقید ،فکر کا وہ شعبہ ہے جو یا تو یہ دریافت کرتا ہے کہ شاعری کیا ہے؟ اس کے مناصب و وظائف اور فوائد کیا ہیں؟ یہ کن خواہشات کو تسکین پہنچاتی ہے؟ شاعر شاعر ی کیوں کرتاہے؟ اور لوگ اسے کیو ں پڑھتے ہیں؟ یا پھر یہ  اندازہ لگاتا ہے کہ کوئی شاعری یا نظم اچھی ہے یا بری۔

پیر, مئی 09, 2011

اقبال کی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ کا فنی و فکری تجزیہ

 یہ نظم اقبال نے اپنی والدماجدہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی ۔ اسے مرثیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اولین شکل میں اس کے گیارہ بنداور 89 اشعار تھے ۔ ”بانگ درا“کی میں شامل کرتے وقت اقبال نے اس میں تبدیلی کی اور موجودہ شکل میں نظم کل تیرہ بندوں اور چھیاسی اشعار پر مشتمل ہے۔
 علامہ اقبال کی والدہ ماجدہ کانام امام بی بی تھا۔ وہ ایک نیک دل ، متقی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ گھر میں انہیں بے جی کہا جاتا تھا۔ وہ بالکل اَ ن پڑھ تھیں مگر ان کی معاملہ فہی ، ملنساری اور حسنِ سلوک کے باعث پورا محلہ ان کا گروید ہ تھا۔ اکثر عورتیں ان کے پاس اپنے زیورات بطور امانت رکھواتیں۔ برادری میں کوئی جھگڑا ہوتا تو بے جی کو سب لوگ منصف ٹھہراتے اور وہ خوش اسلوبی سے کوئی فیصلہ کر دیتیں ۔ اقبال کو اپنی والدہ سے شدید لگائو تھا۔ والدہ بھی اقبال کو بہت چاہتی تھیں زیر نظر مرثیے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو والدہ ماجدہ ان کی بخیریت واپسی کے لئے دعائیں مانگتیں اور ان کے خط کی ہمیشہ منتظر رہتیں۔ ان کا انتقال اٹھتر سال کی عمر میں 9 نومبر 1914ءکو سیالکوٹ میں ہوا۔ والدہ مرحومہ کی وفات پر اقبال کو سخت صدمہ ہوا۔ اور وہ مہینوں دل گرفتہ رہے ۔ اور انہوں نے اپنی ماں کی یاد میں یہ یادگار نظم لکھی۔
فکری جائزہ:۔
 نظم یا ( مرثیے )کا اصل موضوع والدہ ماجدہ کی وفات حسرت آیات پر فطری رنج و غم کا اظہار ہے ۔ اس اظہار کے دو پہلو ہیں،
١)فلسفہ  حیات و ممات اور جبر و قدر            ٢) والدہ مرحومہ سے وابستہ یادیں اور ان کی وفات کا ردعمل
 پہلے موضوع کا تعلق فکر سے ہے اور دوسرے کا جذبات و احساسات سے ”والدہ مرحومہ کی یاد میں “ اردو میں اقبال کی شاید واحد نظم ہے جس میں وہ پڑھنے والے کو فکراور جذبہ دونوں کے دام میں اسیر نظر آتے ہیں۔

اتوار, مئی 08, 2011

غلام محمد قاصر کی ایک غزل


نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے

جبیں پہ آنے نہ دیتے تھے اک شکن بھی کبھی
اگرچہ دل میں ہزاروں ملال رکھتے تھے

خوشی اُسی کی ہمیشہ نظر میں رہتی تھی
اور اپنی قوتِ غم بھی بحال رکھتے تھے

بس اشتیاقِ تکلم میں بارہا ہم لوگ
جواب دل میں زبان پر سوال رکھتے تھے

اسی سے کرتے تھے ہم روز و شب کا اندازہ
زمیں پہ رہ کو سورج کی چال رکھتے تھے

جنوں کا جام محبت کی مے ، خرد کا خمار
ہمیں تھے وہ جو یہ سارے کمال رکھتے تھے

چھپا کے اپنی سسکتی سُلگتی سوچوں سے
محبتوں کے عروج و زوال رکھتے تھے

کچھ ان کا حسن بھی ماورا مثالوں سے
کچھ اپنا عشق بھی ہم بے مثال رکھتے تھے

خطا نہیں جو کھلے پھول راہِ صرصر میں
یہ جُرم ہے کہ وہ فکرِ مآل رکھتے تھے