اکثر میرے دوست فون کرکے، میل کرکے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں۔ میرا ان کو یہی جواب ہوتا ہے کہ جس طرح اتنی دور رہتے ہوئے آپ بے خبر ہیں۔ ہمیں بھی کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اوپر دی گئی ویڈیو فوج کی جانی خیل کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ اس پیش قدمی کے بعد تمام راستے بند کر دئیے گئے ۔ وہاں سے آنے والے متاثرہ خاندانوں کو شمالی وزیرستان کی طرف دھکیل دیا گیا ایسے میں وہاں کے حالات کے متعلق جاننا بہت مشکل ہے۔ میرے کئی شاگرد ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کے موبائل فون بند ہیں۔ بس ہم لوگ صرف شیلنگ کی آوازیں سن رہے ۔ اور وہ بھی ایسی زبردست کہ نہ دن کو چین نہ رات کو آرام ۔ ہم لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ جانی خیل اور بکا خیل اتنا بڑا علاقہ تو نہیں ابھی تک تو اس شیلنگ سے وہ کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہوگا۔ مگر علاقے کا صحیح احوال کسی کو معلوم نہیں۔ شہر کا احوال کیا لکھوں۔ جس شہر کی شامیں بیلے کی خوشبو سے معطر رہتی تھیں۔ جہاں ڈھول کی تھاپ پر اٹھتے ہوئے جوانوں کے ہاتھ دکھائی دیتے تھے۔ جو شہر جنوبی اضلاع میں ایک اہم کاروباری مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب سنسان پڑا ہے۔ شہر کا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ خصوصی طور پر نچلا طبقہ بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ اور نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔ کرفیو میں نرمی کے دوران میں نے اکثر دیکھاکہ مزدور مزدوری کی تلاش میں نکلتے ہیں مگر انہیں مزدوری نہیں ملتی۔ ریڑھی والے کی بکری نہیں ہوتی ۔ یعنی ایک طرح سے اپنے ہی علاقوں میں لوگ آئی ڈی پیز بن گئے ہیں۔ جن کی زندگی آہستہ آہستہ مشکلات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آپریشن کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ اتنی جلدی ختم ہونے والا نہیں۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ متاثرہ افراد کی طرف خصوصی توجہ دے۔ ااس کے علاوہ عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ آپریشن ذدہ علاقوں میں میڈیا کو جانے کی اجازت دی جائے تاکہ آپریشن کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات دئیے جا سکیں۔
منگل, جون 16, 2009
کرفیو
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تازہ صوتحال بیان کرنے کا یاک بار پھر شکریہ۔ آپ نے جو مشورے دیے وہ آپ تک ہی رہیں گے کیونکہ فوج کے پاس دل نہیں ہوتا صرف گولی ہوتی ہے۔ حکومت چونکہ بے بس ہے وہ کسی اور کی جنگ لڑ رہی ہے اس لیے اس کا کام ہی اپنوں کی لاشوں پر سیاست اور تجارت کرنا ہے۔ فی الحال سوائے صبر کے کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
جواب دیںحذف کریںصورتحال سے آگاہ کرنے کا شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںیقیناَ فوج کے پاس تو کوءی ماہر معاشیات نہیں کہ وہ اس آپریشن کے بالواسطہ اخراجات کا تخمینہ لگا سکے لیکن حکومت کو بہر حال سوچنا چاہیءے بشمول اس سب لوگوں کے جو آپریشن کے سخت حامی ہیں۔
میرا پاکستان نے ٹھیک کہا
جواب دیںحذف کریںفوج کے پاس دل نہیں گولی ہوتی ہے
وہ بھی عوام کے نوالے بیچ کر
بلکہ عوام کو ہی بیچ کر حاصل کئے گئے پیسے کی
ہونہہ، فوج اور درد دل، صاحب فوج کی درد دلی میں زلزلہ کے دنوں میں ملاحظہ کر چکا ہوں۔ بس مجھے اجازت دیں کہ میں اس پر کچھ ہی نہ کہوں تو بہتر ہے۔
جواب دیںحذف کریںفوج کو بری زمہ اس لئے قرار دیا جا سکتا ہے کہ اب سارے فیصلے عوامی حکومت لے رہی ہے. کتنے پیسے لے کر کتنے لوگوں کو مارنا ہے یہ کام حکومت کا ہے آخر اباما نے بلنک چیچک دینے سے معذرت کی ہے کچھ تو کام لیا جاۓ گا بربریت کا سارا بوجھ امریکہ پر ڈالنا بھی درست نہیں. ( طنز )
جواب دیںحذف کریں