جمعرات, جنوری 24, 2013

ترقی پسند تحریک


1926ءمیں اردو ادب میں ایک نئی تحریک نے جنم لیا ، اور ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی ابتداءمیں اس تحریک کا پر جوش خیر مقدم ہوا۔
پس منظر
1917ءمیں روس میں انقلاب کا واقعہ ، تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ثابت ہوا ۔ اس واقعہ نے پوری دنیا پر اثرات مرتب کئے ۔ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی اس واقعہ کے گہرے اثرات پڑے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں تیزی آئی ۔ دوسری طرف ہندو مسلم اختلاف میں اضافہ ہوا ۔ ان حالات اور سیاسی کشمش کی بدولت مایوسی کی فضا چھانے لگی ، جس کی بنا پر حساس نوجوان طبقہ میں اشتراکی رجحانات فروغ پانے لگے ۔ شاعر اور ادیب طالسطائے کے برعکس لینن اور کارل مارکس کے اثر کو قبول کرنے لگے ۔ جبکہ روسی ادب کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ مذہب کی حیثیت افیون کی سی ہے۔ مذہب باطل تصور ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ معاش ہے۔ اس طرح اس ادب کی رو سے سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے اور ادب کا کام مذہب سے متنفر کر کے انسانیت میں اعتقاد پیدا کرنا ہے ۔ اس طرح یہ نظریات ترقی پسند تحریک کے آغاز کا سبب بنے۔
دوسری طرف 1923ء میں جرمنی میں ہٹلر کی سرکردگی میں فسطائیت نے سر اُٹھایا ، جس کی وجہ سے پورے یورپ کو ایک بحران سے گزرنا پڑا۔ ہٹلر نے جرمنی میں تہذیب و تمدن کی اعلیٰ اقدار پر حملہ کیا ۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادبیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان شعراء و ادباء میں آئن سٹائن اور ارنسٹ ووکر بھی شامل تھے۔ ہٹلر کے اس اقدام پر جولائی 1935ء میں پیرس میں بعض شہرہ آفاق شخصیتوں مثلاً رومن رولان ، ٹامس مان اور آندر مالرو نے ثقافت کے تحفظ کے لیے تمام دنیا کے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلالی ۔اس کانفرس کا نام تھا:
The world congress of the writers for the defence of culture.
ہندوستان سے اگر چہ کسی بڑے ادیب نے اس کانفرس میں شرکت نہیں کہ البتہ سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے ہندوستان کی نمائند گی کی ۔ اس طرح بعد میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے کچھ دیگر ہندوستانی طلبا کی مدد سے جو لندن میں مقیم تھے۔ ”انجمن ترقی پسند مصنفین“ کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن کا پہلا جلسہ لندن کے نانکنگ ریستوران میں ہوا۔ جہاں اس انجمن کا منشور یا اعلان مرتب کیا گیا ۔ اس اجلاس میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں سجاد ظہیر ، ملک راج آنند ، ڈاکٹر جیوتی گھوش اور ڈاکٹر دین محمد تاثیر وغیرہ شامل تھے۔ انجمن کا صدر ملک راج آنند کومنتخب کیا گیا ۔ اس طرح انجمن ترقی پسند مصنفین جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی وجود میں آئی ۔
مقاصد
ترقی پسندتحریک نے اپنے منشور کے ذریعے جن مقاصد کا بیان کیا وہ کچھ یوں ہیں:
فن اور ادب کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجات دلانا اور فنون لطیفہ کو عوام کے قریب لانا۔
ادب میں بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا۔
واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا۔ بے مقصد روحانیت اور بے روح تصوف پرستی سے پرہیز کرنا۔
ایسی ادبی تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائینٹیفک رجحانات کو فروغ دے۔
ماضی کی اقدار اور روایات کا ازسر نو جائزہ لے کر صر ف ان اقدار اور روایتوں کو اپنانا جو صحت مند ہوں اور زندگی کی تعمیر میں کام آسکتی ہوں۔
بیمار فرسودہ روایات جو سماج و ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ان کو ترک کرنا وغیرہ۔
مقبولیت
ترقی پسند تحریک کے مذکورہ بالا مقاصد سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کے منشور کے منظر عام پر آتے ہی اس کا خیر مقدم کیا گیا۔ چنانچہ ہندوستان میں سب سے پہلے مشہور ادیب اور افسانہ نگار منشی پریم چند نے اسے خوش آمدید کہا۔ علامہ اقبال اور ڈاکٹر مولوی عبدالحق جیسے حضرات نے اس تحریک کی حمایت کی اور اس تحریک کے منشور پر دستخط کرنے والوں میں منشی پریم چند، جوش، ڈاکٹر عابد حسین، نیاز فتح پوری، قاضی عبدالغفار، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، علی عباس حسینی کے علاوہ نوجوان طبقہ میں سے جعفری، جاں نثار اختر، مجاز حیات اللہ انصاری اور خواجہ احمد عباس کے نام قابل ذکر ہیں۔
نتائج
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تحریک نے جن مقاصد اور موضوعات کا تعین کیا تھا ان کے حصول میں یہ لوگ ادبی سطح پر کس حد تک کامیاب ہوئے ۔ اور حصول مقاصد کی کوشش میں فن کے تقاضے کہاں تک ملحوظ رکھے اس نقطۂ نظر سے جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اس تحریک نے جو بلند بانگ دعوئے کئے تھے ، ان کے مقابلے میں ان لوگوں نے جو ادبی سرمایہ پیش کیا وہ مایوس کن ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تحریک میں دو قسم کے لوگ شامل تھے۔ ایک وہ لوگ جو اس تحریک کے آغاز سے پہلے بھی اچھے فنکار تھے اور اس کے خاتمے کے بعد بھی اچھے فنکار رہے۔
وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک کے نظریات کو غور و تدبر کے بعد اپنی فکر ی تربیت کرکے اپنے احساس کا حصہ بنایا اور فنی خلوص کو مارکسی نظریہ کے لیے کام کرتے ہوئے بھی مد نظر رکھا ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ان لوگوں میں کرشن چندر، فراق، فیض، احسان دانش ،ندیم، ساحر وغیرہ شامل ہیں۔ دراصل یہ لوگ تحریک کے وجود سے پہلے بھی اچھے فنکار تھے اور تحریک کے خاتمے کے بعد بھی اچھے فنکار تھے۔
بعد میں تحریک کے خلاف ایک ردعمل اُٹھا جس کے کئی اسباب تھے مثلاً منشور کو نظرانداز کرنا ، روسی ادب کی سستی نقل، اپنی زمین سے کمزور ناطہ ، ماضی سے انحراف ، دوغلا پن، غزل کی مخالفت، آمرانہ حکمت عملی وغیرہ۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...