منگل, نومبر 26, 2013

فسانۂ آزاد

مولانا عبدالحلیم شرر پنڈت رتن ناتھ سرشار کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
” آپ نے ”فسانہ آزا د کیا لکھا زبان اردو کے حق میں مسیحائی کی ہے۔“
بیگم صالحہ عابد حسین ”فسانہ آزاد کے متعلق لکھتی ہیں،
”اردو زبان سمجھنے کے ليے ”فسانہ آزاد“ پڑھنا چاہیے۔“
فسانہ آزاد اودھ اخبار میں مسلسل ایک سال تک شائع ہوتا رہا۔ اور کافی مقبول ہوا ۔ قارئین اخبار ہر قسط کے ليے بے تاب رہتے ۔ اور شوق سے اسے پڑھتے ۔ اردو ادب میں دراصل یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اخبار میں باقاعدہ طور پر ناول کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لیکن آج تک یہ بات متنازعہ ہے کہ فسانہ آزاد کو کس صنف نثر میں شمار کیا جائے۔ اسے ناول کہا جائے یا داستان اس بارے میں ڈاکٹر انور سیدید لکھتے ہیں، ” فسانہ آزاد“ ناول کی تکنیک سے باہر کی چیز ہے۔ نہ پلاٹ ہے اور نہ واقعات ہیں۔ ربط اور تسلسل بھی نہیں ملتا ۔ بلکہ بعض واقعات تو ایسے ہیں کہ ان کا مرکز ی قصے سے کوئی تعلق نہیں اس ليے ان کے نکال دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ اب جبکہ یہ ناول بھی نہیں تو اس کا شمار کونسی صنف ِ ادب میں ہوتا ہے اس بارے میں پریم پال اشک لکھتے ہیں، ” دراصل ”فسانہ آزاد “ناول اور افسانے کی کڑی ہے جس کو ہم دوسر ے لفظوں میں صحافتی ناول Serial fictionبھی کہتے ہیں۔ پریم پال کے اس رائے سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ فسانہ آزا د ایک صحافتی ناول ہے۔ اور جو مرتبہ اور مقام فسانہ آزاد کو حاصل ہوا وہ کسی اور صحافتی ناول کو نہ مل سکا
اسلوب
بقول ایک محقق ،
” فسانہ آزاد میں کردار بولتے ہیں انسا ن باتیں کرتے ہیں، خود سرشار نہیں۔ اس ليے ان کے اسلوب میں توانائی ، اوریجنیلیٹی اور اصلیت ہے۔“
تقلید
پروفیسر آل احمد سرور نے سرشار کی نثر کو فسانہ عجائب کی ترقی یافتہ صورت قرار دیا ہے۔ یعنی انھوں نے اپنی اس کتاب میں رجب علی بیگ سرور کی اسلوب کے حوالے سے تھوڑی بہت تقلید ضرور کی ہے۔ مثال کے طور پر ” دیکھتے کیا ہیں کہ ابر نور بہار ، نسیم مشکبار نے تما م شہر کو نمونہ ارم بنا دیا ہے۔“
اس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں جن میں ہمیں سرور کے اسلوب کا رنگ ملتا ہے۔ اس ليے اس بارے میں پریم پال اشک لکھتے ہیں،
” فسانہ آزاد میں جہاں تقلیدی انداز ملتا ہے وہاں صاف اور صحیح طور پر منشی رجب علی بیگ سرور کی جھلک نظر آتی ہے۔“
لیکن ناول میں سرشار کا اپنا تخلیقی رنگ بھی نمایاں ہے۔ پریم پا ل اشک نے سرشار کے اسلوب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے ایک تقلیدی انداز اور دوسرا تخلیقی ۔ تقلیدی انداز میں صریحاً رجب علی بیگ کے اسلوب اور زبان کی جھلک نظرآتی ہے۔ اور سرور کی سی مسجع اور مقفٰی عبارت ملتی ہے۔ مگر سرشار ایسا اسلوب صرف منظر نگاری کے وقت اختیار کرتے ہیں۔ اس کے علاو ہ انھوں نے ناول میں اپنا انفرادی اسلوب برتا ہے جو کہ اُن کا اپنا تخلیقی رنگ ہے۔
بیگماتی زبان
پنڈت رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد میں خاکروب سے لے کر نواب تک اور کنجڑوں سے لے کر بیگم تک ہر طبقے کی زبان استعمال کی ہے۔ اور یہ لطف یہ کہ ہر طبقہ اور پیشے کے مطابق بو ل چال کا انداز برتا ہے۔محققین کی تحقیق کے مطابق سرشار نے بیگماتی زبان بچپن سے اپنے پڑوس میں رہنے والی مسلمان مستورات سے سیکھی تھی ۔ یہی وہ درسگاہ تھی جہاں اسے انہیں زبان ورثے میں ملی۔ اور انہوں نے اپنے سینے میں سال ہا سال چھپائے رکھا اور آخر اتنے سالوں کے بعد اسے فسانہ آزاد کی شکل میں پیش کردیا۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...