جمعہ, مئی 16, 2014

جنت کی تلاش (رحیم گل)

تحریر فقیرا خان فقری
ناول جنت کی تلاش بیک وقت رومانوی ، سیاسی اور سماجی ناول ہے۔ جس میں تاریخی حوالوں کو بھی بروئے کار لایا گیا
ہے۔ چنانچہ ہم اسے تاریخی عنصرسے خالی بھی نہیں کہہ سکتے ۔ ناول کاآغاز کوئی چونکا دینے والا یا پر کشش نہیں ہے۔ اس کا آغاز سیدھے سادے انداز میں سفر نامے جیسا ہے۔ کہانی نگار نے شروع میں تشریحات کے ذریعے قاری کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ جس کی وجہ سے فنی طور پر ناول کے انداز کو دھچکا سا لگا ہے۔ ناول کی پوری فضاءپر تین بڑے کرداروں میں شامل امتل چھائی ہوئی ہے۔ امتل کا بھائی عاطف اور دوست وسیم بھی کہانی کے بڑے کردار ہیں لیکن مرکزی حیثیت امتل کو ہی حاصل ہے۔
امتل اور اس کا بھائی پڑھنے والے کو ہر وقت شکوک و شبہات اور پس و پیش میں مبتلا رکھتے ہیں۔ یہ بات الجھا دیتی ہے کہ مانسہرہ کے ڈاک بنگلے اجنبیوں کی طرح رہتے ہوئے جبکہ اس سے پہلے امتل اور اس کے بھائی عاطف کی وسیم کے ساتھ دعا و سلام بھی نہیں ہوئی تھی اچانک عاطف وسیم سے آکر کہتاہے کہ میرا روالپنڈی میں ضروری کام ہے میری بہن میرے ساتھ نہیں جانا چاہتی تم اس کا خیال رکھنا یہاں آپ سے بہتر ہمیں کوئی نظر نہیں آتا وغیرہ ۔ اور امتل کا کھلنڈرے چھوکروں کی طرح وسیم کی جیپ میں اگلی سیٹ پر بیٹھ جانا سچا سہی لیکن ہمیں ضرور عجیب سا لگتا ہے۔
اسی طرح رات کو امتل کا بیمار پڑ جانا اور عاطف کا وسیم کے پاس آنا اور کہنا کہ میں اور چوکیدار ڈاکٹر کو لانے جارہے ہیں اُن کے پاس گاڑی موجود ہے اور بیمار کو جلد ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ جائیں اور ڈاکٹر کو لائیں اور تب ڈاکٹر بیمار کا معائنہ کرے بھائی جاتے ہوئے اپنی بہن کو ڈاکٹر ہی کے پاس کیوں نہیں لے کے جاتا۔ تاکہ جلد از جلد ڈاکٹر کی رائے لی جا سکے۔ لیکن شاید جان بوجھ کر امتل کو کسی مرد کے حوالے کرنا چاہتا ہے اس لیے کہ آئندہ بھی وہ اس قسم کے مواقع فراہم کرتا رہتا ہے۔ گلگت اور سکردودریائوں سے خوف کھانے کا حیلہ بناتے ہوئے وہ امتل اور وسیم کو اکیلا چھوڑ دیتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ امتل لڑکی ہو کر دریائوں سے نہیں ڈرتی اور عاطف مرد ہو کر دریائوں سے لرزاں ہے۔ یہ ایسے واقعات اور حالات ہیں کہ جن میں کوئی فطری پن دکھائی نہیں دیتا۔بلکہ ایک زبردستی اور جبر دکھائی دیتا ہے۔ جیسے ٹھنڈے سریے کو کسی نے طاقت سے ٹیڑھا کر دیا ہو۔
علاوہ ازیں امتل اور وسیم سے روالپنڈی سے جہازمیں بیٹھ کر کراچی چلے جاتے ہیں یہاں (مانسہرہ ) وہ جس فوکسی میں سڑکوں پر فراٹے بھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ کراچی میں بھی ان کے پاس ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ جہاز میں فوکسی کو نہیں لے جاسکتے تھے۔ آیا ان کے پاس اس طرح کی دو گاڑیاں تھیں یا ایک ہی گاڑی کراچی کیسے پہنچی یہ وہ کڑیاں ہیں جو کہانی میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے خلا کا باعث بنتی ہے۔ امتل کا کردار خود کشی کی ناکام کوشش بھی کرتا ہے۔ ذاتی طورپر مجھے اور تمام انسانوں کو چاہیے کہ وہ ایسی نامراد شخص کے ساتھ ٹوٹ کر ہمدردی کرے لیکن وہ خود کشی کرنے میں ناکام رہی ہو۔ جس نے خود کشی کی آرزو میں بھی ناکامی کا منہ دیکھا۔ اس کی مایوسی اور حسرت ناگفتہ بہ ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ امتل سے ہمیں ذرہ برابر ہمدردی یا محبت نہیں ہوتی۔ ہم اس کی اس نامرادی اور مایوسی کے پس منظر میں کارفرما حالات و واقعات کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کردار میں کہیں بھی کمزوری یا مظلومیت دکھائی نہیں دیتی ۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...