بدھ, مئی 27, 2009

ملا وجہی (سب رس)۔

پروفیسر افتخار احمد شاہ اپنے مضمون ”دکن میں اسالیب نثر “ میں لکھتے ہیں
سب رس اپنے موضوع ، زبان اور اسلوب کے اعتبار سے ایک ایسی تصنیف ہے کہ جسے اس دور کی جملہ تصانیف میں سب سے زیادہ ادبی اہمیت کی مالک ہونے کا مقام حاصل ہے۔ جسے موضوع کی دلچسپی ، جذبے کی موجودگی، زبان کی دلکشی اور اسلوب کی انفرادیت پر خالص ادبی تحریر قرار دیا جاسکتا ہے۔
سب رس ایک تمثیل:۔
سب رس کو عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر وجہی نے لکھا۔ اس کتاب کو اردو نثر کی اولین کتاب ہونے کا شرف حاصل ہے۔یہ وجہی کہ اپنی طبع ذاد نہیں اس کتاب میں فتاحی نیشاپوری کی مثنوی ”دستور العشاق“(نظم )اور ”قصہ حسن ودل “ کو نثر کےپیرائے میں تمثیل کے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ تمثیل انشاءپردازی کی اس طرز کو کہتے ہیں جس میں کسی تشبیہ یا استعارہ کو یا انسان کے کسی جذبے مثلاً غصہ،نفرت، محبت وغیرہ کو مجسم کرکے یا دیوی دیوتاؤں کے پردے میں کوئی قصہ گھڑ لیا جاتا ہے۔ یہ قصہ صوفیانہ مسلک کا آئینہ دار ہے۔ مگر اپنے اسلوب اور بیان میں سب رس ایک کامیاب تمثیل ہے۔ اس میں حسن و دل اور عقل و دل کی جنگ کو بڑی خوبصورت اور کامیاب تمثیل کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔
سنگ میل:۔
سب رس اردو نثر کا سب سے ممتاز اور ترقی یافتہ شاہکارہے۔ اس میں اسلوب بیان نے ایک خاص انگڑائی لی ہے اور زندگی کی آنکھ کھولی ہے۔ سب رس سے پہلے جو نمونے اردو نثر میں ملتے ہیں ۔ اسے اردو نثر کا دور بدویت کہا جاسکتا ہے۔ یعنی اس دور میں وہ انداز بیان تھا جس میں لہجے کا دیہاتی پن، کہنے کا سادہ بے تکلف اور درست انداز اور آرائش کی ہر کوشش سے آزاد تھا ۔جتنے لوگوں نے اس زمانے میں لکھا، مذہبی مسائل پر لکھا اور ان کے مخاطب عوام تھے جن تک بات پہنچانا مقصود تھا۔ اس لیے سادگی ، سلاست و راست بیانی کے علاوہ شیرازہ بندی اور فقروں کی ساخت سے بے پروائی کا رویہ عام تھا۔ مگر ”سب رس“ اردو نثر کا ایک ایسا سنگ میل ہے جس میں اس بات کی کوشش نظر آتی ہے کہ مصنف اپنی بات کو موثر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
اسلوب:۔
سب رس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی ترقی یافتہ زبان اور اس کا اسلوب بیان ہے۔ سب رس میں پہلی دفعہ زبان اردو کی ایک ترقی یافتہ صورت ہمارے سامنے آئی اور پہلی دفعہ زبان کے ایسے اسالیب اور زبان کے ایسے ایسے خصائص وجودمیں آئے جن کی بنا پر ”سب رس“ کی زبان اس سے پہلے کے مصنفوں کی زبان سے اور اپنے معاصروں کی زبان و اسلوب سے علیحدہ ہو گئی۔ پروفیسر شیرانی لکھتے ہیں
جو چیز ”سب رس “ کو ہماری نگاہ میں سب سے زیادہ قیمتی بناتی ہے۔ وہ اس کے اسالیب ہیں۔ جب ہم ان اسالیب کا موجودہ زبان سے مقابلہ کرتے ہیں توآج کی زبان میں اور اس زبان میں خفیف سا فرق معلوم ہوتا ہے۔

ہفتہ, مئی 23, 2009

تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے

کراچی سے آنے والی خبروں نے ہم پشتونوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جس پاکستان کی سالمیت کے نام پر لڑے جانے والی جنگ میں ہماری نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس پاکستان کے بسنے والے لوگ آج ہمیں کہہ رہے ہیں کہ صوبہ سرحد سے آنے والے افراد کی رجسٹریشن کرائی جائے اور انھیں صرف کیمپوں تک محدود رکھا جائے۔ خیر رجسٹریشن کی بات تو چلیں مان لیتے ہیں۔ اس لیے کہ آبادی کی اتنی بڑی نقل مقانی کا کوئی نہ کوئی ریکارڈ رکھنا اشد ضروری ہے۔ مگر یہ بات حلق سے نہیں اتر رہی کہ متاثرین کو کیمپوں تک محدود رکھا جائے۔ یا پھر ان کو صوبہ سرحد سے نکلنے ہی نہ دیا جائے۔ دوستو! کیا پاکستان کے کسی بھی شہر میں کسی بھی حالت میں مجھے آباد ہونے کا حق حاصل نہیں۔ اگر نہیں تو پھر پاکستان کو ایک یونٹ میں رکھنے کا فائدہ کیا ہوا۔ اگر مجھے سندھ میں رہنے کے لیے الطاف بھائی کا ویزہ درکار ہوگا تو پھر ایسے پاکستان کو میں اپنا پاکستان کیسے کہوں گا۔ کیا واقعی یہ میرا پاکستان ہے۔ جس کے حکمرانوں کی غلط پالیسویں کی کاشت کی ہوئی فصل کو آج میرے بچوں کے خون سے سینچا جارہا ہے۔ جہاں میرے خون کا سودا کرکے اس پاکستان کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمایا جارہا ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے باجود مجھے اس مٹی سے محبت ہے۔ میں اس میں رہنا چاہتا ہوں یہ میرا وطن ہے میرے بچوں کا وطن ہے۔ اس کا نقصان میرا نقصان ہے۔ اگر یہ ملک تقسیم ہوا تو شاید میں زندہ نہ رہوں۔ مگر نجانے اس محب وطن پاکستانی کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ اور کیوں زبردستی اسے دہشت گرد یا باغی بنایا جاررہا ہے۔ ویسے الطاف بھائی آپ سے ایک سوال ہے۔ تقسیم ہند کے دوران آپ بتا سکتے ہیں گاندھی اور جناح کے درمیان یہ بات کہاں طے ہوئی تھی۔ کہ ہندوستان کے مسلمان پاکستان ہجرت کریں گے۔ مگر اس کے باوجود جب وہاں حالات خراب ہوئے تو لاکھوں لوگوں نے ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کی۔ کیا وہ ہجرت بھی غیر قانونی تھی۔ کیا ان لوگوں کو بھی آج تک کیمپوں تک محدود رکھا جاتا تو اچھا ہوتا۔

جمعرات, مئی 21, 2009

مقدماتِ عبدالحق

مقدمہ عربی کی اصطلاح ہے جو دوسری زبانوں کی کتابوں کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی بہت استعمال ہوتی ہے۔ اور اس کا تعلق مقدمہ الجیش سے ہے۔ جیش کہتے ہیں لشکر کو۔ وہ ہر اول لشکر جو کہ فوج کے آگے چلتا تھا۔ اس کومقدمہ الجیش کہا جاتا تھا۔
جہاں تک ادبی مفہوم کا تعلق ہے تو مقدمہ سے مردا یہ ہے کہ کتاب کے شروع میں کتاب کے مصنف یا مولف کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ اس تعارف میں اُس کے زندگی کے حالات اور اُس کے کردار کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں اُس کی مختلف تصانیف پر بھی اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی ہے۔ حالات اور سیرت پر روشنی ڈالنے کے بعد کتاب کی ادبی، فنی اور لسانی حیثیت بھی متعین کی جاتی ہے۔ اردو ادب میں مقدمہ نگاری کی باقاعدہ ابتداءکے سہرا مولوی عبد الحق کے سر ہے۔ اُن کے مشہور مقدمات میں ” سب رس کا مقدمہ“ ’انتخاب کلام میر“ اور ”باغ و بہار کا مقدمہ شامل ہیں۔
مولوی صاحب کے مقدمات:۔
مقدمات عبدالحق میں سب سے اہم وہ مقدمے ہیں جو خود ان کی مرتب کی ہوئی کتابوں پر لکھے گئے ہیں۔ یہ کتابیں اردو کے قدیم کلاسیکی ادب سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کتابوں پر مولوی صاحب کے مقدمے تحقیقی اور تنقیدی نقطہ نظر سے روشنی ڈالتے ہیں۔ جس سے ان کی کتابوں کے مصنفوں کے حالات ، شخصیت ، ماحول اور ادبی مرتبے کے تمام خدوخال واضح ہو جاتے ہیں ۔ ان مقدمات میں مولوی صاحب کے ذوق تحقیق نے عہد ماضی کے بیشتر مخفی حقائق کی نقاب کشائی کی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہماری ادبی اور تہذیبی تاریخ میں انقلاب آفرین اضافے ہوئے ہیں اور مستقبل کے مورخین و محققین کے لئے راہیں صاف ہو گئی ہیں۔
مولوی عبدالحق نے میر تقی میر پر دو معرکتہ الارا مقدمے لکھے ہیں ۔ ایک ان کے انتخاب کلام میر پر ہے اور دوسرا میر کی خود نوشت ، سوانح حیات ، ”ذکر میر ‘ ‘ پر ہے۔ یہ مقدمے آ ج سے برسوں پہلے لکھے گئے ہیں لیکن ان میں میر کی زندگی ، شخصیت ، اور شاعرانہ مرتبے پر پورے اطمینان سے دوٹوک انداز میں تحقیق کی گئی ہے اور تنقیدی بصیرت سے خیال افروز فیصلے دئیے گئے ہیں۔

منگل, مئی 19, 2009

رشید احمد صدیقی (مضامینِ رشید)۔

مضامین رشید۔ رشید احمد صدیقی کے 20 مضامین پر مشتمل کتاب ہے۔ ان مضامین کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ان میں مزاحیہ مضامین میں چارپائی ، ارہر کا کھیت ، گواہ ، مغالطہ ، دھوبی اور حاجی صاحب ہیں۔ اپنی یاد میں ، سرگزشت، مولانا سہیل ، مرشد ، حاجی صاحب اور ماتا بدل ان کی شخصیت نگاری ( خاکہ نگاری) کی اولین نقوش ہیں۔ سرگزشت عہد گل ، اپنی یاد میں اور سلام ہو نجد پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور سرسید احمد خان کی شخصیت سے عبارت ہیں ۔ جبکہ مرشد ، آمد مین اورد ، اپنی یادمیں اور پاسبان انشائیے ہیں۔پروفیسر وحید اختر مضامین رشید کے بارے میں کہتے ہیں
مضامین رشید ،میں محض علی گڑھ نہیں ، ہندوستان کی جہد آزادی بھی ہے۔ برطانوی انگریز اور ہر قسم کے ہندوستانی بھی ہیں۔ پہاڑوں کی سیر بھی ہے، ریل کا سفر بھی ہے ، پھلوں کابیان بھی ہے ۔اور لکھنو بھی ، ہسپتال بھی ، ڈاکٹر بھی، نرسیں بھی ، دوست بھی ہیں ملازمین بھی ، بڑے لوگ بھی ہیں او رمزدور بھی ۔ اور یہی نہیں ہندوستان کا وہ دیہات بھی جو پریم چند کی کہانیوں اور ناولوں میں ملتا ہے۔کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم متفرق مضامین نہیں ایک مسلسل افسانے کے اجزاءیا ناول کے متفرق ابواب پڑھ رہے ہیں۔
مضامین رشیدکو اردو ادب میں ایک اہم مقام اور حیثیت حاصل ہے ۔ آئیے ان مضامین کے خصوصیات او ر اسلوب کا جائزہ لیتے ہیں،
علی گڑھ کا اثر:۔
ان مضامین کے عنوانات اگرچہ ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں لیکن ان سب کا محور ماحول اور فضاءعلی گڑھ کالج (علی گڑھ مسلم یونیوسٹی ) اور سرسید احمد خان کی شخصیت ہیں۔ رشید احمد صدیقی آ پ کو دنیا جہاں میں گھوما پھرا کے آپ کے ساتھ دنیا جہاں کی باتیں کرکے آخر میں علی گڑھ کالج اور سرسید احمد خان کی شخصیت پر لا کھڑا کردے گا۔ ان مضامین سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مصنف کو خود علی گڑھ سے کتنی محبت اور لگائو ہے اور سرسید احمد خان کی شخصیت سے کس قد ر عقیدت رکھتے ہیں۔ اور خود ان سے کس قدر متاثر ہیں اپنے مضامین میں علی گڑ ھ کے اثر کے بارے میں خود رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں
اپنے طالب علمی کی یاد ہر شخص کو خوشگوارمحسوس ہوتی ہے چاہے وہ زمانہ تکلیف و تردد ہی کا کیوں نہ رہا ہو۔ ۔۔۔اورجس نے اپنی زمانہ طالب علمی کا بہترین زمانہ ایسے ادارے میں بسر کیا جو ہندوستان کے مسلمانوں کی دیرینہ علمی اور تہذیبی ورثے کا امین ، ان کے حوصلوں کا مرکز اور امیدوں کا سرچشمہ رہا ہو ایسے ساتھیوں میں گزر ا ہو جو مذہب ملک سوسائٹی اور علوم و فنون کی دی ہوئی طرح طرح کی نعمتوں اور برکتوں سے بہر مند تھے۔ ایسی روایات ایسی فضا ایسا ساتھ ایسے روز شب ان سب کا آخر کچھ تو اثر ہوتا ہی ہے۔

جمعہ, مئی 15, 2009

دجلہ

شفیق الرحمن کی کتاب دجلہ سے کچھ اقتباسات پیش کر رہاہوں۔ یہ کتاب میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔ شفیق الرحمن کا شگفتگہ اسلوب اس کتاب کی پسندیدگی کی بنیادی وجہ ہے۔ ان کے اسی اسلوب کی جھلک آپ کو ان اقتباسات میں بھی نظر آئے گی۔

ثانیہ نے عینک اتار دی اور ایک اور لبادہ بھی۔ اب وہ کہیں بہتر لگ رہی تھی۔
یہ بتائیے کہ آپ تاریخ اسی طرح پڑھتی ہیں؟ میں نے اسے چھیڑا۔
تو اور کس طرح پڑھتے ہیں؟
آپ جغرافیہ بھی ساتھ ملا لیتی ہیں۔ ناپ ، لمبائی ، چوڑائی ، بلندی وغیرہ ۔۔۔یہ سب کچھ جغرافیے میں ہوتا ہے۔ تاریخ کو کسی اور زاویے سے لینا چاہیے۔ اس میں طرح طرح کے موڑ آتے ہیں۔ مثلاً اب مجھ سے کہا جائے کہ آنسہ ثانیہ کا جغرافیہ بیان کرو، تو میں کہوں گا کہ ثانیہ کا قد پانچ فٹ چارانچ کے لگ بھگ ہے۔ وزن نو سٹون ہوگا۔ بے شمار رومال سکارف ہٹا دئیے جائیں تو خوش شکل ہے۔ انگریزی بولتی ہے۔ لیکن اگر تاریخ بیان کی جائے تو پھر ثانیہ کی سبز آنکھوں کا بھی ذکر ہوگا جو مصر میں نہیں ہوتیں۔ بالوں کی سنہری جھلک کا حوالہ بھی دیا جائے گا ۔ اور یہ کہ اس کا نام ثانیہ نہیں اوّلہ ہونا چاہیے۔ یہ بھی کہا جائے گا کہ ثانیہ بیت النیل ہے۔ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک کسی کے جغرافیے میں جاذبیت نہ ہو اس کی تاریخ دلچسپ نہیں ہوسکتی۔۔۔وہ مسکرانے لگی۔(ص: 25)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اتوار کو پروگرام بنا کہ چل کر دیکھیں تو سہی کہ کہاں جاتے ہی۔
لاری سے دوسرے پہاڑ پر پہنچے ۔ وہاں چند ہم عمر مل گئے جنہیں چاء پر مدعو کیا۔ اگلے اتوار کو وہ آئے تو بڑی عالمانہ اور کارآمد گفتگو ہوئی۔ کئی انٹلکچول موضوع زیر بحث رہے۔ مثلا۔۔۔۔معاشرتی اصلاحات ، شاعری کی پرانی قدریں اور لڑکیاں۔۔۔۔کاشت کاری میں مشینوں کی اہمیت، لڑکیاں اور مغرب میں جذباتیت کا زوال ۔۔۔۔داستان حاجی بابا اصفہانی ، لڑکیاں اور مشرق میں جذباتیت کا عروج۔۔۔۔لڑکیاں، برنارڈشا اور لڑکیاں۔۔۔۔۔۔
پھر انہوں نے بلایا ، ایک آسیب زدہ سی عمارت میں جہاں کبھی اچھے وقتوں میں کلب ہوا کرتا تھا۔ ہال میں داخل ہوتے ہی لڑکیوں کی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئے۔۔۔۔دہنے ، بائیں ، سامنے جدھر نظر جاتی لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔
کچھ دیر میں جب کیمپ کی مسلسل تنہائی کا اثر کم ہوا او رانہیں گنا تو لڑکیاں صرف چھ نکلیں۔(ص:50)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر کوئی پوچھ بیٹھا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں۔۔۔؟
شادی کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جوانی جہان گردی اور فیلڈ سروس کی نذر ہوگئی۔ ادھیڑ عمر کا ہوا تو پھر خیال چھوڑ دیا۔ دراصل محبت فقط نوعمروں کے لیے ہے۔ اس عمر میں ہر چیز خوامخواہ رنگین معلوم ہوتی ہے۔ ہر جذبے میں بے ساختگی ہوتی ہے اور بلا کا خلوص۔ محبوب ایک دفعہ مسکرا دے تو ہفتے مہینے خوشی خوشی گزر جاتے ہیں اور یقین ہو جاتا ہے کہ امتحان میں ضرور کامیابی ہوگی، مالی حالت بہتر ہو جائے گی ، دوست دشمن سب مہربان ہو جائیں گے اور محبوب کی بے رخی سے سب تہس نہس ہو جائے گا۔ آئرلینڈ کی وہ جھلمل جھلمل کرتی ندیاں ، وہ لہلہاتے کھیت ، شادب کنج گھنے جنگل مجھے اب تک یاد ہیں۔ اگرچہ ان لڑکیوں کے نام اور چہرے یاد نہیں جو ان دنوں میرے ساتھ ہوا کرتیں ۔ پتہ ہی نہیں چلتاتھا کہ کب بادل آئے تھے اور کب بوندیں تھم گئیں۔ غروبِ آفتاب کے بعد اتنی جلدی چاند کیسے نکل آیا۔۔۔ذرا دیر پہلے گھپ اندھیرا تھا، دفعتاً یہ روشنی کہاں سے آگئی۔ وہ جگمگاتی صبحیں۔۔۔۔وہ رنگین شامیں ۔۔۔۔وہ مستی کے شب و روز۔۔۔۔محبت کی اصلی عمر وہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد دکھاوا ہے۔ اگرچہ میں شادی کے قضیے سے بالکل مبرا ہوں اور تم لڑکوں کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اپنی کمر پر زین نہ کسوانا لیکن اگر خدانخواستہ کبھی پھنسنے لگو تو جذبات کے دھارے میں مت بہہ جانا۔ ایسا چہرہ چننا جس کی کشش اور دلربائی دیرپا ہو۔ شاید تم نہیں جانتے کہ گزرتے ہوئے ایام چہروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اورمحض دس پندہ سال کا وفقہ چہروں میں کیسی کیسی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ (ص:208)۔

منگل, مئی 12, 2009

مولانا ابو الکلام آزاد (غبارِ خاطر)۔

ہم ایک شخص سے کوئی بات کہنا چاہیں اور و ہ ہمارے سامنے موجود نہ ہو تو اپنی بات اور گفتگو اُسے لکھ بھیجنا مکتوب نگاری کہلائے گا۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں
خط دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہے۔
مکتوب نگاری ادب کی قدیم صنف ہے مگر یہ ادبی شان اور مقام و مرتبہ کی حامل کب ہوتی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال ہے ۔
خطوط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اس کو خاص ماحول خاص مزاج، خاص استعداد ایک خاص گھڑی اور خاص ساعت میسر آجائے تو یہ ادب بن سکتی ہے۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے۔ تو اس میں بھی خطوط نویسی کا دامن بہت وسیع ہے ۔ اور خطوط نویسی کی روایت اتنی توانا ہے کہ بذات خود ایک صنف ادب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال غالب کے خطوط ہیں۔ ابوالکلام آزاد بھی مکتوب نگاری میں ایک طرز خاص کے موجد ہیں۔مولانا کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ” مکاتیب ابولکلام آزاد “، ”نقش آزاد“، ”تبرکات آزاد“، ”کاروانِ خیال“اور غبار خاطر قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ شہرت ”غبار خاطر “ کے حصے میں آئی ۔
غبار خاطر:۔
غبار خاطر مولانا آزاد کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو قلعہ احمد نگر میں زمانہ اسیری میں لکھے گئے ۔ مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط و کتابت کرنے کی۔ اس لئے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور ”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ایک خط میں شیروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں
جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لئے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔

اتوار, مئی 10, 2009

مبارک ہو

مبارک ہو جناب۔ اب آپ کے لائف سٹائل کو کوئی خطرہ نہیں۔ صبح اٹھیے۔ واک کے لیے پارک میں جائیے۔ رات کو پارکوں میں جائیے۔ ائیر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر حالات کا تجزیہ کیجیے۔ بچوں کو بڑے بڑے سکولوں میں داخل کیجیے ان کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیجیے۔ مگر میرا کیا ہوگا۔ میں اپنے گھر سے دور ایک خمیے میں پڑا ہوا ہوں۔ نہ کھانا ہے نہ پینے کو پانی۔ میرے بچے بیمار ہیں۔ اس لیے کہ آپ کے لائف سٹائل کو بچانے کے لیے مجھے قربانی دینا پڑے گی۔ اس کے علاوہ یہ قربانی ان ڈالروں کے لیے بھی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔ ملک ترقی کرے گا اور آپ کا کاروبار خوب چمکے گا۔ مگر مجھے کیا ملے گا۔ عمر بھر کی محرومی۔ یہ جنگ جس کسی کی بھی ہو آپ کی ہو یا امریکہ کی مگر میری ہرگز نہیں۔ مجھے جنگ نہیں۔ امن چاہیے۔ میرے بچوں کو ایک چھت چاہیے میں اس کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ پگڑی باندھ سکتا ہوں ڈاڑھی رکھ سکتا ہوں۔ بس مجھے امن چاہیے صرف امن ۔ اب اگر آپ کو جنگ پسند ہے تو بسم اللہ کیجیے اپنا گھر میرے لیے خالی کر دیجیے اور میرے خیمے میں مقیم ہو جائیے تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ لائف سٹآئل کیا ہوتا ہے۔ میں آپ کے گھر میں رہ کر گزارہ کرلوں گا۔ خصوصی طور پر الطاف بھائی کا لندن والا گھر میرے لیے اچھا رہے گا۔ کیوں الطاف بھائی میرے خیمے میں رہنے کے لیے آپ لندن سے کب لوٹ رہے ہیں اور میرے اور میرے بچوں کے لیے ویزہ اور ٹکٹ کا بندوبست بھی جلد کر دیجیے تاکہ آپ کہ حب الوطنی کا یہ شاندار مظاہرہ ملک کے تمام افراد کے سامنے ایک بڑی مثال بن سکے۔

ہفتہ, مئی 09, 2009

محمود نظامی (نظر نامہ)۔

محمود نظامی کا ”نظر نامہ“ بیسویں صدی میں سفر نامے کے اس موڑ کی نشاندہی کر تا ہے جہاں قدیم روایتی انداز سے صرف ِنظر کرکے فنی طور پر سفر نامے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ۔ڈاکٹر انور سدید نے جدید سفر نامے کی تعریف یوں کی ہے
سفر نامے کا شمار ادب کے بیانیہ اصناف میں ہوتا ہے اس صنف میں مشاہدے کا عمل دخل زیادہ اور تخلیق کا عنصر بے حد کم ہے سفر نامہ چونکہ چشم دید واقعات و حالات کا بیانیہ ہوتا ہے اس لئے سفر اس کی اساسی شرط ہے۔
نظر نامہ کے بارے میں مولانا صلاح الدین فرماتے ہیں
کہنے کو تو یہ سفر نامہ ہے لیکن اصل میں یہ ان چند نادر تاثرات کا مجموعہ ہے جو صاحب مضمون نے اپنی عمر کے مختلف حصوں میں اپنے وطن سے دور دیار ِ فرنگ کی جلوتوں اور خلوتوں میں قبول کئے ۔
یہ سفر نامہ فنی اعتبار سے کیسا ہے ؟ اس کا ادبی معیار کیا ہے؟ کن خوبیوں سے متصف اور کن خامیوں کا مرتکب ہوا ہے ؟ مصنف نے ان مباحث میں پڑنے کی بجائے اُسے ”نظر نامہ“ کا نام دے دیا ۔ اور نہایت صاف گوئی سے یہ بھی کہہ دیا۔
سیاحت میرا مستقل مشغلہ ہے نہ کہ سفر نامہ لکھنا میرا مقصدِ حیات یہ تو ایک اتفاق تھا کہ اکتوبر 1952 ءمیں مجھ کو زندگی کا بیشتر حصہ گھر کی چاردیواری میں بسر کر چکنے کے بعد باہر نکلنے کا موقع ہاتھ آگیا۔
مصنف کے اس اعتراف کے باوجود جب ہم برصغیر کے سفر ناموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نظر نامہ اردو ادب کا پہلا باقاعدہ سفر نامہ ہے جو جدید دور کے تقاضوں پر پور ا اترتا ہے۔بیسویں صدی کے نصف اول میں جو سفر نامے لکھے گئے ہیں ان میں سر عبدالقادر کے سفر نامے ”مقام خلافت“ کوقدیم اور جدید سفر ناموں کی درمیانی کڑی کہا جاتا رہا ہے لیکن سفر نامہ نگاری کا تیسرا دور جو 1950ءکے بعد شروع ہوا اس دور کا پہلا باقاعدہ سفر نامہ بلاشبہ محمود نظامی کا ”نظر نامہ ‘ ‘ ہے۔
نظر نامہ محمود نظامی کے عالیٰ ذوق اور ادیبانہ اسلوب کی عکاسی کرتا ہے وہ کوئی باقاعد ہ ادیب نہ تھے اور نہ نظر نامہ سے پہلے ان کی کوئی ادبی کاوش منظر عام پر آئی تھی ۔ وہ ریڈیوپاکستان کے ملازم تھے اور اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں اکتوبر 1952ءکو یونیسکو کے زیر اہتمام دوسرے ملکوں کی نشرگاہوں کا جائزہ لینے کے لئے ملک سے باہر جانے کا موقع ملا چونکہ وہ ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اس لئے اس سفر سے واپسی پر انہوں نے اس کی روداد لکھ کر ہر خاص و عا م کی داد حاصل کی۔ نظامی کا اصل نام مرزا محمود بیگ تھا وہ زمانہ طالب علمی ہی سے خواجہ حسن نظامی سے بہت متاثر تھے ایک دفعہ اپنے والد کے ساتھ خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خواجہ اپنے نوجوان عقیدت مند کی ذہانت اور صلاحیت سے بہت خوش ہوئے اور ازرائے شفقت انہیں اپنی کتابیں دیں اور کہا
کہ”صاحبزادے آج سے تم نظامی ہو۔“ محمود بیگ نے اس نسبت کو بڑی خوشی اور فخر سے قبول کیا اور مرزا محمود بیگ کے بجائے محمود نظامی کہلانے لگے۔آئیے نظر نامہ کاجائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اس سفر نامے کو اردو ادب کا پہلاباقاعدہ سفر نامہ مانا جاتا ہے۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...