بدھ, ستمبر 28, 2011

ذوق کی قصیدہ نگاری

 ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی قصیدے کی تعریف یوں کرتے ہیں،
” لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معنی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں۔“
 قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ مگر قصیدے میں ردیف لازمی نہیں ہے۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے زیادہ سے زیادہ کوئی حد مقرر نہیں ۔ اُردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں۔
اُردو میں قصیدے کی ابتداء:۔
 فتح ایران کے بعد قصیدے کی صنف مسلمانوں کے ساتھ عرب سے ایران اور ایران سے سرزمین پاک و ہند میں آئی ۔ اردو قصیدے کی ابتداءدکن سے ہوئی ۔ دکن کا شاعر نصرتی اردو کا پہلا قصیدہ گو شاعر ہے۔
 قصیدہ کی دو قسمیں ہیں (١) ا تمہید جس میں قصیدے کے چاروں اجزاء، تشبیب، مدح، گریز ، دعا، موجود ہوتے ہیں ۔ (٢) مدحیہ جو تشبیب اور گریز کے بغیر   براہ راست مدح سے شروع ہوتے ہیں
ذوق کی قصیدہ نگاری:۔
 شیخ محمد ابراہیم ذوق اس عہد کے شاعر ہیں جب اردو شاعری میں الفاظ و تراکیب کی شوخی اور چستی محاورہ اور روزمرہ کی خوبصورتی اور قدرت ِ زبان کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اس اعتبار سے ذوق کو اپنی زندگی میں ہی استادی کی خلعت فاخرہ نصیب ہوئی۔ ذوق نے اسی روش کے پیش نظر شاعری کو اپنی خصوصی لوازم سے معطر کیا اوراپنی شاعری کو فکر و خیال کی توانائیوں اور خوبصورتیوں سے مرصع کیا۔
 قصیدہ نگاری کے فن سے ذوق کا نام الگ کرنا ایسا ہی مشکل ہے جس طرح گوشت سے ناخن کا جدا کرنا محال ہے۔ قصید ہ نگاری سے ذوق کا نام چسپاں ہے اگر ذوق کو قصیدہ سے قصید ہ کو ذوق سے علیحدہ کردیا جائے تو یہ فن خزاں کی طرح ویران نظرا ئے گا۔
 ذوق نے اپنی قصیدہ نگاری کی مشعل کو سودا کے چراغ سے روشن کیا ہے ۔ ذوق جب اُنیس سال کے تھے اسی وقت سے وہ ایک مستند قصیدہ گو شمار کئے جاتے تھے چنانچہ اس عمر میں انہوں نے اکبر شاہ ثانی کی تعریف میں ایک قصیدہ کہاا س کا مطلع ہے۔

اتوار, ستمبر 18, 2011

ہجویاتِ سودا

بعض لوگ ہجو کو ایک مستقل صنف سخن سمجھتے ہیں حالانکہ یہ قصیدے ہی کی ایک قسم ہے۔ جو نظم کسی کی مذمت برائی یا عیوب کے بیان میں لکھی جائے وہ ہجو یا ہجویہ قصیدہ کہلاتی ہے۔ نفرت ، اور غصہ کا بے محابا اظہار ہجو کی اساس ہے۔ جیسے تحسین و پسندیدگی ، قصیدہ نگاری سے مخصوص ہیں ۔ لیکن جہاں قصیدہ ایک مخصوص ہیئت کا پابند ہے، ہجو کے لئے کوئی ہیئت متعین نہیں۔ چنانچہ ہجو کی شناخت کا واحد وسیلہ موضوع کی تئیں شاعر کا رویہ ہے۔ اگر شاعر کسی فرد، واقعے یا شے کی تذلیل کرتا ہے تو ہجو ہوگی۔ خواہ اس منفی ردعمل کے اظہار کے لئے شعری ہیئتوں میں سے کسی کا بھی انتخاب کیا گیاہو۔ہجو نگار اپنے مخالف کو تباہ و برباد کردینا چاہتا ہے ۔ ہجو ایسی ہو جو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دے اور اگر یہ ممکن نہیں تو کم از کم اس کی اتنی تذلیل کر دے کہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہے۔ ہجو نگاراپنی نفرت اور غصہ پر قابو رکھنے کا اہل نہیں ہوتا ۔
 اردو میں شمالی ہند کی اردو شاعری کے آغاز ہی سے ہجو گوئی کی ابتداءہوئی ہے۔ اس سلسلے میں میر جعفر زٹلی غالباً پہلے ہجو گو شاعر ہیں۔ لیکن ہجو یہ گوئی کو باقاعدہ فن کی صورت سودا ہی نے دی۔
ہجویات سودا:۔
 بقول رشید احمد صدیقی
”سودا کو ہجو ہجا میں نہ صرف فضل و تقدیم حاصل ہے بلکہ ان کے کلام سے طنزیات کی بہترین استعداد بھی نمایاں ہے۔“
 اردو میں باقاعدہ طور پر ہجو گوئی کا آغاز سودا سے ہوتا ہے۔ سودا نے اپنی ہجووں کے لئے قصیدہ ، مثنوی ، قطعہ، غزل ، رباعی ، ترکیب بند، ترجیع بند، غرض سبھی اصناف سخن استعمال کئے ہیں۔سودا نے فارسی ہجویات کی روایت کے مطابق ہر قسم کی لعن طعن ، طنز و تشنیع ، سب و شتم اور فحاشی سے کام لیا ہے اور خودہی دعویٰ کیاہے کہ اس فن میں خاقانی اور عبید زاکانی بھی ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ کسی کے ہجو لکھنے پر اتر آتے تو اسے بے عزت ہی کرکے چھوڑتے ۔ آزاد ”آب حیات“ میں لکھتے ہیں کہ ”غنچہ“ نام ان کا ایک غلام تھا۔ ہر وقت خدمت میں رہتا تھا۔ اور ساتھ قلم دان لئے پھرتا تھا۔ جب کسی سے بگڑتے تو فوراً پکارتے ارے غنچے لا تو قلم دان، ذرا میں اس کی خبر تو لوں ، یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔ پھر شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منہ کھول کر وہ بے نقط سناتے کہ شیطان بھی امان مانگے۔

جمعرات, ستمبر 08, 2011

سودا کی قصیدہ نگاری

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی قصیدے کی تعریف یوں کرتے ہیں،
” لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معنی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں۔“
 قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے پہلے شعر کے دونوں مصرعی اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ مگر قصیدے میں ردیف لازمی نہیں ہے۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے زیادہ سے زیادہ کوئی حد مقرر نہیں ۔ اُردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں۔
اردو میں قصیدے کی ابتدا:۔
 فتح ایران کے بعد قصیدے کی صنف مسلمانوں کے ساتھ عرب سے ایران اور ایران سے سرزمین پاک و ہند میں آئی ۔ اردو قصیدے کی ابتداءدکن سے ہوئی ۔ دکن کا شاعر نصرتی اردو کا پہلا قصیدہ گو شاعر ہے۔
قصیدہ کی دو قسمیں ہیں (١) ا تمہید جس میں قصیدے کے چاروں اجزاء، تشبیب، مدح، گریز ، دعا، موجود ہوتے ہیں ۔ (٢) مدحیہ جو تشبیب اور گریز کے بغیر   براہ راست مدح سے شروع ہوتے ہیں

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...