منگل, جولائی 21, 2009

اردو وکی پیڈیا

وکی پیڈیا کے ساتھ میرا تعارف کچھ سال پہلے ہوا۔ اس وقت میں اردو ویب کے ساتھ کام کررہا تھا۔ وکی جیسا منصوبہ دیکھ کر جی میں آیا کہ اردو ویب پر کام کرنے والے بہت ہیں لیکن وکی پر کام کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے اور رضاکاروں کا وہاں پر فقدان ہے۔ اس لیے وکی پر کام شروع کیا۔ اس وقت شاید وکی پر مضامین کی تعداد صرف پانچ سو تھی۔ مگر ان چند سالوں میں دوستوں کی محنت سے اب وہاں پر مضامین کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔ اور جس طرح ابتداء میں جو خواب ہم نے دیکھا تھا کہ وکی پر مضامین کی تعداد دس ہزار کو پہنچے آخر کار پورا ہوا۔ پچھلے دنوں دیوان عام میں علوی صاحب کی طرف سے وکی پیڈیا کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کی گئی تھیں جس کا تعلق بلاگرز کے حوالے سے تھا۔ اسی حوالے سے سوچا کہ کچھ نہ کچھ وکی کے بارے میں لکھا جائے تاکہ دوستوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جا سکتے۔

وکی دراصل ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پر کام کرنے کے بہت زیادہ مواقع ہیں۔ آپ تاریخ ، سیاست ، سائنس جونسا بھی شعبہ آپ کو پسند ہو کچھ نہ کچھ لکھ کر اس کار خیر میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اکثر بلاگرز کو شکایت رہی ہے کہ وہاں کے منتظمین کی طرف سے تعاون نہیں کیا جاتا اور مضامین کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ تو اس کے لیے میری تجویز یہ ہے کہ جو کچھ بھی لکھیں غیر جانبدار لکھیے میں یقین دلاتا ہوں کہہ آپ کے مضمون کو وہاں جگہ ضرور ملے گی۔ اور اگر کوئی مسئلہ ہے بھی تو تبادلہ خیال کا پیج کس لیے ہے۔ انگریزی وکی پر تبادلہ خیال کے پیجز کو دیکھیے وہاں بات منوانے کے لیے کیا کیا جھگڑنے نہیں ہوتے لیکن منتظمین کو قائل کیا جاتا ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر لکھاری وکی پیڈیا پر وہی لوگ آتے ہیں جو کسی سیاسی جماعت یا مذہبی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مضامین غیر جانبداری کا عنصر ذرا کم ہوتا ہے اس لیے جب منتظمین کی طرف سے کوئی اعتراض کیا جاتا ہے تو بات بگڑ جاتی ہے۔ لیکن پلیز میں بلاگرز سے اپیل کرتا ہوں کہ وکی کی ترقی و ترویج ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس کی طرف ضرور توجہ دی اجائے۔

نئے مضامین کے علاوہ وکی پر اور بھی بہت سا کام ہے۔ اگر آپ دوست لکھ نہیں سکتے تو مضامین کی نوک پلک درست کرنے ان کے درمیان روابط قائم کرنے۔ ان کو نئے زمرہ جات میں تقسیم کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے بھی آپ اردو زبان کی خدمت کر سکتے ہیں۔ کیونکہ وکی پر بہت سا مواد بکھرا پڑا ہے ان کے درمیان روابط اور ان کو بہتر زمرجات میں تقسیم کرکے یوزرز کو بہتر سے بہتر معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ امید ہے آپ دوست میری اس درخواست پر ضرور غور فرمائیں گے۔

وکی کے ذیلی مضوبے وکیشنری میں بھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ وہاں پر اردو ایک اچھے اور بہتر لغت کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہاں پر رضاکار موجود ہوں۔ جو وقتاً فوقتاً ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرتے رہیں اور ساتھ ہی الفاظ کے تراجم میں بھی مدد دے سکیں۔وکی اقتباس اور وکی بکس بھی ایسے ہی پلیٹ فارمز ہیں جہاں دوستوں کی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔

پیر, جولائی 13, 2009

جنگ اور امن

اٹھارہ سو چھپن سے اٹھارہ سو انسٹھ کے درمیان لکھا جانے والا ناول جنگ اور امن ٹالسٹائی کی بلند پروازی کا کمال اورآج وہ روسی ادب ہی نہیں بلکہ عالمی ادب کا ایک عظیم فن پارہ اور شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے۔ تین سو سے زیادہ کرداروں پر مشتمل یہ ناول ایک لافانی تخلیق ہے ۔ فکری اعتبار سے اس کی وسعت اور پھیلا ؤ اس کی عظمت کی دلیل ہے۔ جنگ اور امن کا زمانہ اانیسویں صدی کے پہلے بیس پچیس سال ہیں۔ شروع میں روسی سوسائٹی اور اخلاق کی پستی اور کھوکھلے پن کا منظر دکھایا گیا ہے پھر ہم سیاست اور جنگ کے میدان میں پہنچ جاتے ہیں جب نپولین روس پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور آوسٹرلز کی لڑائی کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد امن کا مختصر دور آتا ہے لیکن ایک بار پھر نپولین روس پر حملہ کر دیتا ہے اور ماسکو میں داخل ہوجاتا ہے ۔ مگر واپسی پر نپولین کی فوج موسمی حالات کی وجہ سے تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ نپولین کا یہ حملہ اور پسپائی روسی قوم میں ہمدردی ۔ اتحاد و عمل اور ایثار کے بیج بو دیتا ہے۔ اس ناول کے لازوال کرداروں میں انسانی جذبوں کی خوبصورت عکاسی ملتی ہے۔ نفرت ۔ جوش۔ محبت ۔ رقابت جیسے انسانی رویوں کو بہت خوبصورتی سے اس ناول کا حصہ بنایا گیا ہے۔

پچھلے دنوں اس ناول کی ڈرامائی تشکیل دیکھنے کا موقع ملا۔ عام طور پر کلاسیکس کے بارے میں یہ رائے دی جاتی ہے کہ ان کی ڈرامائی تشکیل فن پارے کی عظمت کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتی ۔ لیکن یہ ڈرامائی تشکیل کافی حد تک اس تاثر کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ جنگ اور امن کی یہ منی سیریل دیکھتے ہوئے مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا جیسے میں ان کرداروں کے ساتھ جی رہا ہوں۔ نتاشا۔ اندرے۔ سونیا۔ پیوش میرے آس پاس رہنے والے کردار محسوس ہو رہے تھے۔ اس لیے سوچا کہ اس عالمی کلاسیک کی ڈرامائی تشکیل کو آپ کے ساتھ بھی شئیر کیا جائے۔ نیچے ٹورنٹ کا لنک درج ہے جہاں سے آپ باآسانی یہ ڈرامہ ڈاون لوڈ کر سکتے ہیں۔

جنگ اور امن کا ٹورنٹ


جمعہ, جولائی 10, 2009

اے میرے شہر کے فنکار۔۔۔۔

اے میرے شہر کے فنکار تجھے کیا معلوم
میری مٹی میں دھڑکتے ہوئے طوفاں کیا ہیں
تیری سوچوں میں ابھی تک ہے وہی صبحِ بہار
تو نہ سمجھے گا یہاں درد کے امکاں کیا ہیں

وہ تیری سوچ کی گلیاں وہ تیرے کوچہ و در
آج بھی پچھلے زمانے کی طرح ہیں لیکن
نین سے نین لڑانے کے وہ دلکش منظر
آج بھی حشر اٹھانے کی طرح ہیں لیکن

ان پہ چھائی ہے کڑے وقت کی ایسی چادر
جس نے ہر نقش کو دامن میں چھپا رکھا ہے
غمِ اغیار کی پروردہ نگاہوں سے مگر
تو نہ سمجھے گا کہ اس کہر میں کیا رکھا ہے

وہی کاندھے جو سہارے تھے کسی ڈولی کے
آج اپنوں کے جنازوں سے بہت بوجھل ہیں
وہی چہرے جو سرِ شام کھلا کرتے تھے
ان پہ اب خوفِ خزاں نو کے گھنے بادل ہیں

تم نے اس شہر میں چلتے ہوئے ٹانگے دیکھے
اب ذرا تار پر لٹکی ہوئی ٹانگیں دیکھو
تم حسین رنگ زمانے کے بتاتے ہو مگر
یہ ذرا خون بہاتی ہوئی آنکھیں دیکھو

جا بجا کوچہ و دیوار سے لپٹا ہے لہو
ہر جگہ جلتے ہوئے گوشت کی بو آتی ہے
گیت خوشیوں کے کسی وقت بجا کرتے وقت
اب تو ہر سمت سے بڑھتی ہوئی ہَو آتی ہے

بے حسی ایسی گھٹا بن کے یہاں چھائی ہے
جس میں اک چاک بھی شاید کبھی امکان نہ بنے
دعوہِ ثانیِ عیسٰی تو سبھی کو ہے مگر
کوئی قائد بھی یہاں درد کا درماں نہ بنے

اے میرے شہر کے فنکار یہ افتادِ گراں
شک نہیں اس میں کہ غیروں کی عطا کردہ ہے
پر میرے اپنے ہی ملبوس بنے ہیں ان کے
اور درِ غیر ہی ان سب کا رخِ سجدہ ہے

یہ تماشا سرِ بازار تجھے کیا معلوم
سر پہ لٹکی ہوئی تلوار تجھے کیا معلوم
کیسے کٹتے ہیں یہ پُر ہول شب و روز یہاں
اے میرے شہر کے فنکار تجھے کیا معلوم۔۔

سلمان نذر

جمعرات, جولائی 02, 2009

مختار مسعود (آوازِ دوست)۔

چند علمی خیالات کو ایک منظم شکل دینا اور اختصار کے ساتھ بیان کرنا مضمون کہلایا۔ سرسید تحریک کے زیر اثر مضمون میں اصلاحی رنگ نمایاں رہا ۔ سرسید کے سارے مضامین یورپ کی تہذیب و تمدن سے متاثر ہو کر لکھے گئے ۔ اور ایک واضح شکل اختیار کرنے سے قاصر رہے۔ سرسید کے بعد اس صنف نے مزید ترقی کی اور تاریخی ، علمی ، سائنسی ، نفسیاتی اور سماجی تمام پہلوئوں کواپنے اندر سمو دیا۔ سرسید نے جن مضامین کی ابتداءکی اسکا نقطہ عروج جدید اردو ادب میں ”آواز دوست“ کی صورت میں سامنے آیا۔ ”آواز دوست“ اپنے اندر کئی ایسے پہلو رکھتی ہے جو اس سے پہلے مضامین کا موضوع نہیں رہے ۔ مثلاً جس طرح ادب، فلسفے اور تاریخ کو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کرکے پیش کیا گیا ہے اس پہلے ایسی مثال نہیں ملتی ، ”آواز دوست“ کے مضامین ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہے۔ ”آواز دوست“ کی صحیح قدر متعین کرنے کے لئے ایک نقاد کو اس کے منصب کے تمام حوالوں کو بروئے کار لانا پڑے گا۔بقول محمد طفیل ایڈیٹرنقوش
اس کتاب کے بارے میں چھت پھاڑ قسم کی تعریفیں ہوئیں ، بے شک یہ کتاب تعریف کے قابل ہے ۔ جتنا چاہیں جھوٹ بول لیں ،جتنا چاہیں سچ بول لیں۔ دونوں چکر چل جائیں گے۔ یہ گنجائش میں نے تو محمد حسین آزاد کی کتاب”آب حیات“ میں دیکھی یا پھر مختار مسعود کی کتاب ”آواز دوست“ میں۔
مختا ر مسعود علی گڑھ سے تعلیم یافتہ ہیں وہ محکمہ مالیات کے ایڈیشنل سیکرٹری تھے۔ یعنی پاکستانی بیورو کریسی کاایک حصہ تھے۔ اس کے علاوہ وہ مینار پاکستان کی تعمیر ی کمیٹی کے صدر بھی تھے۔ اُن کے والد صاحب علی گڑھ یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد رہ چکے تھے۔ مختا ر مسعود آج کل لاہور میں مقیم ہیں اور اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ آواز دوست کے علاوہ ”لوح ایام“ اور ”سفر نصیب“ کے عنوا ن سے اُن کے دو سفر نامے منظر عام پر آچکے ہیں۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...