منگل, جولائی 26, 2011

ظفری خان

میں نے پہلی بار ظفر علی خان ظفری کا نام بچپن میں سنا ۔ انتخابی پوسٹر پر اس شخص کی تصویر ایک سہمے ہوئے فرد جیسی دکھائی دے رہی تھی۔ جس کی بے حد گھنی بھوئیں چہرے پر شدید حیرت لیے ہوئے دیکھنے والوں کو بے وجہ ہنسنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔ اُس دور میں ہم انتخابات کے مفہوم سے مکمل ناواقف تھے مگر انتخابی پوسٹر جمع کرنے کا شوق پتہ نہیں کہاں سے چڑھ دوڑا تھا۔ یونین کونسل کے ان انتخابات کے نجانے کتنے ہی پوسٹر ہم نے دیواروں سے اکھاڑ کر اور کچھ لوگوں سے مانگ تانگ کر جمع کر لیے تھے۔ ان میں سے سب سے مخدوش اور اخباری کاغذ پر چھاپا گیا پوسٹر ظفر علی خان ظفری کا تھا۔ اس دور میں ہمیں صرف یہ معلوم تھا کہ ظفری علی خان ظفری انتخاب لڑ رہے ہیں اور سننے میں یہ بھی آتا تھا کہ اس کا مقابلہ ایک روایتی امیدوار کے ساتھ ہے جو سالوں سے اپنے اثررورسوخ اور طاقت کے بل پر انتخاب جیتتا آرہا ہے۔ مگر ظفری اس کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہے۔ اس کے جلسوں کا احوال بھی بڑوں سے معلوم ہوتا رہتا تھا سب بڑے اس کے جلسوں کو چٹخارے لے کر بیان کرتے اور ہمارے آنے پر وہ خاموش ہوجاتے ۔ ان کی اس خاموشی کی وجہ بعد میں معلوم ہوئی۔ انتخابات ہوئے اور ہمیں صرف انتا معلوم ہوسکا کہ ظفری خان ظفری کو گنتی کے چند ووٹ ہی مل سکے۔ جیت اسی امیدوار کی ہوئی جس کے مقابلے میں ظفری خان میدان میں اترے تھے۔
پھر جیسے جیسے عمر گزرتی گئی ہم پر ظفر علی خان ظفری کی زندگی کے چند دوسرے اہم باب کھلے ۔ پہلے تو جناب ایک نانبائی تھے دوسرا ان کی زبان میں لکنت تھی اور تیسرے ایک پیر میں بھی لنگڑ تھا۔ مگر ان تمام باتوں کے باجود ہم نے دیکھا کہ نوے کی دہائی میں ہونے والے ہر صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشن میں ظفری خان ظفری نے کاغذاتِ نامزدگی ضرور جمع کرائے۔ الیکشن کے دنوں میں ظفری خان ایک موسٹ وانڈڈ فیگر بن جاتے ۔ ان کے جلسوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے۔ یہ شعر ہم نے پہلی مرتبہ اسی دور میں سنا تھا۔
یہ بازی موت کی بازی ہے یہ بازی تم بھی ہارو گے
ہر گھر سے ظفری نکلے گا تم  کتنے ظفری مارو گے
ظفری خان کا انتخابی نشان جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ بندوق قرار پایا تھا۔ جلسوں میں وہ بندوق لے کر ہی سٹیج پر برآمد ہوتے ۔ ساتھ میں پس پردہ موسیقی کے طور پر ڈھول کی تاپ چلتی ۔ سب لوگ ناچتے گاتے ۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگتے اور پھر ظفری خان تقریر کرنا شروع کر دیتے ۔ اس تقریر میں وہ ان کے مقابلے میں کھڑے جاگیردار اور سرمایہ دار سیاسی قوتوں کی خوب سوشل بے عزتی کرتے ۔ ان کی کئی پشتوں تک کو نہ بخشتے۔  اس کے بعد دیگر شریکِ جلسہ بھی میدان میں کود پڑتے یہ سب ایسے سسٹم کے مارے لوگ ہوتے جن کو دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضروت ہوتی تھی ۔ ان کی طرف سے بھی خوب کانٹے کی تقاریر ہوتیں۔ لوگ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔ یوں شہر میں روز میلہ لگتا ۔ مگر جب انتخابات ہوتے تو ظفری خان کو وہی گنے چنے ووٹ ہی ملتے۔  پچھلے دو انتخابات میں ظفری خان بی اے کی شرط کی وجہ سے انتخاب میں حصہ نہ لے سکے۔ عمر ڈھل گئی بال سفید ہو گئے مگر ظفری خان آج بھی ان روایتی قوتوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار اور کمر بستہ ہیں۔  نہ ان کا حوصلہ پست ہوا اور نہ کبھی انہیں ڈر محسوس ہوا۔  میرے خیال میں لوگ آج بھی ظفری کو مسخرہ تصور کرتے ہیں ۔ اس کی باتوں کو ہنس کر ٹال جاتے ہیں شاید ظفری مسخرہ نہیں بلکہ وہ تو مزاحمت کی ایک بہت بڑی آواز ہے جو کہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور معذوری کے باجود سسٹم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاید اس قوم کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو پاگل تصور کر لیتے ہیں۔ جبکہ تمام تر شعور کے باجود خود ہم میں کچھ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔

جمعہ, جولائی 22, 2011

آبِ حیات (محمد حسین آزاد)۔

 بقول احسن فاروقی
محمد حسین آزاد نے اُردو تنقید نگاری کی بنیاد رکھی ٹیڑھی مگر پھر بھی کیا کم ہے کہ انہوں نے بنیاد رکھی تو۔
آبِ حیات
 اردو ادب میں تذکرے معاصر شعراءکے کلام کو پرکھنے کی اولین معروضی کوشش ہیں۔ بعض اوقات تذکرہ نگاروں کے تعصبات ان کی فیصلو ں پر اثراانداز ہوتے ہیں اور اکثر جگہوں پر تذکرہ عربی و فارسی تنقید کی توسیع دکھائی دیتی ہے اردو میں مغربی تنقید کے اثرات قبول کرنے کا آغاز تحریکِ سرسید سے منسلک ہے۔ اور اس سلسلے میں مولانا حالی کی تصنیف کو عام طور پر جدید تنقید کا نقطہ آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کتاب میں مغربی تنقید کے حوالے جا بجا ملتے ہیں۔ مگر جدید اردو تنقید کے آغاز کا سہرا حالی کے بجائے آزاد کے سر ہے۔ جس کے ہاں پہلی بار اردو تنقید کے سلسلے میں مغرب سے متاثر ہونے کے شواہد ملتے ہیں ۔اس کے علاوہ محمد حسین آزاد قدیم اور جدید تنقید کے سنگم پر دکھائی دیتے ہیں۔ آزاد نے تنقیدی نظریات پر کوئی باقاعدہ کتاب نہیں چھوڑی لیکن اس کے تنقیدی خیالات آبِ حیات ، نیرنگ خیال ، سخندانِ فارس جیسی کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف لیکچرز میں تنقید پر بالخصوص بات کی انہوں نے اپنی تنقیدی خیالات کا اظہار سب سے پہلے 15 اگست 1867ءمیں انجمنِ پنجاب کے مشاعرے میں اپنے ایک لیکچر بعنوان ”مشاعرے اور کلام ِ موزوں کے باب میں خیالات“ میں پیش کئے۔

بدھ, جولائی 13, 2011

تھرڈ ڈویژن (سید محمد جعفری)۔

جینے کی کشمکش میں نہ بیکار ڈالیے
میں تھرڈ ڈویژنر ہوں مجھے مار ڈالیے
پھر نام اپنا قوم کا معمار ڈالیے
ڈگری کو میری لیجیے اچار ڈالیے
کچھ قوم کا بھلا ہو تو کچھ آپ کا بھلا
میرا بھلا ہو کچھ مرے ماں باپ کا بھلا

جاتا ہے جس جگہ بھی کوئی تھرڈ ڈویژنر
کہتے ہیں سب کہ آگیا تو کس لیے ادھر
تو چل یہاں سے تیری نہ ہوگی یہاں گزر
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر ہوں میں ، مگر
یار رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
ہر شخص مجھ کو آنکھ دکھاتا ہے کس لیے

میں پاس ہو گیا ہوں مگر پھر بھی فیل ہوں
تعلیم کے اداروں کے ہاتھوں میں کھیل ہوں
جس کا نشانہ جائے خطا وہ غلیل ہوں
میں خاک میں ملا ہوا مٹی کا تیل ہوں
اوریونیورسٹی بھی نہیں ہے ریفائنری
صورت بھی تصفیے کی نہیں کوئی ظاہری

اخبار میں نے دیکھا تو مجھ پر ہوا عیاں
ہوتے ہیں پاس وہ بھی نہ دیں جو کہ امتحاں
یعنی کہ آنریری بھی ملتی ہیں ڈگریاں
میں جس زمیں پہ پہنچا وہیں پایا آسماں
ہے آسماں کی گردشِ تقدیر میرے ساتھ
ڈگری ہے اک گناہوں کی تحریر میرے ساتھ

گر ہو سکے تو مانگ لوں اک عمر کو اُدھار
اور امتحان جس کا نہیں کوئی اعتبار
اس امتحاں کی بازی لگاؤں گا بار بار
کہتے ہیں لوگ اس کو یہ مچھلی کا ہے شکار
یہ امتحان مچھلی پھنسانے کا جال ہے
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

جمعہ, جولائی 08, 2011

شعرالعجم (شبلی نعمانی)۔

 بقول عبدالشکور:۔
" حالی کی بعد شبلی تنقید کے سٹیج پر جلوہ فرما ہوتے ہیں متعدد و دلچسپ اور اہم تنقیدی تصانیف ملک کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ شبلی حیرت انگیز اوصاف کا مجموعہ تھے۔ بلند پایہ مورخ ، ادیب، شاعر ، محقق اور تنقید نگار تھے۔ طبیعت میں بلا کی شوخی اور تیزی موجود تھی بڑے گہرے عالم ، دقیقہ رس فاضل اور سخن سنج ماہر اور ماہر ادبیات تھے۔“    
 تنقید کے حوالے سے شبلی کی شخصیت اس قدر مقبول ِ عام نہیں جتنی کہ ایک مورخ ، سوانح نگار ، سیرت نگار اور شاعر وغیر ہ کے حوالے سے معروف ہے ۔ فنونِ نظر کے بارے میں بھی شبلی کے تنقیدی افکار مختلف مقالات اور تصانیف میں خال خال پائے جاتے ہیں۔ مگر ان کا خاص میدان شاعری کی تنقید ہے۔ جہاں تک ”موازنہ انیس و دبیر“ کا تعلق ہے اس میں شبلی نے مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کی ہے اور ساتھ ہی انیس اور دبیر کے مرثیوں کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے انیس کے کلام کو خاص طور پر اپنے پیش نظر رکھا ہے۔ اور اس کی مختلف خصوصیات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ جانبداری کے ساتھ ساتھ اس بحث کا انداز تشریحی اور توضیحی زیادہ ہے لیکن اس میں جگہ جگہ اعلیٰ درجہ کی تنقید کا احساس ضرور ابھرتا ہے۔ ایک اور اہم بات اس کتاب میں یہ ہے کہ اس میں شبلی نے فصاحت و بلاغت پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے مختلف پہلوئوں پر اصولی اورنظریاتی انداز ِ نقد برتا ہے جس میں شبلی کا تنقیدی شعور نمایاں ہے ۔ بہر حال یہ کتاب بھی تنقیدی اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے۔

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...