زمانہ طالب علمی سے ہی ہمارے کالج کی یہ روایت رہی ہے کہ تعلیمی سال کبھی بھی پورا نہیں ہونے پایا۔ اس لیے کہ قوم پرست سیاست کے اکھاڑہ ہونے کی وجہ سے یہاں کلاسوں کا بائیکاٹ اور سٹرائیکس ایک روایت رہی ہے۔ اس کالج میں ہم نے دیکھا کہ ہر سال گولیاں چلیں ، قتل ہوئے، ہاسٹلوں میں ایسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں جو قابل دست اندازی پولیس تھیں۔ مگر اس کے باوجود ایک نظام تھا جو چل رہا تھا۔ لولا لنگڑا ہی سہی۔ اساتذہ کی طرف سے یہ کوشش ہوتی تھی کہ جیسے تیسے ہو کورس کو مکمل کرایا جاسکے۔ اس طرح مارچ اپریل تک جیسے تیسے کالج کا نظام چلایا جاتا تھا۔ مگر اب کے سال رنگ آسمان ہی کچھ اور تھا۔ اور وہ جو کہ اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ یوں یہ لولا لنگڑا نظام بھی نامعلوم مدت کے لیے بند کر دیا گیا۔ اسمبلیوں میں تقریریں کرنے والے ہمارے لیڈر کلاشنکوف کی بجائے قلم کی مانگ کرتے نظر آتے ہیں مگر اب جو چھوٹا موٹاسہارا کتاب کا باقی تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ خیر کوئی بات نہیں قوم کو کتاب کی نہیں ڈالر کی ضرورت ہے۔ اور وہ آرہا ہے بڑی بھاری مقدار میں۔ کتاب سے کیا ہوتا ہے وہ تو انسان کو اپنی رائے اور حق کے لیے لڑنے کا پیغام دیتا ہے جبکہ اس قوم میں ایسے لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم ہمیشہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے لوگ ہیں۔ جو کتاب کے بغیر کیڑوں مکوڑوں جیسی زندگی آسانی سے گزار سکتی ہے۔ ملک بھر کے بہت تعلیمی ادارے دوبارہ سے کھول دیئے گئے ہیں لیکن جنوبی اضلاع میں بدستور تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں۔ اس طرح مشکل ہے کہ اس تعلیمی سال کو چلایا جاسکے۔ اور اگر دکھاوے کے لیے تعلیمی ادارے کھول بھی دئیے گئے تو خوف کے سائے میں پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں سیاست دولت کے زور پر آج سے شاید 42 سال قبل داخل کی گئی تھی اور آج تک نکالی نہیں جا سکی ۔ اور اب تو سب کچھ چوپٹ ہو چکا ہے
جواب دیںحذف کریں۴۲ سال کیا جناب۔ ۶۲ سال ہو چکے ہیں اب
جواب دیںحذف کریں