ارسطو |
حیرت کی بات یہ ہے کہ دو ڈھائی ہزار سال گزرنے جانے کے باوجود افلاطون ، ارسطو ، ہیوریس ، لان جائی نس پر وقت کی گرد نہیں جمنے پائی۔ ان کی نگارشات کے مطالعے کے بغیر ادبی تنقید کا مطالعہ تشنہ رہ جاتا ہے۔ اور تنقید کے بعض بنیادی اور اہم مسائل پر غور و فکر کی بصیرت پیدا نہیں ہوتی۔
ارسطو کا زمانہ افلاطون کے فوراً بعد کا زمانہ ہے وہ افلاطون کا شاگرد تھا لیکن شاعری اور ڈرامے کے بارے میں اس سے مختلف رائے رکھتا تھا۔ اس نے افلاطون کا نام لئے بغیر اس کے اعتراضوں کے جواب دیے ہیں خیال ہے کہ اس نے کئی مختصر کتابیں لکھیں جن میں سے ”فن خطابت “ ”RHETORIES“ اور فن شاعری یا ”بوطیقا“” ُPOETICS“ ہم تک پہنچی باقی انقلابات زمانہ کی نذر ہوگئیں ۔
اندازہ ہوتا ہے کہ کہ یہ ارسطو کی تقریروں کی یاداشتیں یعنی لیکچر نوٹس ہیں جن کے کچھ حصے ضائع ہوگئے ہیں۔ ”بوطیقا“ میں المیہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے لیکن طربیہ اور رزمیہ پر سرسری گفتگو ہے اور غنائیہ شاعری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی تشریح درکار ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تصنیف ”ارسطوسے ایلیٹ تک “ میں لکھتے ہیں۔” اس کا ذہن منطقی ، مزاج سائنسی اور فکر موضوعی ہے۔“
ادبی تنقید میں ”بوطیقا “ کی حیثیت پہلی باقاعدہ تصنیف کی سی ہے۔ اس کتاب میں ارسطو نے شاعروں کی وکالت کرتے ہوئے انہیں افلاطون کے الزامات سے بچانے کی کوشش کی ہے اور شاعری کو ایک مفید شے قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں۔
اندازہ ہوتا ہے کہ کہ یہ ارسطو کی تقریروں کی یاداشتیں یعنی لیکچر نوٹس ہیں جن کے کچھ حصے ضائع ہوگئے ہیں۔ ”بوطیقا“ میں المیہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے لیکن طربیہ اور رزمیہ پر سرسری گفتگو ہے اور غنائیہ شاعری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی تشریح درکار ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تصنیف ”ارسطوسے ایلیٹ تک “ میں لکھتے ہیں۔” اس کا ذہن منطقی ، مزاج سائنسی اور فکر موضوعی ہے۔“
ادبی تنقید میں ”بوطیقا “ کی حیثیت پہلی باقاعدہ تصنیف کی سی ہے۔ اس کتاب میں ارسطو نے شاعروں کی وکالت کرتے ہوئے انہیں افلاطون کے الزامات سے بچانے کی کوشش کی ہے اور شاعری کو ایک مفید شے قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں۔
” ارسطو نے ان تمام مسائل کو جو افلاطون نے اُٹھائے تھے ایک مربوط نظام ِ فکر میں تبدیل کر دیا۔“
ڈاکٹر سید عبداللہ بھی ایسی ہی بات کرتے ہیں۔
” ارسطو پیدائشی مفکر تھا جس نے چند خالصتاً جمالیا تی اصول قائم کئے“
شاعری کے بارے میں ارسطو کے شعری نظریات کی وضاحت کرنے سے پہلے افلاطون کے تنقیدی تصورات کو بیان کرتا ضروری ہے کیوں کہ ارسطو کے شعری نظریات اس وقت تک سمجھ نہیں آسکتے جب تک افلاطون کے تنقیدی تصورات کا ہمیں علم نہ ہو۔ افلاطون کے ”نظریات “ درحقیقت اس کے ”اعتراضات “ ہیں ۔ جن کا اجمالی خاکہ ذیل میں دیا گیا ۔
شاعری پر افلاطون کے اعتراضات:۔
ارسطو سے پہلے افلاطون کے نظریات علم و ادب پر چھائے ہوئے تھے۔ افلاطون ادبی نظریے کے خلاف تھا اس کے نزدیک اس کی مثالی ریاست میں شاعر کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اور اس کے خیال میں شاعر کو ریاست بدر کردینا چاہیے۔ کیونکہ وہ جھوٹے دیوتائوں کی جھوٹی تعریف پیش کرتا ہے۔ اس کی مثالی ریاست میں شاعر کے لئے کوئی جگہ ہے تو صرف اس صورت میں کہ شاعر کو معلم ِ اخلاق ہو۔ افلاطون کا دوسرا نظریہ تقلید فن ہے افلاطون کا خیال تھا کہ تمام فنون کی بنیاد نقل پر ہے۔ فن کار مظاہر قدرت پر مظاہر انسان کی نقل پیش کرتا ہے۔
ارسطو نے اس نظریے کی ازسرنو تشکیل کی اور آج ساری دنیا میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ فن کی بنیاد نقل پر ہے وہ تمام مسائل جو افلاطون نے اُٹھائے تھے ۔ ارسطو نے انھیں ایک مربوط نظام فکر میں تبدیل کر دیا۔ اس لئے تنقید کا اصل بانی اُسے سمجھا جاتا ہے۔ ارسطو نے تمام فنون ، مصوری، شاعری ، مجسمہ سازی، موسیقی کو اعلیٰ ثابت کیا ہے۔
شاعرارسطو کی نظر میں:۔
شاعر عام حالات و واقعات کو خاص بناتا ہے اور انھیں افاقیت عطا کرتا ہے اور اپنی انفرادی کیفیت میں اجتماعی رنگ پیدا کرکے اسے سب کے لئے قابلِ قبول بناتا ہے۔ ارسطو کا خیال ہے کہ شاعر بھی فلسفی کی طرح کائناتی سچائیوں کو ڈھونڈتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شاعر کے پاس کہنے کی اضافی خوبی بھی ہے۔
شاعری کے متعلق ارسطو کے نظریات:۔
ارسطو سے پہلے بھی تنقیدی نظریات ملتے ہیں۔ لیکن وہ خال خال اور منتشر حالت پائے جاتے ہیں۔ ارسطو کی کتاب بوطیقا کی مختصر نوعیت کے بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے ۔ کہ اس کتاب کا پہلا حصہ تا حال گم ہے اس پہلے حصے میں جو نظریات ملتے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔
١۔فن خطابت ٢۔شاعری کے بارے میں نظریات ٣۔ڈارمے کے متعلق نظریات ٤۔ المیہ ٥۔تزکیہ نفس
سب سے پہلے ارسطو نے شاعری کی چار اقسام بیان کیں ہیں۔
١۔المیہ ٢۔ طربیہ ٣۔غنائیہ ٤۔رزمیہ
ارسطو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے ہر قسم کی شاعری کو نقل قرار دیتا ہے آج بھی ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ شاعری زندگی کی نقل ہے۔ یہ نظریہ ارسطو نے افلاطون ہی سے اخذ کیا ہے اور مکمل وضاحت کرتے ہوئےلکھتاہے۔
”فن فطرت کی تقلید کرتاہے۔“
ارسطو کے نزدیک دیگر فنونِ لطیفہ کی طرح شاعری بھی نقالی ہے اور شاعری کے لئے جن لوازمات کی ضرورت ہے وہ ذیل ہیں۔
١۔ وہ اشیاءاور حالات جن کی نقالی کی جاتی ہے۔ ٢۔ وہ جن کے ذریعے نقالی کی جاتی ہے تخیل ، فکر ، مظاہر انسانی، مظاہر فطرت ٣۔وہ الفاظ جن کے ذریعے نقالی پیش کی جاتی ہے۔
ارسطو کے نزدیک شاعری کا افادی و اخلاقی پہلو:۔
شاعر عکس کے عکس کا بچاری ہوتا ہے۔ لیکن ارسطو کے ہاں یہ طریقہ کا ر بہت فطری ہے اس کے علاوہ افلاطون مطالعہ فن اور مطالعہ اخلاق میں بھی فرق نہیں برتتا۔ ارسطو نے اس فرق کو واضح کیا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے اس کا طریقہ کار سائنسی اور دو ٹوک ہے۔ ارسطو ”کیا ہے“ پر بحث کرتا ہے یعنی زندگی کی اصل کھری تصویر فن کے آئینے میں نظر آئے اور افلاطون ’ ’ کیا ہونا چاہیے“ پر بحث کرتا ہے۔ یعنی زندگی کی تصویر کو کتنا حسین اور دلکش ہونا چاہیے۔ اور یہ بات فن کی بنیاد کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اس طرح ادب ایک مخصوص نظریے کی تدریس کرتا ہے۔ اور زندگی کی حقیقی تصویر سے چشم پوشی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ارسطو کے عہد تک یہ بات طے شدہ تھی کہ شاعر کو معلمِ اخلاق ہونا چاہیے۔ لیکن ارسطو نے اس حقیقت کو پا لیا۔ کہ اخلاق کی تدریس شاعری کا افادی پہلو ہے جب کہ ارسطو افادی پہلو کی بجائے جمالیاتی قدرو ں کی پرچار کرتا ہے۔ اس کا تنقیدی پہلو یہ ہے کہ شاعری اخلاق کا سرچشمہ نہیں بلکہ شاعری ایک خاص قسم کی اعلیٰ مسرت پہنچاتی ہے۔ ارسطو نے اس نظریے کو یہاں تک محدود نہیں رکھا ۔ بلکہ اس کا خیا ل ہے کہ جو اذہان نارمل اور صحت مند ہوتے ہیں ۔ وہ جمالیاتی مسرت اس وقت حاصل کر سکتے ہیں کہ فن پارہ جمالیاتی تقاصوں پر پورا اترتا ہو۔
اس طرح ارسطو نے اخلاقی و افادی پہلوئوں کی ذمہ داری خالق کے کندھوں سے ہٹا کر قاری کے کندھوں پر ڈال دی ۔ ارسطو کے اس کام کا توازن بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ارسطو جمالیاتی حظ کو بنیادی اور اخلاقی تدریس کو ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ وہ اخلاقی تدریس کا منکر نہیں لیکن ایسی شاعری جو صرف اخلاقی تدریس کی پابند ہو ، کا قائل نہیں۔ سکاٹ جیمز لکھتا ہے کہ،
شاعری پر افلاطون کے اعتراضات:۔
ارسطو سے پہلے افلاطون کے نظریات علم و ادب پر چھائے ہوئے تھے۔ افلاطون ادبی نظریے کے خلاف تھا اس کے نزدیک اس کی مثالی ریاست میں شاعر کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اور اس کے خیال میں شاعر کو ریاست بدر کردینا چاہیے۔ کیونکہ وہ جھوٹے دیوتائوں کی جھوٹی تعریف پیش کرتا ہے۔ اس کی مثالی ریاست میں شاعر کے لئے کوئی جگہ ہے تو صرف اس صورت میں کہ شاعر کو معلم ِ اخلاق ہو۔ افلاطون کا دوسرا نظریہ تقلید فن ہے افلاطون کا خیال تھا کہ تمام فنون کی بنیاد نقل پر ہے۔ فن کار مظاہر قدرت پر مظاہر انسان کی نقل پیش کرتا ہے۔
ارسطو نے اس نظریے کی ازسرنو تشکیل کی اور آج ساری دنیا میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ فن کی بنیاد نقل پر ہے وہ تمام مسائل جو افلاطون نے اُٹھائے تھے ۔ ارسطو نے انھیں ایک مربوط نظام فکر میں تبدیل کر دیا۔ اس لئے تنقید کا اصل بانی اُسے سمجھا جاتا ہے۔ ارسطو نے تمام فنون ، مصوری، شاعری ، مجسمہ سازی، موسیقی کو اعلیٰ ثابت کیا ہے۔
شاعرارسطو کی نظر میں:۔
شاعر عام حالات و واقعات کو خاص بناتا ہے اور انھیں افاقیت عطا کرتا ہے اور اپنی انفرادی کیفیت میں اجتماعی رنگ پیدا کرکے اسے سب کے لئے قابلِ قبول بناتا ہے۔ ارسطو کا خیال ہے کہ شاعر بھی فلسفی کی طرح کائناتی سچائیوں کو ڈھونڈتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شاعر کے پاس کہنے کی اضافی خوبی بھی ہے۔
شاعری کے متعلق ارسطو کے نظریات:۔
ارسطو سے پہلے بھی تنقیدی نظریات ملتے ہیں۔ لیکن وہ خال خال اور منتشر حالت پائے جاتے ہیں۔ ارسطو کی کتاب بوطیقا کی مختصر نوعیت کے بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے ۔ کہ اس کتاب کا پہلا حصہ تا حال گم ہے اس پہلے حصے میں جو نظریات ملتے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔
١۔فن خطابت ٢۔شاعری کے بارے میں نظریات ٣۔ڈارمے کے متعلق نظریات ٤۔ المیہ ٥۔تزکیہ نفس
سب سے پہلے ارسطو نے شاعری کی چار اقسام بیان کیں ہیں۔
١۔المیہ ٢۔ طربیہ ٣۔غنائیہ ٤۔رزمیہ
ارسطو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے ہر قسم کی شاعری کو نقل قرار دیتا ہے آج بھی ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ شاعری زندگی کی نقل ہے۔ یہ نظریہ ارسطو نے افلاطون ہی سے اخذ کیا ہے اور مکمل وضاحت کرتے ہوئےلکھتاہے۔
”فن فطرت کی تقلید کرتاہے۔“
ارسطو کے نزدیک دیگر فنونِ لطیفہ کی طرح شاعری بھی نقالی ہے اور شاعری کے لئے جن لوازمات کی ضرورت ہے وہ ذیل ہیں۔
١۔ وہ اشیاءاور حالات جن کی نقالی کی جاتی ہے۔ ٢۔ وہ جن کے ذریعے نقالی کی جاتی ہے تخیل ، فکر ، مظاہر انسانی، مظاہر فطرت ٣۔وہ الفاظ جن کے ذریعے نقالی پیش کی جاتی ہے۔
ارسطو کے نزدیک شاعری کا افادی و اخلاقی پہلو:۔
شاعر عکس کے عکس کا بچاری ہوتا ہے۔ لیکن ارسطو کے ہاں یہ طریقہ کا ر بہت فطری ہے اس کے علاوہ افلاطون مطالعہ فن اور مطالعہ اخلاق میں بھی فرق نہیں برتتا۔ ارسطو نے اس فرق کو واضح کیا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے اس کا طریقہ کار سائنسی اور دو ٹوک ہے۔ ارسطو ”کیا ہے“ پر بحث کرتا ہے یعنی زندگی کی اصل کھری تصویر فن کے آئینے میں نظر آئے اور افلاطون ’ ’ کیا ہونا چاہیے“ پر بحث کرتا ہے۔ یعنی زندگی کی تصویر کو کتنا حسین اور دلکش ہونا چاہیے۔ اور یہ بات فن کی بنیاد کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اس طرح ادب ایک مخصوص نظریے کی تدریس کرتا ہے۔ اور زندگی کی حقیقی تصویر سے چشم پوشی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ارسطو کے عہد تک یہ بات طے شدہ تھی کہ شاعر کو معلمِ اخلاق ہونا چاہیے۔ لیکن ارسطو نے اس حقیقت کو پا لیا۔ کہ اخلاق کی تدریس شاعری کا افادی پہلو ہے جب کہ ارسطو افادی پہلو کی بجائے جمالیاتی قدرو ں کی پرچار کرتا ہے۔ اس کا تنقیدی پہلو یہ ہے کہ شاعری اخلاق کا سرچشمہ نہیں بلکہ شاعری ایک خاص قسم کی اعلیٰ مسرت پہنچاتی ہے۔ ارسطو نے اس نظریے کو یہاں تک محدود نہیں رکھا ۔ بلکہ اس کا خیا ل ہے کہ جو اذہان نارمل اور صحت مند ہوتے ہیں ۔ وہ جمالیاتی مسرت اس وقت حاصل کر سکتے ہیں کہ فن پارہ جمالیاتی تقاصوں پر پورا اترتا ہو۔
اس طرح ارسطو نے اخلاقی و افادی پہلوئوں کی ذمہ داری خالق کے کندھوں سے ہٹا کر قاری کے کندھوں پر ڈال دی ۔ ارسطو کے اس کام کا توازن بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ارسطو جمالیاتی حظ کو بنیادی اور اخلاقی تدریس کو ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ وہ اخلاقی تدریس کا منکر نہیں لیکن ایسی شاعری جو صرف اخلاقی تدریس کی پابند ہو ، کا قائل نہیں۔ سکاٹ جیمز لکھتا ہے کہ،
” افلاطون اخلاقیات اور جمالیات کو گڈمڈ کر رہا تھا ارسطو نے اس کو دور کرکے جمالیات کی بنیاد رکھی۔“
ارسطو کا نظریہ وزن یا موزنیت:۔
ارسطو کے عہد کے تناظر میں اس کے بعض بیانات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ارسطو کہتا ہے کہ وزن یا موزونیت شاعری کے لئے لازمی نہیں ۔ تنقید کا یہ حصہ انتہائی متنازعہ ہے اور متضاد بھی ۔ کیونکہ ایک طرف تو ارسطو اپنے نظریات کی بنیاد جمالیات پر رکھتا ہے۔ اور دوسری طرف وزن یا موزونیت کے خلاف اتنا شدید بیان دیتا ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لئے اس کے عہد کے ادبی منظر نامے کو دیکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ عظیم ادب و تنقید پہلے اپنے عہد سے عہدہ براہ ہوتے ہیں۔ اور پھر زمان کے قید سے آزاد ہو کر کلاسک بنتے ہیں۔
ارسطو کے عہد میں ایک بدعت عام تھی کہ محض کلامِ موزوں کو شاعری سمجھا جاتاتھا۔ اور خیال و فکر کی اہمیت نہ تھی یعنی اگر حکیم کا نسخہ بھی منظوم تھا تو اُسے شاعری گردانا جاتا تھا۔ اس بدعت کے خلاف ارسطو نے نہایت سخت رویہ اختیار کیا۔ اور اپنے مخصوص استدلالی انداز کو چھوڑ کر جذباتی انداز اختیار کیا۔ دراصل ارسطو وزن اور موزونیت کے خلاف نہیں لیکن ایسی شاعری کا بھی قائل نہیں جو صرف موزونیت کی حامل ہو۔ اور اس میں کسی قسم کی سچائی کا انکشاف نہ ہو اور نہ ہی خیال و فکر موجود ہو۔ ارسطو کے اس بیان کو سیاق و سباق کے اس عہد میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیو نکہ عام صورت حال میں ارسطو نغمگی اور آھنگ کا اتنا قائل ہے کہ بعض نثر پاروں کو شاعری مانتا ہے ۔ لیکن اس موزونیت کو ثانوی اہمیت دیتا ہے۔ اور لفظوں کے ذریعے تنقید کے مختلف طریقوں کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ شاعر لفظوں کے ذریعے جو نقالی پیش کرتا ہے۔ وہ کسی کائناتی صداقت اور علم کی دریافت کا باعث بنے تب ہی وہ شاعر کہلایا جائے گا۔ کیونکہ قاری کو فوری مسرت اس وقت ملتی ہے جب شاعر ،شاعری کے ذریعے کائنات ، انسان یا خدا کے بارے میں سچائی کا انکشاف کرتا ہے۔ اس طرح شاعری کی بنیاد علم اور اس کا فور ی مقصد مسرت ہے۔
شاعری میں المیہ اور ارسطو:۔
شاعری میں ارسطو نے المیے پر سیر حاصل بحث کی ہے المیے کی تعریف کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ،
المیہ ارسطو کے نزدیک ایسے اعمال و افعال اور حالات و واقعات کی نقل ہے جس کی بنیاد دکھ درد پر ہے اس لئے یہ خود بخود سنجیدہ ہے اس کے مکمل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس میں تین وحدتوں کا خیال رکھا جائے۔
١۔ ابتدا ٢۔ وسط ٣۔ انتہا
ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تصنیف ”ارسطو سے ایلیٹ تک “ میں ارسطو کے المیے یا ٹریجڈی کی اہمیت یوں واضح کرتے ہیں کہ ،
ارسطو کے عہد کے تناظر میں اس کے بعض بیانات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ارسطو کہتا ہے کہ وزن یا موزونیت شاعری کے لئے لازمی نہیں ۔ تنقید کا یہ حصہ انتہائی متنازعہ ہے اور متضاد بھی ۔ کیونکہ ایک طرف تو ارسطو اپنے نظریات کی بنیاد جمالیات پر رکھتا ہے۔ اور دوسری طرف وزن یا موزونیت کے خلاف اتنا شدید بیان دیتا ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لئے اس کے عہد کے ادبی منظر نامے کو دیکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ عظیم ادب و تنقید پہلے اپنے عہد سے عہدہ براہ ہوتے ہیں۔ اور پھر زمان کے قید سے آزاد ہو کر کلاسک بنتے ہیں۔
ارسطو کے عہد میں ایک بدعت عام تھی کہ محض کلامِ موزوں کو شاعری سمجھا جاتاتھا۔ اور خیال و فکر کی اہمیت نہ تھی یعنی اگر حکیم کا نسخہ بھی منظوم تھا تو اُسے شاعری گردانا جاتا تھا۔ اس بدعت کے خلاف ارسطو نے نہایت سخت رویہ اختیار کیا۔ اور اپنے مخصوص استدلالی انداز کو چھوڑ کر جذباتی انداز اختیار کیا۔ دراصل ارسطو وزن اور موزونیت کے خلاف نہیں لیکن ایسی شاعری کا بھی قائل نہیں جو صرف موزونیت کی حامل ہو۔ اور اس میں کسی قسم کی سچائی کا انکشاف نہ ہو اور نہ ہی خیال و فکر موجود ہو۔ ارسطو کے اس بیان کو سیاق و سباق کے اس عہد میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیو نکہ عام صورت حال میں ارسطو نغمگی اور آھنگ کا اتنا قائل ہے کہ بعض نثر پاروں کو شاعری مانتا ہے ۔ لیکن اس موزونیت کو ثانوی اہمیت دیتا ہے۔ اور لفظوں کے ذریعے تنقید کے مختلف طریقوں کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ شاعر لفظوں کے ذریعے جو نقالی پیش کرتا ہے۔ وہ کسی کائناتی صداقت اور علم کی دریافت کا باعث بنے تب ہی وہ شاعر کہلایا جائے گا۔ کیونکہ قاری کو فوری مسرت اس وقت ملتی ہے جب شاعر ،شاعری کے ذریعے کائنات ، انسان یا خدا کے بارے میں سچائی کا انکشاف کرتا ہے۔ اس طرح شاعری کی بنیاد علم اور اس کا فور ی مقصد مسرت ہے۔
شاعری میں المیہ اور ارسطو:۔
شاعری میں ارسطو نے المیے پر سیر حاصل بحث کی ہے المیے کی تعریف کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ،
المیہ ایک ایسے عمل کی تقلید کرتا ہے جو سنجیدہ اور مکمل ہو ایک خاص طوالت اور ضخامت کا حامل ہو۔ اس کے مختلف حصے زبان وبیان کے مختلف وسائل سے مزین ہوں اس کی ہیئت بیانیہ ہونے کے بجائے ڈرامائی ہو اور یہ رحم اور خوف کے مناظر کے باعث ان جذبات کے تذکیے کا موجب ہو۔
١۔ ابتدا ٢۔ وسط ٣۔ انتہا
ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تصنیف ”ارسطو سے ایلیٹ تک “ میں ارسطو کے المیے یا ٹریجڈی کی اہمیت یوں واضح کرتے ہیں کہ ،
ارسطو ٹریجڈی کو تمام اصناف کا کامل نمونہ سمجھتا ہے بلکہ ایک جگہ وہ یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ جو کچھ ٹریجڈی کے بارے میں کیا جائے گا۔ وہ سب اصناف پر پورا اترے گا۔
المیہ ایک خاص طوالت و ضخامت کا حامل ہوتا ہے۔ نہ تو اس کو اتنا طویل ہونا چاہیے کہ قاری کو پچھلے واقعات یاد رکھنے کے لئے ذہن پر زور دینا پڑے اور نہ ہی اتنا مختصر ہو کہ قاری پر اپنا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے اس کے مختلف حصے یعنی ابتداءوسط اور انتہا زبان و بیان کے مختلف وسائل یعنی تشبیہ ، استعارہ اور غنائیہ سے مزین ہو یعنی جمالیاتی حظ کے لئے فن کا خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ ارسطو کے نزدیک المیے کا فن ، فکری ڈھانچہ بیانیہ ہونے کی بجائے ڈرامائی ہو ۔ یعنی حقیقت کا بیان سیدھے سادے طریقے کی بجائے ڈرامائی انداز میں ہو تاکہ ناظر اور قاری میں تجسّس و جستجو کے جذبے کو ابھارا جا سکے ۔اور وہ یہ جاننے کے لئے بے چین ہو کہ آگے کیا ہوگا۔ المیے کا آخری حصہ قابلِ توجہ اور نہایت اہم ہے۔ جس میں ارسطو ”کتھارسس“ کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ جس سے زائد جذبات کا انخلاءہوتا ہے۔بعض ناقدین نے المیے میں خوف کے جذبے پر اعتراض کیا ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جب تک کوئی خطرہ بنی نوع انسان کو براہ راست نہیں گھیر لیتا کوئی شخص بھی براہ راست خوف محسوس نہیں کرتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ناظر فطری طور پر فن کار کے لئے ہمدردی محسوس کرتا ہے۔
افلاطون کا خیال تھا کہ المیہ انسان کو بیمار کر دیتا ہے اور ان کی ذہنی گھٹن کو بڑھا دیتا ہے۔ جب کہ ارسطو کے نزدیک بیمار کرنے کی بجائے علاج کرتا ہے اور اس کی یہی افادی اہمیت ہے۔
کیتھارسس کے سلسلے میں ایک اور بحث عام ہے کہ تظہیر نفس کی اہمیت نفسیاتی ہے یا اخلاقی اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کیتھارسس منفی ہے یا زائد جذبات کا انخلاء، چاہے وہ کس طرح بھی ہو اگرچہ ارسطو نے المیے کے ذریعے صرف دکھ درد کے جذبات کے انخلاءکا ذکر کیا ہے لیکن ہم دیکھتے کہ یہ کام طربیہ ، غنائیہ اور رزمیہ سے بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ المیے کے ذریعے صرف جذباتی گھٹن کو ہی نہیں کم کیا جس سکتا بلکہ یہ ہمارے نگاہ کو بھی بصیرت عطا کرتی ہے ہم تقدیر کے قائل ہونے لگتے ہیں۔ اور ہمیں اپنا آپ ہلکا لگنے لگتا ہے۔ جذبات کا یہ تذکیہ انسانی تجربات کو وسیع کرتا ہے اور ان کی قوتِ برداشت کو بڑھاتا ہے۔
”LESING“ کے مطابق ارسطو نے المیے میں خوف کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ ناظر یہ سمجھتا ہے کہ مصیبت میں گرفتار شخص وہ خود بھی ہو سکتا ہے۔ پروفیسر ایم ایم اشرف اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
افلاطون کا خیال تھا کہ المیہ انسان کو بیمار کر دیتا ہے اور ان کی ذہنی گھٹن کو بڑھا دیتا ہے۔ جب کہ ارسطو کے نزدیک بیمار کرنے کی بجائے علاج کرتا ہے اور اس کی یہی افادی اہمیت ہے۔
کیتھارسس کے سلسلے میں ایک اور بحث عام ہے کہ تظہیر نفس کی اہمیت نفسیاتی ہے یا اخلاقی اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کیتھارسس منفی ہے یا زائد جذبات کا انخلاء، چاہے وہ کس طرح بھی ہو اگرچہ ارسطو نے المیے کے ذریعے صرف دکھ درد کے جذبات کے انخلاءکا ذکر کیا ہے لیکن ہم دیکھتے کہ یہ کام طربیہ ، غنائیہ اور رزمیہ سے بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ المیے کے ذریعے صرف جذباتی گھٹن کو ہی نہیں کم کیا جس سکتا بلکہ یہ ہمارے نگاہ کو بھی بصیرت عطا کرتی ہے ہم تقدیر کے قائل ہونے لگتے ہیں۔ اور ہمیں اپنا آپ ہلکا لگنے لگتا ہے۔ جذبات کا یہ تذکیہ انسانی تجربات کو وسیع کرتا ہے اور ان کی قوتِ برداشت کو بڑھاتا ہے۔
”LESING“ کے مطابق ارسطو نے المیے میں خوف کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ ناظر یہ سمجھتا ہے کہ مصیبت میں گرفتار شخص وہ خود بھی ہو سکتا ہے۔ پروفیسر ایم ایم اشرف اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
” رحم کو المیے کا خصوصی جذبہ ضرور کہا جا سکتا ہے خوف کی حیثیت ضمنی جذبے کی ہے۔“
ارسطو کے نزدیک المیہ خالق اور ناظر دونوں کا تزکیہ کرتا ہے کیوں کہ جب کوئی خالق تخلیق پیش کرتا ہے تو اپنی تخلیق کے ذریعے اس کرب سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے۔جو اسے تخلیق پر آمادہ کرتا ہے۔ اور ان کے جذبات کی تظہیر بھی ہوتی ہے۔ جب ناظر یا قاری اس سے حظ اُٹھاتا ہے تو اس کے اندر کی گھٹن کم ہو جاتی ہے۔ ارسطو کے نزدیک المیہ بے چینی یا فشار کے بجائے صحت مند اثرات کا حامل ہوتا ہے۔
ارسطو کے نزدیک المیے کے عناصر ترکیبی چھ ہیں جس پر تفصیلاً بحث کی ہے جو کہ ذیل ہیں۔
١۔پلاٹ ٢۔کردار ٣۔فکری مواد یا موضوع، معروضی تقلید ٤۔زبان و بیان، وسیلہ ٥۔نغمہ ٦۔منظر
ان سب میں ارسطو پلاٹ کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔
پلاٹ ارسطو کی نظر میں:۔
ارسطو کا خیا ل ہے کہ پلاٹ ہی واقعات کی بناوٹ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پلاٹ زندگی کے نمائند ہ واقعات کو آپس میں اس طرح جوڑتا ہے کہ ہر واقعہ پہلے سے جڑا ہو نظرا تا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ پلاٹ واقعات کے تسلسل کو مدنظر رکھتا ہے اور پلاٹ ہی کے ذریعے کہانی میں یکے بعد دیگرے واقعات کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ پلاٹ واقعات کا مرتب ڈھانچہ ہوتا ہے۔ یہ المیے کا پہلا اور بنیادی عنصر ہے۔
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ”مغرب کے تنقیدی اصول “ میں ارسطو کے نزدیک پلاٹ کی اہمیت یوں بیان کرتے ہیں کہ،
ارسطو کے نزدیک المیے کے عناصر ترکیبی چھ ہیں جس پر تفصیلاً بحث کی ہے جو کہ ذیل ہیں۔
١۔پلاٹ ٢۔کردار ٣۔فکری مواد یا موضوع، معروضی تقلید ٤۔زبان و بیان، وسیلہ ٥۔نغمہ ٦۔منظر
ان سب میں ارسطو پلاٹ کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔
پلاٹ ارسطو کی نظر میں:۔
ارسطو کا خیا ل ہے کہ پلاٹ ہی واقعات کی بناوٹ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پلاٹ زندگی کے نمائند ہ واقعات کو آپس میں اس طرح جوڑتا ہے کہ ہر واقعہ پہلے سے جڑا ہو نظرا تا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ پلاٹ واقعات کے تسلسل کو مدنظر رکھتا ہے اور پلاٹ ہی کے ذریعے کہانی میں یکے بعد دیگرے واقعات کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ پلاٹ واقعات کا مرتب ڈھانچہ ہوتا ہے۔ یہ المیے کا پہلا اور بنیادی عنصر ہے۔
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ”مغرب کے تنقیدی اصول “ میں ارسطو کے نزدیک پلاٹ کی اہمیت یوں بیان کرتے ہیں کہ،
اس ( ارسطو( کی نظر میں پلاٹ ، ڈرامائی اشخاص کو ذاتی و جذباتی صلاحیتوں ( کرداروں ) اور ان کے عقلی و فکری رجحانات ( خیال ) دونوں میں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
کردار:۔
ارسطو المیے میں کرداروں کو بھی اہمیت دیتا ہے لیکن اس کا خیال ہے کہ کرداروں کی گفتگو چاہے کتنی ہی دلچسپ ، منطقی اور مرتب کیوں نہ ہو وہ ایک پلاٹ کی طرح کہانی کی بنت نہیں کر سکتی ۔ چنانچہ اولین حیثیت پلاٹ ہی کو حاصل ہے۔ اور کردار تو محض پیش کرنے والے ہیں۔ کرداروں میں وہ ہیرو کے کردار کو اہمیت دیتا ہے اگر ہیرو کو اپنے دوستوں سے مصائب ملیں تو المیہ مثالی بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں خود ارسطو کا کہنا ہے کہ،
ارسطو المیے میں کرداروں کو بھی اہمیت دیتا ہے لیکن اس کا خیال ہے کہ کرداروں کی گفتگو چاہے کتنی ہی دلچسپ ، منطقی اور مرتب کیوں نہ ہو وہ ایک پلاٹ کی طرح کہانی کی بنت نہیں کر سکتی ۔ چنانچہ اولین حیثیت پلاٹ ہی کو حاصل ہے۔ اور کردار تو محض پیش کرنے والے ہیں۔ کرداروں میں وہ ہیرو کے کردار کو اہمیت دیتا ہے اگر ہیرو کو اپنے دوستوں سے مصائب ملیں تو المیہ مثالی بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں خود ارسطو کا کہنا ہے کہ،
سب سے زیادہ اہم خیز و صورت ہے جس میں اس ذریعے سے برے نتائج برآمد ہوں جس سے اچھے نتائج کی توقع ہوتی ہے۔
فکری مواد:۔
المیے کا تیسرا اہم موضوع فکری مواد ہے جس میں معروضی تقلید سے کام لیا جاتا ہے موضوع کے بارے میں ارسطو کا نظریہ یہ ہے کہ” وہ ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں المناک صور ت حال دوستوں اور عزیزوں کے انجانے عمل سے پیدا ہونہ کہ دشمنوں کے بلا ارادہ عمل اور نہ اتفاقی سے“
زبان و بیان:۔
ارسطو جمالیاتی قدروں کا قائل تھا۔ اس لئے وہ شعری زبان اور معمولی نثر میں فرق کو اہمیت دیتا ہے۔ کیوں کہ استعارہ ندرت اور اختراعی ذہن کی پیداوار ہے۔ ارسطو لکھتے ہیں۔
المیے کا تیسرا اہم موضوع فکری مواد ہے جس میں معروضی تقلید سے کام لیا جاتا ہے موضوع کے بارے میں ارسطو کا نظریہ یہ ہے کہ” وہ ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں المناک صور ت حال دوستوں اور عزیزوں کے انجانے عمل سے پیدا ہونہ کہ دشمنوں کے بلا ارادہ عمل اور نہ اتفاقی سے“
زبان و بیان:۔
ارسطو جمالیاتی قدروں کا قائل تھا۔ اس لئے وہ شعری زبان اور معمولی نثر میں فرق کو اہمیت دیتا ہے۔ کیوں کہ استعارہ ندرت اور اختراعی ذہن کی پیداوار ہے۔ ارسطو لکھتے ہیں۔
مرکب الفاظ طربیہ اور غنائیہ کو مزین اسلوب کے لئے موزوں ہیں غیر موزوں الفاظ رزمیہ نظموں کے لئے مناسب ہیں ۔ ڈرامائی نظم میں استعاروں کا استعمال ہونا چاہیے۔
نغمہ:۔
افلاطوں کے برعکس ارسطو جمالیاتی اقدار کو برتنے پر زور دیتا ہے۔ اور المیے میں نغموں کا ذکر کرتا ہے کیونکہ نغموں کی موجودگی سے تاثر میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ نغمے خارجی نہ ہوں بلکہ بنیادی قصہ میں شامل ہوں۔
منظر کے بارے میں ارسطو کا خیال:۔
المیے کے چھٹے عنصر منظر کو وہ زیادہ اہمیت نہیں دیتا اس کے نزدیک لباس اور سٹیج کا فن لازمی جز نہیں و ہ اس بارے میں یہاں تک کہتا ہے ” محض پڑھ کریا سن کر بغیر سٹیج پر پیش کئے المناک تاثرات پیش کئے جا سکتے ہیں۔ “ تنقید کا یہ انداز ارسطو جیسے سائنٹیفک فلسفی کے لئے غیر مناسب تھا۔ اصل میں ارسطو علم کے ایک معمولی جز کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے مطالعے اور تجزیے کے ذریعے کائنات کی اہم حقیقتوں تک پہنچتا ہے۔
افلاطوں کے برعکس ارسطو جمالیاتی اقدار کو برتنے پر زور دیتا ہے۔ اور المیے میں نغموں کا ذکر کرتا ہے کیونکہ نغموں کی موجودگی سے تاثر میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ نغمے خارجی نہ ہوں بلکہ بنیادی قصہ میں شامل ہوں۔
منظر کے بارے میں ارسطو کا خیال:۔
المیے کے چھٹے عنصر منظر کو وہ زیادہ اہمیت نہیں دیتا اس کے نزدیک لباس اور سٹیج کا فن لازمی جز نہیں و ہ اس بارے میں یہاں تک کہتا ہے ” محض پڑھ کریا سن کر بغیر سٹیج پر پیش کئے المناک تاثرات پیش کئے جا سکتے ہیں۔ “ تنقید کا یہ انداز ارسطو جیسے سائنٹیفک فلسفی کے لئے غیر مناسب تھا۔ اصل میں ارسطو علم کے ایک معمولی جز کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے مطالعے اور تجزیے کے ذریعے کائنات کی اہم حقیقتوں تک پہنچتا ہے۔
مجموعی جائزہ
آج سے تقریباً دو ہزار سال پہلے جو سوال ارسطو نے اُٹھائے تھے وہ آج بھی زندہ ہیں اور ادبی تنقید کے لامتناہی سلسلے کا آغاز کرتے ہیں۔ اس وجہ سے انسانی ذہنی ارتقاءکی تاریخ میں بوطیقا ایک دائمی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اس کے بغیر ہم مغرب کی قدیم و جدید تنقید کی ادبی روایت کو نہیں سمجھ سکتے۔
ارسطو کے خدا جانے کتنے رسالے ضائع ہو گئے اور جو کچھ بچ رہا وہ بھی ادھورا ہے بیچ بیچ سے صفحات غائب ہیں۔ لیکن یہ مختصر سرمایہ ارسطو کو زندہ جاوید رکھنے کے لئے کافی ہے۔
”بوطیقا“ تنقید کی پہلی اور لافانی کتاب ہے اور ارسطو پہلابا ضابطہ نقاد۔
آج سے تقریباً دو ہزار سال پہلے جو سوال ارسطو نے اُٹھائے تھے وہ آج بھی زندہ ہیں اور ادبی تنقید کے لامتناہی سلسلے کا آغاز کرتے ہیں۔ اس وجہ سے انسانی ذہنی ارتقاءکی تاریخ میں بوطیقا ایک دائمی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اس کے بغیر ہم مغرب کی قدیم و جدید تنقید کی ادبی روایت کو نہیں سمجھ سکتے۔
ارسطو کے خدا جانے کتنے رسالے ضائع ہو گئے اور جو کچھ بچ رہا وہ بھی ادھورا ہے بیچ بیچ سے صفحات غائب ہیں۔ لیکن یہ مختصر سرمایہ ارسطو کو زندہ جاوید رکھنے کے لئے کافی ہے۔
”بوطیقا“ تنقید کی پہلی اور لافانی کتاب ہے اور ارسطو پہلابا ضابطہ نقاد۔
اچھا مضمون ہے
جواب دیںحذف کریں