ٹی ۔ایس ایلیٹ |
ٹی ایس ایلیٹ امریکہ کے شہر سینٹ لوئیس میں پیدا ہوا۔ 1914ءمیں اس نے انگلستان ہجرت کی اور 1937ءمیں باقاعدہ انگلستان کی شہریت اختیار کی۔ اس کا تعلق ان انگریز خاندانوں سے تھا جو سترہویں صدی میں امریکہ آ بسے تھے۔ اس کی ماں مصنفہ اور شاعرہ تھیں۔ ایلیٹ بچپن ہی سے نہایت ذہین تھا۔ 1900ءمیں اُسے سکول سے لاطینی زبان کی استعداد کے لئے طلائی تمغہ دیا گیا۔1902ءسے 1910ءتک وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہا۔ جہاں اس نے کلاسیکی ادب جرمن ادب ، فرانسیسی اور انگریز ی زبان و ادب کا تقابلی مطالعہ کیا۔ یہیں سے وہ دانتے اور ”ڈ ن“ جیسے شاعروں سے روشناس ہوا۔ جس کا اثر اس کے بعد کی تخلیقات پر گہرا ہے۔ اور اس یونیورسٹی میں اُسے Iriving Babbitاور جارج سندینہ کے روایت کے بارے میں لیکچر سننے کا موقع ملاِ اور وہ روایت کو اپنے نظام ِ فکر کے اندر شامل کرنے کے قابل ہوا۔ اس زمانے میں ہارورڈ یونیورسٹی میں ڈرامے کے بارے میں کافی جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ اسی لئے ایلیٹ نے ڈرامے لکھنے کی کوشش بھی کی۔ تخلیقی لحاظ سے ایلیٹ کے لئے یہ دور بڑا زرخیز تھا اور اُسے ایک بہترین شاعر کے طور پر مانا گیا۔
1917ءسے 1963ءتک تقریباً پچاس سال ایلیٹ انگریزی زبان و ادب پر بالخصوص اور تمام دنیا کے ادب پر بالعموم چھایا رہا ۔ اس نے نئے راستے کی بنیاد ڈالی ۔ اس بنیاد کے پیچھے اس کا گہرا مطالعہ اس کی انفرادی زندگی اور سب سے بڑھ کر روایت کے سلسلے میں ایک بھر پور نظامِ فکر موجود ہے۔
ایلیٹ کی پیدائش امریکہ میں ہوئی اور تربیت یورپ کی اعلی درس گاہوں میں ہوئی اس کے بعد اس کا انگریزی تربیت حاصل کرکے انگلستان میں زندگی گزارنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مختلف اور اکثر متضاد قومی و علمی اثرات سے گزرا۔ اور آخر کا ایک ایسے مقام پر پہنچا ۔ جہاں اس کی ہستی میں یہ سب اثرات مل جل کر ایک انفرادیت کا مظہر بن گئے۔ انھیں مشرقی فلسفے سے زیادہ دلچسپی تھی شائد یہی وجہ ہے اس کی نظموں میں جہاں کئی دوسری زبانوں کے الفاظ ہیں وہاں سنسکرت کے الفاظ کا استعمال بھی نظرآتا ہے۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی اس نے تنقیدی مضامین لکھنا شروع کئے تھے۔ اور انھیں قبولِ عام بھی حاصل ہوا ان کا ایک مضمون ”روایت اور انفرادی صلاحیت“ نے ایک سنسنی پیدا کردی رومانوی ذوقِ سخن اور رومانوی نظریات جو اس وقت ادب پر حاوی تھے ہل گئے۔ دراصل ایلیٹ امریکہ کے اس حصے میں پلا بڑھا تھا جہاں پرانے انگریز خاندان سترہ ویں صدی سے آباد تھے۔ اور وہ انگریزی روایات میں جکڑے ہونے پر فخر کرتے تھے۔ یہاں کے مخصوص خاندان پرانی روایات کے علمبردار تھے۔ اور اپنی زندگی کی بنیاد ان روایات پر رکھتے تھے۔ ایسے ماحول میں پلنے کی وجہ سے ایلیٹ بھی پرانی تہذیبی روایات سے ایک عام یورپین کے مقابلے میں زیادہ گہری جذباتی دلچسپی لے کر آگے بڑھے۔ یہی وجہ ہے کہ روایت ، معاشرہ ، مذہب اور تہذیب و اخلاقی اقدار پر اس کی تحریریں بکھری پڑی ہیں ۔ اس کی چند اہم تصانیف اس کے خیالات کی تفہیم کے سلسلے میں نہایت اہم ہیں اوراس کے تنقیدی نظام فکر کی جہت متعین کرتی ہیں ۔پہلی کتاب ”افٹر سٹرنج گارڈ“ دوسری کتاب ”دی آئیڈیا آف اے کرسچن سوسائٹی “ تےسری کتاب ”دی یوز آف پوئٹری اینڈ یوز آف کریٹسزم“
روایت کا تصور:۔
ایلیٹ کے ہاں روایت کے تصور کی نہ صرف وضاحت ملتی ہے بلکہ وہ زور و شور سے اس کی اہمیت پر نظر ڈالتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کی تنقید میں روایت سے کیا معنی ہیں۔ پہلے اس کا تعین کیا جائے اس سلسلے میں اس کے سارے نظریات رومانیت پسند ی کا ردعمل معلوم ہوتے ہیں رومانیت پسند جدت طراز ہوتے ہیں اور روایت سے بی زار ۔ یہی وجہ ہے کہ ایلیٹ پوری شدت سے روایت پر زور دیتا ہے۔ روایت سے عا م طور پر یہ مراد لی جاتی ہے کہ سابقہ ڈگر پر چلا جائے اور عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب ہم کسی شاعر کو روایتی کہتے ہیں تو پرانے خیال اور پرانے انداز میں اظہار کی راہ ڈھونڈتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ایلیٹ ایسے روایت کے حق میں نہیں وہ تو روایت سے مرادذہنی اور تاریخی شعور لیتا ہے۔ جس کی بدولت آج کا فنکار اپنی ذہنی مشعل روشن کرتا ہے۔ ماضی کا رشتہ حال سے جوڑے ہوئے مستقبل کے امکانات پر غور کرتا ہے۔
ایلیٹ کے ہاں روایت کا تصور عظیم فن پاروں میں موجود انسانوں کا ذہنی ارتقاءبھی ہے۔ اور عام روزمرہ زندگی میں اٹھنے بیٹھنے ، چلتے پھرتے حتیٰ کہ سلام دعا کے طریقوں تک میں پوشیدہ ہے۔ روایت کا یہ مطلب نہیں کہ محض چند تعصبات کو زندہ رکھا جائے بلکہ روایت سے مراد یہ ہے کہ عادت و اطوار ، رسوم و رواج ، مذہبی عقائد یہ تمام چیزیں جو ایک جگہ رہنے والوں کی دلی تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔ انھیں برقرار رکھاجائے ایسی روایت جس کے ساتھ مکمل آگاہی اور شعور شامل نہ ہو بیکار ہے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کن چیزوں کو رد کر دینا ضروری ہے اور کن چیزوں کو ان کی خوبیوں کی بناءپر برقرار رکھنا چاہیے۔ روایتی شعور سے مراد پچھلے شعراءکی نقالی نہیں بلکہ سماج کی بنیاد ہے۔ اور اپنی انفرادیت سے ان کی تکمیل میں حصہ لینا ہے۔ اس وہ طرح تاریخی سماجی اور روایتی شعور اور اثرات جو فرد کو اپنی آغوش میں لئے ہوتے ہیں انھیں کلچر یا روایت کا نام دیتا ہے۔ کلچر وہ چیز ہے جو زندگی کو صحت عطا کرتی ہے۔ اور اس میں تمام علوم و فنون شامل ہیں۔
تنقید ی نظریات:۔
مغربی ادب میں ہر بڑے شاعر نے اپنے تخلیقی تجربوں کو تنقیدی پیرائے میں ضرور پیش کیا ہے چاہے بعد میں اس کی اہمیت رہے یا نہ رہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان تنقیدی نظریات کی مدد سے خود شاعر کے ذہنی اور تخلیقی سفر کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ بعض ناقدین ایلیٹ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس کی تنقید کو ایک بڑے شاعر کی رائے کے طور پر زیادہ اہمیت ملی ہے۔ چونکہ وہ شاعر بڑا تھا اس لئے اس کے تنقیدی نظریات ادبی دنیا پر چھا گئے ممکن ہے جزوی طور پر بات درست بھی ہو لیکن سوا ل یہ ہے کہ بیسویں صدی میں بعض دوسرے بڑے شاعروں نے بھی تنقید پیش کی لیکن انھیں اتنی اہمیت نہیں ملی۔ صاف ظاہر ہے کہ ایلیٹ کی تنقید میں اتنی گہرائی اور معنویت تھی کہ اسے تسلیم کرنا پڑا۔ خود اس نے اپنی تنقید کو Work Shop Criticismقرار دیا۔ یعنی اس کی تنقید اس کے شاعرانہ تجربات کی ذیلی پیداوار ہے ایلیٹ کے نزدیک شاعروں کی تنقید ان کے شعر ی تجربات کے لئے فضاءہموار کرنے کا ایک وسیلہ ہے اس سلسلے میں اس کا اعتماد اس بیان سے واضح ہے کہ،
1917ءسے 1963ءتک تقریباً پچاس سال ایلیٹ انگریزی زبان و ادب پر بالخصوص اور تمام دنیا کے ادب پر بالعموم چھایا رہا ۔ اس نے نئے راستے کی بنیاد ڈالی ۔ اس بنیاد کے پیچھے اس کا گہرا مطالعہ اس کی انفرادی زندگی اور سب سے بڑھ کر روایت کے سلسلے میں ایک بھر پور نظامِ فکر موجود ہے۔
ایلیٹ کی پیدائش امریکہ میں ہوئی اور تربیت یورپ کی اعلی درس گاہوں میں ہوئی اس کے بعد اس کا انگریزی تربیت حاصل کرکے انگلستان میں زندگی گزارنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مختلف اور اکثر متضاد قومی و علمی اثرات سے گزرا۔ اور آخر کا ایک ایسے مقام پر پہنچا ۔ جہاں اس کی ہستی میں یہ سب اثرات مل جل کر ایک انفرادیت کا مظہر بن گئے۔ انھیں مشرقی فلسفے سے زیادہ دلچسپی تھی شائد یہی وجہ ہے اس کی نظموں میں جہاں کئی دوسری زبانوں کے الفاظ ہیں وہاں سنسکرت کے الفاظ کا استعمال بھی نظرآتا ہے۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہی اس نے تنقیدی مضامین لکھنا شروع کئے تھے۔ اور انھیں قبولِ عام بھی حاصل ہوا ان کا ایک مضمون ”روایت اور انفرادی صلاحیت“ نے ایک سنسنی پیدا کردی رومانوی ذوقِ سخن اور رومانوی نظریات جو اس وقت ادب پر حاوی تھے ہل گئے۔ دراصل ایلیٹ امریکہ کے اس حصے میں پلا بڑھا تھا جہاں پرانے انگریز خاندان سترہ ویں صدی سے آباد تھے۔ اور وہ انگریزی روایات میں جکڑے ہونے پر فخر کرتے تھے۔ یہاں کے مخصوص خاندان پرانی روایات کے علمبردار تھے۔ اور اپنی زندگی کی بنیاد ان روایات پر رکھتے تھے۔ ایسے ماحول میں پلنے کی وجہ سے ایلیٹ بھی پرانی تہذیبی روایات سے ایک عام یورپین کے مقابلے میں زیادہ گہری جذباتی دلچسپی لے کر آگے بڑھے۔ یہی وجہ ہے کہ روایت ، معاشرہ ، مذہب اور تہذیب و اخلاقی اقدار پر اس کی تحریریں بکھری پڑی ہیں ۔ اس کی چند اہم تصانیف اس کے خیالات کی تفہیم کے سلسلے میں نہایت اہم ہیں اوراس کے تنقیدی نظام فکر کی جہت متعین کرتی ہیں ۔پہلی کتاب ”افٹر سٹرنج گارڈ“ دوسری کتاب ”دی آئیڈیا آف اے کرسچن سوسائٹی “ تےسری کتاب ”دی یوز آف پوئٹری اینڈ یوز آف کریٹسزم“
روایت کا تصور:۔
ایلیٹ کے ہاں روایت کے تصور کی نہ صرف وضاحت ملتی ہے بلکہ وہ زور و شور سے اس کی اہمیت پر نظر ڈالتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کی تنقید میں روایت سے کیا معنی ہیں۔ پہلے اس کا تعین کیا جائے اس سلسلے میں اس کے سارے نظریات رومانیت پسند ی کا ردعمل معلوم ہوتے ہیں رومانیت پسند جدت طراز ہوتے ہیں اور روایت سے بی زار ۔ یہی وجہ ہے کہ ایلیٹ پوری شدت سے روایت پر زور دیتا ہے۔ روایت سے عا م طور پر یہ مراد لی جاتی ہے کہ سابقہ ڈگر پر چلا جائے اور عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب ہم کسی شاعر کو روایتی کہتے ہیں تو پرانے خیال اور پرانے انداز میں اظہار کی راہ ڈھونڈتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ایلیٹ ایسے روایت کے حق میں نہیں وہ تو روایت سے مرادذہنی اور تاریخی شعور لیتا ہے۔ جس کی بدولت آج کا فنکار اپنی ذہنی مشعل روشن کرتا ہے۔ ماضی کا رشتہ حال سے جوڑے ہوئے مستقبل کے امکانات پر غور کرتا ہے۔
ایلیٹ کے ہاں روایت کا تصور عظیم فن پاروں میں موجود انسانوں کا ذہنی ارتقاءبھی ہے۔ اور عام روزمرہ زندگی میں اٹھنے بیٹھنے ، چلتے پھرتے حتیٰ کہ سلام دعا کے طریقوں تک میں پوشیدہ ہے۔ روایت کا یہ مطلب نہیں کہ محض چند تعصبات کو زندہ رکھا جائے بلکہ روایت سے مراد یہ ہے کہ عادت و اطوار ، رسوم و رواج ، مذہبی عقائد یہ تمام چیزیں جو ایک جگہ رہنے والوں کی دلی تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔ انھیں برقرار رکھاجائے ایسی روایت جس کے ساتھ مکمل آگاہی اور شعور شامل نہ ہو بیکار ہے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کن چیزوں کو رد کر دینا ضروری ہے اور کن چیزوں کو ان کی خوبیوں کی بناءپر برقرار رکھنا چاہیے۔ روایتی شعور سے مراد پچھلے شعراءکی نقالی نہیں بلکہ سماج کی بنیاد ہے۔ اور اپنی انفرادیت سے ان کی تکمیل میں حصہ لینا ہے۔ اس وہ طرح تاریخی سماجی اور روایتی شعور اور اثرات جو فرد کو اپنی آغوش میں لئے ہوتے ہیں انھیں کلچر یا روایت کا نام دیتا ہے۔ کلچر وہ چیز ہے جو زندگی کو صحت عطا کرتی ہے۔ اور اس میں تمام علوم و فنون شامل ہیں۔
تنقید ی نظریات:۔
مغربی ادب میں ہر بڑے شاعر نے اپنے تخلیقی تجربوں کو تنقیدی پیرائے میں ضرور پیش کیا ہے چاہے بعد میں اس کی اہمیت رہے یا نہ رہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان تنقیدی نظریات کی مدد سے خود شاعر کے ذہنی اور تخلیقی سفر کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ بعض ناقدین ایلیٹ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس کی تنقید کو ایک بڑے شاعر کی رائے کے طور پر زیادہ اہمیت ملی ہے۔ چونکہ وہ شاعر بڑا تھا اس لئے اس کے تنقیدی نظریات ادبی دنیا پر چھا گئے ممکن ہے جزوی طور پر بات درست بھی ہو لیکن سوا ل یہ ہے کہ بیسویں صدی میں بعض دوسرے بڑے شاعروں نے بھی تنقید پیش کی لیکن انھیں اتنی اہمیت نہیں ملی۔ صاف ظاہر ہے کہ ایلیٹ کی تنقید میں اتنی گہرائی اور معنویت تھی کہ اسے تسلیم کرنا پڑا۔ خود اس نے اپنی تنقید کو Work Shop Criticismقرار دیا۔ یعنی اس کی تنقید اس کے شاعرانہ تجربات کی ذیلی پیداوار ہے ایلیٹ کے نزدیک شاعروں کی تنقید ان کے شعر ی تجربات کے لئے فضاءہموار کرنے کا ایک وسیلہ ہے اس سلسلے میں اس کا اعتماد اس بیان سے واضح ہے کہ،
شاعری پر تنقید کا حق صرف شاعروں کو ہونا چاہیے۔
نقاد:۔
ایلیٹ کے نزدیک ایک نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ نہ صرف نئے اقدار کا تعین کرے بلکہ قدیم فن پاروں کی حسنِ ترتیب کو تازہ علم کے ذریعے بدل ڈالے اس کے خیال میں تقریباً ایک صدی کے بعد ایسے نقاد کی ضرورت ہے۔ جو ماضی کے ادب کا ازسرنو جائزہ لے۔ ماضی کے شعراءاور عظیم فن پاروں کو نئے ترتیب کے ساتھ پیش کرے اس طرح جدید فن پاروں کا قدیم سے موازنہ بھی ہو جاتا ہے اور کئی گمنام شاعروں کو زندہ کیا جا سکتا ہے ۔ نقاد کا کام یہ بھی ہے کہ ادب کے وہ گوشے جو مکمل طور پر سامنے نہ آئے ہوں انھیں پیش کردے خواہ وہ قلیل ہی کیوں نہ ہو اور اس میں پرانے شاعروں کے کلام کی ازسرنو تشریح بھی شامل ہے۔ کسی نئے اور اہم فن پارے کی تخلیق پرانی ترتیب کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ اور نقاد اسے تنظیم نو سے نوازتا ہے۔ ایلیٹ اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب کوئی فن پارہ تخلیق پاتاہے تو اس کا اثر ان فن پاروں پر بھی پڑتا ہے جو اس سے پہلے تخلیق ہو چکے ہیں۔ نئے فن پارے کی تخلیق سے پہلی ترتیب اور پہلا نظام بگڑ جاتا ہے اور نقاد کو نئے فن پارے کے لئے اس مثالی نظام کو ازسرنو تشکیل دیناپڑتا ہے۔
رومانیت کی رد:۔
ایلیٹ سے پہلے تنقید میں رومانوی نظریات کا عمل دخل تھا اور شاعر ی کو جذبات اور شاعر کی انفرادیت کا اظہار کہا جاتا تھا۔ ناقدین کے لئے لازمی تھا کہ وہ تخلیق سے زیادہ تخلیق کار پر توجہ دیں ایلیٹ سے پہلے بھی رومانیت کی رد پیش ہونا شروع ہوئی تھی۔
Irbing Babbitنے ” روسو اینڈ روماٹیسزم “ جیسی کتاب لکھی تھی جس میں اس نے روسو کے نظریات کے تحت فرد کی لامحدود آزادی سے پیدا ہونے ہونے والے خطرات کو بڑی عمدگی سے پیش کیا۔ ٹی ۔ ای ہیوم نے بھی اس ایک مضمون کلاسک اینڈ رومانٹیسزم کے نام سے لکھا اور اس میں رومانیت کے ختم ہونے کی نوید اور کلاسیکیت کے دور کی پیشن گوئی کی اسطرح مشہور شاعر Ezra Poundنے بھی ایلیٹ سے پہلے رومانیت سے گریز کا نعرہ لگایا۔ لیکن یہ تمام ردعمل بکھرے بکھرے سے تھے۔ ایلیٹ نے پہلی بار اسے مربوط کرکے اپنے زمانے کا بنیادی ردعمل بنا دیا۔ اور پرزور آواز میں یہ صدا بلند کی کہ:
ایلیٹ کے نزدیک ایک نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ نہ صرف نئے اقدار کا تعین کرے بلکہ قدیم فن پاروں کی حسنِ ترتیب کو تازہ علم کے ذریعے بدل ڈالے اس کے خیال میں تقریباً ایک صدی کے بعد ایسے نقاد کی ضرورت ہے۔ جو ماضی کے ادب کا ازسرنو جائزہ لے۔ ماضی کے شعراءاور عظیم فن پاروں کو نئے ترتیب کے ساتھ پیش کرے اس طرح جدید فن پاروں کا قدیم سے موازنہ بھی ہو جاتا ہے اور کئی گمنام شاعروں کو زندہ کیا جا سکتا ہے ۔ نقاد کا کام یہ بھی ہے کہ ادب کے وہ گوشے جو مکمل طور پر سامنے نہ آئے ہوں انھیں پیش کردے خواہ وہ قلیل ہی کیوں نہ ہو اور اس میں پرانے شاعروں کے کلام کی ازسرنو تشریح بھی شامل ہے۔ کسی نئے اور اہم فن پارے کی تخلیق پرانی ترتیب کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ اور نقاد اسے تنظیم نو سے نوازتا ہے۔ ایلیٹ اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب کوئی فن پارہ تخلیق پاتاہے تو اس کا اثر ان فن پاروں پر بھی پڑتا ہے جو اس سے پہلے تخلیق ہو چکے ہیں۔ نئے فن پارے کی تخلیق سے پہلی ترتیب اور پہلا نظام بگڑ جاتا ہے اور نقاد کو نئے فن پارے کے لئے اس مثالی نظام کو ازسرنو تشکیل دیناپڑتا ہے۔
رومانیت کی رد:۔
ایلیٹ سے پہلے تنقید میں رومانوی نظریات کا عمل دخل تھا اور شاعر ی کو جذبات اور شاعر کی انفرادیت کا اظہار کہا جاتا تھا۔ ناقدین کے لئے لازمی تھا کہ وہ تخلیق سے زیادہ تخلیق کار پر توجہ دیں ایلیٹ سے پہلے بھی رومانیت کی رد پیش ہونا شروع ہوئی تھی۔
Irbing Babbitنے ” روسو اینڈ روماٹیسزم “ جیسی کتاب لکھی تھی جس میں اس نے روسو کے نظریات کے تحت فرد کی لامحدود آزادی سے پیدا ہونے ہونے والے خطرات کو بڑی عمدگی سے پیش کیا۔ ٹی ۔ ای ہیوم نے بھی اس ایک مضمون کلاسک اینڈ رومانٹیسزم کے نام سے لکھا اور اس میں رومانیت کے ختم ہونے کی نوید اور کلاسیکیت کے دور کی پیشن گوئی کی اسطرح مشہور شاعر Ezra Poundنے بھی ایلیٹ سے پہلے رومانیت سے گریز کا نعرہ لگایا۔ لیکن یہ تمام ردعمل بکھرے بکھرے سے تھے۔ ایلیٹ نے پہلی بار اسے مربوط کرکے اپنے زمانے کا بنیادی ردعمل بنا دیا۔ اور پرزور آواز میں یہ صدا بلند کی کہ:
میں سیاست میں شاہ پسند، شاعر ی میں کلاسیکیت پسند اور مذہب میں کیتھولک ہوں۔
شاعری شخصیت سے فرار:۔
اس شدت سے رومانوی تحریک کی ردپیش کرنے کے لئے وہ اپنے ساتھ ایک پورا نظام فکر لایا جس کے تحت سب سے پہلے فرد کی انفرادیت کے خلاف وہ آواز اٹھاتا ہے۔ اپنے مشہور زمانہ مضمون ”روایت اور انفرادی صلاحیت“ میں اس نے ایک خاص نقطہ نظر پیش کیا جس کی بنا ءپر وہ رومانوی تنقید سے بالکل الگ تھلگ ہو گیا۔ اس کے اس نظریے نے مباحث کے دروازے کھول دیے اور آج بھی اس بات سے اتفاق کرنے سے پہلے بہت سی باتوں کی وضاحت کرنی پڑتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”شاعری شخصیت کا اظہار نہیں شخصیت سے گریز ہے“ بعض لوگوں نے شخصیت سے فرار کا لفظ استعما ل کیا ہے۔ ایلیٹ اس کی وضاحت یوں کرتا ہے۔
اس شدت سے رومانوی تحریک کی ردپیش کرنے کے لئے وہ اپنے ساتھ ایک پورا نظام فکر لایا جس کے تحت سب سے پہلے فرد کی انفرادیت کے خلاف وہ آواز اٹھاتا ہے۔ اپنے مشہور زمانہ مضمون ”روایت اور انفرادی صلاحیت“ میں اس نے ایک خاص نقطہ نظر پیش کیا جس کی بنا ءپر وہ رومانوی تنقید سے بالکل الگ تھلگ ہو گیا۔ اس کے اس نظریے نے مباحث کے دروازے کھول دیے اور آج بھی اس بات سے اتفاق کرنے سے پہلے بہت سی باتوں کی وضاحت کرنی پڑتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”شاعری شخصیت کا اظہار نہیں شخصیت سے گریز ہے“ بعض لوگوں نے شخصیت سے فرار کا لفظ استعما ل کیا ہے۔ ایلیٹ اس کی وضاحت یوں کرتا ہے۔
شاعر کے پاس اظہار کے لئے کوئی شخصیت نہیں ہوتی بلکہ ایک وسیلہ ہوتا ہے جو محض وسیلہ ہوتا ہے نہ کہ شخصیت جس میں تاثرات و تجربات عجیب اور غیر متوقع طریقے سے ترتیب پاتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ تجربات و تاثرات جو بحیثیت انسان معمولی اہم ہوں۔
وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میری بات کو وہی آدمی سمجھ سکتا ہے جس کے پاس شخصیت ہو ۔ اپنی بات کو ایلیٹ ایک سائنسی مثال سے واضح کرتا ہے اس سائنسی مثال سے اس بات کی مکمل تشریح ہو جاتی ہے۔
سلفیورک ایسڈ بنانے میں ہائیڈروجن ، آکسیجن اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے جب یہ عمل ہو رہا ہو تا ہے تو ان گیسوں کے ساتھ عمل انگیز کے طور پر پلاٹینم کا ایک چھوٹا ٹکڑا رکھا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں پلاٹینم کا ٹکڑا براہ راست شریک وشامل نہیں ہوتا اور نہ اس عمل کا خود اس پر کوئی اثر ہوتا ہے لیکن اگر یہ ٹکڑا نہ رکھا جائے تو عمل ہو ہی نہیں سکتا۔
تخلیقی عمل کے دوران شاعر کی شخصیت بھی پلاٹینم کے ٹکڑے کی طرح ہے جو خود اس عمل پر اثر انداز نہیں ہوتی مگر اس عمل کے لئے اس کا ہونا ضروری ہے ایلیٹ کا کہنا ہے کہ بالغ اور نا بالغ شاعر میں فرق اس بات کا نہیں کہ ایک کی شخصیت دوسرے کی شخصیت سے بڑی ہوتی ہے فرق یہ ہوتا ہے کہ ایک کا ذہن دوسرے ذہن سے زیادہ بہتر وسیلہ بن جاتا ہے۔ ایلیٹ کے اس نظریے پر بڑی لے دے ہوئی ناقدین نے یہ اعتراض کیا کہ ایلیٹ کے اس سارے نظریے سے شاعر کے انا ٹھیس پہنچتی ہے اگر وہ محض وسیلہ ہے تو اس کی اہمیت و حیثیت بہت کم رہ جاتی ہے ایلیٹ کے لئے محض شاعر کی شخصیت کا اظہار کوئی معنی نہیں رکھتا اور انفرادی اظہار کے بجائے عظیم و اعلیٰ نظریات کے اظہار پر زور دیتا ہے۔ وہ فن کے لامحدود آزادی کو انتشار کا باعث سمجھتے ہوئے اسے کسی قانون کے ماتحت رکھنا چاہتا ہے۔
نظریہ معروضی تلازمہ:۔
رومانوی تنقید کی رد میں اس کا ایک اور نظریہ بھی قابل توجہ ہے وہ معروضی تلازمی کا تصور ہے ایلیٹ کا خیال ہے کہ جذبات کا اظہار براہ راست نہیں ہو سکتا شائد قاری تک پہنچنے کے لئے معروضی تلازمے تلاش کرتا ہے اور انہی تلازموں کے ذریعے اس کے شعری جذبات قاری کو پہنچتے ہیں۔ یہاں پر ایلیٹ پر فرانسیسی علامت پسندوں کا عمل دخل ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ جذبات کو محض تحریک دی جا سکتی ہے اور ان کا براہ راست اظہار نہیں ہو سکتا ۔ معروضی تلازمے کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ شاعر اپنے اندرونی جذبات کے مطابق خارجی ماحول میں سے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر ایک ترکیبی مسالہ تیار کرتا ہے اور اس طرح اپنے جذبات و خیالات کی ترسیل کرنے میں کامیاب ہو تا ہے۔ دراصل ایلیٹ کسی فن پارے کو ایسی الہامی چیز تسلیم نہیں کرتا جو شدتِ جذبات کے تحت ایک خاص شکل اور ایک خاص لمحے میں خود بخود وجود میں آگئی ہو۔ وہ فن پارے کو ایسی چیز تصور کرتا ہے جیسے سوچ سمجھ کر ناپ تول کر سلیقے اور محنت سے تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اور جس کا مقصد ایک مخصوص اثر پیدا کرنا ہوتا ہے یعنی اس طرح پہلے سے سوچا سمجھا اثر بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔
ایلیٹ شاعر سے شعوری کاوش کی توقع کرتا ہے ایلیٹ سے پہلے اس نظریے کی ابتدائی شکل Ezra Pondکے ہاں نظر آتی ہے جس کے مطابق ریاضی کے مساواتوں کی طرح شاعر جذبے کے لئے مساواتیں تلاش کرتا ہے۔ اس نظریے سے بھی رومانیت کی رد پیش ہوتی ہے۔ کیونکہ رومانوی تنقید کے مطابق شاعری میں جذبے کا اظہار براہ راست ہوتا ہے جبکہ ایلیٹ کے خیال میں جذبے کا براہ راست اظہار ممکن نہیں اور اس کے لئے ایک معروضی تلازمہ کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ اس طرح ابلاغ میں سہولت ہوتی ہے۔
شاعری کی تین آوازیں :۔
ایلیٹ کے دیگر مباحث بھی اہم ہیں اس نے خود منظوم ڈرامے لکھے اور شاعروں کی شاعری میں ڈرامائی آواز کے مسئلے کو اُٹھایا اس سلسلے میں اپنے مشہورزمانہ مضمون” شاعری کی تین آوازیں میں وہ کہتا ہے
١۔ پہلی آواز وہ جس میں شاعر خود سے بات کرتا ہے جو عموماً غنائی ہوتی ہے۔
٢۔ دوسری آوازمیں شاعر سامعین سے خطاب کرتا ہے یہ خطابیہ شاعری ہوتی ہے۔
٣۔ تیسری آواز میں شاعر ڈرامائی کردار بن کر ان کے ذریعے بولتا ہے۔
ایلیٹ بالخصوص ان تین وسیلوں کو موضوع بناتا ہے ان کا خیال ہے کہ شاعر کے پاس یہ تین ذرائع ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور منظوم ڈرامے میں خاص طور پر کام آتے ہیں۔
استعارہ :۔
ایلیٹ بھی Ezra Pondکی طرح استعارے کو شاعری کا اصل جوہر قرار دیتا ہیں اور اس کے مطابق شاعر کا کام شخصیت کا اظہار نہیں بلکہ فنکاری ہے شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے مشاہدے میں چاہے خارجی ہو یا داخلی بالکل واضح رہے اور اس کو استعاروں اور تمثیل کے ذریعے واضح کرے اور اس کاخیال ہے کہ اشعار میں استعارے اور تمثیل محض تزئین و آرائش کا کام نہیں کرتے بلکہ شاعر کے وجدان کا مظہر ہوتے ہیں۔
نقاد :۔
ایلیٹ کے نزدیک نقاد کا کام فن پارے کی تشریح سے شروع ہوتا ہے اور اس سلسلے میں اس کے ہتھیار تقابل اور تجزیاتی عمل ہیں۔ ہر نسل اپنا مخصوص نقطہ نظر رکھتی ہے اور یہی نقطہ نظر نقاد کی تحریروں سے شعوری طور پر جھلکتا ہے نقاد کی تحریریں دو قسم کی ہوتی ہیں حال کو پیش ِ نظر رکھ کر ماضی کی تشریح کرنا۔ یعنی تازہ علم کے ذریعے پچھلے فن پاروں کی نئی اور بہتر تشریح کرنا نقاد کے اہم فرائض میں سے ہے۔
اور اس طرح ماضی کی روشنی میں حال کا جائزہ لینا بھی نقاد کا کام ہے یعنی نقادروایت میں موجود ذہنی ارتقاءکو دیکھتا ہے پرکھتا ہے اور اس کاحال سے موازنہ کرتاہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ایلیٹ کے اندازِ تنقید سے بے حد متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ
نظریہ معروضی تلازمہ:۔
رومانوی تنقید کی رد میں اس کا ایک اور نظریہ بھی قابل توجہ ہے وہ معروضی تلازمی کا تصور ہے ایلیٹ کا خیال ہے کہ جذبات کا اظہار براہ راست نہیں ہو سکتا شائد قاری تک پہنچنے کے لئے معروضی تلازمے تلاش کرتا ہے اور انہی تلازموں کے ذریعے اس کے شعری جذبات قاری کو پہنچتے ہیں۔ یہاں پر ایلیٹ پر فرانسیسی علامت پسندوں کا عمل دخل ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ جذبات کو محض تحریک دی جا سکتی ہے اور ان کا براہ راست اظہار نہیں ہو سکتا ۔ معروضی تلازمے کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ شاعر اپنے اندرونی جذبات کے مطابق خارجی ماحول میں سے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر ایک ترکیبی مسالہ تیار کرتا ہے اور اس طرح اپنے جذبات و خیالات کی ترسیل کرنے میں کامیاب ہو تا ہے۔ دراصل ایلیٹ کسی فن پارے کو ایسی الہامی چیز تسلیم نہیں کرتا جو شدتِ جذبات کے تحت ایک خاص شکل اور ایک خاص لمحے میں خود بخود وجود میں آگئی ہو۔ وہ فن پارے کو ایسی چیز تصور کرتا ہے جیسے سوچ سمجھ کر ناپ تول کر سلیقے اور محنت سے تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اور جس کا مقصد ایک مخصوص اثر پیدا کرنا ہوتا ہے یعنی اس طرح پہلے سے سوچا سمجھا اثر بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔
ایلیٹ شاعر سے شعوری کاوش کی توقع کرتا ہے ایلیٹ سے پہلے اس نظریے کی ابتدائی شکل Ezra Pondکے ہاں نظر آتی ہے جس کے مطابق ریاضی کے مساواتوں کی طرح شاعر جذبے کے لئے مساواتیں تلاش کرتا ہے۔ اس نظریے سے بھی رومانیت کی رد پیش ہوتی ہے۔ کیونکہ رومانوی تنقید کے مطابق شاعری میں جذبے کا اظہار براہ راست ہوتا ہے جبکہ ایلیٹ کے خیال میں جذبے کا براہ راست اظہار ممکن نہیں اور اس کے لئے ایک معروضی تلازمہ کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ اس طرح ابلاغ میں سہولت ہوتی ہے۔
شاعری کی تین آوازیں :۔
ایلیٹ کے دیگر مباحث بھی اہم ہیں اس نے خود منظوم ڈرامے لکھے اور شاعروں کی شاعری میں ڈرامائی آواز کے مسئلے کو اُٹھایا اس سلسلے میں اپنے مشہورزمانہ مضمون” شاعری کی تین آوازیں میں وہ کہتا ہے
١۔ پہلی آواز وہ جس میں شاعر خود سے بات کرتا ہے جو عموماً غنائی ہوتی ہے۔
٢۔ دوسری آوازمیں شاعر سامعین سے خطاب کرتا ہے یہ خطابیہ شاعری ہوتی ہے۔
٣۔ تیسری آواز میں شاعر ڈرامائی کردار بن کر ان کے ذریعے بولتا ہے۔
ایلیٹ بالخصوص ان تین وسیلوں کو موضوع بناتا ہے ان کا خیال ہے کہ شاعر کے پاس یہ تین ذرائع ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور منظوم ڈرامے میں خاص طور پر کام آتے ہیں۔
استعارہ :۔
ایلیٹ بھی Ezra Pondکی طرح استعارے کو شاعری کا اصل جوہر قرار دیتا ہیں اور اس کے مطابق شاعر کا کام شخصیت کا اظہار نہیں بلکہ فنکاری ہے شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے مشاہدے میں چاہے خارجی ہو یا داخلی بالکل واضح رہے اور اس کو استعاروں اور تمثیل کے ذریعے واضح کرے اور اس کاخیال ہے کہ اشعار میں استعارے اور تمثیل محض تزئین و آرائش کا کام نہیں کرتے بلکہ شاعر کے وجدان کا مظہر ہوتے ہیں۔
نقاد :۔
ایلیٹ کے نزدیک نقاد کا کام فن پارے کی تشریح سے شروع ہوتا ہے اور اس سلسلے میں اس کے ہتھیار تقابل اور تجزیاتی عمل ہیں۔ ہر نسل اپنا مخصوص نقطہ نظر رکھتی ہے اور یہی نقطہ نظر نقاد کی تحریروں سے شعوری طور پر جھلکتا ہے نقاد کی تحریریں دو قسم کی ہوتی ہیں حال کو پیش ِ نظر رکھ کر ماضی کی تشریح کرنا۔ یعنی تازہ علم کے ذریعے پچھلے فن پاروں کی نئی اور بہتر تشریح کرنا نقاد کے اہم فرائض میں سے ہے۔
اور اس طرح ماضی کی روشنی میں حال کا جائزہ لینا بھی نقاد کا کام ہے یعنی نقادروایت میں موجود ذہنی ارتقاءکو دیکھتا ہے پرکھتا ہے اور اس کاحال سے موازنہ کرتاہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی ایلیٹ کے اندازِ تنقید سے بے حد متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ
ایلیٹ سے میری دلچسپی کا سبب یہ ہے کہ اس نے تنقید میں فکر کو جذب کرکے اسے ایک نئی قوت دی ہے اس لئے ان کی تنقید تاثراتی نہیں ہے اور اس کا طرز تحریر ، تجزیہ و تحلیل حد درجہ سائنٹفک ہے وہ اپنے خوبصورت جمے ہوئے انداز میں ٹھنڈے ٹھنڈے باوقار طریقے سے بات کرتا ہے قدیم شعراءمیں سے چند کو خاص دلچسپی کا محور بنا لیتا ہے۔ اور وہ ایسے شعراءہیں جنہوں نے ماضی سے شدت کے ساتھ اپنارشتہ جوڑا ہے۔
ایلیٹ کے نزدیک ترقی یافتہ شاعری اور ادب کے ذریعے کسی قوم کی برتری ثابت ہوتی ہے کیونکہ عظیم شعرا و ادب میں قومی احساسات اور تہذیبی اقدار کا عکس موجود رہتا ہے۔ چونکہ شاعری محض انفرادی شعور یا شخصی احساسات کی ترجمان نہیں بلکہ اس میں پوری تہذیب جلوہ نما ہوتی ہے لہٰذا اس کے ارتقاءسے قومی بلندی کا پتہ چلتا ہے۔
ایلیٹ روایت کا دلدادہ تھا انھوں نے جرمن اور فرنسیسی فنکارو ں کے اثرات بھی قبول کئے اُسے رومانوی شاعری سے نفرت تھی اور اس لئے وہ ایسے شاعروں کو اہمیت دیتا ہے۔ اُس نے سٹیج کے لئے منظوم ڈرامے بھی لکھے ، اسے سٹیج کے ناظرین سے یہ شکایت تھی کہ وہ ڈرامے میں پیش کردہ شاعری کوسنجیدگی سے نہیں لیتے ۔ شاعری میں وزن اور بحروں سے زیادہ موسقیت کا قائل تھا اس کاخیال ہے کہ اگر شاعری میں بنیادی ردھم ترنم اور ہیئت موجود ہے تو پھر اسے قافیے اور وزن کا زیادہ پابند نہیں ہونا چاہیے۔دراصل وہ جرمن ناقدین کی طرح اس بات کا قائل تھا کہ شاعر کے ذہن میں قدرتی طور پر توازن اور ردم موجود ہوتا ہے۔
اختتامیہ
ایلیٹ کی تنقید نے بیسویں صدی کے ادب پر گہرے اثرات چھوڑے حتیٰ کہ امریکہ میں نئی تنقید کا جو مکتبہ فکر سامنے آیا اس پر ایلیٹ کے اثرات نمایاں ہیں اگرچہ ایلیٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن اس چیز کو ہر عہد میں تسلیم کیا جاتا رہا۔ کہ موجودہ صدی کی تنقید اس کے پیش کردہ نظریات و مباحث نہایت بصیرت افروز ہیں۔ اس لئے کئی تنقید نگار اُسے انگریزی ادب کا سب سے بڑا ناقد مانتے ہیں ۔ خود ہمارے اردو ادب میں تنقید نگاروں پر اس کی گہری چھاپ ملتی ہے۔ احتشام حسین ، عباد ت بریلوی ، آ ل احمد سرور ، حسن عسکری، سید عابد علی عابد کے ہاں روایت کا تصور ایلیٹ کے نظریے کی باز گشت معلوم ہوتی ہے۔
ایلیٹ روایت کا دلدادہ تھا انھوں نے جرمن اور فرنسیسی فنکارو ں کے اثرات بھی قبول کئے اُسے رومانوی شاعری سے نفرت تھی اور اس لئے وہ ایسے شاعروں کو اہمیت دیتا ہے۔ اُس نے سٹیج کے لئے منظوم ڈرامے بھی لکھے ، اسے سٹیج کے ناظرین سے یہ شکایت تھی کہ وہ ڈرامے میں پیش کردہ شاعری کوسنجیدگی سے نہیں لیتے ۔ شاعری میں وزن اور بحروں سے زیادہ موسقیت کا قائل تھا اس کاخیال ہے کہ اگر شاعری میں بنیادی ردھم ترنم اور ہیئت موجود ہے تو پھر اسے قافیے اور وزن کا زیادہ پابند نہیں ہونا چاہیے۔دراصل وہ جرمن ناقدین کی طرح اس بات کا قائل تھا کہ شاعر کے ذہن میں قدرتی طور پر توازن اور ردم موجود ہوتا ہے۔
اختتامیہ
ایلیٹ کی تنقید نے بیسویں صدی کے ادب پر گہرے اثرات چھوڑے حتیٰ کہ امریکہ میں نئی تنقید کا جو مکتبہ فکر سامنے آیا اس پر ایلیٹ کے اثرات نمایاں ہیں اگرچہ ایلیٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن اس چیز کو ہر عہد میں تسلیم کیا جاتا رہا۔ کہ موجودہ صدی کی تنقید اس کے پیش کردہ نظریات و مباحث نہایت بصیرت افروز ہیں۔ اس لئے کئی تنقید نگار اُسے انگریزی ادب کا سب سے بڑا ناقد مانتے ہیں ۔ خود ہمارے اردو ادب میں تنقید نگاروں پر اس کی گہری چھاپ ملتی ہے۔ احتشام حسین ، عباد ت بریلوی ، آ ل احمد سرور ، حسن عسکری، سید عابد علی عابد کے ہاں روایت کا تصور ایلیٹ کے نظریے کی باز گشت معلوم ہوتی ہے۔
بہت ہی علمی مضمون ہے
جواب دیںحذف کریںبڑی محنت سے لکھا گیا ہے
یہ اور اس جیسے دوسرے مضامین جو آپ نے تحریر کیے، اردو وکیپیڈیا کو عطیہ کر دیں تو کیا خوب بات ہو۔ :)
جواب دیںحذف کریںv nice. and helpful 4me.
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت ہی عمدہ ہے
جواب دیںحذف کریں