منگل, فروری 21, 2012

آنگن

  اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں خدیجہ مستور کا نام بے حد اہمیت کا حامل ہے ۔ یوں تو ان کے ناولوں اور افسانوی مجموعوں کی تعداد سات ہے ۔ مگر ان کا ناول ’ آنگن ہی اس قدر توانا ثابت ہواکہ اس نے ان کے نام کو زندہ جاوید کر دیا ۔ نہ صرف یہ کہ یہ ناول ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہے گا بلکہ اس کے خالق کی حیثیت سے خدیجہ مستور کا نام بھی اردو ادب میں اپنا مقام بنا چکا ہے ۔ آنگن ‘ پر انہیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی انعام ’ آدم جی پرائز ‘ بھی ملا ۔ اس ناول میں خدیجہ مستور کا فن اپنے عروج پرنظرآتا ہے ۔ انہوں نے کئی سماجی ، تہذیبی ، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی تحریکوں کاجائزہ لیا ہے اور ان کا ماہرانہ تجزیہ پیش کیا ہے ۔ اس ناول کے بعد ہی ان کا شما رایک سنجیدہ اور گہری سوچ رکھنے والی تخلیق کار کی حیثیت سے ہونے لگا تھا کیونکہ ’ آنگن ‘ صرف ایک گھر کا آنگن نہیں پورے معاشرے کا آنگن ہے جس کا پر تو ہر دور میں نظر آتا ہے ۔

فنی جائزہ
فنی لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے ”آنگن “ کی کردار نگاری ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ ناول بہت سے کرداروں پر مشتمل ہے۔ ان کرداروں میں ایسے کردار بھی ہیں، جو شروع سے لے کر آخر تک قدم قدم پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے نہ صرف ایک دوسرے کے قدموں ، بلکہ اپنے قدموں کی آہٹیں بھی سنتے چلے جاتے ہیں لیکن آہٹوں کی اس معیت میں بھی ہر کردار اپنی جگہ تنہا اور بے یار و مدگار دکھائی دیتا ہے۔ کچھ ایسے کردار بھی ہیں جو پل بھر کے لئے رونما ہوتے ہیں او رپھر ناول کی دنیا سے غائب ہو جاتے ہیں۔ عالیہ کے والد مظہر چچا، تہمینہ باجی ، عالیہ ، چھمی ، اماں ، صفدر بھائی ، بڑ ے چچا ، بڑی چچی ، جمیل بھائی ، کریمن بواء، شکیل ، اسرار میاں ، ظفر چچا اماں کے بھائی ، اور انگریز بھابی اس ناول کے دائمی کردار ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک ناول کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتے پھرتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ رائے صاحب ، کسم دیدی ، شیام ، شیام کے والدین ، تھانیدار کا بیٹا منظور صفدر بھائی کی ماں سلمیٰ ، بڑے چچا کی بیٹی ، ڈیم پھول کہنے والا انگریز افسرمسز ہاروڈ ، نجمہ اور دادی اماں آنگن کے ضمنی کردار ہیں۔ سب سے پہلے ہم چند اہم اور بڑے کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں،

 عالیہ    
عالیہ ناول کی ہیروئن ہیں۔اور ساری کہانی عالیہ کے کردار کے گرد گھومتی ہوئی نظرا تی ہے۔ مصنفہ نے بڑ ے خوبصورت انداز میں اس کردار کو تراشا ہے۔ یہ ایک خوبصورت تعلیم یافتہ لڑکی ہے۔ بے سہار ا ہونے کے بعد اپنے بڑے چچا کے گھر میں آجاتی ہے اور آخر میں پاکستان آکر ایک کامیاب عورت بنتی ہے ۔ اس کردار کی مکمل نفسیاتی کیفیات مصنفہ نے واضح کرتے ہوئے کردار کا نفسیاتی تجزیہ خوبصورتی سے کیا ہے۔۔ عالیہ دراصل ایک ذہنی کشمکش کا شکار نظرآتی ہے۔ تہمینہ باجی کی خودکشی کے واقعے کے بعد اُسے ایک طرح مردوں سے نفرت ہو گئی ہے اور وہ مردوں سے دور رہتی ہے اس لئے بڑے چچا کے گھر میں آنے کے بعد جب جمیل بھیا اُس کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو وہ اُسے ٹھکرا دیتی ہے لیکن دوسری طرف ایک عورت ہونے کی وجہ سے اُس کی خواہش ہے کے اُسے چاہا جائے اور ایک مردکی محبت کو ٹھکرانے کے بعد بھی مکمل نظر انداز نہیں کر سکی۔ جب وہ پاکستان جانے کے لئے روانہ ہوتی ہے تو اس کی حالت سے اُس کی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ کم از کم جمیل اس کی طرف دیکھ تو لے اس سے بات تو کرلے ۔ اور اس ذہنی کشمکش کو بڑے خوبصورت اندا ز میں مصنفہ نے پیش کیا ہے۔اس کے وہ اپنی ماں کی بھر پور نفرت کے باوجود وہ بڑے چچا سے محبت رکھتی ہے۔ گھر میں اسرار میاں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر اُس کا دل کڑتا ہے۔ جو کہ اُس کو ایک اچھے ذہن اور نرم دل کا کردار ثابت کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالیہ کا کردار اردو ادب کا زندہ جاوید کردار ہے جس میں مصنفہ نے فن کردار نگاری کے تمام اصولوں کو برتا ہے۔
 جمیل بھائی    
جمیل بھائی ایک کمزور کردار ہے کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ناول کا ہیرو ہے لیکن ہیرو ہونے باوجود وہ ایک عام سا کردار ہے۔ جس میں ایک اچھا مرد ہونے کی کوئی خصوصیت نہیں ۔ بالکل عام مردوں کی طرح پہلے چھمی سے محبت کرتا ہے ۔ لیکن جب عالیہ گھر میں آتی ہے تو اُس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر عالیہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اس طرح یہی بات اسے ایک کمزور کردار ثابت کرتی ہے۔ دوسری طرف عالیہ کے بار بار ٹھکرانے کے باوجود بھی وہ اُس کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ گھر کی حالت سے کافی تنگ آچکا ہے بڑے چچاسے نظریاتی اختلا ف ہے اس لئے مسلم لیگ کا حامی ہے۔
چھمی    
چھمی کا کردار ناول کے خوبصورت اور اچھے کرداروں میں سے ہے۔ چھمی شروع سے بڑے چچا کے گھر بڑی ہوئی ہے اسے یہ شدید احساس ہے کہ والد اس کا حق ادا نہیں کر رہا۔ اسے ان پڑھ رہ جانے کا بھی صدمہ ہے۔ ناول نگار نے اس کردار کا نفسیاتی تجزیہ بڑی خوبصورتی سے کیا ہے چھمی اپنے حالاتِ زیست کے تحت ردعمل کے طور پر باغیانہ رویہ اختیار کر لیتی ہے۔ والد کے رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہاں تک کہہ دیتی ہے کہ کیا شادی کا مقصد یہی ہے کہ لوگ پلوں کی طرح بچے پیدا کرتے رہیں۔
 تہمینہ باجی
تہمینہ باجی عالیہ کی بہن ہے اپنے پھوپھی کے بیٹے صفد ر سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے لیکن اپنی ماں کے ڈر کے مارے اس کا برملا اظہار نہیں کر سکتی اور محبت کا سارا سلسلہ پس پردہ چلتا ہے۔ تہمینہ باجی کی محبت میں اتنی شدت ہے کہ جب اس کی شادی کسی دوسرے آدمی سے طے کر دی جاتی ہے تو وہ خودکشی کر لیتی ہے ۔ جس کا اثر عالیہ کے ذہن پر آخر تک رہتا ہے۔ تہمینہ باجی سماج اورمحبت کے درمیان پس کر رہ جانے والا کردار ہے۔
 صفدر بھائی
صفد ر بھائی کا جہاں تک تعلق ہے تو ناول نگار نے اس کا نفسیاتی تجزیہ بڑی چابکدستی سے کر دیا ہے ۔ اماں کے ناروا سلوک سے تنگ آکراُس کے   علی گڑھ جانے کے بعد یوں لگتا ہے کہ صفدر بھائی نے سکھ کا سانس لیا ہے اس کی خودی اور خوداری یہاں تک جاگ اٹھتی ہے کہ وہ تہمینہ کے ابو کی طرف سے بھیجی ہوئی رقم بھی واپس کر دیتا ہے۔ اس کی شخصیت کے نہاں گوشوں میں چھپا ہوا جذبہ ردعمل اسے ایسا کرنے پر اکستا تا ہے ۔ وہ واپس آنے کا نام بھی نہیں لیتا اور یہی اس کی نفسیاتی کیفیت کےنشیب و فرا ز ہیں۔ اس کے علاوہ یتیم ہونے کی وجہ سے یہ کردار احساس کمتری کا بھی شکار نظرآتا ہے۔ لیکن محبت کے معاملی میں وہ کسی قسم کی بغاوت سے قاصر ہے اور میدان چھوڑ کر بھاگ جانے میں اپنی عافیت محسوس کرتا ہے۔
 بڑے چچا
بڑے چچا جمیل کے والد ہیں ۔ بڑے چچا اُ س وقت کے ہندوستانی مسلمان کی ایک مکمل تصویر ہیں اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ اپنی اولاد سے دور ہوگئے ہیں۔ اور اس کے ردعمل کے طو ر پر گھر کے زیادہ تر لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی اپنی اولاد بھی ان کے نظریات کی مخالف نظرآتی ہے۔ لیکن وہ ایک سچے کانگرسی ہیںاور جس را ہ کا انھوں نے انتخاب کیا ہے اُس پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کی جان بھی اسی راہ میں چلی جاتی ہے۔
 مظہر چچا
مظہر چچا عالیہ کے والد ہیں ۔اُس وقت کے عام ہندوستانی ذہنیت کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ اور غلام ہونے کی وجہ سے اپنے آقا انگریز سے شدید نفرت کرتے ہیں اور اس نفرت میں ایک دہکتے ہوئے آتش فشاں جتنی شدت ہے اور جب یہ آتش فشاں پٹتا ہے تو وہ اپنے انگریز افسر کی خوب پٹائی کی سزا میں جیل چلے جاتے ہیں۔ جہاں اُن کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اپنے بچوں سے شدید محبت کرتے ہیں۔ اور اپنی بہن کے بیٹے صفدر سے اپنی بیوی کی نفرت کے باوجود محبت کرتے ہیں۔
 کسم دیدی    
کسم دیدی کا کردار ایک ناقابل فراموش ضمنی کردار ہے جو کہ ایک ہندو بیوہ ہے سماج کے ہاتھو ں مجبور ہے کیوں کہ بیوہ ہونے کے بعد اس سے زندہ رہنے کے تمام خواہشات چھین لئے گئے ہیں اور وہ مردہ لاش کی طرح زندگی گزار رہی ہیں۔ اس کا کردار تمام تر نفسیات کے ساتھ اس ناول میں حرکت و عمل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اپنے خاوند کی یاد میں ”کون گلی گیو شیام بتا وے کوئی“ اور ”جو میں جانتی بچھڑت ہو پیا گھونگٹ میں آگ لگا دیتی۔“ جیسے بول اس کی نفسیاتی کیفیات کی ترجمانی و عکاسی کرتے ہیں ۔
 اسرار میاں
اسرار میا ں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کسی داشتہ کا بیٹا ہے ۔ چنانچہ ناول نگار نے اسے نفسیاتی طور پر دبا دبا سا دکھایا ہے۔ وہ ہر وقت دکان پر ہوتا ہے یا بیٹھک میں پڑا رہتا ہے۔ گھر والے اسے اچھی نظروںسے نہیں دیکھتے وہ انتہائی احساس ِ کمتری کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ کریمن بوااگر سب گھر والے ناشتا کر چکے ہوں تو مجھے بھی ناشتہ بھجوا دیجئے۔ یہ وہ التجا ہے جو اسرار میاں روزانہ ہی نحیف سی آواز میں گداگروں کی طرح کرتے رہتے ہیں ۔ اس گھر کے رہنے والوں نے اسرار میاں کو یقین دلا رکھا ہے کہ واقعی تم کسی داشتہ کے بیٹے ہو اور وہ اس لقب پر صابر و شاکردکھائی دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر شاید اپنے آپ کو گداگر ہی سمجھتے ہیں ۔ گھر والوں کے ساتھ آمنے سامنے بات کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ عالیہ جب ایک موقعے پر اسرار میاں سے بات کرنا چاہتی ہے۔ تو وہ یہ کہتے ہوئے باہر کی طرف بھاگتے ہیں کہ پردہ ہے بیٹا۔ اس طرح خدیجہ مستور نے اپنے اس کردار کا نفسیاتی تجزیہ بھی بڑی فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو کردار نگاری کرتے ہوئے مصنفہ نے فن کردار نگاری کے اصولوں کو بڑی کامیابی اور فن کاری سے نبھایا ہے۔ انہوں نے کردار نگاری کرتے ہوئے ہر کردارکی فطرت اور حیثیت کا خاص خیال رکھا ہے کرداروں کے عمل سے ان کی فطر ت حیثیت اور اہلیت ظاہر ہوتی ہے۔ جس میں انسانی جذبات و نفسیات اور احساسات کی ہلچل اور گہما گہمی محسوس کی جا سکتی ہے۔ خدیجہ مستور نے ہر کردار کے دل و دماغ میں جھانک جھانک کر دیکھا ہے۔ اس طرح اسے جو کیفیت نظرآتی ہے۔ ہو بہو بیان کر دی ہے۔
 مکالمہ نگاری   
فنی نقطہ نظر سے مکالمہ نگاری بھی ایک اہم خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ ناول نگار نے کہیں تو اس ناول کو پیش کرنے میں بیانیہ انداز اپنایا ہے۔ اور کہیں اس کے ساتھ ساتھ فن مکالمہ نگاری کو بھی نبھایا ہے۔ مکالمہ نگاری کرتے وقت خدیجہ مستور نے کردار وں کی ذہنی حیثیت و کیفیت کا خوب خیال رکھا ہے ان کے لکھے ہوئے سبھی مکالمےکرداروں کی شخصیت پسند و ناپسند اور محبت و نفرت کی بھر پور عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثا ل کے طو ر پر کسم دیدی کا خاوند وطن کی کی آزادی کے لئے لئے قربان ہو جاتا ہے۔ تو کسم دیدی عالیہ کہ ماں سے کہتی ہے۔
” انھیں اگرمجھ سے محبت ہوتی تو کبھی نہ جاتے۔ انہیں توصرف اپنے دیش سے محبت تھی۔“

اس طرح مسز ہاروڈ کی گلابی اردو سے بھی انداز ہ ہوتا ہے کہ واقعی کوئی انگریز خاتون بول رہی ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں اس ناول کے مکالمے انتہائی فطری معلوم ہونے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر
   
”ہم آپ لوگوں سے مل کر بہت کھوش ہوا ہے۔“
       
”تم ہمارے پاس بیٹھنا مانگتا عالیہ“

اس کے علاوہ غصے کی وجہ سے فطری ضرورت کے تحت غصیلے کردار ایک دوسرے کے مقام کا پاس نہیں رکھتے مثلاً جب بڑی چچی کہتی ہے

” ارے اس کے بابا کو ہوش ہی کہاں ، جو اس کے دو بول پڑھا کر ٹھکانے لگا دے۔“

تو چھمی یوں جواب دیتی ہے۔
       
” جسے شوق ہو وہ خود اپنے دو بول پڑھوالے۔“

اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر ناول آنگن میں ہر کردار ی گفتگو موقع و محل کے مطابق ہے۔ کرداروں کا ایک ایک لفظ ان کی نفسیاتی کیفیت اور ذہنی حیثیت کے عین مطابق ہے۔چنانچہ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس ناول کی مکالمہ نگاری فطری تقاضوںسے میل کھاتی ہے۔
پلاٹ    
ناول کے پلاٹ پر غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ناول کا پلاٹ بھی فنی اصولوں کے عین مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ جیسا کی ناول کی پوری کہانی قصہ در قصہ ہونے کے ساتھ ساتھ زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم منسلک ہے۔ سبھی حالات و واقعات یکے بعد دیگرے ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ناول کے پلاٹ میں ایک خاص طرح کا ربط و ضبط پیدا ہو گیا ہے۔ پورے پلاٹ میں کوئی قصہ فالتو یا بے جادکھائی نہیں دیتا۔ پلاٹ کا فنی کمال یہ ہے کہ اگر اس میں کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی نکال دیا جائے تو پوری کہانی ایک خلاءاور خلیج کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔ہر واقعے کا اپنی جگہ حسب ضرورت ہونا اس ناول کے پلاٹ کی ایک اہم فنی خصوصیت ہے جو ناول نگار کی فہم و فراست اور فن کاری و پرکاری کا نتیجہ ہے۔ فنی لحاظ سے یہ ایک انتہائی ا ہم اور بنیادی خوبی سمجھی جاتی ہے۔
 منظر نگاری   
منظر نگاری کو بھی فنی حیثیت سے کسی بھی کہانی میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس ناول میں قدرتی منظر کشی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف سامنے والے درختوں سے الو کے بولنے کی آواز آتی رہتی ہے۔ اور درختوں کے جھنڈ قدرتی منظر کی ایک جھلکی سی پیش کر دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک موقعے پر رات کے وقت آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور ایسے میں پرندے اڑ رہے ہیں۔ جو کہ ایک نامکمل اور قابل گرفت منظر ہے کہ رات کے وقت پرندے کب اُڑتے ہیں
 اسلوب       
ناول نگار نے انتہائی سادہ اور سلیس اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے ناول کی عبارت کو دلکش اور دلچسپ بنا دیا ہے پورے ناول کے شروع سے لے کر اخر تک ایسے مشکل الفاظ بالکل نظرنہیں آتے جو ذہن پر بوجھ کا سبب بنتے ہوں۔ ناول کی عبارت سادہ اور سلیس ہونے کے باعث رواں دواں ہے۔ یہی وہ روانی ہے جس کے نتیجے میں ناول دل آویزی کی حد تک دلکشی اور دلچسپی سے ہمکنار ہوا ہے۔ ناول نگارنے بیچ بیچ میں طنزیہ و مزاحیہ انداز بیا ن اختیار کرتے ہوئے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے مثال کے طور پر چھمی ایک موقعے پر کہتی ہے ۔
” اے ہے کلو کی اماں ایک لڑکا تھا نا مزدوروں کی کسی جماعت میں چلا گیا وہ جماعت انڈر گرائونڈ رہتی ہے اللہ وہ زمین کے اندر کیسے رہتے ہوگے۔“
 تجسّس وجستجو    
فن کے پیش نظر تجسّس اور جستجو کے عناصر بھی کہانی کے لئے انتہائی ہیں۔ مذکورہ ناول میں یہ عناصر خوب زوروں پر ہیں۔ شروع سے لے کر آخر تک تجسّس کی ایک برقی رو ۔ دوڑتی محسوس ہوتی ہے۔ پڑھنے والا قدم قدم پر سوال اٹھاتا رہتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ مظہر چچا جب جیل چلے جاتے ہیں تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ بڑے چچا کے گھر میں عالیہ اور اس کی اماں کس طرح گزارہ کر یں گے۔ کیا مظہر چچا کوقید ہو جائے گی یا رہا ہو کر واپس آجائیں گے۔ تہمینہ اور صفدر ایک دوسرے کو پالیں گے۔ یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے۔ صفدر کبھی واپس آئے گا یا نہیں۔ تہمینہ کی شادی جمیل کے ساتھ ہوگی کہ نہیں؟مگر جب تہمینہ خودکشی کر لیتی ہے توہمیں ان سوالوں کے جواب خود بخود مل جاتے ہیں ۔ اس طرح کسم دیدی کا واقعہ ہو۔ شکیل کا گھر سے بھاگ جانا ہو چھمی کی طلاق ہو کانگرس اور مسلم لیگ کے جلسے جلوس ہوں یا ہندو مسلم فسادات سبھی حالات و واقعات اپنے اندر بے پنا ہ تجسّس لئے ہوئے ہیں جن سے ناول کی دلچسپی اور دلکشی میں بھر پور اضافہ ہوا ہے۔
مجموعی طور پر ناول ”آنگن “فنی لوازمات کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ چنانچہ ہم اسے ایک کامیاب ناول قرار دے سکتے ہیں۔
 فکری جائزہ
فکری لحاظ سے دیکھا جائے تو ناول آنگن بنیادی طور پر سیاسی اور رومانی ناول ہے جس پر معاشرتی و سماجی رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اس ناول میں ناول نگار نے زندگی کے تقریباً سبھی مسائل سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ناول ہندوستان کی نجی اور گھریلو زندگی سے لے کر دور غلامی کے لوگوں کی قومی حیثیت کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ ناول میں گھریلو آنگنوں کے ساتھ ساتھ پور ے ہندوستان کو ایک آنگن قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ مذکور ہ ناول میں مظہر چچا ، رائے صاحب اور کسی حد تک ماموں کے گھریلو حالات کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کی صورت حال کانقشہ کھینچا گیاہے۔
ٍناول کا تانا بانا اس طرح تیار کیاگیاکہ رومانیت کا عنصر بڑی حد تک ناول میں پایا جاتا ہے۔ تہمینہ آپا اور صفدر بھائی کی محبت ناول کی فضاءمیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں لیکن تہمینہ کی شادی ا س کی مرضی کے خلاف جمیل بھائی سے طے کر دی جاتی ہے جس کا نتیجہ تہمینہ کی خود کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس طرح مصنفہ نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ رشتے جیسے مقدس اور نازک مسئلے کا فیصلہ کرتے وقت اولا د کی مرضی کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
کسم دیدی کا خاوند جلیانوالہ باغ کے جلسے میں مارا جاتا ہے تواس کے بعد اپنے خاوند کی جدائی کے صدمے میں وہ جس طرح مبتلا رہتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی کسم دیدی محبت ، ایفا، اور وفا کی ایک عظیم دیوی ہے۔ اس کے یہ بول
    ”جو میں جانتی بچھڑت ہو پیا گونگھٹ میں آگ لگا دیتی “
اس کے دلی جذبات و احساسا ت کا بھر پور کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں۔ مگر کسم دیدی کے حوالے سے ناول نگار نے انتہائی حقیقت نگاری اور نفسیات نگاری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے۔ یہ تلخ حقیقت ظاہر کر دی ہے کہ وہی کسم دیدی جو اپنے خاوند کی یاد میں دن رات روتی تھی ،آخر ایک غیر مرد کے ساتھ گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ اس مقام پر خدیجہ مستور نے یہ نفسیاتی حقیقت ظاہر کی ہے کہ محبت اور عورت و مرد کی قربت ایک فطری جذبہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک سیاسی سماجی ناول ہے۔ تحریک آزادی کا مسلمان گھرانوں کی زندگی اور مسلمانوں کے ذہنوں پر کیا اثر ہوا ۔ ان سب کااحوال اس ناول میں موجود ہے۔ ناول میں انگریزی تہذیب و تمدن اور انگریزوں کی مخالفت ہی سے تحریک آزادی کا آغاز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ”ڈیم پھول“ کہنے پر مظہر چچا انگریز افسر کے سر پر ایسا وار کرتے ہیں کہ افسر کا سر پھوڑ ڈالتے ہیں۔ ناول نگار نے یہاں پر اس مقام کی عکاسی کر دی ہے۔ جہاں غلامی کی زنجیریں ہندوستانی غلاموں کے لئے ناقابل برداشت ہو چکی تھیں۔ یوں لگتا ہے کہ اب وہ ان زنجیروں کو پاش پاش کر دینا چاہتے ہیں۔ مظہر چچا کا کردار راہ آزادی کے ایسے ہی جانباز وں کی زندہ جاوید قربانیوں کی لازاوال مثال جو طوق غلامی اتار پھینکنے کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کر دینے پر تلے ہوئے تھے، ان کی ساری ساری زندگیاں جیلوں میں کٹ گئیں ، بے شمارافراد ایسے بھی تھے جن کی اموات جلیوں میں واقع ہوئیں ۔آزادی کا نام لینے کے جرم کی پاداش میں وہ آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دئیے گئے۔ لیکن دوبار جیتے جی اپنے پیاروں سے نہ مل سکے۔ ان کی آنکھیں آزادی کے چراغاں کو ترستی رہ گئیں ، لیکن جیل کے آہنی دروازوں سے ان کی لاشیں ہی باہر آسکیں۔ آزادی کی خاطر مظہر چچا کی طرح بے شمار لوگوں کے گھر اجڑے ۔ آنگن ان سب تلخ حقائق کی عکاسی بھر پور انداز میں کرتی ہے۔

راہ آزادی کے مسافروں نے منزی آزادی تک پہنچنے کے لئے ہر طرح کی قربانیاں دیں۔مظہر چچا کی طرح ملازمتوں سے ہاتھ دھوئے ۔ گھر بار اجاڑ دئیے ۔ بال بچے در بدر ہوئے۔ بڑے چچا کی طرح کاروبار کی آمدن اولاد پر خرچ کرنے کے بجائے، تحریک آزاد ی کے مجاہدوں نے آ زادی پرسب کچھ لٹا دیا۔ جس کی وجہ سے خاندانوں کی معاشی حالت بھی بگڑتی چلی جارہی تھی۔ گھر میں شکیل جیسے معصوم بچوں کے لئے پڑھنے کو کتابیں نہ تھیں۔ اس لئے کہ بڑے چچا جیسے مجاہد سب کچھ آزادی پر نچھاور کر رہے تھے۔ گھر میں ماں جیسی قریبی ہستی کی موت واقع ہو جاتی ہے مگر لوگ ماں کا سوگ منانے کے بجائے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف رہتے۔

دوسری طرف مزید باریک بینی میں جاتے ہوئے مسلم لیگ اور کانگرس کی آویزش اور کشمکش کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ بڑے چچا مسلمان ہوتے ہوئے بھی کانگرسی ہیں اور اپنے گھر والوں خصوصاً چھمی سے کافر چچا کا خطاب پاتے ہیں۔ یعنی ہندوستان کا ایک ایک مسلمان گھرانہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ جمیل کی لاہور آمد اور قرار داد پاکستان میں شرکت اس سیاسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ ایک ہی خاندان کے قریبی رشتے مختلف سیاسی نظریات و تصورات رکھتے تھے کوئی پاکستان بنا رہا ہے اور کوئی بڑے چچا کی صورت میں اس کی مخالفت کر رہا ہے۔

ناول کی فضاءسے عدم تعاون کی تحریک اور خلافت کی ترجمانی بھی ہو رہی ہے۔ جذبہ آزادی اور تحریک خلافت کی متوالی مائیں اپنے جوان بیٹوں کو کھلے دل سے کہتی تھیں۔
       
بوڑھی اماں کا تم غم نہ کرنا

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

کانگرس اور مسلم لیگ کی حریفانہ کشمکش کے نتیجے میں ہندو مسلم کش فسادات بھی ہوتے رہتے ہیں اگرچہ اس وقت ابھی آزادی کی منزل بھی دور تھی۔ لیکن راہ آزادی کے مسافر ہندومسلم کی صورت میں پہلے ہی ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے جو کہ اپنی نوعیت کا ایک المیہ ہے۔
آخر تحریک آزادی اپنی منزل مقصود تک پہنچتی نظرآتی ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے دنوں میں ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ اور پھر ناول میں اس بھیانک دور کا بھی ذکر ہے جب پورے ہندوستان میں فسادات ہوتے ہیں خون کی ندیاں بہتی ہیں ۔ ہر طرف خون ہی خون ہے۔ ہندو مسلمان دشمنی میں یہاں تک بڑھ گئے ہیں کہ ساری عمر کافر چچا اور ہندو مزا ج کے طعنے برداشت کرنے والے بڑے چچا کو قتل کر دیا جاتاہے۔ جو کہ ایک کٹر کانگریسی تھے۔ لیکن ان کا گنا ہ صرف اتنا تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ یہاں ناول نگار نے ایک لحاظ سے یہ حقیقت ظاہر کر دی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے ۔ مذہبی فرق اور عقیدے کیوجہ سے اگر موقع ملے تو بڑے چچا جیسے کٹر کانگریسی بھی ہندو کے وار سے نہیں بچ سکتے۔
ناول نگار نے اس حقیقت کی ہو بہو عکاسی کر دی ہے کہ مسلمان تو کانگریسی تھے اور اب بھی ہیں لیکن کوئی ہندو تو اُس وقت مسلم لیگی نہیں تھا۔ اور نہ اب ہے۔ خدیجہ مستور نے تقسیم کی صورت میں مہاجرین اور کے قافلوں کا ادھر ادھر آنا جانا بھی دکھایا ہے۔ راستے میں جس طرح قافلے لٹ پٹ جاتے ہیں ۔ ناول نگار نے ہو بہو عکاسی و ترجمانی کر دی ہے۔
اماں کے بھائی بہن کے لئے پاکستا ن میں ایک بنگلے کا بندوبست کر دیتا ہے اور کہیں سے جعلی رسیدےں لا کر عالیہ کی موجودگی میں سمجھاتا ہے کہ اگر کوئی پوچھے تو کہنا ، فرنیچر ہم نے خریدا ہے۔ ناول نگار نے اس مقام پر دبے الفاظ میں اس جعل سازی ، دھوکہ دہی اور چور بازاری کی جھلکی دکھادی ہے۔ جو آج پاکستانیوں کا شعار بنی ہوئی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ایک بہت بڑا المیہ ہے اور یہ اس المیے کا آغاز پاکستان بنتے ہی ہوگیا تھا۔
بہر حال فکری طور پر ناول آنگن رومانوی انداز میں تحریک آزادی کی ایک دل دوز داستان ہے۔ مختلف ادوار کے حوالے سے مختلف تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے ناول نگار نے دور ِ غلامی اور تحریک آزادی کا تجزیہ اس انداز میں کیا ہے کہ ماضی اور حا ل کی پوری اور مکمل تصویر دل و دماغ میں نقش ہو کر رہ جاتی ہے۔ راہ آزادی کے مجاہدوں نے جن کٹھن اور نامساعد حالات میں آزادی حاصل کرنے کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ان کا ذکر انتہائی موثر انداز میں کر دیا گیا ہے۔ مگر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آیا ان مجاہدوں اور شہیدوں نے جو آزادی امانت کے طور پر ہمارے پاس چھوڑ ی ہم اس کی حفاظت میں کہاں تک مخلص ہیں؟ یہ سوال ہمارے لئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔

1 تبصرہ:

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...