جمعرات, اکتوبر 11, 2012

انجمن پنجاب

سال1857کے ہنگامے کے بعد ملک میں ایک تعطل پیدا ہوگیا تھا ۔ اس تعطل کودور کرنے اور زندگی کو ازسر نو متحرک کرنے کے لیے حکومت کے ایماءپر مختلف صوبوں اور شہروں میں علمی و ادبی سوسائٹیاں قائم کی گئیں ہیں۔ سب سے پہلے بمبئی ، بنارس ،لکھنو ، شاہ جہاں پور ، بریلی اور کلکتہ میں ادبی انجمنیں قائم ہوئیں۔ ایسی ہی ایک انجمن لاہور میں قائم کی گئی جس کا پور ا نام ”انجمن اشاعت مطالب ِ مفیدہ پنجاب “ تھا جو بعد میں انجمن پنجاب کے نام سے مشہور ہوئی۔
انجمن کا قیام جنوری 1865ءمیں عمل میں لایا گیا۔ اس انجمن کے قیام میں ڈاکٹر لائٹر نے نمایاں خدمات انجام دیں ۔ لاہور میں جب گورنمنٹ کالج لاہور قائم ہواڈاکٹر لائٹر اس کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر لائٹر کو نہ صرف علوم مشرقی کے بقاءاور احیاءسے دلچسپی تھی بلکہ انہیں یہ بھی احساس تھا کہ لارڈ میکالے کی حکمت عملی کے مطابق انگریزی زبان کے ذریعے علوم سکھانے کا طریقہ عملی مشکلات سے دوچار تھا۔ ان باتوں کی بناءپر ڈاکٹر لائٹر نے اس خطے کی تعلیمی اور معاشرتی اصلاح کا فیصلہ کیا۔ اور انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب کی داغ بیل ڈالی
 مقاصد
انجمن کے مقاصد میں قدیم علوم کا احیاء، صنعت و تجارت کا فروغ ، دیسی زبان کے ذریعے علوم مفیدہ کی اشاعت، علمی ادبی اور معاشرتی و سیاسی مسائل پر بحث و نظر صوبے کے بارسوخ طبقات اور افسران حکومت کا رابطہ ، عوام اور انگریز حکومت کے درمیان موجود بدگمانی کو رفع کرنا شامل تھا۔
    ان مقاصد کے حصول کے لیے مختلف مقامات پر مدارس ، کتب خانے قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ رسائل جاری کئے گئے۔ سماجی اور تہذیبی ، اخلاقی ، انتظامی اور ادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کے لیے جلسوں کا اہتمام کیا گیا۔
 رکنیت:۔
  انجمن پنجاب کے پہلے جسلے میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی وہ سرکاری ملازم ، روسا ءاور جاگیردار وغیر ہ تھے۔ لیکن جلد ہی اس کی رکنیت عام لوگوں کے لیے بھی کھول دی گئی۔ اس انجمن کے اعزازی دائمی سرپرست پرنس آف ویلز تھے جب کہ سرپرست گورنر پنجاب تھے۔ اس انجمن کے اراکین کی تعداد 250 تھی ۔
 انجمن کے جلسے:۔
        انجمن کا اہم کام مختلف مضامین پر ہفتہ وار مباحثوں کا سلسلہ شروع کرنا تھا۔ چنانچہ جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو یہ اس قدر کامیاب ثابت ہوا کہ اس کی بازگشت سرکاری ایوان میں بھی سنی جانے لگی۔ اس انجمن کے جلسوں میں پڑھے گئے مضامین پر بحث و نظر کی عام اجازت تھی۔ جب کہ انجمن پنجاب کا جلسہ خاص بالعموم انتظامی نوعیت کا ہوتا تھا۔ اور اس میں صرف عہدہ دار شریک ہوتے تھے۔ لیکن جلسہ عام میں شریک ہونے اور دانشوروں کے مقالات سننے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس لیے انجمن پنجاب کی تحریک میں زیادہ اہمیت جلسہ عام کو حاصل تھی۔ اس انجمن کے ابتدائی جلسوں میں مولوی محمد حسین آزاد، پنڈت من پھول ، ڈاکٹر لائٹز ، بابو نوبین چندر رائے، بابو شاما چرن ، مولوی عزیز الدین اور پروفیسر عملدار حسین وغیرہ نے مضامین پڑھے ۔ ان میں سے بیشتر مضامین انجمن کے رسالے میں طبع ہوئے۔
 محمد حسین آزادانجمن کے لیکچرار:۔
        انجمن کے جلسوں میں جو دانشور مضامین پڑھتے تھے، ان میں سے سب سے زیادہ مضامین [[محمد حسین آزاد]] کے پسند کئے گئے ۔ اس لیے ڈاکٹر لائٹز نے انہیں انجمن کے خرچ پر مستقل طور پر لیکچرر مقرر کرنے کی تجویز منظور کروائی۔ جب محمد حسین آزاد کا تقرر اس عہدے پر کیا گیا ۔ تو آزاد نے موثر طور پر اپنے فرائض ادا کئے اور انجمن پنجاب کو ایک فعال تحریک بنا دیا۔ بحیثیت لیکچرار انجمن پنجاب میں محمد حسین آزاد کے ذمے یہ فرائض تھے کہ جو مضامین جلسوں میں پڑھے جانے والے پسند کئے جاتے تھے ان کو عوام میں مشہور کرنا، ہفتے میں دو تین لیکچر کمیٹی کے حسب منشاءپڑھنا، تحریری لیکچروں کو سلیس اور دلچسپ اردو میں پیش کرنا اور انجمن کے رسالے کی طباعت اور ترتیب مضامین وغیرہ کی درست شامل تھے۔
    ان فرائض کی وجہ سے انجمن میں انھیں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ لیکچروں کی ترتیب و تنظیم ، مجالس کا اتنظام ، مضامین کی قرات اور اشاعت غرضیکہ انجمن پنجاب کے تمام امور عملی انجام دہی ، آزاد کی ذمہ داری تھی۔ آزاد نے اس حیثیت سے اتنی عمدہ خدمات انجام دیں کہ محمد حسین آزاد ادبی پیش منظر پر نمایاں ہوگئے ۔ محمد حسین آزاد نے انجمن کے جلسوں میں ایک جدت یہ کی انہوں نے جلسے کے اختتام پر روایتی مشاعرے کا اضافہ کر دیا تھا۔ اس سے عوامی دلچسپی زیادہ بڑھ گئی تھی۔
 انجمن کے مشاعرے:۔
        انجمن پنجاب کی شہرت کا سب سے بڑا سبب انجمن کے مشاعرے تھے۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں کا آغاز مئی 1874ءکو ہوا۔ کہا جاتا ہے۔ کہ مشاعروں کی بنیاد کرنل ہالرائیڈ ناظم تعلیمات پنجاب کی تحریک سے ہوئی۔ اس زمانے میں غزل کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ جبکہ غزل کے بارے میں آزاد کا خیال تھا کہ غزل کی طرز میں ایک خیال اول سے آخر تک اچھی طرح تضمین نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ محمد حسین آزاد نے انجمن پنجاب کے اجلاس منعقدہ 1876ءمیں ایک لیکچر بعنوان ”خیالات درباب نظم اور کلام کے موزوں کے۔“دیاتھا۔ اور اختتام پر اپنی مشہور نظم ”شب قدر“ پڑھ کر سنائی ۔ اس نظم سے مقصود یہ ظاہر کرنا تھا کہ اگر شاعر سلیقہ رکھتا ہو تو ہجر و صال ”عشق و عاشقی، شراب و ساقی اور بہار و خزاں کے علاوہ مناظر فطرت کو بھی شاعری کا موضوع بنایا جاسکتا ہے۔ آزاد کی تقریر اور ان کی نظم اس قدر دل پزیر تھی کہ جلسے کے اختیام پر محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر کرنل ہالرائیڈ نے اس کی بے حد تعریف کی اور فرمایا:
”اس وقت مولوی صاحب نے جو مضمون پڑھا اور رات کی حالت پر اشعار سنائے وہ بہت تعریف کے قابل ہیں۔ یہ نظم ایک عمدہ نظام کا طرز ہے جس کا رواج مطلوب ہے۔“
    کرنل ہالرائیڈ کے آخری جملے سے بالمعموم یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ نظم جدید کی ترویج کرنل ہالرائیڈ کی ایما پر ہوئی۔
 مشاعروں کا پس منظر:۔
        مشاعروں کا سیاسی پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ ٧ اگست 1881ءکو وائسرائے ہند نے ملک کے مختلف صوبہ جات کے پاس ایک آرڈیننس بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری سکولوں میں مسلمانوں کی قدیم زبانوں اور نیز دیسی زبانوں کی تعلیم دی جائے۔ مسلمان اساتذہ مقرر کئے جائیں اور عربی فارسی کی تعلیم میں اضافہ کیا جائے۔
    خیال کیا جاتا ہے کہ وائسرے ہند کے اس حکم کی تعمیل میں پنجاب کے گورنر نے جب سرکاری سکولوں میں پڑھائی جانے والی اردو کتابوں کو دیکھا تو انہوں نے ان کتابوں میں نظموں کی کمی کو محسوس کیا۔ اس کمی کی بناءپر گورنر نے دیسی نظموں کی ترویج کی خواہش ظاہر کی۔ گورنر کی خواہش کوعملی جامہ پہنانے کے لیے پنجاب کے ناظم تعلیمات کرنل ہالرائیڈ نے اردو نظم کے سلسلے میں مشاعروں کی تحریک شروع کرنے کا ارارہ کیا اور اس ضمن میں انہوں نے محمد حسین آزاد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جو اس وقت ناظم تعلیمات پنجاب کے دفتر سے منسلک تھے ۔
 جدت:۔
        انجمن پنجا ب کے زیر اہتمام جو مشاعرے منعقد کئے جاتے تھے۔ ان میں ایک نئی جدت کی گئی تھی کہ ان مشاعروں کے لیے طرح مصرعہ نہیں دیا جاتا تھا بلکہ نظموں کے عنوان مقرر کئے جاتے تھے اور شعراءحضرات ان موضوعات پر طبع آزمائی کرتے اور ان موضوعات پر نظمیں لکھ کر لاتے اور مشاعرے میں سناتے۔
 مشاعروں کی تفصیل:۔
       انجمن پنجاب کے مشاعروں کا آغاز 1874ءمیں ہوا۔ پہلا مشاعرہ ٣ مئی 1874ءکو منعقد ہوا ۔ اس مشاعرے کے لیے کرنل ہالرائیڈ کی تجویز کے مطابق نظم کا موضوع ”برسات رکھا گیا۔ اس مشاعرے میں مولانا حالی نے پہلی بار شرکت کی اور اپنی مشہور نظم”برکھا رت“ سنائی تھی۔ محمد حسین آزاد نے بھی برسات کے موضوع پر نظم سنائی تھی۔ مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد کے علاوہ اس پہلے مشاعرے میں شرکت کرنے والے شعراءمیں الطاف علی ، ذوق کاکوروی وغیر ہ شامل تھے
    اس مشاعرے کے انعقاد کے بعد انجمن پنجاب کے زیر اہتمام موضوعی مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشاعروں کا سلسلہ 30 مئی 1874ءسے شروع ہواور مارچ 1875ءتک جاری رہا۔ اس دوران کل دس مشاعرے ہوئے اور جن موضوعات پر مشاعروں مےں نظمیں پڑھ گئیں ان میں برسات ، زمستان، امید ، حب وطن ، امن ، انصاف، مروت ، قناعت ، تہذیب، اور اخلاق شامل تھے۔
    ان مشاعروں میں شرکت کرنے والے شعراءکے ناموں پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کے علاوہ کوئی دوسرا صف اول کا شاعر شریک نہیں ہوا۔ حالی بھی انجمن کے صرف چار مشاعروں میں شریک ہوسکے تھے۔ کیونکہ بعد میں وہ دہلی چلے گئے تھے۔ ان مشاعروں میں مولانا [[الطاف حسین حالی]] نے جو نظمیں پڑھی تھیں ان کے نام یہ ہیں۔ ”برکھا رت“، ”نشاط امید“ ”حب وطن“ اور ”مناظر رحم انصاف “۔
    لاہور سے دلی چلے جانے کے باوجود مولانا الطاف حسین حالی نے نظمیں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ چنانچہ انھوں نے جو نظمیں لکھیں ان میں مسدس حالی ، مناجات بیوہ ،چپ کی داد اور شکوہ ہند ، واعظ و شاعر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
    انجمن پنجاب کے مشاعروں میں محمد حسین آزاد نے جو نظمیں پڑھیں ان میں شب قدر، صبح امید، ابر کرم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں کے ذریعہ نظموں کا ایک وافر ذخیرہ جمع ہوگیا۔ جس نے آنے والے دور میں نظم کی تحریک اور جدید شاعری کے رجحان کی رہنمائی کی۔
 ادب پر اثرات:۔
        انجمن پنجاب نے ادب پر جو گہر ے اثرا ت مرتب کئے ۔ ان کا مختصر ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابتداءمیں ذکر ہو چکا ہے۔ کہ انجمن پنجاب کے قیام کا بنیادی مقصد قدیم مشرقی علوم کا احیا اور باشندگان ملک میں دیسی زبان کے ذریعے علوم مفیدہ کی اشاعت وغیرہ تھی ۔ اس کے لیے طریقہ کار یہ اپنایا گیا کہ انجمن کے جلسوں میں مضامین پڑھے جاتے تھے اور اس طریقہ کار کا بڑا فائدہ ہوا۔اور اردو ادب پر اس کے دوررس اثرات مرتب ہوئے۔
 مجلسی تنقیدکی ابتدا:۔
        انجمن کے جلسوں میں پڑھے گئے مضامین پر بحث و تنقید کی کھلی اجازت تھی۔ انجمن کے اس طریقہ کار کی وجہ سے شرکائے جلسہ کو بحث میں حصہ لینے علمی نقطہ پیداکرنے اور صحت مند تنقید کو برداشت کرنے کی تربیت ملی۔ ہندوستان میں مجلسی تنقیدکی اولین روایت کواسی انجمن نے فروغ دیا۔ علمی امور میں عالی ظرفی ، کشادہ نظری اور وسعت نظر کے جذبات کی ترویج کی گئی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں جب حلقہ ارباب ذوق کی تحریک چلی تو اس میں بھی مجلسی تنقید کے اسی انداز کو اپنایا۔ جس قسم کے تنقید کی بنیاد انجمن پنجاب نے ڈالی تھی ، اسی کے نتیجے میں پھر حالی نے اردو تنقید کی پہلی باقاعدہ کتاب”مقدمہ شعر و شاعری“ لکھی۔
 نیچرل شاعری کا آغاز:۔
        انجمن پنجاب کے مشاعروں کی وجہ سے اردو میں نیچرل شاعری کا رواج ہوا۔ نیچرل شاعری سے مراد یہ ہے کہ ایسی شاعری جس میں مبالغہ نہ ہو، صاف اور سیدھی باتوں کو اس انداز سے بیان کیا گیا جائے کہ لوگ سن کر لطف اندوز ہوں۔ چنانچہ انجمن پنجاب کے مشاعروں میں محمد حسین آزاد اور مولانا حالی نے اپنی نظمیں پڑھ کر اردو میں نیچرل شاعری کی بنیاد ڈالی جس کا بعد میں اسماعیل میرٹھی نے تتبع کیا۔حالی کی نظم برکھا رت سے اس کی مثال ملاحظہ ہو۔
گرمی سے تڑپ رہے تھے جاندار
اور دھوپ میں تپ رہے تھے کہسار
تھی لوٹ سی پڑی چمن میں
اور آگ سی لگ رہی بن میں
بچوں کا ہواتھا حال بے حال
کملائے ہوئے تھے پھول سے گال
 اردو شاعری میں انقلاب:۔
        انجمن کے مشاعروں نے اردو شاعری میں ذہنی ، فکری اور تہذیبی انقلاب پیدا کیا۔ حب الوطنی ، انسان دوستی ، مروت ، محنت ، اخلاق اور معاشرت کے مختلف موضوعات کو ان مشاعروں کا موضوع بنایا گیا۔ چنانچہ ان مشاعروں نے فرضی ، خیالی اور رسمی عشقیہ شاعری کو بدل کر رکھ دیا ۔ مبالغہ آمیز خیالات کو چھوڑ کر ہر قسم کی فطری اور حقیقی جذبات کو سادگی اور صفائی سے پیش کرنے پر زور دیا جسے اس زمانے میں نیچر ل شاعری کا نام دیا گیا۔
 مناظر قدرت:۔
        مناظر قدرت کا نظموں میں بیان اگرچہ کوئی نئی چیز نہیں اور نہ ہی یہ انجمن پنجاب کے مشاعروں کی پیداوار ہے ۔ اس کے متعدد نمونے ہمیں نظیر اکبر آبادی کے ہاں ملتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انجمن پنجاب کے مشاعروں سے قبل مناظر قدرت نے کوئی مستقل حیثیت پیدا نہیں کی تھی۔ اور نظیر کے علاوہ کسی دوسرے شاعرے نے اس طرف توجہ نہیں کی تھی۔ لیکن اُس میں مناطر قدرت کے بیان نے ایک مستقل صورت اختیار کی اور س کا سنگ بنیاد سب سے پہلے انجمن پنجاب کے مشاعرہ میں مولانا حالی نے رکھا۔ مولانا حالی نے برکھا رت کے نام سے جو نظم لکھی اس میں برسات کے مختلف پہلوئوں کی تصویر کھینچ کر فطرت کی ترجمانی کی ۔ جبکہ آزاد نے ابر کرم میں قدرت کے مناظر کی عکاسی کی ۔بعد کے شعراءمیں اسماعیل میرٹھی ، شوق قدوائی، بے نظیر نے مناظر فطرت پر اچھی نظمیں لکھیں۔
برسات کا بج رہا ہے ڈنکا
اک شور ہے آسماں پہ برپا
پھولوں سے پٹے ہوئے ہیں کہسار
دولہا بنے ہوئے اشجار
چلنا وہ بادلوں کا زمیں چوم چوم کر
اور اٹھنا آسماں کی طرف جھوم جھوم کر
بجلی کو دیکھو آتی ہے کےا کوندتی ہوئی
سبز ے کو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا روندتی ہوئی
 حب وطن :۔
        حب وطن کے جذبات قدیم شاعری میں محدود پیمانے پر ملتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وطنی شاعری کی وسیع پیمانے پر بنیاد انجمن پنجاب کے مشاعروں کی مرہون منت ہے۔ اس عنوان پر مولانا حالی اور محمد حسین آزاد نے نظمیں لکھیں۔ ان بزرگوں کے بعد چکسبت ،علامہ اقبال اور سرور جہاں آبادی نے حب وطن کے جذبات کو بڑے موثر انداز میں بیا ن کیا ذیل میں حالی کی نظم حب وطن کے چند شعر ملاحظہ ہوں
تم ہر ایک حال میں ہو یوں تو عزیز
تھے وطن میں مگر اور ہی چیز
آن اک اک تمہاری بھاتی تھی
جو ادا تھی وہ جی لبھاتی تھی
اے وطن ای میر بہشت بریں
کیاہوئے تیرے آسمان و زمین
 اخلاقی شاعری:۔
        اردو میں اخلاقی شاعری کا عنصر زمانہ قدیم سے چلا آرہاہے۔ لیکن حالی اور آزاد کے دور میں برصغیر کے حالات و واقعات نے بڑی تیزی کے ساتھ پلٹا کھایا ان بزرگوں نے قوم کو اخلاقی سبق سکھانے اور افراد قوم کو سعی کوشش ، صبر و استقلال اور محنت و مشقت سے کام لینے کی تلقین کرنی پڑی۔ چنانچہ محمد حسین آزاد ، مولانا حالی اور اسماعیل میرٹھی نے ان عنوانات پر بکثرت نظمیں لکھیں۔
 حالی کے ادبی مزا ج میں تبدیلی:۔
        انجمن پنجاب کے مشاعروں کے اثرات نے مولانا حالی کے مزج کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان مشاعروں کے آغاز سے قبل مولانا حالی عیسائی پادری عماد الدین کے ساتھ مناظروں میں الجھے ہوئے تھی۔ لیکن ان مشاعروں نے ان کا مزاج بدلا اور وہ شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور مدوجزر اسلام جیسی طویل نظم لکھ ڈالی
    اس طرح مجموعی طور دیکھا جائے تو انجمن پنجاب نے اردو ادب میں جدید شاعری اور تنقید پر دور رس اثرات مرتب کئے اردو نظم کی موجودہ شکل اسی ادارے کی بدولت ہے۔ اور بعد میں آنے والے شعراءاسی روایت کو آگے لے کر چلے اور اُسے مزید آگے بڑھایا۔

1 تبصرہ:

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...