پیر, جنوری 27, 2014

مراۃ العروس : ڈپٹی نذیر احمد

پروفیسر افتخار احمد صدیقی نذیر احمد کی ناول نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ، ” نذیر احمد کے فن کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناولوں میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کی بالکل سچی تصویر کشی کی ہے۔ اور یہی خصوصیت ان کے نالوں کی دائمی قدرو قیمت کی ضامن ہے۔“
اردو زبان میں سب سے پہلے جس شخصیت نے باقاعدہ طور پر ناول نگاری کا آغاز کیا اس کا نام مولوی نذیر احمد ہے۔ ناقدین کی اکثریت نے مولوی صاحب کو اردو زبان کا پہلا ناول نویس تسلیم کیا ہے۔ کیونکہ ان کے ناول ، ناول نگاری کے فنی اور تکنےکی لوازمات پر پورے اترتے ہیں۔ اردو کا پہلا ناول مراۃ العروس 1869ء ہے۔ جو کہ مولوی نذیر احمد نے لکھا۔ اس کے بعد بناالنعش ، توبتہ النصوح، فسانہ مبتلا، ابن الوقت، رویائے صادقہ ، ایامی ٰ لکھے۔نذیر احمد نے یہ ناول انگریز ی اد ب سے متاثر ہو کر لکھے ۔لیکن ا ن کا ایک خاص مقصد بھی تھا۔ خصوصاً جب 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان اپنا قومی وجود برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ نذیر احمد نے اپنے قصوں کے ذریعے سے جمہور کی معاشرتی اصلاحی اور نئی نسلوں ، خصوصاً طبقہ نسوا ں کی تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھایا۔اُن کے ناولوں کا مقصد مسلمانان ہند کا اصلاح اور ان کو صحیح راستے پر ڈالنا تھا۔
لیکن اصلاح کے ساتھ ساتھ انھوں نے اردو ادب کو اپنے ناولوں کے ذریعے بہترین کرداروں سے نوازا۔ ان کے ہاں دہلی کی ٹکسالی زبان کی فراوانی ہے۔ لیکن ان پر ایک اعتراض یہ ہے کہ وہ اپنے ناولوں میں ناصح بن جاتے ہیں اور لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں۔ لیکن اُن کے سامنے ایک مقصد ہے اور و ہ مقصد فن سے زیادہ اُن کے ہاں اہم ہے۔
مراۃ العروس کا تنقیدی جائزہ
مراۃ العروس اردو زبان کا پہلا ناول ہے۔ جسے مولوی نذیر احمد نے تخلیق کیا۔ اگرچہ مراۃ العروس میں بہت سی خامیاں ہیں لیکن چونکہ اس سے پہلے اردو میں کوئی ناول نہیں لکھا گیا تھا جو نذیر احمد کے لئے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتا ۔ پھر بھی ناقدین نے اسے ایک کامیاب ناو ل قرار دیتے ہیں۔ آئیے ناول کا فنی اور فکری جائزہ لیتے ہیں،
کردار نگاری
مولوی نذیر احمد کے اس ناول کی امتیازی خصوصیت کردار نگاری ہے۔ ویسے تو مراۃ العروس میں بہت سے نمایاں کردار ہیں لیکن چند ایک اہم کردار وں کے نام یہ ہیں۔ دور اندیش خان ، اکبری ، اصغری، خیراندیش خان ، اکبر اور اصغری کی ساس ، ماما عظمت ، محمد عاقل ، محمد کامل ، محمد فاضل ۔ سیٹھ ہزاری مل ، تماشا خانم ، حسن آرائ، جمال آراء، شاہ زمانی بیگم ، سلطانی بیگم ، سفہن ، جیمس صاحب ، کٹنی لیکن یہاں پر چند ایک جاندار اور جن کے گرد کہانی گھومتی ہے کاذکر تفصیل کے ساتھ کیا جاتاہے۔
اکبری کا کردار
اس کہانی میں سارا حسن اکبری کے کردار سے پیدا ہواہے۔ اکبر ی کی بدمزاجی ، پھوہڑ پن ، بد سلیقگی ، الہڑ پن اور اس کی بے عقلی کی حرکتوں میں ایک بھول پن کی وجہ سے اس کہانی میں خوبصورتی پیدا ہو گئی ہے۔ اکبری بے پرواہ لڑکی ہے اور شادی کرنے کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔ وہی بچوں والی حرکتیں ، اور بچوں والے کھیل ۔لیکن اُس کی اس بد مزاجی اور لاڈلے پن میں اس کی تربیت کابڑا ہاتھ ہے۔ یہی بدمزاجی اس کے لئے آگے چل کر بہت سے مسائل کا سبب بنتی ہے۔ اکبری اپنے بدمزاجی کی وجہ سے سسرال والوں سے روٹھ جاتی ہے اور اپنے شوہر کو علیحدہ رہنے کا کہتی ہے۔ لیکن علیحدہ گھر میں اس کی بے وقوفی اور بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔ اور یہاں ایک عورت اس کے سارے زیور چرا کر لے جاتی ہے۔ لیکن آخرمیں ہم دیکھتے ہیں کہ اکبری جو کسی کی نہیں سنتی تھی واقعات کے تھپیڑوں نے اسے کس طرح ایک گھریلو عورت بنا دیا اور پھر اپنی چھوٹی بہن اصغری کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگی۔
اصغری کا کردار
مولوی نذیر احمد کااس ناول میں پسندیدہ کردار اصغری کا ہے۔ اور یہی وہ کردار ہے جس کے ذریعے سے نذیر احمد اپنا مقصد بیان کرتے ہیں۔اصغری کا کردار اکبری کا متضاد کردار ہے۔ جہاں اکبری اس ناول میں بدمزاج ، بد سلیقہ ، بدخو اور احمق لڑکی ہے وہاں اصغری سلیقہ مند، ہنر مند، عقل مند، نرم مزاج، اور شائستہ زبان حوصلہ مند لڑکی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ اصغری کی تربیت ہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود اصغری کی تربیت اپنی بڑی بہن کے مقابلے میں بہترین انداز میں ہوئی ہے۔
مولوی نذیر احمد نے اصغری کے کردار کو اپنے قلم کے زور سے لکھا اور جو کچھ مولوی نذیر احمد چاہتے تھے عورتوں کی اصلاح کی غرض سے اس نے اس کردار سے لیا ہے۔
شادی کے بعد اکبری کو مزاج دار بہو کانام سسرال والوں نے دیا ہوتا ہے جبکہ اصغر ی کو اس کی ہنر مندی، سلیقہ مند اور رکھ رکھائو کی نسبت سے تمیز دار بہو کا نام دیا گیا ۔ جہاں اصغری اپنے ماں باپ کے گھر میں ہوشیار ، ہنر مندی اور رکھ رکھائو والی تھی وہاں اپنے سسرال میں بھی اُس نے وہی رنگ برقرار رکھا۔
وہ اپنے سسرال کو اپنی عقل مندی سے قرض داروں سے آزاد کر الیتی ہے اور ماماعظمت جیسی نمک حرام کا چہرہ سب لوگوں پر واضح کرکے اُسے اپنے سسرال سے نکال باہر کرتی ہے۔
نذیر احمد کا یہ کردار بعض خوبیوں کی بناءپر لاجواب ہے مگر اس میں چند خامیاں بھی ہیں وہ خواہ مخواہ دوسروں کے معاملات میں دخل انداز ی کرتی ہے۔ اور سارے نظام کو اپنے ہاتھوں سے چلاتی ہے ۔ گویا وہ ایک ملکہ ہے جو اپنی رعایا پر حکم چلارہی ہے۔ مثال کے طور پر میاں کو اس کے مرضی کے خلاف سیالکوٹ بجھوا نا۔ اور اُن کے دوستوں کی کھانٹ چھانٹ،محمودہ کا رشتہ اپنی مرضی سے کروانا۔ ان سب میں اصغری کی حکم چلانے کی عادت کا پتہ چلتا ہے۔
لیکن کردار کی تعریف میں بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں۔
” اصغری کا کردار ، سولہ آنے مثالی ہے۔ اس میں دنیا کی ہر ایک خوبی اور صفت پائی جاتی ہے۔ پڑھنا لکھنا ، ہنر ، سلیقہ ، گھر کا انتظام غرض ہر چیز میں اسے ید طولی حاصل ہے۔ اور میکے سسرال دونوں جگہ اس کی قدر و منزلت ہوتی ہے۔
ماما عظمت
مولوی نذیر احمد کے ناول میں ماما عظمت کا کردارایک نوکرانی کا ہے۔ یہ مولوی صاحب کے دوسرے کرداروں کی طرح ایک شہرہ آفاق کردار ہے۔ کہانی میں جب ماما عظمت کا کردار آنکلتا ہے تو کہانی میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب ماما عظمت اپنا رول ادا کرکے پس پردہ چلی جاتی تو کہانی کا مزہ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ اگر سچ کہا جائے تو ماما عظمت کو گھر سے باہر نکال دینے کے بعد کہانی کو ختم ہو جانا چاہئیے تھا۔ کیونکہ کہانی میں ماما عظمت کی چوریاں اور لوٹ کھسوٹ ساری فضاءکو خوبصورت بناتی ہے۔ قاری ا س تجسّس میں ہوتا ہے کہ کب اصغری ماماعظمت کی چوریاں اور لوٹ کھسوٹ کا راز افشاں کرے گی اور جب مناسب موقع پر اصغری ماما عظمت کی ساری کرتوتوں سے پرد ہ اٹھاتی ہے اور ماما عظمت کو نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے تو قاری کا تجسّس ختم ہو جاتا ہے۔ خود مولو ی نذیر احمد اس کردار کے بارے میں لکھتے ہیں، ” اس ماما عظمت کی حقیقت اس طرح ہے کہ یہ عورت پچیس برس سے اس گھر میں تھی۔ ۔۔۔آئے دن اس پر شبہ ہوتا رہتا تھا۔ مگر تھی چالاک گرفت میں نہیں آتی تھی۔ کئی مرتبہ نکالی گئی۔ لیکن پھر بلائی جاتی تھی۔ یوں چوری اور سرزوی ماما عظمت کی تقدیر میں لکھی تھی۔ جتا کر لیتی اوربتا کر چراتی۔دکھا کر نکالتی اور لکھا کرمکر جاتی۔
دور اندیش خان
دوراندیش خان کا کردار اس ناو ل کا ضمنی کردار ہے ۔ دور اندیش خان اکبری او ر اصغری کے والد ہیں۔ وہ پنجاب کے پہاڑی اضلاع میں سرکار انگریزی کی طرف تحصیل دار ہوتا ہے۔ اس ناول میں اس کا کردار صرف شروع اور آخر کے حصے میں خطوط کے ذریعے سے آتا ہے۔ جو وہ اصغری کی شادی کے بعد لکھتا ہے۔ اور اصغری کو نصیحتیں کرتا ہے۔ اس کا آخری خط جو ناول کے آخر میں ہے وہ اصغری کو اس کی اولاد کی وفات پر تسلیاں دیتا ہے۔
محمد عاقل کا کردار
محمد عاقل بھی ایک ضمنی کردار ہے جو اکبری کا شوہر ہوتا ہے وہ عام شوہروں کی طرح نہیں جس میں غصہ ہو اور اپنی بیوی کو دبا کر رکھے۔ چونکہ وہ خود ایک شریف آدمی ہوتے ہیں لہٰذا اس واسطے وہ اپنی بیوی اکبری کو کچھ نہیں کہتا کہ اس سے اس کی بھی بدنامی ہوگی۔ وہ ویسا کرتا ہے جس طرح اس کی بیوی اکبری چاہتی ہے۔ وہ حالات سے مجبور ہوتا ہے۔ اور اپنے ماں باپ سے الگ اپنی بیوی کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔
محمد کامل کا کردار
محمد کامل کا کردار ایک غیر اہم یعنی ضمنی کردار ہے۔ وہ بھی اپنی بیوی اصغری کے رحم و کرم پر چلتا ہے اگرچہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد ہوتا ہے۔ اس کی اپنی بیوی ہی کی تاکید پر پہلے کچہری میں دس روپے مانانہ نوکری شروع کر دیتا ہے۔ اور پھرسیالکوٹ میں سررشتہ دار (مجسٹریٹ ) پچاس روپے ماہانہ کی نوکری مل جاتی ہے۔
محمودہ
محمودہ اصغری کی نند ہے جو کہ ایک سادہ اور معصوم سی لڑکی ہے۔ اس کی تربیت میں اصغری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس لئے وہ بھی اصغری کی طرح سلیقہ مند اور ہنر مند ہے۔ اس کی اسی تربیت کی بدولت اس کی شادی ایک بڑے گھر میں ہوجاتی ہے۔ اور اپھر وہ بھی اپنی ازدواجی زندگی میں خوش و خرم رہتی ہے۔
اصغری کی ساس کا کردار
یہ کردار اگرچہ ایک ضمنی کردار ہے مگراپنے دور کا ایک مکمل نمائندہ کردار ہے۔ یہ اپنے زمانے کی شریف مسلمان عورتوں کی نمائندہ ہے۔ یہ ایک سیدھی سادی سی عورت ہے جس میں نہ اکبری کی طرح پھوہڑ پن اور بد مزاجی ہے اور نہ اصغری کی طرح ہنر مندی اور سلیقہ مند ی ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنے بھی کردار رہ جاتے ہیں وہ اگرچہ کہانی کا ایک حصہ ہیں مگر غیر اہم کردار اور ضمنی کردار ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نذیر احمد کی ناول نگاری میں کچھ خامیاں ضرور ہیں لیکن جہاں تک فن کرداری نگاری کا تعلق ہے وہ اس میدان میں مکمل طور پر کامیا ب رہے ہیں انہوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے اردو ادب کو بہت خوبصورت اور بڑے کردار دئیے ہیں۔
مکالمہ نگاری
مراۃ العروس میں عورتو ں کی زبان کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ عورتوں کی زبان کو اپنی بعض مخصوص اصطلاحیں ہوتی ہیں۔بول چال میں محاوروں ، مثالوں اور کنایوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے لب و لہجے میں طنز نمایاں ہوتا ہے۔ عورتوں کا مکالمہ لکھنے کے لئے زبان کو خاص اسلوب سے واقفیت کے ساتھ ان کی ذہنیت اور نفسیات کا ادا شناس ہونا بھی ضروری ہے۔ مولوی نذیر احمد نے نے اس ناول میں عورتوں کی ذہنی کیفیات ، توہمات اور رجحانات کی ترجمانی ایسے فطری انداز میں کی ہے کہ مکالمہ پڑھتے وقت کرداروں کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونجتی ہیں اور ان کے لب و لہجہ کے اتار چڑھائو کو ہم محسوس کرتے ہیں۔مثلاً محمد عاقل کی ماں اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ ” ارے بیٹا یہ بھی کہیں ہونی ہے، اشرافیوں میں کہیں بی بیاں چھوٹتی ہیں؟ تم کو اپنی عمران ہی کے ساتھ کاٹنی ہے ہمارا کیا ہے ۔ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں، آج مرے کل دوسرا دن“
تجسّس و جستجو
کہانی میں تجسّس و جستجو کا بہت ہی زیادہ فقدان ہے اس کی اصل وجہ ایک مکمل اور مربوط پلاٹ کا نہ ہونا ہے۔ کئی جگہوں پر قاری کے تجسّس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ تو ماما عظمت کا ہے۔ قاری اُس وقت تک اس سوچ میں لگا رہتا ہے کہ آخر اس کی چوری چکاری کا راز فا ش ہوگا یا نہیں اور اگر ہوگا بھی تو اس کے بعد کیا ہو جائے گا۔ لیکن اس کے بعد کہانی بہت ہی زیادہ پھیکی پڑی جاتی ہے۔ ایک اور جگہ جب بی حجن اصغر ی کو بے وقوف بناتی ہے تو اُس وقت بھی قاری کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ کیا وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور اور اگر ہوگی بھی تو کس طرح۔ باقی اگر دیکھا جائے تو کہانی میں تجسّس و جستجو کا فقدان ہے۔
پلاٹ
پلاٹ سے مراد کہانی میں مختلف واقعات جن کا آپس میں منطقی ربط ہوتا ہے اور جس سے کہانی کے تانے بانے بنے جاتے ہیں۔ اب ہم پلاٹ کی روشنی میں ناول مراۃ العروس کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر سچی بات کہی جائے تو مولوی نذیر احمد کے اس کے ناول میں سرے سے پلاٹ ہے ہی نہیں۔ کیونکہ پلاٹ کہانی کو تجسّس آمیز اور پیچیدہ بناتا ہے مگر مراۃ العروس کی کہانی بالکل سیدھی سادی کہانی ہے۔ یہ ایک اصلاحی قصہ ہے جس کا مقصد عورتوں میں پڑھنے لکھنے کا شوق اور ہنر سلیقہ پیدا کرنا تھا۔ یہ قصہ سادہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور اس کو پڑھ کر ہمیں اس معاشرے کے مسلمان گھرانوں اور دلی کے حالات کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے رہنے سہنے اور عبادات ، رسم و رواج وغیر ہ کا حال معلوم ہو سکتاہے۔
اسلوب
جہاں تک اس ناول کا اسلوب بیان اور اس کی زبان کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے نذیر احمد کا ناول ایک اعلیٰ درجے کا ناول ہے۔ تمام ناقدین نے اس کی زبان و بیان و اسلوب کو سراہا ہے۔ اور اس کی تعریفیں کی ہیں۔ مولوی نذیر احمد کو اس سلسلے میں اس کے کمال فن کو داد دینی پڑتی ہے۔ کہ انہوں نے ناول کو بہت ہی ساد ہ ، سلیس، روزمرہ او ر بامحاورہ زبان میں لکھا ہے۔ اس ناول کی زبان دلی کی عام بول چا ل کی زبان ہے۔ مولوی نذیر احمد کو اردو پر کافی عبور حاصل تھا اورانہوں نے اس خوبصورتی سے اس ناول کو لکھا کہ اس کی زبان میں شیرینی ، لطافت اور مٹھاس ، نظر آتی ہے۔ تقریباً ایک سو بیس سال گزرنے کے بعد بھی اس کی زبان ایسی لگتی ہے گویا آج کی زبا ن ہو۔ مثلاً ” حجن نے جان لیا کہ اس کو اچھی چاٹ لگ گئی ہے۔ کہا، ”تمہارے ڈھب کی کوئی چیز نکلے تو لائوں“ ۔ دو دن کے بعد جھوٹے موتیوں کی ایک جوڑی لائی اور کہا ”لو بی ، خود بیگم کے نتھ کے موتی ہیں نہیں معلوم ہزار کی جوڑی ہے یا پانچ سو کی۔“
فکری جائزہ
نذیر احمد کے رجحانات اور تصورات وہی ہیں جو سرسید کے رفقاء کے مخصوص افکار سمجھے جاتے ہیں۔ نذیر احمد کی ناول نگاری کا محرک قومی اصلاح کا جذبہ تھا۔ اُن کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مجلسی زندگی کا ایک مثالی مگر معقول نمونہ قوم کے سامنے پیش کیا ۔ نذیر احمد کی خاص خدمت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مثالی مگر معقول صلاحیتوں کو گھروں کی آبادی اور خانگی زندگی میں خوشحالی اور مسرت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اور یہ اس معنی میں بہت بڑا کارنامہ ہے کہ خانگی مسرت قومی ترقی میں بہت بڑی حد تک ممدو معاون ہو سکتی ہے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے عورتوں کو منزل زندگی کا سنگِ بنیاد قرار دیا ہے۔ کیونکہ اصغری جیسی اچھی عورتیں ہی کارکن مردوں کو کار ہائے نمایاں انجام دینے کے قابل بنا سکتی ہیں۔ اور اکبری جیسی عورتیں مردوں کے لیے ذہنی تکلیف اور پریشانی کا باعث بن جاتی ہیں۔ وہاں کے مرد زندگی میں کوئی ترقی نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کا سارا وقت اپنی عورتوں کے مسائل حل کرنے میں گزر جاتا ہے۔
وہ جانتے تھے کہ عورتوں کی اس بے وقعتی کا سبب جہالت کے سوا اور کچھ نہیں ، معاشرتی زندگی میں تعلیم اور جہالت، ہنرمندی اور بے ہنری کے نتائج دکھانے کی غرض سے نذیر احمد نے اکبری اور اصغری کی زندگیوں کے دومثالی نمونے پیش کیے۔
تعلیم کے بارے میں نذیر احمد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اتنی تعلیم ہر عورت کے لیے لازمی ہے جس سے وہ اپنے فرائض ِ خانہ داری کو سرانجام دینے کے لائق بن سکے۔ اس تعلیم میں سینا پرونا، کھانا پکانا، پڑھنا لکھنا ، حساب کتاب وغیرہ بنیادی اہمیت کی چیزیں ہیں۔ لیکن نذیر احمد کے نزدیک عورت کا دائرہ عمل صرف خانہ داری کے معمولی انتظامات تک محدود نہیں۔ اسے اپنے شوہر کی مونس و غم گسار اور زندگی کے چھوٹے بڑے معاملات میں اسکی بہترین مشیرو معاون ہونا چاہیے۔ یہ نمونہ وہ اپنے ناول میں اصغری کے کردار میں پیش کرتے ہیں۔ کہ اصغری تعلیم خانہ داری پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کو زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اور اُسے نوکری کا مشورہ بھی دیتی ہے۔ اصغری اپنے شوہر کو سیالکوٹ جانے پر راضی کرتی ہے۔ اسی کا پھل محمد کامل کو یہ ملتا ہے کہ وہاں جاتے ہی اس کا افسر جیمس صاحب اُسے دس روپے ماہوار سے تنخواہ بڑھا کر پچاس روپے کر دیتے ہیں۔ پھر اپنے خسر کو نوکری چھوڑنے اور گھر پر بیٹھنے کا مشورہ دیتی ہے۔ اور اُسکی جگہ اپنے بہنوئی محمد عاقل کو نوکری پر بٹھا دیتی ہے۔
نذیر احمد نے ”مراۃ العروس“ میں اکبری جیسی ناخواندہ عورت کا ذکر کرکے یہ ظاہر کیا ہے کہ ایک ناخواندہ غیر تہذیب یافتہ عورت اپنے گھر اور ساس کے لیے کیا کیامشکلات پیدا کرتی ہیں۔وہ ہر وقت اپنی ساس سے جھگڑا کرنے پر تلی ہوئی ہوتی ہے۔ گھر کے کسی کام میں نظم و ضبط لانے کے بجائے بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ نذیر احمد کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر عورت ناخواندہ اور غیر تعلیم یافتہ ہو تو جھگڑے اور مشکلات ضرور پیدا ہونگے۔کیونکہ تعلیم ایسی چیز ہے جو انسان میں شعور اوراخلاق پیدا کرتی ہے۔ تعلیم ہی انسان کو جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے۔تعلیم ہی نظم و ضبط اور قاعدہ پیدا کرتی ہے۔ تعلیم ہی انسان میں حوصلہ اور جرات پیدا کرتی ہے۔
نذیر احمد یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر تعلیم اور تہذیب نہ ہو تو اکبری جیسی ہزار عورتیں اپنے گھر اور خاندان کے لیے ناسور بن جاتی ہیں ۔ گھر میں ساس اور شوہر سے جھگڑا اُس کا معمول بن جاتاہے۔ جس سے گھر میں بدنظمی اور فساد پیدا ہوتاہے۔ گھر میں انتشار اور آئے دن جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ ناول نگار کا خیال ہے کہ اگر تعلیم ہو، تہذیب اور شعور ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ گھر میں امن و سکون نہ ہو اور سکھ چین نہ ہو۔جسطرح وہ خواتین جن کے نقشے نذیر احمد نے ہمارے سامنے پیش کیے ہیں ۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہماری سوسائٹی کے لیے آج پھر کسی ”مراۃ العروس “ کی ضرورت ہے۔
پس ”مراۃ العروس“ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں مافوق الفطرت اور داستانی واقعات کے بجائے ہمارے اپنے حقیقی معاشرے کی تصویریں نظر آتی ہیں۔اس میں جہاں تعلیم نسواں اور خانگی زندگی کا ذکر ہے وہاں معاشرے کی دوسری برائیوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ اور اصلاح احوال کی تدابیر بھی بڑے فن کاروں کو بتائیں۔ اور اسی میں ایک اعلیٰ ناول نگار کی کامیابی کا راز مضمر ہوتا ہے۔نذیر احمد کی ناول نگاری کے بارے میں ڈاکٹر تاثیر لکھتے ہیں۔ ” اردو ادب میں مولوی نذیر احمد کا نام ان کے ناولوں سے زندہ رہے گا۔ اور نقاد تعجب کیا کریں گے۔ کہ کسطرح ایک عربی ، فارسی کا عالم مولوی قسم کا آدمی بھی ایسے ناول لکھ گیا ہے جو گفتگو ، کردار سماج کی حالت بیان کرنے میں اس قد ر کامیاب ہیں شائد ان سے بہتر کوئی ناول نگار نہیں۔“

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...