اے میرے شہر کے فنکار تجھے کیا معلوم
میری مٹی میں دھڑکتے ہوئے طوفاں کیا ہیں
تیری سوچوں میں ابھی تک ہے وہی صبحِ بہار
تو نہ سمجھے گا یہاں درد کے امکاں کیا ہیں
وہ تیری سوچ کی گلیاں وہ تیرے کوچہ و در
آج بھی پچھلے زمانے کی طرح ہیں لیکن
نین سے نین لڑانے کے وہ دلکش منظر
آج بھی حشر اٹھانے کی طرح ہیں لیکن
ان پہ چھائی ہے کڑے وقت کی ایسی چادر
جس نے ہر نقش کو دامن میں چھپا رکھا ہے
غمِ اغیار کی پروردہ نگاہوں سے مگر
تو نہ سمجھے گا کہ اس کہر میں کیا رکھا ہے
وہی کاندھے جو سہارے تھے کسی ڈولی کے
آج اپنوں کے جنازوں سے بہت بوجھل ہیں
وہی چہرے جو سرِ شام کھلا کرتے تھے
ان پہ اب خوفِ خزاں نو کے گھنے بادل ہیں
تم نے اس شہر میں چلتے ہوئے ٹانگے دیکھے
اب ذرا تار پر لٹکی ہوئی ٹانگیں دیکھو
تم حسین رنگ زمانے کے بتاتے ہو مگر
یہ ذرا خون بہاتی ہوئی آنکھیں دیکھو
جا بجا کوچہ و دیوار سے لپٹا ہے لہو
ہر جگہ جلتے ہوئے گوشت کی بو آتی ہے
گیت خوشیوں کے کسی وقت بجا کرتے وقت
اب تو ہر سمت سے بڑھتی ہوئی ہَو آتی ہے
بے حسی ایسی گھٹا بن کے یہاں چھائی ہے
جس میں اک چاک بھی شاید کبھی امکان نہ بنے
دعوہِ ثانیِ عیسٰی تو سبھی کو ہے مگر
کوئی قائد بھی یہاں درد کا درماں نہ بنے
اے میرے شہر کے فنکار یہ افتادِ گراں
شک نہیں اس میں کہ غیروں کی عطا کردہ ہے
پر میرے اپنے ہی ملبوس بنے ہیں ان کے
اور درِ غیر ہی ان سب کا رخِ سجدہ ہے
یہ تماشا سرِ بازار تجھے کیا معلوم
سر پہ لٹکی ہوئی تلوار تجھے کیا معلوم
کیسے کٹتے ہیں یہ پُر ہول شب و روز یہاں
اے میرے شہر کے فنکار تجھے کیا معلوم۔۔
سلمان نذر
بہت خوبصورت نظم ہے، لاجواب۔
جواب دیںحذف کریںایک بہت پرانی نطم اسی لے پر تھی ۔ اور مجھے نوجوانی میں بہت پسند تھی ۔ اس وقت ذہن میں نہیں آ رہی ۔ کیا آپ وہ نظم جانتے ہیں ؟
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی اور بہت دلپزیر نظم ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ وہاب اعجاز صاحب اس خوبصورت پیشکش کا۔
خوش رہیے۔
نظم پسند کرنے کا شکریہ۔ دراصل میرے شہر کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ ایسی ہی نظمیں آج کل دل کو چھوتی ہیں۔
جواب دیںحذف کریں