شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت کہانی ہے۔ شہاب نامہ مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر ، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے۔ جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ شہاب نامہ دیکھنے میں ضخیم اور پڑھنے میں مختصر کتاب ہے۔ شہاب نامہ امکانی حد تک سچی کتاب ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ،
میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس رنگ میں وہ مجھے نظرآئے۔
جو لوگ قدرت اللہ شہاب کو جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ یہ ایک سادہ اور سچے انسان کے الفاظ ہیں ۔ قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب میں وہی واقعات لکھے ہیں جو براہ راست ان کے علم اور مشاہدے میں آئے اس لئے واقعاتی طور پر ان کی تاریخی صداقت مسلم ہے۔ اور بغیر تاریخی شواہد یا دستاویزی ثبوت کے ان کی صداقت میں شک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ البتہ حقائق کی تشریح و تفسیر یا ان کے بارے میں زاویہ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے۔عمومی طور پر شہاب نامہ کے چار حصے ہیں،
١)قدرت اللہ کا بچپن اور تعلیم ٢) آئی سی ایس میں داخلہ اور دور ملازمت
٣)پاکستان کے بارے میں تاثرات ٤) دینی و روحانی تجربات و مشاہدات
ان چاروں حصوں کی اہمیت جداگانہ ہے لیکن ان میں ایک عنصر مشترک ہے اور وہ ہے مصنف کی مسیحائی۔ وہ جس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں وہ لفظوں کے سیاہ خانوں سے نکل کر قاری کے سامنے وقوع پذیر ہونا شروع کر دیتا ہے۔ وہ جس کردار کا نقشہ کھینچتے ہیں وہ ماضی کے سرد خانے سے نکل کر قاری کے ساتھ ہنسنے بولنے لگتا ہے۔
اس کتاب میں ادب نگاری کی شعوری کوشش نظر نہیں آتی ۔ بے ہنری کی یہ سادگی خلوص کی مظہر ہے اور فنکاری کی معراج ، یہ تحریر ایمائیت کا اختصار اور رمزیت کی جامعیت لئے ہوئے ہے۔ کتاب کا کےنوس اتنا وسیع ہے کہ اس کی لامحدود تفصیلات اور ان گنت کرداروں کی طرف اجمالی اشارے ہی کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اشارے بھر پور ہیں۔
قدرت اللہ شہاب کا بچپن اور تعلیم:۔
بچپن اور تعلیم کا دور شہاب کی شخصیت کا تشکیلی دور ہے اس لئے مصنف کی شخصیت سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے علاوہ ان کے ملاقاتیوں کے لئے جداگانہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس ذاتی زاویے کے علاوہ اس کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے۔ اس حصے میں ڈوگرہ دور کی ریاست جموں کشمیر کا معاشرتی اور سیاسی نقشہ زندہ ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ اس باب میں شہاب نے بہت سے زند ہ کردار تخلیق کئے ہیں جو یقینا اردو ادب کے زندہ کرداروں میں شامل ہیں ۔ ان کرداروں میں مولوی صاحب کی بیوی ، چوہدری مہتاب دین ، ملازم کریم بخش شامل ہیں لیکن ان میں سب سے اہم اور بہترین کردار چندرواتی کا ہے۔جوانی کے عشق کی اولین ہمسفر چندراوتی کا سراپا یوں لکھتے ہیں۔
چندراوتی واقعی سورن کنیا تھی۔ وہ سپر ڈیشز سمیشر قسم کی لڑکیوں کی طرح حسین تو نہ تھی لیکن اس کے وجود پہ ہر وقت سپیدی سحری کا حالہ رہتا تھا۔ رنگت میں وہ سونے کی ڈلی تھی ۔ اور جلد اس کی باریک مومی کاغذ تھی ۔ جس کے آر پار نگاہ جاتی بھی اور نہیں بھی جاتی۔ ۔۔۔جب وہ پانی پیتی ہے تو وہ اس کے گلے سے گزرتا ہوا ایک ایک گھونٹ دور سے گنا جاسکتا ہے۔
کتاب کا یہ حصہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے زندہ کرداروں سے بھرا پڑا ہے اور ہر باب اپنی جگہ ناول یا ناولٹ ہے۔ اس حصے میں اس دور کی معاشرت زندہ ہو کر سامنے آجاتی ہے۔
آئی سی ایس اور دور ملازمت:۔
کتاب کا دوسرا حصہ ملازمت سے متعلق ہے۔ اس دور میں وہ بھاگلپور میں اسسٹنٹ کمشنر ، اورنگ آباد اور تملوک میں ایس ڈی او، اور صوبائی سیکرٹریت اڑیسہ میں انڈر سیکر ٹری رہے۔ اس دور کی تصویر کشی ، تاثراتی اور تجریدی انداز میں اس چابکدستی سے کی گئی ہے کہ تحریک پاکستان اور مطالبہ پاکستان پس منظر اور جواز ذہنوں پر کم اور دلوں پر زیادہ نقش ہو جاتا ہے۔ شہاب نے اس بارے میں لیکچر بازی نہیں کی بلکہ حالات و اقعات کو زبا ن دے دی ہے او ر وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی بقا کا پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ سرگزشت کا یہ حصہ قیام پاکستان کے ناگزیر ہونے کی دلیل اور دستاویزہے۔ کلکتہ اور بہار میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی ، کانگرس ہائی کمان کا خفیہ منصوبہ جو شہاب صاحب نے جوش جنوں میں قائداعظم تک پہنچایا ، یہ سب تحریک پاکستان کا المناک دیباچہ ہے۔
قیام پاکستان کے بعد شہاب پاکستان آئے جہاں وہ سیکرٹریٹ میں بھی رہے آزاد کشمیر کی نوزائیدہ حکومت کے سیکرٹری جنرل بھی ، جھنگ کے ڈپٹی کمشنر بھی ، تین سربراہان ِ مملکت کے پرسنل سیکرٹری بھی اور ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر بھی۔ یہ حصہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اس میں قاری پاکستان کے ایک اہم تشکیلی دور میں صاحبان اختیار کل کو حاکموں کی حیثیت سے بھی دیکھتے ہیں اور انسانوں کی حیثیت سے بھی۔ گورنر جنرل غلام محمد، صدر سکندر مرزا اور صدر ایوب کی زندگی کی جھلکیاں شہاب نامہ میں ملتی ہیں و ہ کسی مورخ کی تاریخ میں نہیں ملیں گی ۔ ان میں پس پردہ جھانکنے کا لطف آتا ہے۔ اس حصے میں اہم رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ کس طرح افسر شاہی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اقدار میں شامل کیا گیا اور پھر فوج کو اقدار میں آنے کے لئے راہ ہموار کی گئی۔ یہاںصدر ایو ب ،سکندر مرزا ، غلام محمد سب کی محلاتی سازشوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
اختیار اعلیٰ کی راہداریوں کی قربت کے برعکس ڈپٹی کمشنر کی ڈائری ، انتظامیہ کے ضلعی نظام کے ناسوروں کی پردہ در اور عوام الناس کی بے بسی اور پریشانیوں کی آئینہ دار ہے۔ افسوس کی بات ہے یہ ہے کہ جب سے اب تک خرابیوں کی اصلاح کے بجائے ان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔کاش ڈائری کے یہ اوراق ہمارے آئندہ ضلعی حاکموں کے دل میں خوف خدا اور انسانی ہمدردی کا جذبہ پیدا کر سکیں ۔
پاکستان کے بارے میں تاثرات:۔
پہلے دو ابواب کے برعکس پاکستان کا مستقبل خارجی واقعات کی داستان نہیں ،بلکہ ایک داخلی ردعمل ہے۔ اس میں شہاب صاحب نے اپنی آرزئوں کے نقش دکھائے ہیں اور چند سیاسی حقائق کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ یہاں وہ اُن اصولوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن پر چل کر پاکستان ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ اور مسلم دنیا کی مکمل رہنمائی اور قیادت کر سکتا ہے۔ وہ اس مختصر باب کے خاتمے پر لکھتے ہیں،
ہمیں حب الوطنی کا جذبہ نہیں بلکہ جنون درکار ہے۔ جذبہ تو محض ایک حنوط شدہ لاش کی مانند دل کے تابوت میں منجمد رہ سکتا ہے۔ جنون ، جوش جہاد اور شوق شہادت سے خون کو گرماتا ہے اسی میں پاکستان کی سلامتی اور مستقبل کا راز پوشیدہ ہے۔
چھوٹا منہ بڑی بات:۔
کتا ب کا یہ حصہ کافی متنازعہ رہا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شہاب صاحب کے دوستوں نے لکھ کر اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ یہ اُن کی روحانی زندگی کی داستان ہے۔ ممتاز مفتی ساری عمر اُن کی چوتھی سمت کے متعلق چلاتے رہے ۔ اور شہاب صاحب اُس سے مسلسل انکار کرتے رہے لیکن اُنھوں نے اپنے اس آخری باب میں ذکر کیا ہے کہ کس طرح ایک نائنٹی نام کا کردار ان کو مستقبل کے راز بتاتا تھا اور اُس کو ہدایات دی جاتی تھیں۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو ایک مادی سوچ رکھنے والا شخص ان باتوں کو من گھڑت سمجھتا ہے ۔ لیکن اس بار ے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”ماننے کے لئے جاننا ضروری نہیں “ اور ہم تو اس باب کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ
ع یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
شہاب نامہ اسلوب اور بیان کے لحاظ سے ایک شاہکار ہے اس لئے آئیے شہاب نامے کے فنی خصوصیات کاجائزہ لیتے ہیں،
اسلوب:۔
نثر اسلوب کا اپنا ایک آہنگ ہوتا ہے جس کے شیڈ ز ہر لکھنے والے کے ہاں مختلف ہوتے ہیں ۔ یہی آہنگ عبارت میں سلاست پیدا کرتا ہے۔ بعض لکھنے والوں کے ہاں جملوں کی مصنوعی اور پر تکلف ساخت کی وجہ سے عبارت میں جھٹکے پیدا ہو جاتے ہیں جن پر بعض اوقات جدیدیت کا پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور جس طرح جھوٹ بولنے والے کو زیادہ دیر گفتگو کرنا پڑجائے تو کہیں کہیں اس کے منہ سے سچی اور متضاد باتیں بھی نکل جاتی ہیں ، اسی طرح مصنوعی اسلوب زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا ۔ جہاں لکھنے والے کو ذرا سی اونگھ آئی اس کا اصلی پن ظاہر ہو گیا اور بلند آہنگ جملوں کے پھسپھسے اور کمزور جملوں کا ٹانکا لگ گیا اور عبارت میں ناہمواری پیدا ہو گئی۔ لیکن قدرت اللہ شہاب کی نثر ایسے فنی نقائض سے بالکل پاک ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نہایت سہولت کے ساتھ اپنا مدعا بیان کیا ہے اور جملوں کی ساخت کو پیچیدہ نہیں ہونے دیا۔مثلاً
جمہوریت کا سکہ اسی وقت چلتا ہے جب تک وہ خالص ہو ۔ جوں ہی اس میں کھوٹ مل جائے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی۔منفر د طرز تحریر:۔
شہاب نامہ میں نجی، جذباتی ، رومانی ، قلبی ، روحانی ، خاندانی ، معاشرتی ، سیاسی ، تاریخی ، دفتری ، قومی ، ملکی ، بین الاقوامی ، ذہنی ، علمی ادبی اور نظریاتی غرضیکہ ہر قسم کے واقعات بیان ہوئے ہیں ۔ پھر معمولی بیروں ، ملازموں اور موچیوں سے لے کر مشاہیر عالم اور مملکتوں کے سربراہان تک کا ذکر ہے، تاہم یہ قدرت اللہ شہاب کے منفرد طرز تحریر اور دلنشیں انداز بیان کا اعجاز ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے واقعات اور معمولی سطح کے افراد بھی قاری کے دل و دماغ میں سما جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر شہاب صاحب کا کمال اور احسان یہ ہے کہ انہوں نے صورتیں صفحہ قرطاس پر یوں منعکس کر دیں ہیں کہ آنے والے زمانے اس سے بہت کچھ اخذ کر سکیں گے۔
صاحب اقتدار اگر اپنی ذات کے گرد خود حفاظتی کا حصار کھینچ کر بیٹھ جائے تو اس کی اختراعی ، اجتہادی اور تجدیدی قوت سلب ہو کر اسے لکیر کا فقیر بنا دیتی ہے۔
خود ستائی سے اجتناب:۔
خود نوشت ایک مشکل صنف ادب ہے کیونکہ اس میں خودستائی کے مواقع جا بجا موجود ہوتے ہیں ۔ کسی بھی ایسے واقعے کا بیان جس میں لکھنے والا خود کو ہیرو ثابت کررہا ہو خواہ کتنا ہی حقیقت پر مبنی کیوں نہ ہو پڑھنے والا شک میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا چنانچہ ایسے موقعوں پر ایک اچھے ادیب کو خاصی پر لطف احتیاط سے کام لےنا پڑتا ہے۔ مثلاً شہاب صاحب آئی سی ایس کی ٹریننگ کے دوران وہ اپنی گھوڑ سواری کے متعلق نہیں کہتے کہ انہیں اس میں مہارت حاصل تھی بلکہ وہ کہتے ہیں ، یہ سارا گھوڑے کا اپنا کمال تھا۔
گیلپ کی آواز پر میر ا گھوڑا خود بخود سر پٹ بھاگنے لگا ۔ راستے میں ایستادہ رکاوٹوں کو بھی خود ہی اپنی ہنر مندی سے پھلانگتا چلا گیا۔ آخر میں جب کرنل صاحب نے فگر آف ایٹ (٨) بنانے کا آرڈر دیا تو میرے گھوڑے نے ایسے خوبصورت دائرے کاٹ کر انگریزی آٹھ کا ہندسہ بنایا کہ ممتحن نے مجھے شاباش دے کر اچھے نمبروں سے پاس کر دیا۔
سادہ زبان:۔
شہاب نامہ کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ جہاں جہاں جذبات نگاری ، واقعہ نگاری اور کردار نگاری کے مواقع آئے ہیں۔ شہاب صاحب نے ادق ، ثقیل ، غیر فصیح اور اجنبی الفاظ کا سہار نہیں لیا ۔ بلکہ مشکل ترین معاملات ، نازک ترین خیالات او ر پیچیدہ ترین مفاہیم کو بھی نہایت سہولت اور آسانی کے ساتھ پورے تاثر میں بھگو کر قلمبند کرتے چلے جاتے ہیں مثلاً
ایک روز وہ چھابڑی والے کے پاس تاز ہ گنڈیریاں کٹوانے کھڑی ہوئی تو میرے دل میں آیا ۔۔۔ ایک موٹے گنے سے چندرا وتی کو مار مار کر ادھ موا کردوں اور گنڈیریوں والے کی درانتی سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے دانتوں سے کچر کچر چبا ڈالوں۔
شوخی و ظرافت:۔
شہاب نامہ کے نثر کی ایک اور خوبی شگفتگی ، شوخی اور ظرافت کا برمحل استعمال ہے جس سے تحریر میں لطف دلچسپی اور خوبصورتی پیدا ہو گئی ہے۔ اور اس ہی کی بدولت اتنی ضخیم کتاب ہونے کے باوجود قاری کسی بھی صورت میں اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا اور اُس کی دلچسپی آخر تک برقرا ر رہتی ہے۔
حکیم گوراندتہ دل کا ایک خاص وصف تھا کہ وہ دکان کی کوئی چیز ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک با ر روغن بادام کے کھلے منہ والی بوتل میں مردہ چھپکلی نظر آئی ۔ حکیم صاحب نے چمٹے سے پکڑ کر اسے نکالا اور کچھ دیر تک اسے بو تل کے منہ سے الٹا ٹکائے رکھا تاکہ چھپکلی سے ٹپکتے ہوئے بادام روغن کے زیادہ سے زیادہ قطرے بوتل میں واپس گر جائیں۔
جا ن نے مجھے شستہ انگریزی میں دو تین گالیاں دیں ۔ میں نے اس کی کلائی مروڑ کر پیٹھ پر ایک لات جمائی اور اسے مرغا بننے کا حکم دیا۔ یہ اصطلاح اس کے لئے نئی تھی ۔ میں نے خود مرغا بن کر اس کی رہنمائی کی۔
کردار نگاری:۔
قدرت اللہ شہاب عام طورپر زندگی میں موجود کرداروں کو پیش کرتے ہیں اور ان کی پیش کش اتنی عمدہ اور مکمل ہوتی ہے کہ ہم ان کرداروں سے مل کر جد ا نہیں ہوتے۔ شہاب نامہ میں اہم شخصیتوں کی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہے کہ چھوٹے سے واقعہ یا وقوعہ سے قاری کردار کے باطن تک جھانک لیتا ہے۔ مثلاً قائدعظم سے دو مختصر ملاقاتوں کا ذکر ہے۔ ایک بار جب وہ ایک خفیہ دستاویز حاصل کرنے کرکے ان تک پہنچاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ وہ دستاویز نہایت مفید خیال کی جاتی ہے لیکن قائداعظم کی اصول پرستی اور عظیم شخصیت کی جھلک چند جملوں میں سامنے آجاتی ہے۔
میں نے فر فر ساری بات کہہ سنائی ۔
ویل ویل ۔۔۔۔تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔This is breach of trust
غلام محمد ، خواجہ ناظم الدین ، صدر ایوب ، مہاراجہ ہر ی سنگھ اور بہت سی اہم شخصیتوں کا انہوں نے نہایت خوبصورت خاکہ پیش کیا ہے۔
چندراوتی شہاب نامہ کا ایک بے مثال کردار ہے۔ جس کے اندر محبت کا الائو دہک رہا تھا لیکن وہ زبان پر نہ لا سکی اور مر گئی ۔ اور اس طرح شہاب صاحب کے اولین افسانے کا عنوان بنی اور جس کا پہلا جملہ یہ تھا۔
” جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہوئی اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔“
اس کے علاوہ چند دوسرے کردار ۔ مثلاً ڈپٹی کمشنر کی ڈائری کی بڑھیا جس سے مصنف نے ساری ملازمت کے دوران سولہ آنے کی واحد رشوت قبول کر لی تھی۔ بشیراں طوائف جس نے پیسہ پیسہ جوڑ کر رقم جمع کی تھی اور حج پر جانے کے لئے تڑپ رہی تھی۔ نیپلز کے ہوٹل میں ملنے والی دمشق شام کی دلفریبہ ، اور درجنوں ایسے یادگار کردار ہیں جنہیں مصنف نے اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ پڑھنے والے کے ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔
اختصار:۔
اعلیٰ ادبی نثر کی ایک خوبی اس کا ایجاز و اختصار ہے جس کی مثالیں شہاب نامہ میں بکثرت نظرآتی ہیں ۔ قدرت اللہ شہاب نے جس طرح کی مصروف ، متنوع بھر پور اور ہنگامہ آرائی کی زندگی بسر کی اور جتنے عرصے پر شہاب نامہ کے واقعات محیط ہیں ، ان کو دیکھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ شہاب صاحب نے تقریباً پچا س برسوں پر پھیلی زندگی کو ہزار گیارہ سو صفحات کی ایک جلد میں کیسے سمو دیا ہے جبکہ وہ اول درجے کے افسانہ نگار تھے اور چاہتے تو محض بملا کماری اور چندراوتی پر ایک ایک ناول لکھ سکتے تھے۔دراصل قدرت اللہ شہاب صاحب نے فیکٹس اور فکشن کو ایک کردیا ہے۔ یعنی ان کی فکشن کی بنیاد حقائق پر ہے اور وہ حقائق کو فکشن کے فنی اسلوب میں پیش کرتے ہیں۔
مجموعی جائزہ:۔
شہاب نامہ اردو ادب کی ایک ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے والی کتاب ہے۔ جس میں فن اور فکر کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ اتنی ضخامت کے باوجود یہ واحد کتاب ہے جو کہ طبیعت پر بوجھ نہیں بنتی بلکہ اس کے ہر صفحے میں ہمیں کسی نئی حقیقت کا نکشاف نظر آتا ہے۔ اس کتاب میں ملکی تاریخی سے لے کر روحانیت تک سب کچھ موجود ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے کوئی مورخ نظرانداز نہیں کرسکتا نہ ادب کا طالب علم۔ پاکستان کو جاننے اور سمجھنے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ اب تک اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور پاکستا ن میں یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔ جس کی وجہ شہاب صاحب کا اسلوب اور حقیقت نگاری ہے۔
Is Safeh Per Shahab Sahib Ke Barey Mein Ishfaq Ahmed Sahib Ne Aik Taruf Paish Kia Hai Woh Bhi Mulahza Kerien.
جواب دیںحذف کریںhttp://www.urdupoint.com/adab/detail-198-168-1-13--.html
بہت عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے جو کتاب پڑھنے کی طرف قاری کو ضرور مائل کرے گا۔
جواب دیںحذف کریںشہاب نامہ بے شک اردو ادب میں ایک بہترین کتاب کہی جاسکتی ہے مگر انہوں نے جس طرح مذہب اور اور دنیاوی لذائذ کی کھچڑی پکائی ہے وہ عوام کے حلق سے نا صرف اترتی ہے بلکہ اپنا اثر بھی خوب دکھاتی ہے وہی مثل کے رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی اس معاشرے کی قدرت اللہ شہاب اگر ایک ریفائنڈ مثال ہیں تو خاور کھوکھر اسی کی ایک کھردری مثال!
جواب دیںحذف کریںشہاب نامہ اردو ادب کا ایک باب حصہ ہے۔ لیکن یہ جب تک کوئی کتاب متنازع نہ ہو شہرت کے بام عروج پر نہیں پہنچ سکتی۔
جواب دیںحذف کریںشہاب صاحب کے بچپن تک تو کتاب بہت دلچسپ اور اچھی چلتی رہتی ہے لیکن بعد ازاں انہوں نے جنوں کے قصے اور پھر بیورو کریسی میں خود کو ہر جگہ دودھ میں سے مکھی کی طرح نکالنے کی جو کہانیاں بیان کی ہیں، اس پر قاری کے ذہن میں بہت سارے سوالات ابھرتے ہیں۔ اس کے باوجود شہاب نامہ ایسی کتاب ہے جسے ہر قاری کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
افسوس کہ میں اس کتاب کا آخری حصہ نہ پڑھ سکا۔
آپ کا تجزیہ بہت شاندار ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
"کتا ب کا یہ حصہ کافی متنازعہ رہا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شہاب صاحب کے دوستوں نے لکھ کر اس کتاب میں شامل کیا ہے"
جواب دیںحذف کریںیہ وہ بات ہے جو کہ اکثر بلاگرز لکھ رہے ہیں، مگر اس بات کا حوالہ کوی نہیں دے رہا کہ یہ بات انہوں نے کہاں پڑہی یا کہاں سے اخذ کی ہے-
پہلی بات یہ کہ شہاب نامہ ' قدرت اللہ شہاب کی زندگی میں شایع ہوی ہے یا ان کی وفات کے بعد؛ اگر ان کی زندگی میں شایع ہوی ہے تب یہ بحث پیدا ہی نہیں ہونی چاہیے۔
بانو قدسیہ کی کتاب راہ رواں میں اشفاق احمد کے بارے میں مختلف لوگوں کے تاثرات جمع کیے گے ہیں' اس میں ایک جگہ درج ہے
{مفہوم}
اشفاق احمد نے یہی بات دہرای تو ایک صاحب نے کہا کیا واقعی ایسا ہی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ "پروفیسر لوگ طنز بھی نہیں سمجھتے"-
" ویسے اگر دیکھا جائے تو ایک مادی سوچ رکھنے والا شخص ان باتوں کو من گھڑت سمجھتا ہے"
ابو شامل ۔۔۔"شہاب صاحب کے بچپن تک تو کتاب بہت دلچسپ اور اچھی چلتی رہتی ہے لیکن بعد ازاں انہوں نے جنوں کے قصے اور پھر بیورو کریسی میں خود کو ہر جگہ دودھ میں سے مکھی کی طرح نکالنے کی جو کہانیاں بیان کی ہیں، اس پر قاری کے ذہن میں بہت سارے سوالات ابھرتے ہیں"
ان باتوں کے کچھ مزید حوالے آپ کو "راہ رواں" میں مل جایں گے جہاں قدرت اللہ شہاب کےبھای نے اظہار خیال کیا ہے انہوں نے بتایا کہ {غالبا ڈاک بنگلے والے واقعہ کے بارے میں۔۔۔ مفہوم} کہ وہاں ان کی جرمن بھابھی بھی موجود تھیں اور وہ ان واقعات سے اتنی متاثر ہویں کہ اس کے بعد ان کی زندگی کا دھارا ہی بدل گیا اور وہ مکمل طور پر روحانیات کی قایل اور عبادات کی طرف مایل ہو گیں-
خود اشفاق احمد جیسا محتاط آدمی جو عقیدت کے بجاے عقیدہ کا قایل تھے قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے ایک خرق عادت واقعہ بابا صاحبا میں درج کر چکے ہیں-
احمر
احمر صاحب ہم نے تو یہاں تک پڑھا کا روحانیت کا ڈھول لٹکائے یہ گروپ دراصل اسٹبلشمنٹ کی منشاء اور مرضی کے مطابق ادب میں وارد ہوا تھا۔ تاکہ خارجی مسائل سے ادب کو دور لے جایا سکے۔ اور ملک پر قابض فوجی حکومت کے خلاف ادب میں کسی قسم کا کوئی ردعمل ظاہر نہ ہو۔ اس لیے تو شہاب صاحب فیض صاحب یا پھر راولپنڈی سازش کیس کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہہ پاتے۔ اس بارے میں سب سے بڑا ثبوت یہی دیا جاتا ہے۔ کہ شہاب کی افسانہ نگاری اور اس کی آپ بیتی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنسیت سے روحانیت کا یہ سفر شاید ذہنی سفر نہیں بلکہ کسی کی ایماء پر کیا گیا سفر تھا۔ رائٹر گلڈ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس میں ایک خاص نظریے کے تحت ادب کی تخلیق کا رخ خارج سے داخل کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس مقصد کے لیے حکومت کی طرف سے بے دریغ پیسے خرچ کیے گئے۔ ادیبوں میں پلاٹ تقسیم ہوئے۔ ان کے وظیفے مقرر ہوئے۔
جواب دیںحذف کریںوہاب صاحب ! آپ نے ہمارے لیے اپنے بلاگ پر اتنی خوبصورت تحاریر لکھ دی ہیں کہ ان کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی-
جواب دیںحذف کریںکیا ہی اچھا ہو کہ آپ ایک تحقیقی و تفصیلی پوسٹ اس موضوع پر بھی اپنے قاریئیں کی نذر کریں، کہ اس معاملے میں شاید بہت سارے قاریئین کی راے مختلف ہے-
بہت خوب ۔۔کافی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ کاش قدرت اللہ شہاب کے پاس دو عشروں کی زندگی اور ہوتی۔ بہت سارے سوالات کے جوابات ابھی تک تشنہ ہیں جن کے لیے قدرت الل شہاب سے زیادہ مناسب بندے کا ملنا مشکل ہی ہے۔
جواب دیںحذف کریںشہاب نامہ۔ دو سے زائد مرتبہ تقریبا پڑھا ہے۔ تقریبا اسلئیے کہ کہ ضخامت کی وجہ سے صرف دو دفعہ پورا پڑھا ہے اور بعد میں اسے زائد مرتبہ پورے کا پورا نہیں پڑھا۔
جواب دیںحذف کریںویسے بھی جو کتاب بہت سی نشستوں میں پڑھی جائے ۔ اسکے کئی پہلو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لئیے سابقہ باب دیکھنے پڑتے ہیں۔
شہاب نامہ میں ڈاک بنگلہ میں ہڈیوں کا گرنا۔ تالب میں انسانی ہڈیاں ہونا۔ کسی کو رونا چیخنا یا ڈانس کرنا اور آکر میں اس سارے واقعے کے بعد کسی خاتون کا وہاں قتل پہلے سے ہوا ہونا۔ جسے بعد میں کھدوائی کروا کر اسکی باقیات کا بنگلے سے دریافت کرنا۔ یہ ساری باتیں حلق سے نہیں اترتیں۔
بہتر ہوتا۔ کہ اس واقعے کی تصدیق کروائی جاتی ۔ اگر اس ڈاک بنگلے میں کھدوائی ہوئی تھی اور انسانی لاش کی باقیات برآمد ہوئی تھیں تو اسکا ریکارڈ کہیں نہ کہیں آج بھی موجود ہوگا اور یوں پتہ چل سکتا ہے کہ واقعے کی حقیقٹ کیا ایسے ہی تھی جیسی قدرت اللہ شہاب نے بیان کی۔
اسکے علاوہ حج کا واقعہ بھی دل کو چھوتا ہے۔ جس میں قدرت اللہ شہاب نے مدینے کی مٹی آنکھوں میں ڈال لی اور آشوب چشم بھگتا۔
کشمیر کے بارے اور وہاں سکھوں کے مسلمانوں کے ساتھ رویہ بھی ایک تاریخی شہادت ہے جو انہوں نے بہت اچھے طریقے سے قلمبند کیا ہے۔
نوابزادہ لیاقت علی خان کے بارے میں بھی اسمیں مواد موجود ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں دو کردار ایسے ہیں جو بہت سے واقعات جانتے ہیں ایک تو قدرت اللہ شہاب جو رحمتہ علیہ ہوچکے ہیں اور دوسرے شریف الدین پیرزادہ۔
قدرت اللہ شہاب کی جلاوطنی کی زندگی اور دیار غیر میں انکی اہلیہ کی بے کسی کی حالت میں ہوئی موت۔ بھی ایک ایسا باب ہے جس میں انسان کے لئیے عبرت کے کئی سامان ہیں۔ اور دلی دکھ محسوس ہوتا ہے۔
ممتاز مفتی کا قدرت اللہ شہاب کو خرقہ درویشی پہنانا یا دستار بندی کرنا بھی حلق سے نیچے نہیں اترتا۔
بہر حال اس کتاب میں پاکستان کی ایک تاریخ بند ہے۔ جس سے پاکستان کی اس دور کی سنگین سیاست اور ارباب اقتدار کے بارے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
قدرت اللہ شہاب کو پاکستان وزارت خارجہ کے سوجھ بوجھ رکھنے والے آفیشل انکی کئی باتوں کو فکشن قرار دیتے ہیں۔ واللہ علم باالصواب۔
خدا مغفرت کرے
قدرت اللہ شہاب ' اشفاق احمد اور ممتاز مفتی نے ایک متوازی دنیا کی جھلکیاں عام قاری کے سامنے پیش کی ہیں - یہ متوازی دینا ' طلسماتی ہے ، روحانی ہے یا "فی الوقت" ما بعد الطبیاتی ۔
جواب دیںحذف کریںاس سارے گورکھ دھندے کو سمجھنے کے لیے ان تمام عینی شاہدین کی زندگی اور اسے کے بہاو اور سمت سمجھنے کی ضرورت ہے-
اگر مندرجہ زیل مصنفوں / کتابوں کو دی گئی ترتیب سے پڑہا جاے تو ہم ان تمام واقعات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں-
قدرت اللہ شہاب- شہاب نامہ
اشفاق احمد -بابا صاحبا
بانو قدسیہ -راہ رواں
بانو قدسیہ - مرد ابریشم
ممتاز مفتی - ایلی اور الکھ نگری
ابدال بیلا - مفتیانے
احمد بشیر
کتاب کا نام بھول گیا
Ahmer
احمد بشیر کی اس کتاب کا نام ہے" جو ملے تھے راستے میں"
حذف کریںبقول وکی پیڈیا۔ احمد بشیر کی مشہور مشہور تصانیف میں خاکوں پر مبنی کتاب ’جو ملے تھے راستے میں‘ اور ’ دل بھٹکے گا‘ شامل ہیں۔ناول ’ منزل منزل دل بھٹکے گا‘ اور
جواب دیںحذف کریںانگریزی ناول ’ رقص کرتے بھیڑیے ‘(ڈانسنگ وولف)شامل ہیں۔
بہر حال یہ ۔ "پیرالیل لائف" عقل کو نہیں جچتی۔ اور اگر ہے بھی تو اسکا وجود نہ ہونے کے برابر ہے جو۔ عام آدمی پہ اور عوام پہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ اور جو نظام اکثریت ی زندگی پہ مثبت طریقے سے اثر انداز نہ ہوں انکے ہونے نہ ہونے سے انسانوں کی دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میری رائے میں یہ طریقہ "پاکیِ بیاں" کو بڑھناے کے سوا کچھ نہیں۔ اور اس "پاکیِ بیاں" کا خالق کوئی بھی ہو۔
گوندل صاحب ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے ایک ایسے دور میں اس قسم کا ادب تخلیق ہوا ۔ جس میں ہمیں اس قسم کی تحریروں کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ مذہب کے اور بھی بہت سے رنگ ہیں۔ مثلا ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ، مظلوم کی حمایت کرنا۔ ان تمام پہلوؤں تک شہاب اور اس کے دوستوں کی نظر تک نہیں جاتی۔
جواب دیںحذف کریںوہان اعجاز خان صاحب!
جواب دیںحذف کریںمحترم!۔ آپکی بات سے کچھ کچھ نہیں بلکہ پورا پورا اتفاق ہے۔ کہ یہاں دال میں کالا کالا نہیں۔ بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔
پاکستان بنتے ہی پاکستان کے خلاف یہ ہی تو بے حیائی ہوئی ہے۔ کہ سارے پنڈ کے دانے ناجائز طور پہ اپنے گھر ڈال کر دو دیگیں بنا دینے کا رواج تبھی شروع ہوا تھا۔ اور اسے مذھب کا نام دے دیا گیا۔ جبکہ آپکے فرمان کے مطابق ۔ برابری ۔ میرٹ۔ دیناتداری ۔ برابر کے حقوق ۔ وسائل پہ سبھی کا یکساں تصرف۔ وغیری یہ سبھی چیزیں مذھب میں آتی ہیں اور اسلام کی حقیقی روح کے عین مطابق ہیں۔ جس پہ ان موجودہ بالا حضرات نے روحانیات کی دیو مالائی داستانوں کا احاطہ ہی مذھب قرار دیا اور خود خیر سے ایک کے بعد دوسرے ڈکٹیٹر کی گود میں بیٹھ کر پوری قوم کا حق دہائیوں تک سلب کرنے پہ(جسکا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔) پہلے پہلے اداریے میں زہر قاتل کو "امرت رس" یعنی تریاق بنا کر فروخت کیا۔
میری رائے وہی ہے کہ اپنی ذات کو شکوک سے بالا رکھنے کے لئیے یہ سب "بابے صاحبے" نام نہاد "روحانی بابا" کا ایک طرح کا خول چڑھا لیتے تھے۔ جس کے پیچھے انکی بشری کمزوریاں تو چھپ ہی جاتی تھیں ۔ یہ اپنی منصبی کمزوریاں بھی عام ادمی سے چھپانے کی کوشش کرتے رہیں ہیں۔
مگر حیقت وہ ہوتی ہے۔ سچ اور حق وہ ہوتا ہے جو جسے خلق خدا کی سند حاصل ہو۔ باقی سب اپنے نفس کے پجاری رہے ہیں۔
جن قوموں میں جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی ۔ حق کی آواز اٹھانے کی جرائت نہ رہے اور اپنے اور دوسروں کے لئیے حق کے مختلف پیمانے ہوں ان قوموں کا وہی حال ہوتا ہے جو ۔ آج پاکستانی قوم ہے۔
خدا ہمارے گناہ معاف کرے اور ہماری قوم کی سختیاں ختم کرے۔