ہفتہ, دسمبر 19, 2009

صلیب

شہر کے تقریبا وسط میں میرا گھر واقع ہے۔ روز شام کو چہل قدمی کے لیے گھر سے نکلتا ہوں تو گھر کی جنوبی سمت میں واقع گلیوں گلیاروں سے ہوتے ہوئے بالکل تار گھر کی عمارت کے سامنے کشادہ سڑک پر پہنچ جاتا ہوں۔ یہاں پر ایک بہت بڑی عمارت میرا استقبال کرتی ہے۔ مشن ہاسپٹل کی اس نئی عمارت کو بنے ہوئے کئی سال ہو گئے اس پہلے یہ قدوس ڈاکٹر کا بنگلہ ہوا کرتا تھا اور انگریز کے زمانے کا ہسپتال اس کے بالکل سامنے سڑک کے دوسرے کنارے پر واقع تھا۔ اس سڑک پر کچھ آگے چل کر ایک اور سڑک بائیں جانب مڑتی ہے جہاں پر تھوڑی دور جانے کے بعد پینل ہائی سکول کی عمارت ہے یہ علاقے کا سب سے بڑا مشنری سکول ہے جہاں پر ہزاروں بچے زیر تعلیم ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ یہاں پر مشنری کی جانب سے سرگرمیاں کب شروع ہوئیں مگر ایک شخصیت کا نام ضرور معلوم ہے جس کی بدولت اس پسماندہ علاقے میں مشن کی جانب سے بہت سا کام کیا گیا۔ یہ شخصیت تھے جناب ڈاکٹر پینل۔ جنہوں نے 1900 میں یہاں آکر نہ صرف یہاں کی زبان سیکھی بلکہ یہاں کے پشتون قبائل کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان کے رنگ میں ڈھل کر تبلیغ کا کام کیا۔ ان کی بدولت علاقے میں مشن ہسپتال کو بہتر بنایا گیا ۔ پہلا مشنری سکول کھولا گیا جو آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہے۔ ہسپتال سے افغانستان تک کے باشندے مستفید ہوتے تھے۔ لیکن جناب پینل کی ان تمام کوششوں کے باوجود وہ صرف ایک ہی پٹھان کو عیسائی بنا سکے جس کا نام جان خان کاکا تھا۔ پینل کی کوئی اولاد نہیں تھی بنوں میں ہی وفات پائی اور مشن ہسپتال کے ساتھ موجود عیسائیوں کے ایک بڑے قبرستان میں دفن ہوئے۔ جس کے بڑے آہنی گیٹ پر صلیب کا نشان بنا ہوا ہے اور جس کی دیواروں پر پتھروں کو تراش کر صلیب کے نشان بنائے گئے ہیں۔ پینل ہائی سکول اور مشن ہسپتال کی بھی خاص بات یہ ہے کہ سرخ اینٹوں سے بنائی گئی ان عمارتوں میں اینٹوں کو اس ترتیب سے رکھا گیا ہے کہ ہر بالکولی ہر کھڑکی کی محراب پر مجھے صلیب کا نشان دکھائی دیتا ہے۔ سکول کے ساتھ متصل گرجے کے اوپر ایک گنبد بنا دی گئی ہے جس کے اوپر ایک بہت بڑا صلیب کا نشان لگایا گیا ہے رات کے وقت یہ صلیب کا نشان روشن رہتا ہے۔ میں روز ان عمارتوں کو دیکھتا ہوں مگر آج نجانے کیوں ذہن میں کئی سوالات گردش کرنےلگے کہ اگر ہمارے علاقے میں اس حوالے سے ریفرنڈم کرایا جائے کہ یہ صلیب کا نشان دراصل کسی خاص مذہبی سوچ کی ترجمانی کرتا ہے اس لیے اس پر پابندی لگا دی جائے تو میری کیا حالت ہوگی ۔ کیا ایک باشعور اور تہذیب یافتہ شہری ہونے کے ناطے میں یہ برداشت کر سکوں گا کہ اس قسم کے بےوقوفانہ سوال پر ریفرنڈم کرایا جائے۔ ہرگز نہیں۔ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن پھر خیال آیا کہ دنیا کے ایک ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ملک کے باشندوں نے ایسا کیوں کیا اور وہاں میناروں کی تعمیر پر پابندی کیوں لگا دی گئی۔ اس سوال کا جواب شاید میرے پاس ہو مگر اس کے باوجود میرے اندر کا انسان خاموش ہو جاتا ہے میری نظریں گرجے کی صلیب سے وہاں سامنے بنے ہوئے پریڈی گیٹ کی مسجد کے بڑے مینار پر آکر رک جاتی ہیں اور اس کے بعد میں سر جھکا کر بازار میں داخل ہو جاتا ہوں۔

6 تبصرے:

  1. آپ کی تحریر نے دل کے تار چھو للے۔ کیا خیال پیش کیا ہے اور واقعی اس کے بعد سوچ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں کیونکہ یہی تضاد ہمیں دوہرے معیار کے بارے میں فکر میں مبتلا کر دیتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. فکر نہ کريں آپ ان سے پہلے ہی آگے ہيں؛ ابھی انہوں نے مسلمانوں کو زندہ جلانا نہيں شروع کيا-

    Muslims Burn Christians Alive In Pakistan
    http://www.youtube.com/watch?v=hSrpf5vRyuM

    پڑھ گئی ٹھنڈ کليجے کو؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. " اس سوال کا جواب شاید میرے پاس ہو "

    جواب ديں شرمائيں نہيں-

    Pakistan: International Religious Freedom Report 2009

    http://www.state.gov/g/drl/rls/irf/2009/127370.htm

    جواب دیںحذف کریں
  4. جس شخص میں اتنی ہمت نہ ہو کہ اپنی جان کو کوئی خطرہ نہ ہوتے ہوئے بھی وہ سامنے آ کر بات کرے اُس کی رائے معتبر نہیں ہوتی ۔ ویسے موصوف پاکستان میں ہونے والے صرف ایک اُس واقعہ کا ذکر کر رہے ہیں جو ایسی شرارت تھی جس کی پاکستانی مسلمانوں نے سخت مذمت کی اور حکومت نے اس کے خلاف کاروائی کی ۔ موصوف جس سے اس کا موازنہ کر رہے ہیں وہ حکومت کا کارنامہ ہے کسی شر پسند کا نہیں

    جواب دیںحذف کریں
  5. آپ نے بہت اچھی مثال کے ذریعے سمجھایا ہے وہاب صاحب۔ مجھے حیرت ہے کہ اس معاملے پر اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ انتہائی نامعقول رائے رکھتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. آپ کا پلہ بھاری جارہا ہے فکر نہ کريں-

    Pakistan Muslim Extremists Kill Christian; Injure Evangelists
    Tuesday, December 22, 2009 (4:26 am)

    SARGODHA, PAKISTAN (Worthy News)-- Christians on Tuesday, December 22, were mourning a Christian man who was shot dead by Muslim extremists while other believers recovered from injuries after an apparent Muslim attack on an evangelistic meeting showing the Jesus Film in Pakistan's tense Punjab province.

    Patras Masih was shot because he refused to recant his faith in Christ, and died from gunshot wounds on December 3 in Karol village, his family said.

    http://www.worthynews.com/7135-pakistan-muslim-extremists-kill-christian-injure-evangelists

    جواب دیںحذف کریں

یہ بھی دیکھیے۔۔۔۔۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...