کیا ہم ہار چکے ہیں۔ اس کا جواب دینا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ خود سوچیے دو سالوں میں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرنے کے باوجود ہم انتہا پسندی کے ٹھکانوں میں ختم کرنے مین ناکام رہے ہیں۔ سوات تباہ ہوا تو ہمیں بتایا گیا کہ دہشت گردی کے منضوبہ سازوں کے ٹھکانے تباہ ہو گئے ہیں اب ہر طرف امن اور سکون کے شادیانے بجیں گے۔ پھر وزیرستان کی باری آئی جہاں پر وزیر داخلہ کے بقول ہندوستانی جاسوسوں کا بڑا نیٹ ورک تھا تمام دہشت گردی منصوبےوہاں پرتیار کیے جاتے تھے۔ وہ بھی تباہ ہوا مگر دہشت گردی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسی دن جب دھماکہ نہ ہو تو وہ بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ اب میڈیا پر کچھ فوجی نغموں اور رحمان ملک کے بیانات سے کیا یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے یا جیتی جاچکی ہے۔ اور کیا واقعی انتہا پسند ہار چکے ہیں اور گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ مگر سچائی یہ ہے کہ یہ ہارے اور گھبرائے ہوئے لوگ آج حساس علاقوں میں ایسی کاروائیاں کر جاتے ہین کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ تو وہ سوال ذہن میں آتا جو بار بار سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم جنگ ہار چکے ہیں۔
اگر اس ملک کو بچانا ہے اس قوم کو متحدرکھنا ہے تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ موجودہ حکمران اور ان کی پالیسیاں ملکی حالات کو بہتر بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ ایسی حالت میں جب ہماری ہار یقینی نظر آرہی ہے ان پالیسیوں پر ازسرنو نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم امریکی جنگ سے الگ ہو جائیں۔ ورنہ حالات مزید بدتر ہونے کا خدشہ ہے۔
بالکل درست لکھا سب کا سب
جواب دیںحذف کریںلیکن مزید آواز بلند کی تو ان مطلبیوں نے سندھی ٹوپی پہنا کر اور اجرک میں لپیٹ کر پاکستان کو مزید کھپا دینا ہے
or jub sindhi topi naheem pehnaai thi or ajrak mein naheen lepeta tha tub Pakistan ko kon khapa raha tha? DUFFER!
جواب دیںحذف کریںآپ کی سوچ بلکہ کہنا چاہیئے پریشانی درست ہے لیکن جب تک مندرجہ بالا مبصر عبداللہ جیسے لوگ حکومت میں موجود ہیں حالات بہتر ہونے کی کوئی اُمید نہیں
جواب دیںحذف کریں