بقول پروفیسراحتشام حسین
” عسکری کی جاندار خوبصورت اور ادبی نثر نقد ادب کے متعلق بہت سے سوالات اُٹھاتی ہے۔ سوالوں کا جواب نہیں دیتی ، اپنا مبہم سا ذائقہ پیداکرتی ہے۔ توانائی نہیں بخشتی شک میں مقید کرتی ہے یقین کے دروازے نہیں کھولتی۔“
اگر نظری اور عملی تنقید میں حسن عسکری کو حالی کے بعد اردو کا سب سے بڑا اہم نقاد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تنقید میں ان کی رائے سے اختلافات چاہے جتنے بھی ہوں لیکن وہ تنقیدی شعور اور تنقیدی بصیرت کی جن بلندیوں کو پہنچے وہ کم ناقدین کو نصیب ہے۔ اردو میں تجزیاتی تنقید ان کی بدولت آئی ورنہ تنقید کا عام طور پر طریقہ کار یہ رہا ہے کہ ہر ادیب و شاعر کی پانچ دس خصوصیات کو چن کر ان کا مقام متعین کیا جائے۔ ترقی پسند ناقدین نے سب سے پہلے اس روش سے انحراف کیا۔ ترقی پسند تحریک کے ابتدائی زمانے میں میراجی نے مشرق و مغر ب کے مختلف شعراءپر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سے اردو ادب میں نفسیاتی تنقید کی بنیاد پڑ ی ایک معاصر کی حیثیت سے عسکری بھی نفسیاتی تنقید سے متاثر ہوئے اور اس طرح اردو ادب کے قائدین کو عالمی ادب سے روشناس کرانے میں میراجی اور حسن عسکری کا حصہ سب سے زیادہ ہے بلکہ کیفیت و کمیت کے لحاظ سے عسکری ، میراجی پر بھاری ہیں۔
موضوعات کی رنگارنگی ، مطالعے کی وسعت اور گہرائی ، پاکستانی ادب کا نعرہ ، فوٹو گرافی سے لگائو، اسلامی ادب کی تحریک اور میر سے فراق تک پہنچا ہوا عشق حسن عسکری کو جاننے کے لئے افکار ہی کی یہ دولت کافی نہیں۔ بلکہ ناقدین میں ممتاز ، شیریں ، جمیل جالبی ، سلیم احمد، انتظار حسین اور مظفر علی سید تک عسکری سے متاثر ہیں۔ ان کے نظریات اور اسلوب میں چونکا دینے والی کیفیت ملتی ہے۔
عسکری اپنی ذات میں انجمن تھے اور ایک ایسا ادارہ جس کے تمام شعبے بیک وقت اور مستقل طور پر کارکردگی کے اعلیٰ ترین نقطے پر ہوں وہ نابغہ روزگار تھے اور ان کا ذہن مزاج ، ادراک، وجدان، فہم غرض مکمل شخصیت ایسے خمیر سے تشکیل دی گئی تھی جو خالقِ حقیقی بہت کم فنکاروں کو ودیعت کرتا ہے۔
عسکری نے اپنی عملی زندگی کاآغاز ایک معلم کی حیثیت سے کیا آپ انگریزی ادب کے طالب علم اورپھر اُستاد رہے انگلو عربک کالج دہلی ، اور اسلامیہ کالج لاہور ، اسلامیہ کالج کراچی میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ فرانسیسی زبان و ادب پر عبور تھا۔ عسکری کے بعض مضامین کے ترجمے فرانسیسی اور انگریزی زبان میں شائع ہوئے ان کو فرانسیسی اور انگریزی ادیبوں نے اس حد تک قابل ِ تو سمجھا کہ ادبی رسائل میں ان پر مباحث کا آغاز ہو گیا۔ وہ ایک ایسے استاد تھے کہ جس طالب علم نے اس کا ایک لیکچر بھی سنا وہ ان کی شاگردی پرفخر کرتا تھا عسکری، میر ، فراق ، حالی ، جرات ، جیمز جوائس، ایذرا پائونڈ، ایلیٹ اور فرائڈ سے متاثر تھے۔ اور عمر کے آخری حصے میں مولانا اشرف علی تھانوی کے عقیدت مند ہو گئے تھے۔
عسکری نے ہمیں بہت سے مغربی ناموں سے آشنا کرایا اور اس کانتیجہ ہے کہ آج مغربی مفکرین ذہنی رفیقوں کی طرح ہمارے ساتھ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ حالی سے لے کر کلیم الدین احمد تک اس معاملے میں حسن عسکری کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے مغربی ادب اور ادیبوں سے اس طرح آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرباتیں کیں کہ وہ بالکل برابری کی سطح پر ان سے ہمکلام نظر آتے ہیں۔ حسن کے تنقیدی مجموعوں میں ”انسان اور آدمی“، ”ستارہ یا بادبان“ ”جھلکیاں “ ”وقت کی راگنی“اور اس کے علاوہ ”جدیدیت یا مغربی گمراہوں کی تاریخ“ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تخلیقی حیثیت سے افسانوں کے دو مجموعے شامل ہیں۔ موضوعات کی رنگا رنگی تو ہر کتاب میں موجود ہے لیکن ”ستارہ یا بادبان“ تنقیدی حیثیت سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا نام فرانسیسی شاعر کے نظم سے نکالا گیا ہے۔ اور اس کتاب کے ذریعے عسکری نے مصوری پر بھی بات کی ہے۔ انھیں شاعری مصوری اور موسیقی پر دسترس حاصل ہے اور انھیں پورے فنون ِ لطیفہ سے دلچسپی تھی۔ ”وقت کی راگنی“ کے ذریعے موسیقی پر دسترس کا لوہا منوایا اور ان کے پہلے افسانے سے لےکر آخری مضمون تک ہر تحریر میں ایک اخلاقی سماجی اور روحانی صداقت موجود ہے۔
تنقیدی آرا:۔
”ستارہ یا بادبان“ کے تنقیدی مضامین کا جائزہ لیاجائے تو عسکری ایک سچے نقاد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں وہ کسی قسم کا تعصب نہیں رکھتے سچی بات بے دھڑک کہتے ہیں شائد اس لئے وہ ہمیشہ متنازعہ نقادرہے ۔وہ کسی شاعر یا ادیب کا جائزہ مروجہ اصولوں کے تحت نہیں کرتے بلکہ وہ بت شکن ہیں ان کے نزدیک جب تک چیزوں کے بارے میں ہمارا طرز ِ احساس نہیں بدلے گا اُس وقت تک نئی صداقتیں سامنے نہیں آ سکتیں ۔ ادبی جمود کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ناقدین کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ ناقدین تخلیق کاروں کو اس گمراہی میں مبتلا کر رہے ہیں کہ ہمارا ادب خوب ترقی کر رہا ہے۔ ہمارے شاعروں نے مغربی ادب کی طرح پھولوں او ر چڑیوں پر جو کچھ لکھاوہ بالکل غلط ہے۔ مغربی ادب اپنی تہذیبی روایات اور ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح اردو ادب کو بھی مشرقی روایات تہذیب اور ضروریات کو مدنظررکھنا چاہیے۔
حسن عسکری کا خیا ل ہے کہ ناقدین لکھنے والوں کی بے جا تعریفیں کرتے ہیں اور فنکار یہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح سمت سفر کر رہا ہے۔ اور اس کی تخلیقی کاوشیں اپنے عہد روایات اور تہذیب کی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔ ادبی جمود کی ایک اور وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے ادیبوں میں اتفاق نہیں ان میں لکھنے کی صلاحیت تو ہے مگر ہم سفری کااحساس نہیں بڑا سے بڑا شاعر بھی محض اپنے بل بوتے پر کسی زبان کو نئی زندگی نہیں دے سکتا جب تک لاشعوری طور پر اُسے دوسروں کی رفاقت حاصل نہ ہو حسن عسکری کو دلچسپ اور جاذب جملے لکھنے میں مہارت تھی اور وہ اس بات سے خوب آگاہ ہیں کہ ادب کوئی من و سلویٰ نہیں جو آسمان سے زمین پر آتا ہے بلکہ ہمارے جذبات و احساسات کا نمائندہ ہوتا ہے اور یوں ادب پر صدیوں کے ان گنت تجربات ہوتے ہیں اچھا لکھنے کے لئے اچھا پڑھنا اور دوسرے ادیبوں کی رفاقت کا احساس بھی ضروری ہے۔
نفسیاتی تنقید:۔
موضوعات کی رنگارنگی ، مطالعے کی وسعت اور گہرائی ، پاکستانی ادب کا نعرہ ، فوٹو گرافی سے لگائو، اسلامی ادب کی تحریک اور میر سے فراق تک پہنچا ہوا عشق حسن عسکری کو جاننے کے لئے افکار ہی کی یہ دولت کافی نہیں۔ بلکہ ناقدین میں ممتاز ، شیریں ، جمیل جالبی ، سلیم احمد، انتظار حسین اور مظفر علی سید تک عسکری سے متاثر ہیں۔ ان کے نظریات اور اسلوب میں چونکا دینے والی کیفیت ملتی ہے۔
عسکری اپنی ذات میں انجمن تھے اور ایک ایسا ادارہ جس کے تمام شعبے بیک وقت اور مستقل طور پر کارکردگی کے اعلیٰ ترین نقطے پر ہوں وہ نابغہ روزگار تھے اور ان کا ذہن مزاج ، ادراک، وجدان، فہم غرض مکمل شخصیت ایسے خمیر سے تشکیل دی گئی تھی جو خالقِ حقیقی بہت کم فنکاروں کو ودیعت کرتا ہے۔
عسکری نے اپنی عملی زندگی کاآغاز ایک معلم کی حیثیت سے کیا آپ انگریزی ادب کے طالب علم اورپھر اُستاد رہے انگلو عربک کالج دہلی ، اور اسلامیہ کالج لاہور ، اسلامیہ کالج کراچی میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ فرانسیسی زبان و ادب پر عبور تھا۔ عسکری کے بعض مضامین کے ترجمے فرانسیسی اور انگریزی زبان میں شائع ہوئے ان کو فرانسیسی اور انگریزی ادیبوں نے اس حد تک قابل ِ تو سمجھا کہ ادبی رسائل میں ان پر مباحث کا آغاز ہو گیا۔ وہ ایک ایسے استاد تھے کہ جس طالب علم نے اس کا ایک لیکچر بھی سنا وہ ان کی شاگردی پرفخر کرتا تھا عسکری، میر ، فراق ، حالی ، جرات ، جیمز جوائس، ایذرا پائونڈ، ایلیٹ اور فرائڈ سے متاثر تھے۔ اور عمر کے آخری حصے میں مولانا اشرف علی تھانوی کے عقیدت مند ہو گئے تھے۔
عسکری نے ہمیں بہت سے مغربی ناموں سے آشنا کرایا اور اس کانتیجہ ہے کہ آج مغربی مفکرین ذہنی رفیقوں کی طرح ہمارے ساتھ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ حالی سے لے کر کلیم الدین احمد تک اس معاملے میں حسن عسکری کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے مغربی ادب اور ادیبوں سے اس طرح آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرباتیں کیں کہ وہ بالکل برابری کی سطح پر ان سے ہمکلام نظر آتے ہیں۔ حسن کے تنقیدی مجموعوں میں ”انسان اور آدمی“، ”ستارہ یا بادبان“ ”جھلکیاں “ ”وقت کی راگنی“اور اس کے علاوہ ”جدیدیت یا مغربی گمراہوں کی تاریخ“ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تخلیقی حیثیت سے افسانوں کے دو مجموعے شامل ہیں۔ موضوعات کی رنگا رنگی تو ہر کتاب میں موجود ہے لیکن ”ستارہ یا بادبان“ تنقیدی حیثیت سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا نام فرانسیسی شاعر کے نظم سے نکالا گیا ہے۔ اور اس کتاب کے ذریعے عسکری نے مصوری پر بھی بات کی ہے۔ انھیں شاعری مصوری اور موسیقی پر دسترس حاصل ہے اور انھیں پورے فنون ِ لطیفہ سے دلچسپی تھی۔ ”وقت کی راگنی“ کے ذریعے موسیقی پر دسترس کا لوہا منوایا اور ان کے پہلے افسانے سے لےکر آخری مضمون تک ہر تحریر میں ایک اخلاقی سماجی اور روحانی صداقت موجود ہے۔
تنقیدی آرا:۔
”ستارہ یا بادبان“ کے تنقیدی مضامین کا جائزہ لیاجائے تو عسکری ایک سچے نقاد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں وہ کسی قسم کا تعصب نہیں رکھتے سچی بات بے دھڑک کہتے ہیں شائد اس لئے وہ ہمیشہ متنازعہ نقادرہے ۔وہ کسی شاعر یا ادیب کا جائزہ مروجہ اصولوں کے تحت نہیں کرتے بلکہ وہ بت شکن ہیں ان کے نزدیک جب تک چیزوں کے بارے میں ہمارا طرز ِ احساس نہیں بدلے گا اُس وقت تک نئی صداقتیں سامنے نہیں آ سکتیں ۔ ادبی جمود کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ناقدین کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ ناقدین تخلیق کاروں کو اس گمراہی میں مبتلا کر رہے ہیں کہ ہمارا ادب خوب ترقی کر رہا ہے۔ ہمارے شاعروں نے مغربی ادب کی طرح پھولوں او ر چڑیوں پر جو کچھ لکھاوہ بالکل غلط ہے۔ مغربی ادب اپنی تہذیبی روایات اور ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح اردو ادب کو بھی مشرقی روایات تہذیب اور ضروریات کو مدنظررکھنا چاہیے۔
حسن عسکری کا خیا ل ہے کہ ناقدین لکھنے والوں کی بے جا تعریفیں کرتے ہیں اور فنکار یہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح سمت سفر کر رہا ہے۔ اور اس کی تخلیقی کاوشیں اپنے عہد روایات اور تہذیب کی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔ ادبی جمود کی ایک اور وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے ادیبوں میں اتفاق نہیں ان میں لکھنے کی صلاحیت تو ہے مگر ہم سفری کااحساس نہیں بڑا سے بڑا شاعر بھی محض اپنے بل بوتے پر کسی زبان کو نئی زندگی نہیں دے سکتا جب تک لاشعوری طور پر اُسے دوسروں کی رفاقت حاصل نہ ہو حسن عسکری کو دلچسپ اور جاذب جملے لکھنے میں مہارت تھی اور وہ اس بات سے خوب آگاہ ہیں کہ ادب کوئی من و سلویٰ نہیں جو آسمان سے زمین پر آتا ہے بلکہ ہمارے جذبات و احساسات کا نمائندہ ہوتا ہے اور یوں ادب پر صدیوں کے ان گنت تجربات ہوتے ہیں اچھا لکھنے کے لئے اچھا پڑھنا اور دوسرے ادیبوں کی رفاقت کا احساس بھی ضروری ہے۔
نفسیاتی تنقید:۔
”میں اس صورت میں اچھا لکھ سکتا ہوں جب دوسرے بھی اچھا لکھ رہے ہوں۔“
اپنے تنقیدی مضامین ”فن تخلیق اور گرد“ ”ادب اور جذبات“ داخلیت پسندی نفسیات او رتنقید میں وہ بالخصوص فرائیڈ سے متاثر ہیں لیکن انھوں نے فرائیڈ کو محض جنسیات کا ماہر نہیں سمجھا بلکہ نفسیاتی تحلیل کے تصور سے بہت سی چیزیں اخذ کی ہیں۔ نفسیاتی تحلیل کے تصور کے تحت انسان بہت سے غیر شعوری دکھوں کو شعوری سطح پر لاتا ہے۔ اور یہی عنصر انسان کے سارے فلسفے اور ادب کی بنیادی سچائی ہے عسکر ی کا خیال ہے کہ گندے سے اچھا ادب بن سکتا ہے مگر محض جنس سے مغلوب ہوکر بڑا ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتا اس طرح داخلیت پسندی کے تحت عسکری نے مغربی ادب کو اردو ادب میں روشناس کرایاہے۔ اس نظریے کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ آدمی خود کو دیکھنے کی ہمت رکھتا ہو تو اسی مناسبت سے خارجی حقیقت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یعنی داخلیت اور خارجیت ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔
مغربی ادب میں اس نظریے کو (اورگانORGANE) کا نام دیا جاتا ہے۔ اورگان نفسی لہروں کا نام دیا ہے اور اس کے ذریعے خود آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اپنے جسمانی اور ذہنی نظام میں اورگان کی لہروں کی بہائو کو ہر شخص محسوس کر سکتا ہے۔ لہروں کے دو طرفہ بہائو کے ذریعے ہی ہمیں اپنا اور خارجی اشیاءکا تصور اور ادراک حاصل ہوتا ہے۔
استعارہ:۔
ایک مضمون ”استعارے کاخوف“ میں عسکری نے استعارے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور ان کے نزدیک اشیاءکو استعارے کی شکل میں ڈھال کر پیش کرنا تخلیق کار کا کام ہے۔ استعاروں کے پیچھے معانی کے جہان آباد ہیں اور ان سے ادب کی معنویت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ استعارے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ،
مغربی ادب میں اس نظریے کو (اورگانORGANE) کا نام دیا جاتا ہے۔ اورگان نفسی لہروں کا نام دیا ہے اور اس کے ذریعے خود آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اپنے جسمانی اور ذہنی نظام میں اورگان کی لہروں کی بہائو کو ہر شخص محسوس کر سکتا ہے۔ لہروں کے دو طرفہ بہائو کے ذریعے ہی ہمیں اپنا اور خارجی اشیاءکا تصور اور ادراک حاصل ہوتا ہے۔
استعارہ:۔
ایک مضمون ”استعارے کاخوف“ میں عسکری نے استعارے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور ان کے نزدیک اشیاءکو استعارے کی شکل میں ڈھال کر پیش کرنا تخلیق کار کا کام ہے۔ استعاروں کے پیچھے معانی کے جہان آباد ہیں اور ان سے ادب کی معنویت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ استعارے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ،
” نثر کو بیان کا وسیلہ نہیں بلکہ تخلیقی عمل مانا جائے تو اس میں استعاروں کے بغیر کام نہیں چلتا۔“
عسکری بنیادی طور پر نفسیاتی اصولوں کو ادب میں برتنے پر زور دیتے ہیں اور ان کے خیال میں اردو میں فراق گورکھپوری کے علاوہ نفسیاتی تنقید کسی اور نے نہیں لکھی اور فراق نے بھی نفسیاتی تنقید کے پورے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا ۔ چنانچہ نفسیاتی تنقید کے عمدہ نمونے مغرب میں ملتے ہیں۔ حسن عسکری ان ناقدین سے سخت نالاں ہیں جو محض فن پارے کی تشریح میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرتے ہیں ان کے نزدیک ادب میں نفسیاتی تنقید کو رواج دینا چاہیے۔
محاورہ:۔
کتاب کا سب سے اہم مضمون محاوروں کا ملہ ہے اس ملے کو وہ ادبی سے زیادہ سماجی مانتے ہیں ہمارے ہاں نئے محاوروں کا نہ بننا ایسا المیہ ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمارا رشتہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں سے کٹ گیا ہے آج انسان انفرادیت کی تلاش میں ہے۔فنکار بھی انفرادیت کا پرچار کرتا ہے ۔ فر د کا رشتہ سماج کے ساتھ کمزور پڑ گیا ہے۔ تہذیبی اور روایتی اقدار کا خاتمہ ہو جانے کے باعث کوئی شخص بھی اس قابل نہیں رہا کہ زندگی کی بڑی حقیقتوں کو نہایت چھوٹے چھوٹے پس منظروں میں پہچان سکے۔ اس سلسلے میں حسن عسکری صاحب کا کہنا ہے کہ،
محاورہ:۔
کتاب کا سب سے اہم مضمون محاوروں کا ملہ ہے اس ملے کو وہ ادبی سے زیادہ سماجی مانتے ہیں ہمارے ہاں نئے محاوروں کا نہ بننا ایسا المیہ ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمارا رشتہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں سے کٹ گیا ہے آج انسان انفرادیت کی تلاش میں ہے۔فنکار بھی انفرادیت کا پرچار کرتا ہے ۔ فر د کا رشتہ سماج کے ساتھ کمزور پڑ گیا ہے۔ تہذیبی اور روایتی اقدار کا خاتمہ ہو جانے کے باعث کوئی شخص بھی اس قابل نہیں رہا کہ زندگی کی بڑی حقیقتوں کو نہایت چھوٹے چھوٹے پس منظروں میں پہچان سکے۔ اس سلسلے میں حسن عسکری صاحب کا کہنا ہے کہ،
” محاورے کا ملہ محض ادبی نہیں بلکہ یہ ہماری پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ملہ ہے ہمارے ذہن میں محاورے اس وقت آئیں گے جب ہم اجتماعی زندگی سے جذباتی لگائو رکھتے ہوں اور اپنے معاشرے کو قبول کرتے ہوں محاورے اجتماعی زندگی کی شاعری ہیں۔“
اسلوب:۔
حسن عسکری کی تنقید میں ان کا انداز بیان جارحانہ ضرور ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ جز کی مدد سے کل کو دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس طرح مختصر الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کہنا ان کی خاص خوبی ہے ۔ ان کے بعض جملے تو تخلیقی تنقید کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں بار بار دھرا کر جمالیاتی حظ اُٹھا یا جا سکتا ہے۔
حسن عسکری اردو ادب میں اچھا ڈرامہ تخلیق نہ ہونے کی اہم وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ادیبوں کو عام لوگوں کی زندگی سے کوئی سروکار نہیں رہا فنکار عام لوگوں کے مسائل، الجھن ، اور خوشیوں میں شامل نہیں انھیں اجتماعی مفاد سے کوئی غرض نہیں وہ تو انفرادی دکھ کو سب کچھ سمجھتے ہیں جبکہ اچھا ڈرامہ تب ہی لکھا جا سکتا ہے جب ادیب سچ کو سمجھنے لگیں زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو اہمیت دے ۔ اور عام لوگوں کی زندگی میں شامل ہوں ۔ اس طرح ”ستارہ یا بادبان“ میں اسالیب نثر اور طنزیہ و مزاحیہ اسالیب پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان مضامین میں حسن عسکری ”لفظ“ اس کے استعمال ، ضروریات اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں ان کے نزدیک جملے میں تعمیری احساس ضروری ہے۔
”بڑا جملہ وہ ہے جس کی نشوونما خود بخود ہو، محض ٹکڑوں کو ایک جگہ جمع نہ کیا ہو۔ بڑے جملے کا ایک مصرف یہ بھی ہے کہ کسی خیال کے مختلف پہلو ایک ہی وقت میں پیش کئے جائیں۔“
ترجمہ:۔
ترجمے پر بھی عسکری صاحب نے روشنی ڈالی ہے ان کے نزدیک ترجمہ تخلیق ادب پر ہونا چاہیے اگر ایسا نہ ہو تو ترجمے سے کوئی فائدہ نہیں ترجمے کا مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ ادیبوں اور قارئین کے سامنے اظہار کے نئے ذرائع نئے وسائل سامنے آئیں۔
عملی تنقید:۔
کتاب میں شامل منٹو پر مضمون عملی تنقید کا نمونہ ہے عسکری منٹو کے اسلوب کو جینے کا اسلوب کہتے ہیں منٹو کے پاس احساسات تو بہت تھے لیکن ان کی ترتیب دینے کی صلاحیت زیادہ نہ تھی وہ لوگوں کے ساتھ تعلق ذہن کے ذریعے نہیں بلکہ احساس کے ذریعے قائم کرتا تھا۔ عسکری کا خیال ہے کہ موضوع اور ہیئت کے لحاظ سے ان کی تخلیقات مشعل راہ ہیں ہمارے اردو ادب میں بہت تنقیدی مباحث کے درمیان روایت کی خاص اہمیت ہے
روایت:۔
حسن عسکری روایت کے بارے میں مغربی ادیبوں اور مفکرین کے اقوال نقل کرتے ہیں اور ان کی روشنی میں روایت کے تصور کا تجزیہ کرتے ہیں عسکری پر روایت کے سلسلے میں ایلیٹ کے اثرات نمایاں ہیں ان کے نزدیک روایت کامیاب تجربوں کی حامل ہے۔ یہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ نشوونما پاتی ہے اور ایسی روایت کے برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں جس سے آج کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا ہو۔ بلکہ شعوری کاوش کے تحت ایسی روایت کو برقرار رکھنا چاہیے جو آج کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو اور زندگی ، ادب اور حسن پیدا کر سکتی ہو۔روایت کے سلسلے میں حسن عسکری صاحب یوں گویا ہوتے ہیں کہ،
حسن عسکری کی تنقید میں ان کا انداز بیان جارحانہ ضرور ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ جز کی مدد سے کل کو دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس طرح مختصر الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کہنا ان کی خاص خوبی ہے ۔ ان کے بعض جملے تو تخلیقی تنقید کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں بار بار دھرا کر جمالیاتی حظ اُٹھا یا جا سکتا ہے۔
حسن عسکری اردو ادب میں اچھا ڈرامہ تخلیق نہ ہونے کی اہم وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ادیبوں کو عام لوگوں کی زندگی سے کوئی سروکار نہیں رہا فنکار عام لوگوں کے مسائل، الجھن ، اور خوشیوں میں شامل نہیں انھیں اجتماعی مفاد سے کوئی غرض نہیں وہ تو انفرادی دکھ کو سب کچھ سمجھتے ہیں جبکہ اچھا ڈرامہ تب ہی لکھا جا سکتا ہے جب ادیب سچ کو سمجھنے لگیں زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو اہمیت دے ۔ اور عام لوگوں کی زندگی میں شامل ہوں ۔ اس طرح ”ستارہ یا بادبان“ میں اسالیب نثر اور طنزیہ و مزاحیہ اسالیب پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان مضامین میں حسن عسکری ”لفظ“ اس کے استعمال ، ضروریات اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں ان کے نزدیک جملے میں تعمیری احساس ضروری ہے۔
”بڑا جملہ وہ ہے جس کی نشوونما خود بخود ہو، محض ٹکڑوں کو ایک جگہ جمع نہ کیا ہو۔ بڑے جملے کا ایک مصرف یہ بھی ہے کہ کسی خیال کے مختلف پہلو ایک ہی وقت میں پیش کئے جائیں۔“
ترجمہ:۔
ترجمے پر بھی عسکری صاحب نے روشنی ڈالی ہے ان کے نزدیک ترجمہ تخلیق ادب پر ہونا چاہیے اگر ایسا نہ ہو تو ترجمے سے کوئی فائدہ نہیں ترجمے کا مقصد تو یہ ہونا چاہیے کہ ادیبوں اور قارئین کے سامنے اظہار کے نئے ذرائع نئے وسائل سامنے آئیں۔
عملی تنقید:۔
کتاب میں شامل منٹو پر مضمون عملی تنقید کا نمونہ ہے عسکری منٹو کے اسلوب کو جینے کا اسلوب کہتے ہیں منٹو کے پاس احساسات تو بہت تھے لیکن ان کی ترتیب دینے کی صلاحیت زیادہ نہ تھی وہ لوگوں کے ساتھ تعلق ذہن کے ذریعے نہیں بلکہ احساس کے ذریعے قائم کرتا تھا۔ عسکری کا خیال ہے کہ موضوع اور ہیئت کے لحاظ سے ان کی تخلیقات مشعل راہ ہیں ہمارے اردو ادب میں بہت تنقیدی مباحث کے درمیان روایت کی خاص اہمیت ہے
روایت:۔
حسن عسکری روایت کے بارے میں مغربی ادیبوں اور مفکرین کے اقوال نقل کرتے ہیں اور ان کی روشنی میں روایت کے تصور کا تجزیہ کرتے ہیں عسکری پر روایت کے سلسلے میں ایلیٹ کے اثرات نمایاں ہیں ان کے نزدیک روایت کامیاب تجربوں کی حامل ہے۔ یہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ نشوونما پاتی ہے اور ایسی روایت کے برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں جس سے آج کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا ہو۔ بلکہ شعوری کاوش کے تحت ایسی روایت کو برقرار رکھنا چاہیے جو آج کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو اور زندگی ، ادب اور حسن پیدا کر سکتی ہو۔روایت کے سلسلے میں حسن عسکری صاحب یوں گویا ہوتے ہیں کہ،
” روایت کیا ہے ؟ پہلی بات یہ ہے کہ معاشرتی روایت ، ادبی روایت، دینی روایت یہ الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک بڑی واحد روایت ہے وہ سب کی بنیاد ہے اور باقی چھوٹی اُسی کا حصہ ہیں۔“
عسکری کی بڑی روایت سے مراد تہذیب ہے۔ تہذیب ہی کے تحت مختلف قومیں اپنی ثقافت و روایت کا تعین کرتی ہیں۔
مصوری:۔
مصوری کے بارے میں کتاب میں دو تنقید ی مضامین شامل ہیں ۔ یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ اردو ادب میں مصوری پر اس سے عمدہ تنقیدی نمونہ نہیں ان مضامین میں عسکری پہلے قاری کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ایک تصویر کو دیکھنے کے لئے اس کے مکمل تاثیر کو حاصل کرنے اور مربوط وجود کا احساس کرنے کے لئے کن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں نہ صرف مصوری بلکہ پورے فنون لطیفہ سے ان کی دلچسپی حد درجہ ہے ۔ موسیقی کے سلسلے میں ان کا تنقیدی مضمون ”وقت کی راگنی“ بھی اپنی مثا ل آپ ہے۔
اسلامی روایت:۔
عسکری نے اسلامی روایات پر بھی لکھا اور ا ن کے ہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ انھوں نے شریعت ، طریقت اور حقیقت تینوں کو متوازن انداز میں بیان کیا ہے اس طر ح وہ اسلامی روایت کو محض ایک سطح پر قبول کرنے اور دوسری سطح پر رد کرنے کے حامی نہیں ۔ مجموعی طور پر ان کے تنقیدی خیالات کو دیکھا جائے تو ادیب کو سماجی ذمہ داری کا حامل دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے نزدیک ادب کو کسی سیاسی جماعت کا غلام نہیں بننا چاہیے۔ وہ پاکستانی ادب اوراسلامی ادب کا نعرہ لگانے والے پہلے ادیب تھے ان کے بارے میں جیلانی کامرا ن لکھتے ہیں کہ،
مصوری:۔
مصوری کے بارے میں کتاب میں دو تنقید ی مضامین شامل ہیں ۔ یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ اردو ادب میں مصوری پر اس سے عمدہ تنقیدی نمونہ نہیں ان مضامین میں عسکری پہلے قاری کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ایک تصویر کو دیکھنے کے لئے اس کے مکمل تاثیر کو حاصل کرنے اور مربوط وجود کا احساس کرنے کے لئے کن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں نہ صرف مصوری بلکہ پورے فنون لطیفہ سے ان کی دلچسپی حد درجہ ہے ۔ موسیقی کے سلسلے میں ان کا تنقیدی مضمون ”وقت کی راگنی“ بھی اپنی مثا ل آپ ہے۔
اسلامی روایت:۔
عسکری نے اسلامی روایات پر بھی لکھا اور ا ن کے ہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ انھوں نے شریعت ، طریقت اور حقیقت تینوں کو متوازن انداز میں بیان کیا ہے اس طر ح وہ اسلامی روایت کو محض ایک سطح پر قبول کرنے اور دوسری سطح پر رد کرنے کے حامی نہیں ۔ مجموعی طور پر ان کے تنقیدی خیالات کو دیکھا جائے تو ادیب کو سماجی ذمہ داری کا حامل دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے نزدیک ادب کو کسی سیاسی جماعت کا غلام نہیں بننا چاہیے۔ وہ پاکستانی ادب اوراسلامی ادب کا نعرہ لگانے والے پہلے ادیب تھے ان کے بارے میں جیلانی کامرا ن لکھتے ہیں کہ،
”اسلامی تہذیبی اور علمی سفر نامے میں ایسے بیٹوں کی کمی نہیں جو اپنی زندگیوں سے اسلام کے عظمتوں کے چراغ روشن کرتے ہیں ہمارے زمانے میں اسلام کا ایسا فرزند محمد حسن عسکری تھا۔‘
عسکری کی تنقید کا رجحان تخلیقی ہے یوں اُن کے ہاں نقاد کے بجائے فنکارانہ صلاحیتوں کا احساس ہوتا ہے وہ خشک عملی و تنقیدی مسائل پر بڑی طنز یہ گفتگو کرنے کے عادی ہیں اور ناقدین کو ان سے یہی شکایت ہے کہ ان اسلوب تنقید کے لئے موزوں نہیں۔انہوں نے کبھی اپنی تحریر کو بہترین اور حرف آخر نہیں سمجھا اس لئے ان کے ہاں ہمیں مسلسل ذہنی ارتقاءملتا ہے۔
وہ نئے اور عمدہ خیالات کے آتے ہی پرانے اور بے فائدہ خیالات و نظریات کی رد خود ہی پیش کر تے ہیں۔ ان کی تنقید ان کا اسلوب ان کی تخلیقی صلاحیت کے بہترین جوہر ہیں۔ ان کی کاٹ دار جملی پوری پوری تحریکوں کو ہلا دیتے ہیں۔ ان کے طنزیہ فقرے جو مروجہ ادبی نظریات کو پامال کردیتے ہیں لیکن ان سب کے پیچھے ایک دردمند دل و دماغ موجود ہوتا ہے جو صنعتی ترقی کے باعث تہذیبی اقدار کی تباہی کا احساس لئے ہوئے ہے۔ حسن عسکری کی آواز یقینابیسویں صدی میں ہمارے ادب کی سب سے سچی اور اجتماعی صداقت پر مبنی توانا آواز ہے۔
وہ نئے اور عمدہ خیالات کے آتے ہی پرانے اور بے فائدہ خیالات و نظریات کی رد خود ہی پیش کر تے ہیں۔ ان کی تنقید ان کا اسلوب ان کی تخلیقی صلاحیت کے بہترین جوہر ہیں۔ ان کی کاٹ دار جملی پوری پوری تحریکوں کو ہلا دیتے ہیں۔ ان کے طنزیہ فقرے جو مروجہ ادبی نظریات کو پامال کردیتے ہیں لیکن ان سب کے پیچھے ایک دردمند دل و دماغ موجود ہوتا ہے جو صنعتی ترقی کے باعث تہذیبی اقدار کی تباہی کا احساس لئے ہوئے ہے۔ حسن عسکری کی آواز یقینابیسویں صدی میں ہمارے ادب کی سب سے سچی اور اجتماعی صداقت پر مبنی توانا آواز ہے۔
Salaam Bhai,
جواب دیںحذف کریںBhai muje apki post bohat achi lagi hain or ye meri study main kafi haelpul hain.Thanks.Allah apko mazeed tarqi day.Ameen.