جہاں تک اردو ادب کے پہلے افسانہ نگار کا تعلق ہے تو اس کے متعلق مختلف آرا ءہیں ۔ ڈاکٹر معین الدین نے سجاد حیدر یلدرم کو پہلا افسانہ نگار قرار دایا ہے۔ جبکہ بعض کے خیال میں پریم چند پہلے افسانہ نگار ہیں لیکن جدید تحقیق کے مطابق بقول ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ”راشد الخیری “ اردو ادب کے پہلے افسانہ نگار ہیں جن کا افسانہ ”خدیجہ اور نصیر “ 1903ءکو مخزن میں شائع ہوا۔ اولیت جیسے بھی حاصل ہو لیکن سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند اردو افسانے کے دو اہم نام اور ستون ہیں ۔ یہ دو نام ہیں بلکہ دورجحانات ہیں ایک رومانیت کا اور دوسرا حقیقت نگاری کا ۔ لہٰذا بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ایسے نام ہیں جن کے ہاں یلدرم کا رومانی مزاج ہے اور بعض کے ہاں پریم چند کی طرح حقیقت نگاری کا رجحان غالب ہے۔ اور1947تک انہی دو رجحانات کی بازگشت اردو افسانے میں سنائی دیتی ہے۔ مثلا نیاز فتح پوری ، حجاب امتیاز علی ، مجنوں گورکھپوری ، کے افسانوں میں رومانوی مزاج ملتا ہے۔ جبکہ باقی ترقی پسند افسانہ نگاروں کا مزاجحقیقت نگاری سے ملتا ہے۔ لیکن ان رجحانات میں حقیقت نگاری کا رجحان غالب ہے۔
مثلا رشید جہاں ، احمد علی اور محمود الظفر کے افسانوں کا مجموعہ ”انگار ے “ جو کہ موجود ہ دور کے انتشار اور ناہموار حالات سے پیدا ہونے والی بغاوت کا آئینہ دار ہے۔ خصوصا 1936ءکے بعد تو چار افسانہ نگاروں جن میں کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی ، سعادت حسن منٹو ، اور عصمت چغتائی کے ہاں حقیقت کے زاوےے زیادہ مضبوط ہیں۔ کرشن چندر نے حقیقت میں رومان کا امتزاج پیداکرنے کی کوشش کی لیکن ان کا رومان بھی رومانیت کے ذیل میں نہیں آتا۔ اور ان کے رومان کا تعلق حقیقت سے ہے۔ کرشن کے کردار اسی حقیقی دنیا میں محبت کرتے ہیں اسی لیے انہیں اکثر جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس جدائی کے پس منظر میں معاشی معاشرتی حالات بھی موجود ہوتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کا تعلق بھی حقیقت نگاری کی طرف زیادہ او ررومان کی طرف کم ہے۔ اُن کے ہاں موضوعات کا مکمل تنوع موجود ہے۔ اور انہوں نے نے معاشیات ، نفسیات ، معاشرت ، ہمارے رشتے ، پھر سماج ہر حوالے سے لکھا اور حقیقت سے اُن کا گہرا رشتہ موجود ہے۔
جبکہ منٹو کا تعلق ہماری معاشرتی حقیقتوں سے گہرا ہے وہ ساری زندگی ہماری سماجی ، معاشرتی منافقتوں اور غلاظتوں کی نشاندہی کرتا رہا۔ عصمت چغتائی نے بھی معاشی اور معاشرتی حالات کے تحت پیدا ہونے والی جنسی محرمیوں پر کہانیاں لکھیں۔ اور متوسط گھرانے کی زندگی پر قلم اٹھایا۔
حیات اللہ انصاری کا افسانہ ”آخری کوشش“ اس حوالے کی شاید بہترین مثال ہے جو معاشی مسائل سے پیدا ہونے والی انسان کی بے بسی کی تصویر ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے دیہات کی عکاسی کی ہمارے داخلی اور خارجی مشکلات کی کہانیاں بھی بیان کیں۔ اور اپندرناتھ اشک اور خواجہ احمد عباس کے افسانوں کا رشتہ خلاءسے نہیں زمین سے رہا ۔ لہذا ٧٤ تک جو افسانہ سفر کرتے ہوئے پہنچا وہ ان رومان اور حقیقت دونوں رجحانات کے ساتھ آیا لیکن اس کی بنیاد زندگی اور اس کے مسائل ہی رہے ۔ افسانوں میں رومان کی فضاءبھی اس قسم کی ہے کہ اس کو سماج سے الگ نہیں کر سکتے ۔ یعنی رومان اور حقیقت ساتھ ساتھ سفر کر رہے ہیں۔
افسانہ 1947 ءکے بعد
فسادات کا رجحان
1947 کے بعد ہمارے افسانے میں فسادات کے موضوع کو بہت تقویت ملی لیکن کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کاتعلق جذباتیت اور ہنگامی سوچ سے ہوتا ہے اور انہی کی وجہ سے افسانے کا فن متاثر ہوا۔ لہٰذا اُس وقت کے ہنگامی افسانے اُس دور میں میں تو مقبول رہے لیکن آج اُن کی حیثیت محض تاریخی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دور میں اچھے افسانے منظر عام پر نہیں آئے۔ مثال کے طور پر اچھا اور بڑا افسانہ جو تخلیق کیا گیا جو فسادات کے ساتھ چلتے ہوئے مجموعی رویوں کے ساتھ منسلک کیا گیا اور جو کل بھی زندہ تھا اور آج بھی اُس میں زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے وہ افسانہ منٹو کا ”ٹوبہ ٹیک سنگھ “ ہے۔ جو فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا اور جس میں فسادات سے پیدا ہونےوالے الجھنوں سے لوگوں کے ذہنوں پرجو اثرات پڑے ، کے بارے میں بیان کیاگیا۔ منٹو کا ایک اور افسانہ ”کھول دو “ میں47 کے بعد کے حالات کا ذکر ہے۔ کہ ہجرت کے بعد لوگوں کے ساتھ کیا ہوا۔ منٹو ساری زندگی انسان کو تلاش کرتا رہا اور مشرقی اور مغربی انسان کی غلاظتیں تلاش کرتا رہا۔ کہ انسان کا باطن ظاہر کی طرح صاف شفاف ہے یا نہیں۔ ہمارے اندر کی غلاظت کو وہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس غلاظت کو دیکھنے کا ایک اچھا موقع آزادی کے بعد یعنی ٧٤کے بعد کاتھا کیونکہ آزادی کو اکثر لوگ غلط رنگ چڑھا دیتے ہیں۔
اسی حوالے سے دوسرا نام احمد ندیم قاسمی کا ہے۔ انکے افسانے ”نیا فرہاد “ میں دکھایا گیا ہے کہ لاہور میں سکھ مسلمانوں کو مار رہے ہیں او ر مسلمان ہندو اور سکھوں کو مضافاتی دیہات میں قتل کر رہے ہیں۔اس افسانے میں عمل کی تلقین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اُن کے دوسرا افسانہ ” تسکین “ اُس ماحول پر مشتمل ہے جو کہ ”یاخدا“ میں ہے۔ ان کا تیسرا فسانہ ”پرمیشور سنگھ“ میں انسانی رویوں کو بیان کیا گیا ہے کہ افسانہ محبت اور نفرت کی اکائی پر کھڑا ہے۔ اور فسادات کو انسانی جسم اور رویوں سے منسلک کیا گیا ہے۔
انتظار حسین کا افسانہ ” بن لکھی رزمیہ ‘ ‘میں آزادی کی جدوجہد اور امنگیں موجودہیں اور پھر بعد کے حالات کیوجہ سے ان آرزئوں ، امنگوں ، جذبوں کا ٹوٹنا بھی دکھایا گیا ہے۔
فسادات کے پس منظر میں لکھا ہوا افسانہ ”گڈریا“ میں اشفاق احمد نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ اس دور میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ کیا تھی کیا ان کی وجہ کوئی مذہبی نظریہ تھا یا کوئی نسلی مسئلہ یا انتقام کی آگ تھی۔ اس افسانے میں انسان کی اندرونی غلاظتوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان افسانوں کے علاوہ ممتاز مفتی کا افسانہ ” ثمینہ “ اور خدیجہ مستور کا ”مینولے چلا بابلا “ اس حوالے سے قابل ِ ذکر افسانے ہیں۔
47 کے بعد ترقی پسندی اور پاکستان معاشرے کی عکاسی
فسادات کے بعد سب سے بڑا رجحان ترقی پسند سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس رجحان کا تعلق بہت حد تک فسادات سے بھی ہے اور اسے فسادا ت کی اگلی کڑی قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ فسادات کے بعد جو معاشرہ تشکیل پایا اُس کی عکاسی ترقی پسند سوچ رکھنے والے افسانہ نگاروں نے کی ۔ اس سلسلے میں کئی بڑے نام درجِ ذیل ہیں۔
احمدندیم قاسمی
احمد ندیم قاسمی نے اپنے تخلیقی کام کا آغاز 1947ءسے پہلے کر دیا تھا لیکن 47کے بعد بھی انہوں نے بہت سارا کام کیا ۔ خاص طور پر 47 کے بعد ان کی شخصیت پر بڑے فنکار کی طرح عمل پسندی کی سوچ غالب ہے۔ انہوں نے آزادی کی جدوجہد ، دوسری جنگ عظیم کے واقعات اور اُن کے ہندوستان پر ہونے والے اثرات کو دیکھا۔ لہٰذا 47 کے بعد ان کے افسانوں میں فسادات ، جنگ و جدل اورکشت و خون کی کیفیت نظرآتی ہے۔ اور ان سب چیزوں کے مقابلے میں اُن کے ہاں عمل اور انسان کی محبت قائم ہو گئی ہے۔ مثلاً ”کپاس کا پھول “ جو 1965ءکے جنگ کے حوالے سے ہے ۔ ”نیافرہاد “ اور ”تسکین “ میں فسادات کے موضوع کو چھیڑا گیا ہے۔ لیکن ان کے ہاں محض جنگ و فساد کی کیفیت نہیں بلکہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارنہ نظام ، طبقاتی کشمکش ، نمود و نمائش اور انسانی منافقت اور جبر و ظلم کے حوالے بھی موجود ہیں۔ جبر کے حوالے سے ان کاافسانہ ”جب باد ل اُمڈ آئے “ اور نمود نمائش اور انسانی منافقت کے حوالے سے ”گھر سے گھر تک “ ان کے اہم افسانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
غلام عباس
غلام عباس کے افسانے کا سفر بھی 47 سے پہلے شروع ہوتا ہے جو 47 کے بعد بھی جاری رہا۔ان کا پاکستانی معاشرے کے حوالے سے کامیاب ترین افسانہ ”فینسی ہیر کٹنگ سیلون“ ہے جو آج کل کے پاکستانی حالات سے بڑی مطابقت رکھتا ہے۔ ان کے ایک دوسرے افسانے ”سرخ گلاب “ میں مزاروں کے آس پاس کی آبادی میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کی خوبصورت الفاظ میں عکاسی کی گئی ہے۔ اس افسانے میں ایک پاگل لڑکی ہے۔ جس کے پاگل پن کا فائدہ اُٹھا کر معاشرے کے لوگ اُس کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ اسی طرح ”کتبہ “، ”اورکوٹ “ ، ”آنندی “ اُن کے شہر ہ آفاق افسانوں میں سے ہیں جن میں سے اکثر میں معاشرے میں موجود دوغلے پن سے پردہ فاش کیاگیا ہے۔
شوکت صدیقی
شوکت صدیقی نے بہت طویل افسانے لکھے ان کے موضوعات ترقی پسندوں کی طرح غربت ، افلاس ، مجبوری ، بے کسی اور طبقاتی تقسیم ہے ۔ اُن کے ناول ”خدا کی بستی “ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٧٤ کے بعد تخلیق ہونے والا پاکستانی معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو جرائم کے تحت پروان چڑھ رہا ہے۔ جس میں ایک خاص طبقے کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے غریب کو اپنا پیٹ پالنے اور وجود بچانے کے لیے بعض اوقات جرائم کی طرف جانا پڑتا ہے۔اگرچہ اُن کے کرداروں میں محبت بھی ہے لیکن وہ محبت جو دو افراد کے ہاں محدود ہو گئی ہے۔ وہ محبت جو انسان کی بے چارگی سے جنم لیتی ہے۔ ان کے کردار اگرچہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں مگر وہ ایک دوسرے پر جان نچھاور کرتے ہیں مدد کرتے ہیں اور آنسو پونچھتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ کہ کردار چوری اور ڈاکے ڈالتے ہیں یہاں تک کہ قتل بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ برے نہیں یہ ان کی مجبوریاں ہیں جو اُن کو جرم کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔اُن کا اس حوالے سے بہترین افسانہ ”خداداد کالونی “ جس میں نچلے طبقے کو پستے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ا سکے علاوہ ”جبر“ ، ”میموریل “ ، اور ”کیمیا گر “ ان کے بہترین افسانے ہیں۔
خدیجہ مستور
ان کے افسانے کا موضوع ہماری زندگی کے روزمرہ مسائل ہیں۔ خدیجہ مستور نے بھی ترقی پسندوں کی طرح زندگی کے اس جدوجہد میں سب سے اہم عنصر معاشیات کو قرار دیا ہے۔اسی لیے فرد کی اگر معاشی زندگی زندگی مضبوط ہو تو وہ بہت سے جرائم اور گناہوں سے بچ جاتا ہے۔اس لیے ترقی پسندوں نے ہمیشہ غریب انسان اور اس کی مجبوری کی حمایت کی ۔ یوں خدیجہ مستور نے بھی اسی نقطہ نظر سے معاشرے اور اس کے کرداروں کو دیکھا۔ مثلاً ان کا افسانہ ”ہینڈ پمپ“جس میں ایک عورت ایک گھر میں ملازم ہے اور محنت سے روٹی کماتی ہے۔ ایک وقت جب اس کی ضرورت نہیں رہتی تو اُسے نکال دیاجاتا ہے ۔ لیکن جب تک وہ محنت کر سکتی ہے کماتی اور ہے اور کھاتی ہے۔ لیکن جب وہ کچھ بھی کرنے سے معذور ہو جاتی ہے۔ تو پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارتی وہ ایک ہینڈ پمپ کھولتی ہے اور اُس کا پانی بیچنا شروع کردیتی ہے۔ اُس کے اس عمل کو لوگ برا تصور کرتے ہیں لیکن اُسے زندہ رہنے کے لیے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ مفلسی اور غربت کے حوالے سے ایک اور افسانہ ”لعنتی “ ہے۔ اس میں اُس طبقاتی تقسیم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ”لعنتی“ کا کردار رضوان جو کہ ایک نوکرانی کا بچہ ہے بہت حد تک ناول ”آنگن “ کے کردار اسرار میاں سے مماثلت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ ان کے ہاں نفسیاتی موضوعات اور عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے موضوعات بھی ملتے ہیں۔
ہاجرہ مسرور
ہاجرہ مسرور نے جنس کے ذریعے معاشرے میں پلنے والی برائیوں کو بیان کیا۔ ان کے ہاں دو حوالے ہیں ایک جنسی اور دوسرا پیٹ کی بھوک ، اُن کے ہاں کئی جگہ ایسے مواقع آتے ہیں جہاں ان کا تصادم شروع ہوجاتا ہے۔ اور ان کے ہاں ایک خاص قسم کا امتزاجی رنگ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ ”کتے “ قابلِ ذکر ہے۔ ہاجرہ سے عورت کے حوالے سے اس معاشرے کو دیکھاہے۔ اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ معاشرے میں سماجی ، معاشرتی اور تہذیبی اقدار کی وجہ سے عورت گھٹن کا شکار ہے۔ وہ جو چاہتی ہے وہ ویسا نہیں کر سکتی ایک معاشرتی جبر اُن پر مسلط ہے اُن کے ہاں بہت سے افسانے ایسے ہیں جو جنسی استحصال پر انحصار کرتے ہیں۔ افسانہ ”خرمن “ اُن کے شہرہ آفاق افسانوں میں سے ایک ہے۔
منشایاد
منشایاد کے بہت سے افسانوں کا تعلق ترقی پسند سوچ سے ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے انسان کے داخلی مسائل ، علامتی نقطہ نظر اور بیانیہ افسانے لکھے ہیں۔ ان کے افسانوںکے کردار ازلی بھوک کا شکار ہیں وہ بڑی لگن اور جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح یہ بھوک ختم ہو جائے ۔اس سلسلے میں ان کے دو افسانے ”راستے بند ہیں“ اور ”ماس و مٹی “ ہیں۔ ان افسانوں میں دو کردار ہیں جو ایک دوسرے سے ملتے بھی ہیں اور خاص نقطہ نظر سے جدا بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً ”راستے بند ہیں“ ایک بچہ میلے میں گیا جس کے جیب میں کوڑی بھی نہیں ہے لیکن میلے میں جولوگ کھا رہے ہیں وہ یہ محسوس کررہا ہے کہ یہ میں کھا رہا ہوں۔ اسی طرح وہ سارے میلے سے گزر کر سڑک پر آتا ہے تو ایک آدمی کو ٹرک مار کر گزر جاتا ہے تو بچہ سمجھتا ہے کہ میں بھی مررہا ہوں اس طرح وہ بھی مرجاتا ہے۔اس طرح ”ماس اور مٹی“ میں ایک کردار اپنی جنس اور بھوک مٹانے کے لیے اپنی ماں اور بہن کو بھیگ مانگنے پر مجبور کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ان دونوں کو بیچنے پر آمادہ ہے۔ یہ کردار بچے کے کردار کی طرح اجتماعی کرب میں مبتلا نہیںہے۔ ایک اور افسانہ ”اورٹائم “ میں ایک ملازم ہے۔ غریب ہے ترقی چاہتا ہے اس کے صاحب کی ماں کاانتقال ہو جاتا ہے ۔ تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں صاحب کی ماں کی موت پر سب سے زیادہ افسردہ ہوں اور ہر جگہ افسردہ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ آخر میں وہ قبر پر بھی جاتا ہے لیکن جنازے کے بعد سب کو پیسے دئےے جاتے ہیں اُس کے ہاتھ میں بھی پانچ روپے تھما دئےے جاتے ہیں کہ یہ اُس کا اور ٹائم ہے۔ اس کے علاوہ ”کچی پکی قبریں“ اور ”اندھیر سے اندھیرے تک “ علامتی افسانوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن ان افسانوں کا موضوع طبقاتی قسم کا ہے۔
علامت اور تجریدیت کا رجحان
55 60 تک دور میں علامت نگاری کا سلسلہ شروع ہوا اور کسی حد تک آج بھی جاری ہے۔ یہ رجحان پچھلے موضوعات اور پچھلے اسالیب سے بہت حد تک مختلف ہے۔ اس لیے یہ بالکل نیاافسانہ ہے۔ جس میں نئے اسالیب اور نئے موضوعات کو جگہ دی گئی ہے۔ اسالیب میں بیانیہ کی جگہ علامت کو رواج دیاگیا اور پلاٹ کے منطقی تسلسل کو توڑ کر شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال ہوا۔ جبکہ کردار بھی روایتی افسانے کی طرح مستقل نہیں رہے۔ فکر اور موضوع کے حوالے سے اس دنیا کے بجائے سائے اور پرچھائیوں کی دنیاجوانتہائی مبہم اور غیر واضح ہے نظر آتی ہے۔ فکری حوالے سے کچھ مسائل ہیں جس میں خوف ، تنہائی اور انتشار قسم کی کیفیات موجود ہیں۔خاص کر عدم شناخت کا مسئلہ ۔علامت نگاری کی سب سے بڑی وجہ انسان کی مشینی زندگی کے بعداخلاقی اور تہذیبی زوال کے سبب بڑھتی ہوئی تنہائی انتشار اور خوف ہے۔ اس رجحان کے حامل افسانہ نگار مندر جہ ذیل ہیں۔
انتظار حسین
اس رجحان کی سب سے بڑی مثال انتظار حسین ہےں جو کہ ایک باکما ل افسانہ نگار ہیں۔ اُس نے اخلاقی زوال اور انتشار کو ملا کر بیان کیا ہے۔ ہمارے سامنے نیا معاشرہ اور نیا سماج پیش کیاہے۔ انہوں شعور کی رو کی تکنیک میں افسانے لکھے۔ لہٰذا ان کے افسانوں پڑھتے وقت ذہن کا مکمل طور پر حاضر ہونا ضروری ہے ۔ دارصل 47 سے پہلے ہندو اور مسلمان دونوں انسان تھے جن کی ایک مشترکہ تہذیب تھی لیکن اب انسان ختم ہونے لگا تھا ۔ انسان کی جگمگاتی ہوئی ہستی اجڑ گئی تھی انہوں نے سوچا کہ اب مشترکہ تہذیب ختم ہو چکی ہے۔ اور نیا معاشرہ اور نئے دور میں اخلاقی اور مذہبی قدریں ختم ہو گئیں ہیں۔ ایسے حالات میں انتظار حسین ماضی کی طرف چلاگیا اور وہاں سکے کچھ چیزیں کردار اور کہانیاں لے کر حال کا تجزیہ ماضی کی روشنی میں کرنا شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں ”آخری آدمی“ کاا نسان اخلاقی ، تہذیبی اور مذہبی زوال کا شکار ہے ۔ اُس سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ یہ ایک دن کے مچھلی کا شکار نہ ہو ۔ اُسے صرف دولت چاہےے وہ خدا کا حکم نہیں مانتا ۔ اور آخر کار یہ آدمی ”الیاسف“ اپنے لالچ کی وجہ سے بندر بن جاتا ہے۔ یہ اُس کا فیزیکل انجام نہیں بلکہ اُس کا مذہبی اور اخلاقی زوال ہے جو کہ انسان کو انسان نہیں بلکہ جانور بنا دیتا ہے۔
اس کے علاوہ افسانہ ”زرد کتا“ بھی اخلاقی اور تہذیبی زوال کی نشاندہی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس افسانے میں زرد کتا اور لومڑی کا بچہ دونوں نفسِ امارہ کی علامت ہیں ۔ وہ نفس جو کہ انسان کو گمراہی پر اکستاتا ہے ۔ جتنا اُسے روکا جاتا ہے اتنا وہ اچھلتا ہے ۔ انتظار حسین کا ایک اور افسانہ ”ٹانگیں “ ہے جس میں کرداروں کو تہذیبی اور اخلاقی زوال کا شکار دکھایا گیا ہے۔ انسان کے اندر خوف اور انتشار اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اخلاقی اور تہذیبی زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر انور سجاد
ڈاکٹر انور سجاد کے افسانے اتنے مبہم ہو گئے ہیں کہ اِن افسانوں میں معنویت کی تلاش بہت ہی مشکل ہو گئی ہے۔ ان کے افسانوں کا موضوع ایسا انسان ہے جس نے جنگوں ، تشدد، بربریت ، مفلسی ، غربت ، ظلم و ستم کے سائے میں آنکھ کھولی ۔ اور اُس انسان کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ خود انسان کیا ہے؟ اُس انسان کی بقا کس طرح ممکن ہے؟ ان ساری چیزوں سے خوف اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ یہی سب روےے انور سجاد کے ہاں موجود ہیں۔ ان کے کردار ایک طرح کے ذہنی مریض بن گئے ہیں اور مکمل طور پر انتشار کا شکار ہیں۔ اور اُن کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر میری پیدائش ہی میرا گناہ ہے تو مجھے پیدا کیوں کیا گیا ہے۔ اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اس حوالے سے اُن کے دوافسانے ”پتھر ، لہو ، کتا“ اور ”گائے “ شہرت کے حامل ہیں۔
ڈاکٹر رشید امجد
ڈاکٹر رشید امجد کے ہاں بھی انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ان کے افسانوں میں یہی سوال اُٹھایا گیا ہے کہ میں کون ہوں ؟ میر ی پہچان کیا ہے؟ ہم سب کس طرف جارہے ہیں؟ ہماری منزل کیا ہے؟ ان کے ہاں ایک ایسے کردار کی شبیہ ابھرتی ہے جو کہ اپنے آپ کو گم کر چکا ہے۔ اُن کے ہاں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کردار اپنے گھر کا راستہ بھول گئے ہوں کیونکہ وہ اپنی پہچان مکمل طور کھو چکے ہیں۔ ان کے افسانوں کے نام مشکل اور طویل ہیں لیکن اُن کا ایک افسانہ ”نارسائی کی بھیڑ میں “ یہ درج بالا سوال اُٹھائے گئے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ اخلاقی اور تہذیبی اور مذہبی زوال ہے جس میں انسان اپنی پہچان کو مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے۔
ڈاکٹر اعجاز راہی
صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار ڈاکٹر اعجاز راہی موضوعاتی سطح پر ترقی پسندفنکار نظرآتے ہیں۔ اور اسلوبیاتی سطح پر علامتی رجحان کے حامل ہیں۔ مارشل لاءکے دور میں سچی اور واضح کہانیاں لکھنا بڑی مشکل بات تھی۔ اعجاز راہی اُن افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جس نے اس دور میں ظلم و ستم ، جبر اور ناانصافی کو علامتی انداز میں پیش کیا ۔ ان کا علامتی انداز اتنا مبہم نہیں جس میں انتشار نظر آئے۔ ان کے مجموعے ”تیسری ہجرت “ میں شامل افسانہ ”تیسرا سنگِ میل “ میں ایک کردار ”میں“ ہے جو معاشرتی ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔ اور آگے بڑھنا چاہتا ہے کہ یہ سنگ میل میں عبور کروں گا۔ اس سے پہلے میرا باپ پہلا سنگ میل عبور کر چکا ہے۔ اور پھر تیسر ا سنگ میل میرا بیٹا عبور کرے گا ۔ اس کہانی میں ظلم کے خلاف ایک نسلی تسلسل موجود ہے۔ ان کا خوبصور ت اور مضبوط افسانہ ”تیسری ہجرت “ ہے۔ جو علامتی افسانوں میں اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا افسانہ ہے جس کی فضا محدود نہیں بلکہ وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں انسان اور اس کی ہجرتیں ہیں۔ افسانے کا کردار پہلی ہجرت مکہ سے مدینہ کرتا ہے دوسری ہجرت 1947ءمیں کرتا ہے ۔ کہانی میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ آخر انسان ہجرت کیوں کرتا ہے ۔ کیا اس کی وجہ اقتصادی ہے یا ظلم و ستم ۔ لیکن دوسری ہجرت کے بعد وہ یہ سوال بھی اُٹھا تا ہے کہ کیا ہجرت کے بعد مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیے گئے ۔ کیا ظلم و ستم ختم ہوا ۔ پھر کردار تیسری ہجرت کرتا ہے جو علاقائی ، زمینی اور سرحدی ہجرت سے بالاتر ہے۔ اور وہ ہے انسان کے اپنے اندر اپنے ذات کی ہجرت ۔جو کہ اُس کو ذات کے اندھیروں سے باہر نکال سکتی ہے۔
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ صاحب نے افسانے کی تنقید میں بہت کام کیا ان کا تعلق مغلیہ خاندان سے ہے۔ لہٰذا ان کے افسانوں میں مغلیہ خاندا ن کی تاریخ ملتی ہے۔ انھوں نے صرف اپنی نسل کے قصیدے نہیں پڑھے بلکہ اُس دور کے مظالم کو کہانیوں کی صورت میں علامتی انداز میں پیش کیا۔ اس سلسلے کے مجمو عہ ”گمشدہ کلمات “ میں موجود ایک افسانہ ”مغل سرائے “ بہت اہم ہے جو کہ علامتی انداز لیے ہوئے ہے۔ اس میں دو کرداروں کے حوالے سے جو کہانی لکھی گئی وہ بہت حد تک داستانوی انداز سے ملتی جلتی ہے۔ مثلاً ایک لڑکا اور ایک لڑکی محل میں چلے جاتے ہیںلڑکا شہزادہ بن جاتا ہے اور لڑکی شہزادی ۔ اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں بعد میں بھیڑےے داخل ہوتے ہیں ۔جو اُن کی پرسکون زندگی کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔ یہ بھیڑیے انگریز کی علامت ہیں۔ اس طرح اُن کا ایک اور افسانہ ”گمشدہ کلمات “ بھی اسی حوالے سے شہرت کا حامل ہے۔
جنسی اور نفسیاتی رجحان
اس رجحان کے لکھنے والوں نے جنسی اور نفسیاتی مسائل اور تجربات کو اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کسی قسم کے تلذز کا شکار نہیں ہوئے کیونکہ ان کے سامنے انسانی نفسیات کا بیان کرنا تھا انھوں نے اگر جنس کے موضوعات کو بیان کیا بھی صحت مند حوالے سے ۔اس رجحان سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار مندرجہ ذیل ہیں۔
سعادت حسن منٹو
سعادت حسن منٹو جنسی اور نفسیاتی امور کا تجزیہ کرتے وقت تلذز اور مزے کا شکار نہیں ہوئے۔ اُن کے نزدیک یہ جنسی اور نفسیاتی امور کچھ حقیقتیں ہیں جن کو بیان کرنا اور اُن تک رسائی حاصل کرنا ضروری ہے۔ منٹو نے جو کچھ دیکھا ،سوچا اس کو بیان کیا، اور منافقت اُسے نا پسند تھی۔ منٹو کا کہنا ہے کہ اگر میرے افسانے قابل ِ برداشت نہیںتو مطلب یہ ہے کہ یہ معاشرہ بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ آزادی کے بعد کے افسانے منٹو کے خوبصورت ترین افسانوں میں میں سے ہیں ۔ مثلاً ، ”ٹھنڈا گوشت“، ” سڑک کے کنار ے“ ، ” ”چغد“ ، ”پڑھیے کلمہ “ ، ”بابو گوپی ناتھ “ اور ”میرا نام رادھا ہے“ ایسے افسانے ہیں جوجنس اور نفسیات کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔منٹو نے دوسرے لوگوں کی طرح طوائف سے نفر ت نہیں کی بلکہ اُسے انسان سمجھا اور اُس کی زندگی کو تسلیم کیا۔ ”کالی شلوار “، ’ ’ ہتک “ ”ممی“ اس حوالے سے بہترین افسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے بعض افسانوں کے کردار جنسی شدت کا شکار ہیں اور یہ شدد اتنی شدید ہے کہ ”چغد“ کی ہیرئوئن اپنے محبوب سے جنسی محبت نہ ملنے کے بعد ایک ٹرک ڈرائیور سے جنسی تعلق پیدا کر لیتی ہے۔ اس کے علاوہ ”پڑھےے کلمہ“ میں ایک کردار جنسی عمل کے بعد اپنے ساتھی کو قتل کر دیتی ہے۔
نفسیات کے حوالے سے ان کے دو افسانے ”بابو گوپی ناتھ“ اور ”میرانام رادھا“ کمال کے افسانے ہیں ۔ بابو گوپی ناتھ ظاہر میں تو برا ہے طوائف کے ڈیرے پر بیٹھاہے اور پیسہ لٹا رہا ہے لیکن اُس کا اندر بالکل صاف ہے ۔ جبکہ میرانام رادھا ہے کا راج کشور سب کو بہن کہنے والا اور زمانے کی نظر میں اپنے آپ کو شریف کہنے کے باوجود اندر سے کتنا گندا ہے۔ اُس کا پتہ افسانے کے آخر میں چلتا ہے۔
قدرت اللہ شہاب
قدرت اللہ شہاب کے ہاں عورت کے جسمانی استحصال اور غربت سے پیدا ہونے والی بے کسی ہے۔ ان کا افسانہ ”پکے پکے آم “ میں وہ بے حسی موجود ہے جو غربت سے پیدا ہوتی ہے موجود ہے۔ اس کا ایک کردار اپنی بیٹی کے جوان ہونے کا بڑی شدت سے انتظار کرتا ہے۔افسانہ ”دو رنگا “ میں ایسا کردار ہمارے سامنے آتا ہے جس کے دو چہرے ہیں وہ لندن سے باربرا نامی خاتون لے کر آتا ہے اور پھر اُسے ترقی کا زینہ بناتا ہے ۔ یہ شخص ذہنی طور پر اتنا پست ماندہ ہے اور ایسی حرکتیں کرتا ہے جو انسان کے لیے ننگ و عار ہیں۔ افسانہ ”آیا“ میں کچھ مرد جو جنسی ناآسودگی اور جنسی انتشار کا شکار ہیں یہ مرد دو تین قسموں کے المیوں سے گزرتے ہیں۔ یہ مرد بڑے بڑے گھروں میں ملازم ہیں ۔جن کی اپنی بیویاں بدصورت ہیں اس لیے وہ اپنے مالکوں کی بیویوں سے متاثر ہیں اور ہر کوئی عجیب و غریب حرکتیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ ”آیا“ جیسا کردار بھی ایسی عورت کی نشاندہی کرتا ہے جو کہ شدید جنس کا حوالہ ہے۔
ممتاز مفتی
ممتاز مفتی نے نفسیات اور جنس کو موضوع بنایا ۔ا ن تمام موضوعات میں مفتی کی اپنی زندگی موجود ہے۔ کیونکہ اُس نے اپنے باپ کے روےے کو دیکھا جو ایک جنسی مریضیت کی حیثیت رکھتا ہے سب کچھ دیکھنے کے بعد اُس کے ہاں تین باتیں در آئیں ایک جنسی دوسرا عورت کے وجود سے نفرت عورت کا جسمانی تصور کرکے اُسے دیوی کی طرح پوجنے کا عمل اور تیسرا حوالہ بڑی عمر کے عورتوں میں دلچسپی ، یہ ساری چیزیں ان کے افسانوں میں موجود ہیں ۔ ان کا ایک خطرناک افسانہ ”تھرڈ مین “ ہے جس میں محبت میں تیسر ے شخص کے وجود کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ”غلط ملط“ میں مفتی نے نفسیات اور طوائف کی زندگی کوبیان کیا ہے۔”’پردہ سیمی “ میں کردار فلم دیکھنے کے بعد اپنے گھر میں بھی اپنی بیوی کے ساتھ وہی رشتہ استوار کرتا ہے جو کہ اُس نے فلم میں دیکھا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کا شہر ہ آفاق افسانہ ”آپا“ ایک متوسط طبقے کے گھرانے کی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ اپنے اندر بہت سے خواہشات اور جذبات رکھتی ہے لیکن اُس کا اظہار اُس کے لیے ممکن نہیں ہے۔
ڈاکٹر عرش صدیقی
ڈاکٹر عرش صدیقی کے نو افسانوں کا مجموعہ ”باہر کفن سے پاؤں “ میںزیادہ تر جنسی رجحانات اور نفسیات پر لکھا گیا ہے۔ انہوں نے دراصل جنس کو نئی معنویت کے ساتھ محسوس کیا۔ فرائیڈ اور دیگر ماہرِ نفسیات کا اثر بھی قبول کیا ۔ ان کے تین جنسی افسانے ”بھیڑےے “، ”فرشتہ “ ، ”ظل الہٰی“ ہیں۔ افسانہ ”بھیڑےے “میں کردار شکیلہ ، کلیم اور مالک مکان یہ سارے ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جس کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ یہ اخلاقی اور تہذیبی زوال کا شکار صرف اپنی ضرورت پوری کرنے کی تگ و دو لگے ہوئے ہوئے ہیںاور اپنے جسم کی بھوک مٹانے میں سرگرداں ہیں۔افسانہ ” فرشتہ “ میں کردار ”مراد میاں“ کی شادی ایک خوبصورت لڑکی سے کر دی جاتی ہے وہ چیختا ہے کہ میں اس قابل نہیں لیکن پھر بھی اُس کو مجبور کر دیا جاتا ہے اور شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کو آزاد چھوڑ دیتا ہے اور اس طرح اُس کے کئی ناجائز بچے پیدا ہوتے ہیں۔
نفسیاتی حوالے سے ان کے دو افسانے ”کتے “ اور ”ہم نشینی کاعذاب “ ہیں۔ ”کتے “ میں ایک لڑکی محرومیوں اور تنہائی کی وجہ سے خوف کا شکار ہے۔ اُس کی ماں مرچکی ہے اس کا اثاثہ اُس کا باپ اور اس کے کھلونے ہیں یہ ایک علامتی افسانہ ہے ۔جن ”ہم نشینی کا عذاب“ میں ایک شخص اپنی محبوبہ سے محبت کرنے کے باوجود اُس سے دوری کو ترجیح دیتا ہے۔ جب کہ اُس کی محبوبہ اُس کے دوست کے ساتھ چلی جاتی ہے اور یہاں سے ہم نشینی کا عذاب شروع ہوتا ہے ۔”مور کے پاؤں “ علامتی افسانہ ہے جس میں قدیم اور جدید اقدار کی کشمکش دکھائی گئی ہے۔
محبت کا رجحان
اشفاق احمد
جدید دور میں اشفاق احمد ایسا نام ہے جس نے افسانے کا موضوع محبت اور اس کی کیفیات بنائے۔ اس کی محبت عام محبت نہیں بلکہ بڑی خاص گہری اور داخلی محبت ہے۔ جو مجاز سے سفر کرتے ہوئے حقیقت کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اشفاق احمد کی محبت کے لاتعداد روپ ہیں جو لڑکے اور لڑکی تک محدوود نہیں بلکہ اپنا وجود پھیلائے ہوئے وسیع کائنات میں پھیل جاتے ہیں۔ اُن کے اکثر کردار محبت کے حوالے سے محرومیوں اور المےے انتشار اور معاشرتی مسائل کا شکار ہیں ۔”مانو س اجنبی “ افسانے کاماحول بہت ہی عجیب و غریب ہے اس کے کردار بھی محبت کرنے کے بعد جدا ہو جاتے ہیں ۔ کسی نے لکھا ہے کہ اشفاق احمد کے کردار محبت تو کرتے ہیں لیکن جدائی ان کا مقدر ہے۔
سب سے بڑھ کر اشفاق احمد کاافسانہ ” عجیب بادشاہ “ جس میں دو کردار اپنے معاشرے سے بغاوت کرکے چلے جاتے ہیں ۔ ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتے ہی لڑکی مر جاتی ہے اور بعد میں بچہ جب بڑا ہو تا ہے تو ماں کی جدائی کا کرب سہہ نہیں سکتا وہ شدید بیمار پڑ جاتا ہے اور اس کا باپ اس کا علاج غربت کی وجہ سے نہیں کر سکتا اور وہ مرجاتا ہے ۔ کہانی کا ہیرو دکھوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔اشفاق احمد کا خیال ہے کہ محبت اُن لوگوں سے کی جاتی ہے جو دکھی ہیں۔ جو زندگی آسائش سے نہیں گزار سکتے ۔افسانہ ”محسن محلہ“ میں ماسٹر جی سے اشفاق احمد کو اس لیے محبت ہے کہ وہ دکھوں کا شکار ہے بیماری میں کوئی اُس کا پوچھنے والا نہیں ہے لیکن جب وہ مرتا ہے تو سب اُس سے محبت جتاتے ہیں اور ہمدردی کرتے ہیں۔ ”کالج سے گھر تک “ میں ایک غریب کردار ہے جو خواب دیکھتا ہے جو کبھی پورے نہیں ہوسکتے ۔
تاریخ کا رجحان
علامتی انداز میں یہ رجحان انتظار حسین اور حامد بیگ کے ہاں نظر آتا ہے لیکن بیانیہ افسانے کے حوالے سے زاہدہ حنا کا نام لیا جاتا ہے۔
زاہدہ حنا
زاہدہ حنا کے افسانوں کے مجموعے کا نام ”قیدی سانس لیتا ہے “ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔زاہدہ حنا موجودہ انتشاری دور میں تاریخ کا سفر کرتی ہے۔ حقیقت میں کسی بھی بڑے ادب کو تاریخ سے جدا نہیں رکھا جاسکتا ۔ زاہدہ حنا کے ہاں ماضی سے حال کا سفر اور حال سے حقیقت تک کا سفر موجود ہے۔ ان کے افسانے تاریخی واقعات اور مقامات سے بھرے پڑے ہیں ۔ان کے افسانے ”ناکچا آباد “، ”زیتون کی ایک شاخ“ ، ”پانیوں کے سراب“ اور ”ابنِ ایوب کا خواب “ ہیں یہ افسانے تاریخی شعور رکھتے ہیں۔ ”ناکچا آباد میں تاریخ اور تہذیب سے محبت کا اظہار ملتا ہے۔زاہدہ حنا کے افسانوں میں لڑکی کا کردار ایک ایسا کردار ہے جو باشعور ہے اور ہر مقام پر مفاہمت نہیں کر سکتی جو تاریخ کے دھاروں سے واقف ہے ، تاریخ کو سمجھتے ہوئے اُس کا ذہن وسیع ہو چکا ہے ۔ اُسے یہ سمجھ آگئی ہے کہ وہ بھی انسان ہے کوئی بھیڑ بکری نہیں ہے۔
وہاب اعجاز صاحب
جواب دیںحذف کریںسب سے پہلے تو شکریہ کہ آپ اتنا دل لگا کر لکھتے ہیں ۔ بہت معلوماتی تحاریر ہیں آپ کی ۔ لگے ہاتھوں اگر افسانے کی تعریف ، لکھنے کی تکنیک کے متعلق بھی کچھ لکھ سکیں تو نوازش ہو گی