اردو ادب میں پہلا ناول ڈپٹی نذیر احمد کا مراۃ العروس ہے جو کہ 1869ءمیں لکھا گیا ۔ مراۃ العروس میں ناول کے سارے لوازمات تو شامل نہیں کیوں کہ نذیر کے سامنے ناول کا کوئی نمونہ موجود نہیں تھا ۔ اُن کے ناولوں میں اہم پہلو مقصدیت کا ہے۔اس کے بعد ہمار ے پاس سرشار کا ناول ”فسانہ آزاد “ آتا ہے جس میں لکھنو معاشرت کی عکاسی نظر آتی ہے۔ پھر عبدالحلیم شرر نے تاریخی ناولوں کے ذریعے مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کی ۔ جبکہ علامہ راشد الخیری بھی معاشرے کی اصلاح پر زور دیتے ہیں ۔
مرزا ہادی رسوا کاناول ”امرا ؤجان ادا“ کو اردو ادب کا پہلا مکمل ناول کہا جاتا ہے جس میں مربوط پلاٹ کے ساتھ ساتھ انسان کی داخلیت اور نفسیاتی پرتوں کو بھی بیان کیا ہے۔رسوا کے بعد پریم چند کا نام بڑا مضبوط ہے انھوں نے کل 13 ناول لکھے ۔ جس میں بیوہ ، بازارِ حسن ، اور میدان ِعمل مشہور ہوئے۔ پریم چند کے ہاں بھی مقصدیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان کے ہاں جنسی موضوعات کے ساتھ ساتھ ترقی پسند سوچ اور انقلاب کے موضوعا ت بھی ملتے ہیں۔
اس کے بعد ہمارے سامنے سجاد ظہیر کا نام آتا ہے جنہوں نے ایک ناول”لندن کی ایک رات “ لکھا۔ یہ اردو ادب کا پہلا ناول ہے جس میں شعور کی رو کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ اس کے بعد قاضی عبدالغفار کا نام آتا ہے جنہوں نے پہلی مرتبہ ناول کی ہیئت میں تبدیلی کی اور خطوط کی ہیئت میں ناول لکھے ان کے مشہور ناولوں میں سے ”لیلی کے خطوط “ اور ”مجنوں کی ڈائری “ شامل ہیں۔اس کے بعد کرشن چندر ہیں جنہوں نے افسانوں کے ساتھ ساتھ ناول بھی لکھے ان کے ناولوں میں”سڑک “، ”غدار “، ”جب کھیت جاگ اُٹھے“ ۔ ان کے ہاں خوبصورت انداز بیان تو موجود ہے لیکن کہانیاں زیادہ تر فلمی قسم کی ہیں۔ جس پرترقی پسند سوچ کا غلبہ ہے۔
عزیزاحمد نے بھی کئی ناول لکھے مثلاً ”خون “ ، ”مرمر“ ، ”گریز“ ، ”آگ“ اور ”شبنم “ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے ناولوں میں جدیدانسان کے ذہن کے اندر جو انتشار ہے اُس کی عکاسی ملتی ہے۔ اس کے بعد عصمت چغتائی جنسی اور نفسیاتی حوالے سے بہت مشہور ہیں۔ انھوںنے ”مصومہ “ ، ”ضدی “ ، ” ٹیڑھی لکیر“ اور ”سودائی “جیسے ناول لکھے ۔ان کے ہاں جنسی حوالے ضرور ہیں لیکن ان کے پس منظر میں ہمیشہ نفسیاتی اور اشتراکی نقطہ نظر کارفرمارہتا ہے۔
اس طرح ناول ارتقائی سفر کرتا ہوا 47 تک پہنچا جس میں ترقی پسند سوچ کے ساتھ اصلاح معاشرہ اور جنسی اور نفسیاتی رجحانات غالب رہے۔
1947ء کے بعد جو رجحانات ہمارے سامنے آتے ہیںاُن کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا لیکن اس سے پہلے ایک نام کاذکر بہت ضرور ی ہے جنہوں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے ایک بڑا ناول ” آگ کا دریا “ تخلیق کیا۔ وہ نام ہے قراة العین حیدر کا ۔ انہوں نے اس ناول میں قدیم ہندوئوں کے دور سے شروع کرکے ٧٤ کے بعد کے دور کوموضوع بنایا ہے۔ انگریز کا آنا اور پھر پاکستان کا بننا سب حالات اس ناول میں موجود ہیں موضوع کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑا ناول ہے۔ آئےے اب پاکستانی ناول کا جائزہ لیتے ہیں ۔
فسادات اور ہجرت کا حوالہ
پاکستان بننے کے بعد ایک طرح سے خون کی ہولی کھیلی گئی بہت سے لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا انسانیت کو پامال کیا گیا اور پھر ان تمام مصیبتوں کے بعد ہجرت کا واقعہ ایک طرف تو خون کی ندیاں دیکھنے کا تجربہ اور پھر دوسرا بڑا المیہ ایک تہذیبی حوالہ تھا۔ کیونکہ جن لوگوں کی نسلیں جہاں پر رہیں جہاں اُن کے تہذیبی روےے پروان چڑھے اُن کو اچانک کسی دوسری جگہ ہجرت پر مجبور کردینا لوگوں کے لیے معمولی بات نہیں ۔ اس کے پس منظر میں بہت سے دکھ ہوتے ہیں ایک تہذیب و تاریخ رہ جاتی ہے۔ لوگوں کے آباواجداد کی قبریں رہ جاتی ہیں۔ اور وہ نشانیاں جن کے تحت ان کی زندگی کا تسلسل قائم ہوا تھا وہ سب کہیں اور رہ جاتا ہے۔ یہ دونوں حوالے ہمارے ناول میں موجود ہیں۔ فسادات کے حوالے سے اُس دور کے ظلم و ستم اور قتل عام نے ادب کو بہت زیادہ متاثر کیا ۔ اس دور میں فسادات میں ہونے والے ظلم وستم پر ایم اسلم نے ایک ناول ” رقص ابلیس “ ،نسیم حجازی نےک ”خاک و خون “ ، فکر تونسوی نے ”چھٹا دریا “ اور فیض رام پورنے ”خون اور بے آبرو “جیسے ناول لکھے ۔جس میں اُس دور میں انسان کی بربریت اور ظلم کی داستان کو ناول کی شکل میں پیش کیاگیا ۔ اس طرح اُس دور میں فسادات کے حوالے سے اور بھی بہت سے ناول لکھے گئے جو کہ ہنگامی نوعیت کے رہے۔ اور ہنگامی موضوعات میں فنی پختگی کم ہو جاتی ہے۔ اور جذباتی پن زیادہ اور بصیرت کم نظرآتی ہے۔ لیکن اس دور میں ایک ناول ایسا لکھا گیا جس میں ہنگامی موضوع ہونے کے باجود ناول میں خوبصورتی اور اسلوب کے حوالے سے بڑی حد تک بڑائی پیدا کی گئی ہے۔ او ر یہ ناول قدرت اللہ شہاب کا ”یاخدا “ ہے۔
”یاخدا “ 1948ءمیں لکھا گیا ۔ جس میں مرکزی کردار ”دلشاد “ کے زبانی پوری کہانی بیان کی گئی ہے۔ اُس کے ساتھ تقسیم کے بعد سکھوں نے کیا کچھ کیا اور پھر ہجرت کے بعد اُس کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا تمام واقعات کو اُس کردار سے وابستہ کرکے ایک وسیع پس منظر میں ان حالات و واقعات کی عکاسی کی گئی ہے۔ دلشاد کے ساتھ سکھوں نے جو کچھ کیا وہی لاہور والوں نے بھی کیا۔ قدرت اللہ شہاب نے فسادات کو دراصل ایک نئے انداز سے لیا اور تقسیم کے بعد بننے والے معاشرے کو لپیٹ کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔
اس سلسلے کا ایک او ر اہم ناول خدیجہ مستور کا ”آنگن “ ہے۔ اس ناول میں انہوں نے ٧٤ سے پہلے اور بعد کے حالات کا ذکر کیاہے۔ ان کا موضوع ایک خاندان ہے ۔ یہ خاندان برصغیر کے مخصوص حالات سے کس طرح متاثر ہوا ۔ اس ایک خاندان کے توسط سے 47کے واقعات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اُن کے ہاں براہ راست فسادات ناول کا موضوع نہیں بنے بلکہ تمام حالات کو پس منظر میں رکھ کر اُس سے نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ کہ کس طرح یہ مسلمان خاندانوں پر اثرانداز ہوئے۔
تاریخی رجحان
اس رجحان میں وہ ناول نگار شامل ہیں جنہوں نے تاریخ کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس طرح سے انھوںنے تاریخ اور تہذیب دونوں کو ملادیا ہے۔
ڈاکٹر احسن فاروقی
ڈاکٹر احسن فاروقی نے تنقید کے حوالے سے بہت زیادہ کام کیا ۔ ان کے ناولوں میں ” شام اودھ “ ، ” آبلہ دل کا “، ”رخصت اے زنداں“ اور ”سنگم“ وغیر ہ شامل ہیں۔ لیکن ان کا نام دو ناولوں ”شام اودھ “ اور ”سنگم “کی وجہ سے زندہ جاوید ہے۔ ”شام اودھ “ تہذیبی نکتہ رکھتا ہے جبکہ ”سنگم “ تہذیبی نوعیت کا ناول ہے ۔ ان کے ناولوں میں زیادہ تر ہیئت پر زور ہے ۔ خاص کر یونانی ڈراموں کی تکنیک کو انھوں نے ناول کا حصہ بنایا ہے۔ شام اددھ میں لکھنو کی تہذیب و تمدن کی عکاسی کی گئی ہے۔ خاص کر لکھنو کی زوال پذیر معاشرت کی ۔ اس طرح اُن کے اس ناول میں تاریخ اور تہذیب دونوں موجود ہیں۔ دوسرے ناول ”سنگم “ پر”آگ کا دریا “ کے اثرات ہیں۔ یہ ناول تاریخی ادوار میں ہے جو کہ محمود غزنوی کے دور سے شروع ہوتا ہے اور ٧٤پر ختم ہو جا تاہے۔ اس ناول کا کردار ابن مسلم محمود غزنوی کی فوج میں ہوتا ہے اور پاکستان بننے کے بعد وہ ”مسلم علی خان “ بن کر پاکستان آتا ہے۔ کہانی میں محمود غزنوی کے دور سے لیکر ٧٤ تک کا پورا دور بیان کیا گیا ہے اور ہندو مسلم فسادات سے ایک عمدہ کہانی بنائی گئی ہے۔
عبداللہ حسین
عبداللہ حسین ”بھاگ “، ”قید “ ”نشیب“ ، ” اداس نسلیں“،” نادار لوگ “ کے نام سے ناول لکھے ۔ لیکن تاریخی حوالے سے ان کا بڑا ناول ”اداس نسلیں“ ہے۔ اس کے نام او رموضوع سے پتہ چلتا ہے کہ ناول تاریخی ادوار سے تعلق رکھتا ہے۔ او ر یہ دور 1913ءسے 1947ءپر محیط ہے۔ ناول میں ایک گائوں روشن پور کو لیا گیا ہے۔ اُن کے ساتھ اس دور میں کیا کچھ ہوا ۔ خواہ غربت ہو جنگ عظیم ہو یا تحریک آزادی ۔ ان حالا ت نے لوگوں پر کی اثرات کیے انگریز کی غلامی اور فسادات نے اعضابی تنائو کا شکار اداس نسلیں پیدا کیں۔ اور یہی بڑا موضوع اس ناول کا موضوع رہا ہے۔
جمیلہ ہاشمی
جمیلہ ہاشمی کے دو ناول ”دشت سوس“ اور ”تلاش بہار “ خاص طور پرمشہورہوئے ۔”دشت سوس “ کا تعلق تاریخی دور سے ہے اور منصور حلا ج کے کردار پر لکھا گیا ہے ۔ناول کا تعلق عباسی دور سے ہے۔ اس ناول میں کردار کی شخصیت کے ساتھ ساتھ اُس دور کے سماجی ، معاشرتی اور تہذیبی حالات کا بھی ذکر بھی ملتا ہے۔ ”تلاش بہار “ بھی ایک تاریخی اور تہذیبی ناول ہ۔ اس کا ماحول ٧٤ سے پہلے کا ہندوستا ن اور وہ مشترکہ تہذیب ہے جو مسلمانوں اور ہندوئوں کے ملاپ سے تشکیل پائی ۔ اس ناول کے تمام کردار ہندو ہیں ۔ ناول میں ایک کردا ر جو مذہبی اور علاقائی تعصبات سے بالاتر ہے وہ فسادات کے دور میں مسلمان عورتوں کو بچاتے ہوئے اپنی جان دے دیتا ہے۔ فسادات کے مناظر دکھا کر جمیلہ نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ ایک قوم جس نے ایک عرصے تک بہاروں کی تلاش میں قربانی دی کیا اس کا انجام یہ فسادات اور دشمنی ہے۔
رضیہ فصیح احمد
رضیہ فصیح احمد نے بھی کئی ناول لکھے جس ’آبلہ پا“ آدم جی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔لیکن ان کا ایک بڑا اور خوبصورت ناول ” صدیوں کی زنجیر “ ہے ۔ اس ناول کا موضوع 71 کا سانحہ ہے لیکن اس موضوع کو رضیہ نے بڑی مضبوطی کے ساتھ تاریخی تصور کے ساتھ جوڑا ہے۔ اس ناول میں دونسلوں کو جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے نسلوں کو ایک دوسرے سے وابستہ کرکے دکھایا گیا ہے ۔ 71 کی تاریخ کو بیان کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارے تعصبات کن بنیادوں پر ہیں۔ ناول میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کسی دوسری جگہ سے کسی علاقے میں آتا ہے اور خاص مقام پرلوگوں کا مرکز ایک ہو جاتا ہے۔ پھر جگہوں پر جھگڑا کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ اس ناول میں سقو ط کی ساری تاریخ اور واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔
اس کے علاوہ انتظار حسین بھی اس رجحان کے ناول نگار ہیں ان کے ناولوں کا تعلق بھی تاریخ و تہذیب سے گہرا ہے اور یہ بھی اپنے بچھڑی ہوئی بستی کو یاد کرتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کی عکاسی کا رجحان
اس تیسرے رجحان کا تعلق پاکستانی معاشرے سے ہے۔ یہ رجحان اس سے پہلے یعنی تاریخی رجحان کی ضد نہیں ہے بلکہ اسی کا تسلسل ہے۔ مثلا عبداللہ حسین اور احسن فاروقی صرف تاریخ تک محدود نہیں رہے ۔ دراصل ٧٤ کے بعد جو معاشرہ بنا وہ امیدیںپیدا کرنے والا معاشرہ نہیں تھا۔ اور اس طرح اس دور کے ناول نگاروں نے ہوبہو اس معاشرے کی عکاسی اپنے ناولوں میں کی ۔اور خوبصورت ناول تخلیق کیے اس رجحان کے اہم نام مندرجہ ذیل ہیں۔
شوکت صدیقی
شوکت صدیقی کا سب سے اہم ناول ”خدا کی بستی “ اس رجحان کا حامل ناو ل ہے۔ اس ناول میں مصنف نہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ خدا کے نام پر بننے والے اس ملک میں کس قسم کا معاشرہ تشکیل پایا۔ ان کی نظر میں 47 کے بعد کا معاشرہ جرائم کا معاشرہ ہے ۔ جہاں جرائم پروان چڑھ رہے ہیں۔ مسائل ہیں غربت ہے افلاس ہے۔ بے روزگاری ہے ، پیشہ چند خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جس کی عام آدمی کے پاس جرائم کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ ناول میں شامی ، نوشا ایسے کردار ہیں جو مجبوراً جرائم کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ خود برے نہیں لیکن حالات نے انہیں برا بنا دیا ہے ۔ اس کے علاوہ اُن کا ایک اور ناول ”جانگلوس“ ہے جس کا موضوع پنجاب کے دیہاتی معاشرے میں جاگیردارنہ ظلم اور جبر ہے۔ اس ناول میں ”لالی “ جیسے کردار ہیں جو ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں خود زندگی ان کے لیے ایک بوجھ ہے۔
عبداللہ حسین
اسی جرائم پیشہ معاشرے کے حوالے سے عبداللہ حسین بھی ایک اہم ناول نگار ہیں۔ان کے ناولوں ”قید “ ، ”بھاگ “ میں بھی معاشرے اور جنگ کے ظلم و ستم کا بیا ن ہے لیکن معاشرتی حوالے سے ان کا بہترین ناول ”نادار لوگ“ ہے جو کہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ۔ یہ ناول 47 سے 88 تک کے دور پر محیط ہے ۔ جس کا بنیادی کردار ایک میجر ہے ۔ اور اُسی کے حوالے سے 88 تک کے پاکستانی معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے۔ وہ تاریخ اور کردار کو آمنے سامنے کھڑا کردیتے ہیں اور پھر یہ دکھانے کی کوشش کی کرتے ہیں کہ ان حالات نے لوگوں کو کس طرح متاثر کیا۔
غلام ثقلین نقوی
غلام ثقلین نقوی کا ناول ”میرا گائوں “ فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گائوں کی عکاسی کرتا ہے۔ مصنف نے دیہات کو مرکز بنا کر اُس کے ذریعے پاکستانی معاشرے کی عکاسی کی کوشش کی ہے۔ ناول میں غربت ، غریبوں کا استحصال اور اور خاص کر ان کی بگڑتی ہوئی زندگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔
رضیہ فصیح احمد
رضیہ فصیح احمد کا ناول ”آبلہ پا“ ویسے تو رومانوی ناول ہے لیکن محبت کے پس منظر میں جس خاندان کو انہوں نے بیان کیا ہے وہ خاندان ایک ترقی پذیر ملک کا مغرب ذدہ خاندان ہے۔ مشرق میں رہتے ہوئے اس ناول کے کردار مغربی ذہن رکھتے ہیں۔ اس طرح پاکستانی معاشرے کے مخصو ص خاندانوں کی عکاسی اس ایک خاندان میں کی گئی ہے۔
فضل کریم فضلی
فضل کریم فضلی کا ایک ناول ”خون جگر ہونے تک “ بہت اہم ہے۔ یہ ٥٤٩١ءکے قحطِ بنگال سے تعلق رکھتا ہے اس میں قحط کی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔کہ عموماً قحط میں کیا ہوتا ہے کس طرح یہ لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے ۔اس ناول میں مصنف نے بڑیگہرائی کے ساتھ انسانی رویوں کو پیش کیا ہے۔
نفسیاتی رجحان
اس رجحان کے زیر اثر تخلیق کیے گئے ناولوں کی بنیاد جنسیت اور نفسیات پر ہے۔ ان ناولوں میں ایک بنیادی فرق نظرآئے گا وہ یہ کہ کہانی کی بجائے ان میں کرداروں پر زور دیا جاتا ہے۔ اور کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ کیا جاتا ہے۔
ممتاز مفتی
ممتاز مفتی کے ناول ”علی پور کا ایلی“ ایک صخیم ناول ہے ۔ اس میں بہت سے واقعات موجود ہیں لیکن اس ناول کی بنیادی بات یہ ہے کہ اس پر فرائڈ اور ڈی ایچ لارنس کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ کرداروں کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا ذکر خوبصورت طریقوں سے کیا گیا ہے۔ اور بنیادی بات نفسیات کے حوالے سے کی گئی ہے کہ بچے کی شخصیت کی تعمیر کس طرح ہوتی ہے ۔ اس ناول میں ایلی کے کردار کا ارتقائی سفر بہت اہم ہے۔ اُس کا باپ ہر جگہ جنسی فتوحات حاصل کرتا ہے جس سے بچے کی شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ خوف کا شکار ہو جاتا ہے اور اُسے جنس سے نفرت ہو جاتی ہے ۔ اور عورت اُس کے لیے عورت نہیں رہتی بلکہ دیوی کا کردار بن جاتی ہے۔ اس ناول کی اہم بات یہ ہے کہ اس کو پڑھتے وقت تلذذ کا احساس نہیں ہوتا۔
ممتاز مفتی کا ایک اور ناول ”الکھ نگری“ ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے اسے خودنوشت قرار دیا ہے کیونکہ اس میں تمام کردار حقیقی ہیں ۔ اس ناول میں اہم کردار قدرت اللہ شہاب کا ہے ۔ اگر علی پور کا ایلی اور الکھ نگری کو ملا کر پڑھا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک کردار جو جنس سے تصوف کی طرف کیسے سفر کرتا ہے۔
صدیق سالک
صدیق سالک کا اہم ترین ناول ”پریشر ککر “ ہے۔ اس ناول میں ایک مصور ”فطرت “ کا کردار ہے۔ اس ناول میں یہ بات بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ معاشرہ اور فنکار کا ذہن اور داخلی سوچ جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ یہ کردار زندگی اپنی پسند کے مطابق گزارنا چاہتا ہے لیکن معاشرہ اُسے ایسا نہیں کرنے دیتا ۔ کردار کا مکمل نفسیاتی تجزیہ اس ناول میں موجود ہے۔
نثار عزیز بٹ
نثار عزیز بٹ کے ناولوں کا موضوع آئیڈیلزم ہے۔ ان کے ناولوں میں ”نگری نگری پھرا مسافر “ ، ”نے چراغِ نے گل “ ”کاروانِ وجود “ ، دریا کے سنگم“ شامل ہیں۔ ان کے ناولوں کے زیادہ تر کردار آئیڈیلزم کا شکار ہیں۔ ”نگری نگری پھرا مسافر “ میں ایک بنیادی کردار ”افگار “ کا ہے۔ جو کہ آئیڈیلزم کا شکار ہے ۔یہ کردار لاتعداد محرمیوں سے بنا ہوا ہے۔ بچپن کی محرومیوں او راحساسِ تنہائی نے اسے اتنشار پسند بنا دیا ہے۔ لوگ اس سے محبت چاہتے ہیں لیکن وہ کائنات کی حقیقت اور معنویت کی تلاش میں لگی رہتی ہے۔ وہ تصوف سے بھی وابستہ ہے۔ آخر میں وہ کہتی ہے کہ حقیقت کی جستجواچھی چیز ہے لیکن اگر راستہ مل جائے تو سفر ختم ہو جائے گا۔
”کاروانِ وجود “ کا کردار ثمر صالح بھی افگار کی طرح آئیڈیلزم کا شکار ہے۔ نثار عزیز بٹ ”نے چراغ نے گل “ میں سماجی اور معاشرتی مسائل سے پردہ اُٹھاتے ہیں۔ خصوصاً سماجی رشتوں کی تبدیلی سے نوجوانوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
الطاف فاطمہ
الطاف فاطمہ کے ناولوں میں ”نشان محفل “ ”دستک نہ دو “ اور ” چلتا مسافر “ شامل ہیں۔ ان ناولوں میں مختلف قسم کے کردار ہمیں نظرآ تے ہیں مثلا ”نشان ِمحفل“ کا کردار انگریز لڑکی کا ہے یہ داخلی طور پر بہت بے چین ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ اگر میں مشرق کی طرف جائوں گی تو ٹھیک ہو جائوں گی اس لیے وہ ایک شخص ”نادر“ سے شادی کر کے یہاں آجاتی ہے لیکن پھر بھی اُس کی بے چینی ختم نہیں ہوتی ۔ کیونکہ آج تک کسی کو اُس کا آئیڈیل نہیں مل سکا ہے۔
دوسرا ناول ”دستک نہ دو “ کے کچھ کردارایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک خاص علاقے میں آباد ہے۔ اور ایک تصور یاآئیڈیلزم کے تحت زندگی گزارتے ہیں ۔ لیکن یہ تصور ان کو مادی اور روحانی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ناولوں کے کردار آدرشی ہیں ۔ انکا موضوع کائنات کی حقیقت دریافت کرنا ہے۔
رحیم گل
رحیم گل کے ناول ”جنت کی تلاش “ میں امتل کا کردار ایک آدرشی کردار ہے۔ اس کے اندر ایک بکھراہوا تصور ہے ۔ اور اس کے تحت وہ آگے بڑھتی ہے۔ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ کسی سے متاثر نہیں ہوتی ۔ صرف وہ اُس سے متاثر ہوتی ہے جس سے اُس کے نظریات ملتے ہیں۔ آئیڈیلز م کے حوالے سے جتنے بھی ناول لکھے گئے اُن میں سے زیادہ تر کا تعلق عورتوں سے ہے۔
علامتی اور استعاراتی رجحان
پہلے کے ناولوں کو اگر دیکھا جائے تو ان ناولوں میں منطقی تسلسل ہوا کرتا تھا ۔ لیکن علامتی استعاراتی رجحان نے ناول کی ہیئت کو توڑ ڈالا ۔ اس کے علاوہ کرداروں کے حوالے سے بھی ہیرو اور ہیروئین کا جو نظریہ ہے وہ بھی ان ناول نگاروں کے ہاں ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے شعور کی رو کی تکنیک کو کام میں لاتے ہوئے ایک مبہم صنف پیش کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ان کے ناولوں میں لایعنی تصورات نے جگہ پائی ۔ اس رجحان کے سے وابستہ چند اہم ناول نگار درجِ ذیل ہیں۔
انتظا ر حسین
انتظار حسین اُن لوگوں میں سے ہیں جس نے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو دیکھا ۔ ہجرت کے بعد اُس نے وہی تہذیب دیکھنے کی کوشش کی تو اُسے مایوسی ہوئی اس لیے انھوں نے اساطیری علامتوں اور دیومالائوں کے ذریعے ذہنی طور پر ماضی کی طرف سفر کیا ۔انتظا ر حسین کا ایک مشہور ناول ”بستی “ ہے ۔ اس کا کردار ذاکر اور اس کا خاندان ”روپ نگر “ سے ہجرت کرتے ہوئے نئی بستی کی طرف آتے ہیں ۔ یہاں ان کے حالات اور افسردگی ہر وقت انہیں اپنے گائوں کی یاد دلاتی ہے۔ روپ نگر سے بستی کی طرف کا سفر صرف ”ذاکر کا “ المیہ نظرآتا ہے۔ لیکن ہوتے ہوتے یہ تجربہ ماضی سے جاملتا ہے۔ دراصل انتظار حسین جب ماضی کو یاد کرتا ہے تو اس حوالے سے وہ ماضی کے تہذیبی اقدار کا ماتم کرتا ہے جن کو جدید تہذیب اور ٹیکنالوجی نے ختم کر دیا ہے۔
ڈاکٹر انور سجاد
ڈاکٹر انور سجاد کاایک مختصر ناو ل ”خوشی کا باغ “ ہے۔ یہ ناول علامتی اور استعاراتی ہونے کی وجہ سے بڑا پیچیدہ ہے۔ یہاں خود کلامیوں کا ایک طویل سلسلہ اور بیانات در بیانات ہیں۔ اس ناول میں ایک ایسے شخص کا کردار ہے جو تیسری دنیا کا شہر ی ہے۔ اور مادی حوالے سے انتشار کا شکار نہیں لیکن اس کی روح اس معاشرے میں گھٹن محسوس کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں مذہب کے نام پر ظلم اور بربریت اور تشدد ہوتا ہے۔ ان کے دوسرے ناول ”جنم روح “ میں ایک عورت بھی اسی گھٹن کا شکار ہے۔ یہ عورت اپنے راہ میں حائل خاندان اور شوہر کو نہیں چھوڑ سکتی ۔ انور سجاد کے ناول خوف ، گھٹن ، مایوسی اور بہت سے علامتی اور استعاراتی پہلوئوں پر مشتمل ہیں۔
انیس ناگی
انیس ناگی ہیئت کے اعتبارسے لاتعداد استعارے ، علامتیں ، خود کلامی کی کیفیت ، اور ایک آزاد تلازمہ خیال لے کر ایک مبہم طرح کی فضا بناتا ہے۔ ان کامشہور ناول ”دیوار کے پیچھے “ ہے جس میں مرکزی کردار ایک نفسیاتی مریض ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور ناول ”میں اور وہ میں “ بھی یہی کیفیت موجود ہے۔ ان کے دونوں ناولوں کے کرداروں پر مایوسی اور قنوطیت کے اثرات ہیں۔ خاص کر ان ناولوں میں مغرب کا وجودی فلسفہ موجود ہے جس میں انسان کو تنہا کہا جاتا ہے۔
فہیم اعظمی
فہیم اعظمی نے استعاراتی ا ور علامتی انداز میں پرانی ہیئت کو توڑا۔ ان کا ایک ناول ”جنم کنڈلی“ جس کے ابتداءمیں انھوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک تجرباتی ناول ہے۔ اس ناول میں بے ترتیب قسم کے خیالات اور تصورات کا اظہار کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ناول کو ابتداء سے یا درمیان سے یا آخر سے پڑھا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مصنف کا اس ناول میں اسلوب بہت اچھا ہے اس لیے قاری کو ہیئت کے توڑنے کا پتہ نہیں چلتا ہے۔
بانو قدسیہ
بانو قدسیہ کا مشہور ناول ”راجہ گدھ “ ہے یہ ناول انتظار حسین اور قرۃ العین کے ناولوں سے ممثاثلت رکھتا ہے۔ جس طرح انتظار حسین نے اپنے خیالات کو ظاہر کرنے کے لیے دیومالا، مذہبی، تاریخی حوالوں سے کام لیا ہے اسی طرح بانو قدسیہ نے یہی کام اپنے کرداروں سے لیا ہے۔ ان کا موضوع ایک بے چار معاشرہ ہے۔ ایسا معاشرہ جو عشق لاحاصل کا شکار ہے۔ جو روحانی سے زیادہ جسمانی حوالے رکھتا ہے۔ اور اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ روحانی نظریات کو چھوڑ کر محبت کا نظریہ اپنانا چاہیے۔ انھوں نے حرام رزق کے اثرات کو اس ناول میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں