اردو ادب کی پرچھائیاں برصغیر پاک وہند کے دوسرے علاقوں کی نسبت پختون خواہ میں ذرا دیر سے پڑیں ۔ اس کی وجوہات میں یقینا مقامی زبانوں پر توجہ ، پس ماندگی اور تعلیم کی کمی شامل ہے۔ تعلیم کی ترقی کے ساتھ ہی یہاں اردو زبان کی ترقی کی طرف توجہ شروع ہو گئی۔ 1903ءمیں بزم سخن کی نبیادرکھنے1913ءمیں اسلامیہ کالج کے آغاز اور دوسری علمی ، ادبی اور تعلیمی سرگرمیوں کے باعث یہاں کے اہل علم و ادب اردو کی طرف رجوع کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ارد و کی ادبی نثر کاآغاز 1900کے بعد ہوتا ہے۔ اس سے پہلے یہاں اردو کی ادبی نثر کا سراغ نہیں ملتا۔ 1900ءسے پہلے کے نثر ی نمونوں میں پیرروخان کی کتاب ”خیرالبیان “ کے کچھ حصے یہاں کے اخبارات ، کابل کی ڈائری، تاریخ ِ ہزارہ و تاریخِ ڈی آئی خان اور تاریخ چترال شامل ہیں ۔ لیکن اس میں اردو ادب یا اردو کی ادبی نثر کا سلسلہ مفقود ہے۔ لہذایہ بات وثو ق سے کہی جاسکتی ہے کہ ارد و کی ادبی نثر کا آغاز 1900ءکے بعد ہی ہوتا ہے۔
اردو کی ادبی نثر کےساتھ جو معاملہ رہا وہی معاملہ تقریباً اردو افسانے کے ساتھ بھی رہا۔ اس لیے یہاں افسانے کاآغازبھی ذرا بعد میں ہوا۔ اور 1947ءتک افسانہ کا کوئی بڑ ا نام سامنے نہ آسکا۔ 1947ءتک کا سرحد کاافسانہ کوئی مضبوط حوالہ نہیں رکھتا ۔ یہاں افسانہ نگاری کا آغاز 1914ءمیں ہوتا ہے۔ اور بقول فارغ بخاری اس کے آغاز کا سہرا ”نصیر الدین نصیر“ کے سر ہے۔ انہوں نے 1914ءمیں افسانہ لکھنا شروع کیا۔ اور ٠٣٩١ءتک افسانہ لکھتے رہے۔ ان کے افسانے مقصدی اور اصلاحی موضوعات پر مبنی ہیں۔ انداز تحریر صا ف اور سادہ ہے۔ افسانوں میں وعظ و نصیحت کارنگ نمایاں ہے۔ فنی لحاظ سے افسانوں میں خامیاں موجود ہیں ۔ ان کے افسانوں کا کوئی بھی مجموعہ شائع نہ ہو سکا البتہ انے افسانے ”نیرنگ خیال “ ، ”سرحد “ اور ”عالمگیر “ میں چھپتے رہے۔ جن میں ”جوالا مکھی“ ، ” سہاگن“ اور ”مولوی صاحب “ ، شہرت سے ہمکنار ہوئے ۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں افسانہ کاآغاز کرنے کے باعث نصیر الدین نصیر کا نام اہم ضرور ہے۔ مگر مجموعی طور پر وہ افسانہ کا کوئی بڑا نام نہیں ہے۔ افسانہ کے ابتدائی دور میں ایک نام عنایت علی شاہ کا بھی ملتا ہے۔ جن کا افسانہ ”ایک شاعر اور اس کا خواب“ ، ہائف پشاور جولائی 1925ءمیں شائع ہوا۔ جو رومانی فکر سے وابستہ ہے۔ کہانی کی نبیاد زیادہ تر روایتی واقعات اور غیر فطری عناصر پر رکھی گئی ہے۔ ا س کے علاوہ ان کا افسانہ ”خوبصورت لفافہ “ پختون معاشرت کی عکاسی کرتا ہے۔
1930ءتک یہ کچھ افسانہ نگار ملتے ہیں اس کے بعد آنے والے افسانہ نگاروں میں ، مبارک حسین عاجز، کلیم افغانی، رضاہمدانی ، نذیر مرزا برلاس، فارغ بخاری ،اور مظہر گیلانی کے نام اہم ہیں۔
”مبارک حسین عاجز کے افسانے ”اے مصور “”مجھے کسی کی تلاش ہے“، ”رنگین کلی “ ، ”احساسِ ندامت “ پاکستان سے پہلے شائع ہوئے ہیں اُن کے افسانوں پر رومانوی طرز فکر کے اثرات ہیں۔ اور فنی لحاظ سے کافی کمزور ہیں۔ ”کلیم افغانی “ کے ہاں اصلاح پسندی اور ترقی پسندی کے عناصر ملتے ہیں اس سلسلے میں ان کا افسانہ ”اشک ندامت “ مشہور ہے۔ رضاہمدانی نے اسلامی تاریخی واقعات کو افسانوی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے ان کے افسانے ”عہد “ کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ نذیر مرزا برلاس کے ہاں چھوٹے چھوٹے واقعات سے کہانی بننے کا عمل نظرآتا ہے اور وہ تخیل کی مدد سے لے کر حقیقی کہانی کے نقش ابھارتے ہیں۔ لہذاد تخیل اور حقیقت کا امتزاج ان کے ہاں موجود ہے اس سلسلے میں ان کے افسانون میں ، ”معصومیت “ اور ”معصوموں کی دنیا ُ“ کے نام آسکتے ہیں۔
”فارغ بخاری “ سرحد کے پہلے صاحب ِ مجموعہ افسانہ نگار ہیں۔ اُن کے افسانوں کا مجموعہ ”قدرت کا گناہ“ 1932ءمیں شائع ہوا۔ ان کے افسانوں میں اصلاحی اور مقصدی عناصر موجود ہیں۔ اور ”ادب برائے زندگی “ کے نقطہ نظر کو سامنے لائے ہیں۔ لیکن فنی لحاظ سے بلند درجہ نہیں رکھتے ۔”مکافاتِ عمل “ ان کا اچھا افسانہ ہے۔
اسی زمانے میں ”مظہر گیلانی “ کے افسانوی مجموعے ”رنگین مشاہدے “ اور ”بدنصیب سادہ “منظر عام پر آگئے ۔ ان کے افسانوں پر داستانوی اثر زیادہ ہے۔ کہانی غیر فطری عناصر پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے میں ان کے افسانوں میں “ناگ رانی “ ، ”میر ی لاش “ ”سانپ کا انتقام “ مشہور ہیں۔ فارغ بخاری اور مظہر گیلانی کے افسانے بھی ادبی مقام حاصل نہ کر سکے ۔ لہٰذا ان کا یہ سفر آگے نہ بڑھ سکا۔ صوبہ سرحد کاافسانہ 1947تک کوئی بڑا نام پیدا نہ کر سکا اور نہ کوئی ایسا ادیب سامنے آسکا جس کی پہچان افسانہ سے وابستہ ہو۔
1947ءکے بعد البتہ کچھ ایسے نام ہمارے سامنے آتے ہیں جنہوں نے اسی میدان کو اپنایا ۔ اور اس میں نام کمایا ۔ 1947ءکا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا ۔ یہ اپنے ساتھ بہت سے خواب اور بہت سے عذاب لایاتھا۔ جس میں سب سے بڑا عذاب فرقہ ورانہ فسادات کا ہے۔ 1947ءکے بعد صوبہ سرحد کے افسانے میں بہت حوالے اور رجحانات اہم ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
فسادات کا حوالہ
1947ءکے بعد جو فسادات ہمارے سامنے آتے ہیں یہ ہمارے ادب کا خصوصی موضوع رہے ہیں ۔ افسانہ ہو یا ناول ، غزل ہو یا نظم ، ہر صنف پر اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ برصغیر پاک وہند کے دوسرے علاقوں کی طرح صوبہ سرحد کے ادب پر بھی ان فسادات کے اثرات پڑے ۔ اور کئی ایک افسانوں میں اس موضوع کو برتا گیا۔ ان میں ”شفیق ہزاروی “ کے افسانے ”سفیدچہر ہ “ اور ”سرخ پھول “ ،محمد حسین کا افسانہ ” او جانے والے “ باسط سلیم کا افسانہ ”آنکھ مچولی “ ، قتیل شفائی کا افسانہ ”فن اور فنکار “ اور ”کلا اور کلاکار“ فرید عرش کا افسانہ ”مقدس گائے “ اور خاطر غزنوی کے افسانے ”ہوٹل کی ایک رات “ اور ”انارکلی “ شامل ہیں۔ فسادات ، ہجرت اور پاکستان بننے کے فوراً بعد ابھرنے والے مسائل کے حوالے سے بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں۔
1947ءکے بعد رجحان یا جدیدت کا رجحان
1947ءکے بعد سرحد کے افسانے میں بہت سے نئے موضوعات شامل کیے گئے ۔ یہاں بھی وہی موضوعات رہے جو ہمارے پاکستانی افسانہ میں نظرآتے ہیں۔ رومان ، انقلاب ، ترقی پسندی، تاریخ ، تہذیب ، معاشرت ، نفسیات اور اس طرح کے بہت سے موضوعات پر افسانے لکھے گئے۔ یوں سرحد کا افسانہ سفر کرتے ہوئے ملکی افسانے سے مل کر ایک اکائی تشکیل دیتا ہے۔ البتہ اس میں یہاں کی تہذیب اور روایات کا اچھا خاصہ حصہ ہے۔ جس کے باعث یہاں کے افسانہ کی اپنی ایک پہچان بھی ہے۔1947ءکے بعد کئی ایک افسانہ نگاروں کی تخلیقات منظر عام پر آئیں جن میں ایک اہم نام رضا ہمدانی کا ہے ۔
رضا ہمدانی
رضا ہمدانی نے سب سے پہلے سرحد کے ماحول اور معاشرت پر دو افسانے ”غوبل “ اور ”کافر سر “ پیش کرکے مقامی ادیبوں کو ایک راستہ دکھایا ۔ ان کی کہانیوں میں افسانویت برقرار رہتی ہے اور بڑی خوبصورت انداز میں پٹھانوں کی معاشرت اور روایات پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ کہانیاں محنت کش طبقے کی زندگی کی مکمل ترجمانی کرتی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرحیم
اس دور میں ایک اور اہم نام ڈاکٹر عبدالرحیم کا ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ ”خون کا داغ“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ان کے ہاں تاریخ کا تصورخوبصورت رنگوں میں رچا ہوا ملتا ہے۔ وہ ماضی کے تصورِ سے حسین دنیا پیدا کر تے ہیں۔ تاریخ کے کسی عہد سے بات شروع کرتے ہیں اور ماضی کے دھارے پر بہتے ہوئے حال تک آتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ”خون کا داغ“ اور ”رقص الموت“ اسی قسم کے افسانے ہیں۔ ان کے کردار ماورائی دنیا کے کردار ہیں لیکن افسانے کی فضاءاکتا دینے والی نہیں ہے۔ یہ کردار پیار ومحبت کے پیامبر اور عشق میں لافانی ہیں۔
نعیمہ شہناز
نعیمہ شہناز کے افسانوں میں زندگی اور اس سے پیار کے کئی رنگ موجود ہیں اگرچہ ان کے موضوعات معاشرتی وسماجی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں ۔ لیکن بنیاد رومان ہی کی رہتی ہے۔ یہا ں جذبے اہم ہیں۔ احساسات کی کہانی موجود ہے اور ان احساسات و جذبات کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر ”نعیمہ شہناز “ کے ہاں موجود ہےں۔ ’‘دئےے بجھا دو“ ”افسانہ لکھ رہی ہوں “ ”ہم دیوانے لوگ“ اور ”اے قافلے والو“ اسی سلسلے کے اہم افسانے ہیں۔
عبدالقیوم شفق ہزاروی
معاشرتی زندگی کی عکاسی کے حوالے سے اسی دور کا ایک اور افسانہ نگار شفیق ہزاروی ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ ”بہارو خزاں “ کے نام سے شائع ہوا۔ شفق کی کہانیوں میں زندگی کے حقائق موجود ہیں۔ کہیں یہ زندگی اور رومان کے حسین نظاروں سے عبارت ہے۔ اور کہیں معاشرتی ناانصافیوں اور ظلم و ستم سے زندگی کے سماجی ، معاشرتی ، رومانی کئی پہلو ان کے افسانوں میں موجود ہیں۔ ان کے افسانوں میں ”ساتویں شادی “ اور ”سرخ پھول “ ، ”داغ ناتمامی “” ماتمی جلوس “ اور ”سفید چہرہ” اہم ہیں۔ اس کے علاوہ سرحد کی اس نسل میں رحمان ساتھی ، شعیب قریشی ، رحیم گل اور افضل مرزا کے نام بھی اہم ہیں۔ ان سب کے ہاں رومان ، حقیقت اور یہاں کے خاص تہذیبی ماحول کی عکاسی ملتی ہے۔
حقیقت نگاری کا رجحان
اس دور افسانہ نگاروں نے حقیقت نگاری اور سماجی شعور کو اپنانے کی کوشش کی اور تخیلات اور غیر فطری زندگی میں الجھنے کی بجائے اُسی زمین ، مٹی اور معاشرہ سے مواد حاصل کیا لہٰذا اس دور کے افسانوں میں معاشرتی حقائق اور ان کے ساتھ ساتھ یہاں کی تہذیبی زندگی کے نقوش ملتے ہیں۔ اور یہ دونوں حوالے ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے ہیں۔ اس دور میں جو نام اہم ہیں وہ درجِ ذیل ہیں۔
فہمیدہ اختر
فہمیدہ اختر کے دو افسانوی مجموعے ”کشمالہ “ اور ”اپنے دیس میں “ شائع ہو چکے ہیں۔ فہمیدہ نے سرحد کے دیہاتی ماحول یہاں کے روایات اور اقدار کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے صرف خوشحال گھرانوں کو موضوع نہیں بنایا بلکہ نچلے طبقے اور ان کی زندگی کی ترجمانی بھی کی ہے۔ پشتون معاشرہ کے بنیادی جذبوں مثلاً غیرت ، مہمان نوازی ، شجاعت اور دلیری سے فہمیدہ کے افسانوں کی کہانی بنتی ہے۔ غربت کے سارے مظلوم لوگ اور معصوم بچے فہمیدہ کا بطور خاص موضوع رہے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ”شاداب وادی کا پیرو“ اور ”سیبوں اور ناشپاتیوں کے جھنڈ میں “ شامل ہیں۔
سحر یوسفزئی
سحر یوسفزئی کا افسانوی مجموعہ ”آگ اور سائے “ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ انہوں نے بھی اسی پشتون معاشرہ کو موضوع بنایا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی تہذیبی زندگی ان کے بنیادی مسائل کے ساتھ ملا کر پیش کی ہے۔ اور اس طرح پیش کی ہے کہ ان کی زندگی طور طریقے ، نفسیاتی مسائل اور طبقاتی کشمکش سارے حوالے سامنے آگئے ہیں۔ ان کے افسانے یہاں کے لوگوں کی غربت اور بے بسی کی تصویر پیش کرتے ہیں ۔ اقتصادی بحران سے جنم لینے والی بے بسی اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کو بیان کرتے ہیں۔ خاص کر معاشی و اقتصادی مسائل معاشی استحصال اور طبقاتی کشمکش جیسے ترقی پسندانہ موضوعات ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔ ان کے افسانوں میں ”ایک بالشت زمین“ ”کمبل “ ، ”اندھیرے کا بیٹا “ ، ”سبزہ اور چنار “ مشہور افسانے ہیں اس کے علاوہ سحر کے ہاں رومان و حقیقت کی راہیں ملتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اور بعض اوقات دونوں روےے ایک مرکز پر جمع ہو جاتے ہیں اور اس حوالے سے ان کا افسانہ ” چاند اور کھنڈر “ قابل ِ ذکر ہے۔
بیگم سردار حسین
بیگم سردار حسین کے افسانوں میں رومانی رجحان غالب ہے۔ ان کا موضوع محبت اور متعلقات محبت ہے۔ جن کے توسط سے انسان کی نفسیاتی کمزوریوں کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا رومان حقیقت سے پیوستہ ہے۔ خاص کر محبت میں جو دکھ ہے اور جو تلخی ہے۔ وہ بیگم سردار حسین کے افسانوں کا موضوع ہے۔ اور اس موضوع کو خوبصورت رومانی اسلوب میں نبھایا گیا ہے ۔ ان کے افسانوں میں ”دھندلکے“ ، ”برف کا پھول “ اور ”کچے دھاگے “ اہم ہیں۔
فرید عر ش
فرید عرش کے افسانوں میں حقیقی زاویے زیادہ فعال اور مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں حقائق کی تلخی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ زندگی اور ماحول سے مواد حاصل کرتے ہیں اور بڑی غیر جانبداری کے ساتھ ان سے کہانیاں بنتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی کے سیدھے سادھے واقعات ان کے افسانوں میں جگہ نہیں پاتے ۔ بلکہ زندگی کی پیچیدگی اور الجھنیں مرکز نگاہ بنتی ہیں۔انہوں نے امیر و غریب دنوں طبقوں کی کہانیاں لکھی ہیں۔ خاص کر نچلے طبقے کے مسائل ان کی بے بسی اور الجھنیں بڑے بھر پور انداز میں ان کے ہاں ملتی ہیں۔ فرید عرش کے افسانوں میں ”گیدڑ سنگھی“ ”خدمت ِ خلق“ ، ”قربانی ‘ ‘ شامل ہیں جو کہ اپنی معاشرتی حقائق کے عکاس ہیں۔
ان کے علاوہ اس نسل کے افسانہ نگاروں میں ” میاں سیف الرحمن“ اور ”ارشاد احمد صدیقی “ کے نام اہم ہیں۔
جدید نسل کے افسانہ نگار (اصلاحی رجحان
جدید نسل سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگاروں نے نہ صرف حقیقت نگاری کو آگے بڑھایا بلکہ اس میں نکھار اور تنوع بھی پیدا کیا اس دور میں ہمیں چند ایسے افسانہ نگار ملتے ہیں جن کے سامنے برصغیر پاک و ہند کی رومانیت ، حقیقت پسندی ، آزادی کی کوششیں ان کے نتائج ، سیاسی کشمکش اور بہت سے مسائل تھے۔ اس کے علاوہ پاکستانی معاشرے کے سیاسی ، سماجی اور تہذیبی اور معاشرتی المےے تھے ۔ معاشرے میں تیزی سے پھیلنے والا انتشار تھا۔ سائنسی اور صنعتی ترقی تھی اور سب سے بڑھ کر افسانہ کی روایت اور اس کے تسلسل میں بڑصغیر پاک وہند کا موجودہ افسانہ تھا۔ ان سارے عناصر نے اس جدید نسل کے افسانہ نگاروں کو نئی معنویت ، نئے مسائل اور نئے آہنگ سے دوچار کیا۔ اس لیے اس نسل کے افسانہ نگاروں میں موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح پر نئی کیفیات نظرآتی ہیں۔ اس دور میں ہمیں کئی قدآور افسانہ نگار ملتے ہیں۔ جن کی حیثیت صوبائی نہیں بلکہ ملکی اور بین الاقوامی ہے۔اس دور میں جو افسانہ نگار شامل ہیں وہ یہ ہیں۔
منور رئوف
منور رئوف حب الوطنی اور مقصدیت و اصلاح پسندی سے سرشار اس دور کا ایک اہم نام ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ”طرفہ تماشا “ اور ”انمول رتن“ منظر عام پرآچکے ہیں۔ان کے افسانوں میں زندگی کے حقائق نظرآتے ہیں۔ یہاں سکھ بھی ہے اور دکھ بھی۔ انسان کے مثبت پہلو بھی ہیں اور منفی بھی ۔ مقامی ماحول اور معاشرت بھی ہے اور ملکی و بین الاقوامی حالات کا تذکرہ بھی ہے۔ ان کے افسانے ادب برائے زندگی کے ترجمان ہیں۔”دروند پختون“ میں مقامی ، تہذیب و معاشرت اور اس کی اقدار کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ”انمول رتن “ ”محبت کا ہے پیغام جہاں تک پہنچے “ اور ”یاجوج ماجوج “ اصلاحی اور مقصدی افسانے ہیں۔
طاہر آفریدی
اس جدید نسل میں ایک اور اہم نام طاہر آفریدی کا ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ ”دیدن “ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ طاہر کے افسانے اسی معاشرے کی کہانی پیش کرتے ہیں۔ یہاں کی معاشرتی زندگی ، رسم و رواج اور رہن سہن اور دشمنی و انتقام کی کہانیاں نہیں بلکہ ان پہاڑوں میں بسنے والے سخت دل افراد کے لطیف احساسات و جذبات کی داستان بھی ملتی ہے۔
طاہر آفریدی کے افسانے پشتون کلچر کے امتیازی رنگ پیش کرتے ہیں۔ غیرت ، انتقام ، قربانی ، محبت وغیرہ لیکن بنیادی مقصد امن کی فضا قائم کر نا اور صلح جوئی ہے۔اس سلسلے میں ان کا افسانہ ”وہ جو گائوں تھا “ بڑ ا اہم ہے۔ طاہر آفریدی کے افسانوں میں غیرت ، انا اور ان کے تحفظ کے لاتعداد حوالے موجود ہیں۔ جہاں کردار اپنی خواہشات ، جذبات و احساسات ان اقدار کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ”پگڑی “ اس قسم کا افسانہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں ”گھر “ ، ”بیٹی کا بوجھ“ اور ”اندھیرے کا گھائو “ اہم ہیں۔طاہر آفریدی پشتون معاشرے کی کہانیاں لکھتے ہوئے لطیف احساسات و جذبات اور روایات کی کشمکش دکھانا چاہتا ہے۔ اسی حوالے سے ان کا خوبصورت افسانہ ”دیدن ہے۔
سیّدہ حنا
جدید نسل کی ایک اور اہم افسانہ نگار سیدہ حنا بھی ہیں۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ”پتھر کی نسل “ اور ”جھوٹی کہانیاں “ منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کے افسانوں پر ان کی شخصیت کے اثرات نمایاں ہیں اور پھر یہ شخصیت سے ہوتے ہوئے معروضی حقائق سے مل جاتے ہیں۔ یوں ذاتی المےے اجتماعی المیوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ سیدہ حنا کوئی خاص نقطہ نظر نہیں رکھتی ۔ بلکہ اپنے مشاہدہ کی روشنی میں کہانی لکھتی جاتی ہے۔ البتہ ایک مرکزی نقطہ ان کے افسانوں میں موجود ہے۔ اور وہ تعلیم یافتہ عورت کے احساسات و جذبات کی شکست و ریخت ہے۔ اس کے مسائل ہیں اور ناآسودگی کی کیفیات ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے افسانوں میں ”تھیٹر “ ”تازہ کھیپ“ اور ”ایک لڑکی ایک لمحہ “ اہم ہیں۔ان کے افسانوں میں ایک لڑکی کا کردار ابھر تا ہے اس کا المیہ اس دور میں ایک خاص قسم کی ناآسودگی ہے۔ جو شادی نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر بہت سے دائروں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔
انور خواجہ
اس نسل کا ایک اور اہم نام انور خواجہ کا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ”بوزے بندر “ اور ”ناشناس “ کے نام شائع ہو چکے ہیں۔ انور خواجہ کے افسانے ان کے مطالعے اور گہرے مشاہدے کے وسعت کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کے ہاں ترقی پسند سوچ موجود ہے۔ وہ جانوروں اور پرندوں کے نفسیات کے سفر میں انسانی جبلتوں اور فرد کے داخل تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ ان کے افسانے پر فضاءرومانی ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔ خوبصورت فنی پیکر اور نت نئی فنی تبدیلیوں کے ساتھ اس سلسلے کا کلیدی افسانہ ”بوزے بندر “ ہے۔
انور خواجہ نے معاشرے کی جامد قدروں کی نفی کرتے ہوئے حقیقت نگاری کی طرف سفر کیا ہے۔ اور بڑی بے باکی سے معاشرتی اقدار کے پردے چاک کیے ہیں۔ اور یہی مقام ہے جہاں ان کے افسانوں میں جنسیت در آئی ہے۔ ایسے افسانوں میں ”خوشبو کی تلاش “ ”ناداری “ اور ”اندر کے دروازے “ شامل ہیں۔
منٹو نے بھی جنسیت کو موضوع بنایا تھا۔ مگر وہاں کیفیات اور تھیں جنسیت لذتیت کا روپ بہت کم دھاتی ہے۔ انور خواجہ منٹو سے متاثر ضرور ہیں مگر اس نے ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔ اور جنسیت کو اصلاحی جذبے سے وابستہ کرنے کی بجائے جسمانی لمس اور جنسی تلذز تک لے گیا ہے۔
ام عمارہ
جدید نسل کا اہم ترین نام ام عمارہ ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ اور ”آگہی کے ویرانے “ اور ”درد روش “ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ زندگی کی حقیقتیں ام عمارہ کے ہاں مختلف روپ بدلتی ہوئی ظاہر ہوتی ہیں۔ چونکہ اس کا تعلق بنگلہ دیش سے رہا ہے اور وہاں سے ہجرت کرکے صوبہ سرحد آئی ہے۔ اس لیے ان کے افسانوں میں وہاں کے ماحول اور خاص قسم کے مسائل کی پرچھائیاں موجود ہیں۔ لہٰذا ہجرت کا دکھ ان کے افسانوں میں نظرآتا ہے۔ او ر ان مظالم کی تصویریں بھی ان کے افسانوں میں نظرآتی ہیں۔ جو بنگالیوں نے بہاریوں پر کئے تھے ۔ ان کے افسانوں میں ”کوئلہ بھٹی نہ راکھ “ ، ”’ یہ کناہ بے گناہی “ ، ” کس نے کس کو اپنایا“ ، ” کروٹ “ اور ”زندگی کا زہر“ انہی تصورات کی روشنی میں تشکیل ہوئے ہیں۔ انہوں نے بنگالی ماحول کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ماحوال اور ان کے مسائل کی طرف بھی رخ پھیرا ہے۔ اور جہاں انسانیت ماتم کرتی ہے اور بھوک روتی ہے اور بلبلاتی ہے وہیں ان کے افسانے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی کہانی بھی وہاں سفر کرتی ہے۔ اس طرح ان کے افسانوں پر ترقی پسندانہ سوچ کے اثرات موجود ہیں۔
فیروز ہ بخاری
فیروزہ بخاری کے دو افسانوی مجموعے ”سچ کے زہر “ اور ”بادلوں کے ساےے “ شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے افسانوں میں اصلاحی اور معاشرتی نقطہ نظر بالائی سطح پر رہتا ہے۔ اپنے ایک افسانے ”گل سانگہ “ میں کہانی کے توسط سے پشتون معاشرے کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔ پشتون معاشرت کے ساتھ ساتھ انہوں نے معاشرتی زندگی کے دیگر نقوش بھی ابھارے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے بہت سے حوالے انہوں نے افسانوں مں اجاگر کیے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر بڑے بڑے المیوں تک ۔ اس حوالے سے ان کے افسانے ”کچے دھاگے “ ، ” خالی ڈائری“ اور ”چار دن “ اہم ہیں۔
معصوم شاہ ثاقب
معصوم شاہ ثاقت کا افسانوی مجموعہ ”بند مٹھی “ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کے افسانے موجودہ دور کے آشوب کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے افسانے بہت مختصر ہیں۔ انہوں نے نہایت اختصار کے ساتھ ہمارے ماحول کے داخلی و خارجی نقوش پیش کیے ہیں۔ اور کہیں بھی مصلحت اندیشی کا رویہ نہیں اپنایا ۔ یہ عکاسی نہایت بے باکانہ اور سفاکانہ نوعیت کی ہے۔ اس سلسلے میں ان کے افسانے ”جھوٹی خبر “ ، ”فاختہ “ ”مرگِ تمنا “ اہم ہیں۔
غزالہ نگار اورکزئی
اس نسل کا ایک اور اہم نام غزالہ نگار اور کزئی کا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر سماجی اور معاشرتی مسائل کو موضوع بیایا ہے۔ ان کے افسانوں کی دنیا آئیڈیل دنیا ہے۔ نوابوں ، امیر زادوں اور سماج کے اماموں کی دنیا جہاں جبر کی زندگی گزاری جاتی ہے۔ غزالہ خاص کر عورتوں کی مظلومیت اور ان پر ہونے والے جبر کوبیان کرتی ہے۔ لیکن یہاں سے لکیریں کھینچ کر پھر اجتماعی نقطہ نظر سے انسان کی جبریت کی طرف رخ پھیر لیتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کے افسانے ”حلقہ میری زنجیر “ کا بطور خاص نام لیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ”تجرید وفا“ ، ”زخم کی صورت گری “ اور کئی افسانوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس نسل کا بیانیہ افسانہ نگاروں میں جہانگیر سواتی ، پروین اعظم اور اشراف حسین احمد کے نام بھی اہم ہیں۔
علامتی و تجریدی رجحان
اس رجحان کے ساتھ کئی اہم نام وابستہ نظرآتے ہیں اس کی وجہ موجودہ انتشار ہے۔ مارشل لاءکا دور اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ابھرنے والی علامت نگاری کی تحریک ہے جس نے اس رجحان کو فروغ دیا۔ اس رجحان سے وابستہ افسانہ نگار درجِ ذیل ہیں۔
حامد سروش
علامتی و تجرید ی رجحان سے وابستہ افسانہ نگار وں میں ایک اہم نام ”حامد سروش “ کا بھی ہے۔ ان کے افسانوں میں تفہیم کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ۔ ان کی علامتیں تخلیقی توانائی کے باعث معمہ نہیں بنتی ۔ وہ اپنے افسانوں میں سیاسی ، معاشی ،اور سماجی مسائل پر توجہ زیادہ دیتے ہیں۔ لیکن ان کے افسانوں میں افسانویت کم اور فلسفہ زیادہ چھایا ہوا ملتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ”کچے دودھ کی خوشبو“ ، ”شہر ِ دانش“ ، ”ٹھہری ہوئی آنکھیں“ ، ”جزااور سزا “ علامتی طرز کے نمونے ہیں۔
حامد سروش کے افسانوں کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ ان کے افسانے روایت سے رشتہ توڑ کر ادھوری جدیدیت کا شکار نہیں ہوتے اور یہی کیفیت ان کے افسانوں کو ابہام سے بچاتی ہے۔حامد سروش کے افسانوں کا بنیادی موضوع معاشرہ اور سماج ہے۔ جو انفرادی سطح پر آکرفر د کی ذہنی سطح کو بھی بیان کرتا ہے۔
ڈاکٹر اعجاز راہی
اس رجحان سے وابستہ افسانہ نگاروں میں غالباً سب سے مضبوط اور معتبر نام ڈاکٹر اعجاز راہی کا ہے۔جن کا نام بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے۔اعجاز راہی کے افسانوں میں علامتی طرز اظہار ضرور ہے۔ لیکن یہ افسانے دھند اور سایوں کی فضاءمیں تحلیل نہیں ہوتے ۔ بلکہ گہری معنویت بھی رکھتے ہیں اور تفہیم کا راستہ بھی ۔ ان کے افسانوں کا فکری راستہ ترقی پسندافکار و نظریات سے مل جاتا ہے۔ اور فنی سطح پر علامت اور نئے ہیئتی تجربوں سے وہ غربت افلاس اور تیزی سے بڑھنے والی محرومی کو بیان کرتے ہیں اور اس عہد کے آشوب کو بھی دکھاتے ہیں اور فرد کے ذہنی و فکری انتشار کو بھی احاطہ تحریر میں لاتے ہیں۔ ظلم و ستم اور استحصالی قوتوں کی حکمرانی اور ان کے ردعمل میں جنم لینے والی نسلوں کے حوالے سے اُ ن کا افسانہ”تیسرا سنگِ میل “ پیش کیا جاسکتا ہے۔ اور فرد کے فکری و ذہنی انتشار کے حوالے سے ان کا افسانہ ”دردآشوب“ اہم ہے۔ لیکن انسان کے دکھوں ، مصیبتوں اور ان سے نجات کے عمل کی دریافت کے سلسلے میں بہترین افسانہ ”تیسری ہجرت “ ہے۔ جو کہ ایسا افسانہ ہے کہ ملکی حدود پھلانگ کر بین الاقوامی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
یوسف عزیز زاہد
یوسف عزیز زاہد کے افسانوں میں علامتی پیرایہ اظہار اس انداز سے سامنے آیا ہے کہ اکثر کہانی گم ہوکر فلسفہ طرازی اور معمہ سازی کا درجہ اختیار کر جاتی ہے۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ”لایعنیت کی بھیڑ میں “ کے عنوان سے شائع ہواہے۔ ان کے افسانوں میں مناظر اور ٹکڑوں سے کہانی تشکیل کی جاتی ہے یہاں واقعات اور ان کے ارتقائی سفر سے زیادہ کہانی مکالموں کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ یوسف عزیز کے افسانے جدید دور کے فرد کا ذہنی انتشار ، فکری آشوب ، بے چہرگی اور عدم شناخت سے پیدا ہونے والے مسائل پیش کرتے ہیں۔ کہانی ، چہرے، کردار ، الفاظ کی بازیافت نئے دور کا سب سے بڑا وظیفہ ہے اور یہی وظیفہ یوسف عزیر زاہد کے افسانوں کی بنیاد ہے۔ اس سلسلے میں ان کے افسانوں میں ”سانحہ “ ،”کہانی کا راوی “ ، ”بے نشان قدموں کی چاپ“ ، ”دیوار گرنے کا المیہ “ اور ”لایعنیت کی بھیڑ میں “ کے نام اہم ہیں۔
مشتاق شباب
مشتاق شباب کے افسانوں میں بھی علامتی رجحان ملتا ہے ۔ان کے اکثر افسانوں کے عنوانات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے اندر معنوی گہرائی رکھتے ہیں۔ جیسے ”چپ کے دکھ “، ”آواز ِ سگاں “ ”آکاس بیل “ او ر ”عافیت“ وغیرہ ۔ مشتاق شباب کے علامتی افسانے سیاسی رنگ لیے ہوئے ہیں سماج کے مختلف دکھ اور مسائل انہوں نے علامتی اندازمیں پیش کیے ہیں۔
ناصر علی سید
علامتی افسانہ نگاروں میں ایک اور نام ناصر علی سید کا بھی ہے۔ جنہوں نے بیانیہ ہیئت میں بھی افسانے لکھے ۔ اور علامتی ہیئت میں بھی لیکن علامتی انداز ان کا پسندیدہ انداز ہے۔ جس میں وہ ہر قسم کے موضوعات نبھائے جاتے ہیں۔ ان کے موضوعات کا دائرہ محدود ہے ناہی متعین ۔ وہ ہر قسم کے موضوع کو علامتی انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ لیکن بطور خاس ان کے موضوعات موجودہ دور کی معنویت ، غیر معنوی فضا، انتشار ، خوف ، جنسیات ، او رخاص کر تہذیبی اقدار کا ماتم رہے ہیں۔ تہذیبی نقطہ ¿ نگاہ سے ان کا افسانہ ”ڈھائی کمرے کی جنت “ اہمیت رکھتا ہے۔ ناصر اکثر افسانے کی پوری فضاعلامتی بنا کر کہانی پیش کرتے ہیں اس علامتی فضا کا حصہ کردار اور ان کا ماحول ہوتا ہے۔ یہ علامتی اثر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اسی فضا کے توسط سے کہانی کے رنگ ابھرتے ہیں۔
افسانے کا یہ دور بھر پور دور ہے اسے صوبہ سرحد میں اردو افسانے کا بہترین دور بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جس میں بیانیہ اور علامتی افسانے کے حوالے سے کئی بڑے نام سامنے آتے ہیں اور رجحانات کے حوالے سے بھی یہ دور بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں رومانی ، انقلابی ، اصلاحی ، جنسی اور نفسیاتی اور علامتی بہت سے رجحانات متنوع کیفیات پیش کرتے ہیں۔
اویس قرنی
پختون خواہ میں جدید علامتی افسانے کی نئی تجدید کرنے والی اس شخصیت کا تعلق ضلع مردان سے ہے۔ ان کے ہاں اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر علامتی انداز غالب نظر آتا ہے۔ ان کے زیادہ تر افسانے جدید انسان کے مسائل اور اس کے اردگر معاشی ،،سیاسی ، سماجی سطح پر درپیش خطرات کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے انسانی زندگی کے ارتقائی سفر سے جڑی ہوئی تلخ حقیقتوں کی بھی نشاندہی اپنے افسانوں مینں کی ہے۔ ان کے مشہور افسانوں میں درد کا دارو ، اگلی بار اور آئیڈنٹفیکشن شامل ہیں۔
مجموعی جائزہ
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ارتقائی لحاظ سے سرحد کے افسانے نے کئی موڑ کاٹے ، کئی نئے رجحانات اور اسالیب سے آشنا ہوا۔ ملکی اور بین الاقوامی افسانے کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اور انہی رجحانات اور اسالیب کو اپنا تا رہا ۔ البتہ ایک خاص دور تک وہ مخصوص قسم کے روایتی موضوعات سے دامن نہ چھڑا سکا ۔ خاص کر پشتون تہذیب ان کی روایات ، رومان پسندی اور عام سماجی شعور و ملکی محبت سے آگے بڑھنے میں بہت کم کامیاب رہا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا افسانہ زیادہ ترقی نہ کرسکا ۔ اور اتنے بڑے نام پیدا نہ کر سکا۔ جتنے ہمیں ملکی و بین الاقوامی سطح پر نظرآتے ہیں۔ پھر یہ بھی غنیمت ہے کہ کچھ نام اور بڑے افسانے تو ہمارے ساتھ رہے۔
بہرحال ہمارے افسانے کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ کچھ نوجوان خوبصورت افسانے تخلیق کر رہے ہیں ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ لوگ افسانے کے جدید رجحانات سے واقف ہیں اور اس حوالے سے ان کا مطالعہ بھی وسیع ہے۔ ایسے افسانہ نگاروں میں ”جواد “ ”حسام حر “ ”تاج الدین تاجور “ اور ”خالد سہیل “ کے نام اہم ہیں۔
افسانے کی اس نئی نسل سے بہت سی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ نسل باشعور اور زیادہ صاحبِ مطالعہ ہے۔ پچھلی نسل جن میں ناصر علی سید اور مشتاق شباب شامل ہیں اور نئی نسل کے افسانہ نگاروں میں جن میں خالد سہیل وغیر ہ شامل ہیں یہ دونوں نسلیں بڑی توانائی سے افسانہ لکھ رہی ہیںاور ایک دوسرے سے اثرات بھی قبول کر رہی ہےں ۔ امید ہے کہ یہ اشتراک عمل بہت سی نئی راہوں پہ افسانے کو گامزن کرے گا۔ اور بہت سے نئے حوالے سامنے لائے گا۔ اور کوئی ایسی مضبوط اکائی تشکیل کر جائے گا جس سے آئندہ نسلیں مستفید ہو تی رہیں گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں